پراسرار کنواں (ناول)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پراسرار کنواں
مصنفابن صفی
اصل عنوانپراسرار کنواں
ملکپاکستان
زباناردو
سلسلہجاسوسی دنیا
صنفناول، (جاسوسی ادب)
ناشراسرار پبلی کیشنز
طرز طباعتکارڈ کور

پراسرار کنواں جاسوسی دنیا سیریز کا ناول ہے۔

کردار[ترمیم]

  • انسپکٹر فریدی: محکمہ سراغ رساں کا انسپکٹر۔
  • سرجنٹ حمید: انسپکٹر فریدی کا اسسٹنٹ۔
  • نواب رشید الزمان: داراب نگر کے نواب۔
  • غزالہ: نواب رشید الزمان کی بیٹی۔
  • طارق: ایک سیاح جو نواب رشید الزمان کا دوست اور پراسرار شخصیت کا مالک ہے۔
  • پرویز: نواب رشید الزمان کا سوتیلا بھائی۔
  • شہناز: سرجنٹ حمید کی محبوبہ۔

پلاٹ[ترمیم]

نواب رشید الزمان اپنے دوست طارق کے ساتھ باغ میں بیھٹے ہوتے ہیں کہ اچانک اندھے کنوئیں سے شعلے بلند ہونے لگتے ہیں۔ کچھ دیر بعد دیواروں سے نکلنے والی جانوروں کی آوازوں سے کوٹھی گونج اٹھی۔ نواب صاحب اس سب سے بہت پریشان تھے۔ اگلے دن سے کوٹھی میں چوریاں ہونے لگیں۔ کنویں سے شعلے نکلنے اور دیواروں سے آوازیں آنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ نواب صاحب اور طارق اسے آسیبی خلل سمجھنے لگے لیکن غزالہ کو طارق پر شک تھا۔ اس کے بعد جانوروں کی اموات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ طارق کی پر اسرار شخصیت کی بنا پر نواب صاحب کو بھی اس پر شبہ ہونے لگا لیکن حالات کے معمول پر آنے تک طارق جانا نہیں چاہتا تھا۔ ایسے میں غزالہ، محکمہ سراغ رسانی کے انسپکٹر فریدی کو بلا لاتی ہے۔

نواب صاحب کا سوتیلا بھائی پرویز چالیس سال کا تھا۔ لیکن وہ بچوں کی طرح منہ میں فیڈر دبائے گھٹنوں کے بل چلتا تھا۔ تین نوکر اس کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔ آٹھ سال قبل سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو گئی تھی۔ وہ طارق سے خائف نظر آتا تھا اسی بنا پر نوکر طارق کو جادوگر تسلیم کر نے لگے تھے۔

کوٹھی پر پہنچتے ہی فریدی کو پتا چلا کہ لائبریری میں نواب صاحب کا پرائیویٹ سیکرٹری مردہ حالت میں پایا گیا ہے۔ فریدی نے یہ بات ثابت کی کہ کوئی شخص لائبریری میں پڑی صراحی کے پانی میں زہر ملا کر نواب صاحب کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن سیکرٹری اتفاقاً لائبریری میں مطالعہ کرنے کے لیے بیٹھ گیا اور پانی پینے سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ اگلے دن، رات کے وقت سب لوگ فریدی کے ساتھ کنویں کے پاس بیٹھے شعلے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن فریدی کے اندازے کے مطابق شعلے بلند نہ ہوئے۔ کچھ دیر بعد دیواروں سے آوازیں آنے لگیں۔ فریدی سیڑھی پر چڑھ کر دیواروں کو ٹٹولنے لگا اور نرم حصے کو چاقو سے کاٹ کر دیوار میں نصب لاؤڈ اسپیکر نکال لیا۔ نواب صاحب بتاتے ہیں کہ کوٹھی کی نئی عمارت کی تعمیر کے دوران میں وہ اور غزالہ لکھنؤ میں مقیم تھے۔ لہذا ان کی غیر موجودگی میں لاؤڈ اسپیکر نصب کیے گئے ہوں گے۔ اسی رات فریدی پر قاتلانہ حملہ ہوا اور نواب صاحب اپنے کمرے سے غائب ہو گئے۔ چونکہ فریدی کو حملے کا خدشہ پہلے ہی سے تھا اس لیے وہ اپنے بستر پر نہیں سویا تھا اور یوں حملہ ناکام ہو گیا۔

حملے کی رات نواب صاحب کا غائب ہو جانا ان کی پوزیشن کو مشکوک بنا رہا تھا۔ آخر کار فریدی نے کنویں میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ رات کے وقت حمید نے کنویں کی نگرانی کے دوران میں ایک شخص کو چھپتے دیکھا جسے فریدی نے ٹھکانے لگانے کے بعد حمید کو ضروری ہدایات دیں اور خود کنویں میں اترنے لگا اور کنویں کی تہ میں پہنچنے پر پتا چلا کہ اس کی دیوار کا ایک حصہ ٹین کا بنا ہوا ہے۔ فریدی ٹین کو کاٹ کر اندر داخل ہوا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ پرویز نواب صاحب پر پستول تانے کھڑا تھا اور اس کے ساتھ وہ تینوں ملازم بھی تھے جو ہر وقت اس کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ پرویز نواب صاحب کو قتل کر کے ان کی جائداد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ فریدے کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے پرویز مارا گیا۔ یوں یہ گھناؤنا کھیل اپنے انجام کو پہنچا۔

تنقید[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]