ناطق لکھنوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ناطق لکھنوی
ادیب
پیدائشی نامسعید احمد
قلمی نامناطق لکھنوی
تخلصناطق
ولادت1878ء لکھنؤ
وفات9 اکتوبر 1950ء چاٹگام بنگلہ دیش
معروف تصانیفنظم اردو ، دیون ناطق


ابو العلا حکیم سید سعید احمد ناطق لکھنوی دبستان لکھنؤ کی ایک ادبی شخصیت، معروف الکلام شاعر اور کثیر التلامذہ استاد تھے۔ ناطق عربی، فارسی اور اردو میں شاعر کہتے تھے۔ ناطق شاعر کے علاوہ ایک ادیب، صحافی اور حکیم بھی تھے۔

تعارف[ترمیم]

ناطق لکھنؤی کی ولادت 1878ء میں لکھنؤ کے محلہ فراش خانہ میں ہوئی۔ والد ماجد کا نام عبد البصیر زیدی واسطی بلگرامی تھا۔ والدین نے اپنے بیٹے کا نام سعید احمد رکھا۔ سعید احمد اپنے لیے کنیت ابو العلا اور تخلص ناطق استعمال کرتے تھے۔ چونکہ لکھنؤ سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اپنے نام کی بجائے ناطق لکھنوی سے زیادہ مشہور تھے۔ ناطق لکھنوی کے والد ماجد نے ضلع ہردوئی بلگرام سے بسلسلہ معاش لکھنؤ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ عبد البصیر صاحب خود بھی بہت بڑے شاعر تھے۔ وہ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے۔ وہ آتش، صبا و کیف کے شاگرد تھے۔ ان کا تخلص حضور تھا۔

تعلیم[ترمیم]

ناطق لکھنوی نے پرائیوٹ طور عربی، فارسی اور اردو میں مہارت حاصل کی۔ اس کے علاوہ ناطق نے عربی ادب، فقہ، نحو، طب، نجوم، رمل، خوش نویسی، موسیقی، فلسفہ و منطق اور ہندی ادب کے مفاہیم میں حیرت انگیز قابلیت کے مالک تھے۔

شاعری[ترمیم]

ناطق لکھنوی نے شاعری کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد ماجد محقق عربی کامل، نظم و نثر فارسی اور اردو کے معروف و مستند شاعر تھے۔ گھر کے باہر کا سارا ماحول بھی علمی و ادبی فضاؤں سے مامور تھا۔ ناطق نے کم سنی سے ہی ماحول سے متاثر ہو کر شاعری کی دنیا میں قدم رکھ لیا تھا۔ شاعری کا آغاز اپنی خاندانی روایات کے مطابق عربی شاعری سے کیا۔ ناطق لکھنوی نے اردو شاعری کا آغاز اپنے عزیز منشی امیر احمد امیر مینائی کے مشورہ پر کیا۔ ناطق نے جلد ہی ادبی حلقوں میں اپنا مقام ایک بنا لیا۔ ناطق زودگو، بالغ نظر اور محتاط شاعر تھے۔ تمام اصناف شاعری پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ زبان کے بنانے سنوارنے اور شاعری کا معیار بلند کرنے، غیر مہذب الفاظ و محاورات کے استعمال، عریانی، فحش نگاری، مرگ وگریہ کے مضامین اور نسوانی اجزائے جسمانی کی تعریف وغیرہ ترک کر کے غزلیہ شاعری کی مہذب راہیں ہموار کرنے میں ناطق لکھنوی نے اہم کردار ادا کیا۔ ناطق لکھنوی عربی، فارسی اور اردو میں شعر کہتے تھے۔

ناطق لکھنوی کے تلامذہ کی ایک کثیر تعداد ہے۔ ان سے لکھنؤ، کانپور اور کلکتہ کے لوگوں نے کسب فیض حاصل کیا۔

صحافت و نثر نگاری[ترمیم]

ناطق لکھنوی بحثیت نثر نگار و صحافی بھی ممتاز تھے۔ 18 سال کی عمر میں کانپور چلے گئے تھے۔ وہاں سے شائع ہونے والا نور الانوار کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس سلسلے میں ناطق کئی سال تک کانپور میں رہے۔ کانپور میں قیام کے دوران ناطق لکھنوی نے متعدد ناول اور تاریخی کتب لکھ کر شہرت حاصل کی۔ کانپور کے بعد حیدرآباد دکن کے سرکاری اخبار ملک و ملت کے شعبہ ادارت سے وابستہ رہے۔

علم طب[ترمیم]

ابو العلا حکیم سعید احمد ناطق لکھنوی ایک حکیم بھی تھے۔ حیدرآباد دکن میں قیام کے دوران ناطق لکھنوی نے علم طب یونانی کی طرف رجوع کیا تھا۔ اس سلسلے میں حیدرآباد دکن کے حکیم مصباح الدین خان سے استفادہ کیا۔ اس کے بعد دہلی و شملہ جا کر حکیم عبد المجید خان سے تعلیم مکمل کی۔ چند سال کانپور میں مطب کرنے کے بعد 1922ء میں کلکتہ چلے گئے تھے۔ اس کے بعد آپ زندگی میں مطب بھی کرتے رہے اور ساتھ ساتھ شعری و ادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھی۔

وفات[ترمیم]

ابو العلا حکیم سید سعید احمد ناطق لکھنوی اپنی آخری عمر کے دوران چاٹگام بنگلہ دیش میں سکونت اختیار کر لی۔ ناطق عمر کے آخری حصے میں فالج کے شکار ہو گئے تھے۔ اس کی وفات فالج کے شدید حملے کی وجہ سے بروز سوموار 9 اکتوبر 1950ء میں ہوئی۔ ناطق کی تدفین محلہ بدر پٹی عقب مزار بدر شاہ چاٹگام بنگلہ دیش میں کی گئی۔

تصانیف[ترمیم]

ناطق لکھنوی کی متعدد ناول اور ادبی موضوعات پر نثری و شاعری تصانیف ہیں۔

  1. بستان معرفت
  2. تذکرہ شعرائے اردو
  3. فارسی شاعری کی ابتدا اور انتہا
  4. اسرار حقیقت
  5. وید اور ویدانیت
  6. افسانہ شہر آشوب
  7. نظم اردو کی اشاعت ظفر المطابع لکھنؤ کی جانب سے ناطق لکھنوی کے بھائی سید فضل احمد ادیب کے زیر اہتمام 1940ء میں ہوئی۔ اس میں اردو کی نظم و نثر کی مکمل تاریخ و سوانح ہے۔
  8. دیوان ناطق

ناطق لکھنوی کی وفات کے بعد سید رشید احمد و سید اقبال عظیم نے دیوان ناطق ترتیب دیا اور ،انجمن تعمیر ادب چاٹگام نے شائع کیا۔ یہ تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں 162 غزلیں، دو قصائد، ایک مرثیہ، 46 رباعیات اور ایک طویل مثنوی شامل ہے۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. انتخاب کلام ناطق لکھنوی مرتب عرفان عباسی صفحہ 5 تا 7