آل پارٹیز کانفرنس 2007
پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے زیرِ اہتمام دو روزہ آل پارٹیز کانفرنس لندن میں 7اور 8 جولائی 2007ء کوہوئی۔ اس کانفرنس کا مقصد مشترکہ اپوزیشن کا مشرف حکومت کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرنا تھا۔
سیاسی پارٹیاں
[ترمیم]اس کانفرنس میں قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف مولانا فضل الرحمان، ایم ایم اے کے سربراہ قاضی حسین احمد اور اے آر ڈی کے سربراہ اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے رہنما مخدوم امین فہیم سمیت دیگر اہم اپوزیشن رہنما، سینیئر تجزیہ کار اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ آل پارٹیز کانفرنس کا آغاز مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی تقریر سے ہوا۔
اجلاس
[ترمیم]نواز شریف کے خطاب کے بعد قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمٰن کی تقریر ہو ئی اور اس کے بعد مقررین کو قومی اسمبلی میں ان کی جماعتوں کی عددی طاقت کی بنیاد پر خطاب کی دعوت دی گئی۔۔ سنیچر کو کل جماعتی کانفرنس کے دو سیشن ہوئے۔ پہلے سیشن میں میڈیا کو کوریج کی اجازت رہی جبکہ بعد دوپہر ہونے والا اجلاس بند کمرے میں ہوا۔ اتوار کے روز پہلا اجلاس بند کمرے میں اجلاس ہوا جبکہ بعد دوپہر ہونے والے اختتامی اجلاس میں میڈیا کو کوریج کے لیے دعوت دی گئی۔
دیگر لیڈران
[ترمیم]عوامی نیشنل پارٹی کا ایک تین رکنی وفد اسفندیار ولی کی قیادت میں شریک ہوا۔ ایم ایم اے میں شامل مذہبی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی کے وفد میں قاضی حسین احمد اور لیاقت بلوچ جبکہ جمیعت علمائے اسلام کے وفد میں مولانا فضل الرحمٰن شامل رہے۔
آل پارٹی کانفرنس کے دیگر اہم شرکاء میں بائیں بازو کے رہنما عابد حسن منٹو، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی، سندھی قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادر مگسی، ممتاز بھٹو،اور رسول بخش پلیجو بھی شامل ہوئے
مشترکہ اعلامیہ
اس کانفرنس میں مشترکہ اعلامیہ سامنے لانے کی کوشش کی گئی۔ جس میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اعلامیہ میں یہ بات تو بنیادی رہی کہ جنرل مشرف کی طرف سے موجودہ اسمبلیوں سے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی کوششوں کی ہر ممکن طور پر مزاحمت کی جائے گی اور ضرورت پڑنے پر اسمبلیوں سے استعفے دینے کا حربہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر عمومی اتفاق تو پایا گیا لیکن استعفے پیش کرنے کے طریقے کار یا اس سلسلے میں مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے پر کوئی اتفاق نہیں ہو سکا۔
کانفرنس کے پہلے دن مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کی طرف سے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے یا پھر تمام جماعتوں کی طرف سے حکومتی امیدواروں کے خلاف متحدہ طور پر ’ون آن ون‘ کی بنیاد پر انتخابات میں شریک ہونے کی تجاویز پر بھی کوئی اتفاق نہیں ہو سکا اور مشترکہ اعلامیہ میں ان نکات پر کوئی بات نہیں کی گئی۔
کانفرنس میں دو دن کی تقاریر اور بحث کے باوجود کانفرنس کے شرکاء کو مشترکہ اعلامیہ تشکیل دینے میں انتہائی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایک موقع پر اتحاد برائے بحالی جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں بھی شکوک ظاہر کیے جانے لگے۔
تقریباً تین گھنٹوں کی بند کمرے میں گفت و شنید اور پس پردہ کی جانے والے کوششوں کے بعد مرتب کیے جانے والے مشرکہ اعلامیہ پر مختلف جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے تضادات اس وقت سامنے آ گئے جب میاں نواز شریف اس کا متن شرکاء کے سامنے پیش کر رہے تھے۔
اعلامیہ کی شق نمبر ایک پر متحدہ مجلس عمل کے رہنماء قاضی حسین احمد نے اعتراض کر دیا۔ اس میں مخلوط طریقہ انتخاب اور عورتوں اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشتوں کے علاوہ سترہویں ترمیم اور ایل ایف او کی باقی شقوں کو منسوخ کیا جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
قاضی حسین احمد نے کہا کہ ایل ایف او اور سترہویں ترمیم میں شامل تمام شقوں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جائے اور پسند ناپسند کی بنیاد پر کچھ کو قبول کرلینے اور کچھ کو رد کردینے سے اجتناب کیا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد میں شامل ڈاکٹر صفدر عباسی نے اس پر اپنی پارٹی کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی نے عورتوں اور اقلیتوں کی مخصوص نشتوں اور مخلوط طریقے انتخاب سمیت ست رہی وں ترمیم میں شامل تین شقوں کے حق میں ووٹ دیا تھا اور وہ اس پر قائم ہیں۔
مسلم لیگ کی طرف سے تجویز پیش کی گئی کہ اس پر موجود اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے۔
لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے اس پر کوئی بات کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ایسی کسی کمیٹی میں شریک نہیں ہوں گے۔ اس نکتے پر کسی اتفاق کے بغیر ہی میاں نواز شریف آگے بڑھ گئے اور اعلامیہ کی باقی قرار دادیں پڑھنا شروع کر دیں۔
کانفرنس کے اختتام پر مسلم لیگ کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ تمام جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد کو تشکیل دینے کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اراکین کا بند کمرے میں اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
مشترکہ اعلامیہ میں سیاست میں فوج کی مداخلت ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ تمام سویلین اداروں سے فوج کو فوری طور پر واپس بلایا جائے اور خفیہ ایجنسوں کے ’پولیٹکل سیل‘ ختم کیے جائیں۔
کل جماعتی کانفرنس نے بلوچستان میں فوجی کارروائی بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور کہا کہ بلوچستان میں فوجی چھاونیوں کی تعمیر کو بند کیا جائے۔
قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریش کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا اور ان علاقوں میں موجود بیرونی عناصر کو وہاں سے نکالنے کی بات بھی کی گئی۔
اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے یہ نکتہ اٹھایا کہ بلوچستان میں سرکاری تنصیبات، پلوں اور کھمبوں کو بم سے اڑانے کے طرز عمل کی بھی مذمت ہونی چاہیے۔ مشترکہ اعلامیہ میں اسلام آباد میں چار ارب ڈالر سے تعمیر کیے جانے والے نئے فوجی ہیڈ کواٹر (جی ایچ کیو) کی بھی مخالفت کی گئی اور اس پر کام کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
مشترکہ اعلامیہ میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی اور ان کے خلاف ریفرنس کو واپس لیے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں ذرائع ابلاغ پر لگائی جانے والی حالیہ پابندیوں کے خلاف بات بھی کی گئی اور چار جون دو ہزار سات کو نافذ کیے جانے والے پیمرا آرڈیننس کو بھی مسترد کر دیا گیا۔
مشترکہ اعلامیہ کی آخری قرارداد کشمیر کے بارے میں تھی جس میں مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ اس پر کشمیری نمائندوں کے اعتراض کے بعد یہ بات بھی شامل کی گئی کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت حل کیا جائے۔
قبل ازیں کانفرنس میں اسلام آباد سے خصوصی طور پر مدعو کیے جانے والے مبصرین روداد خان اور ایاز امیر نے اس موقع پر کہا کہ پاکستانی عوام اس وقت دو ٹوک فیصلہ کی منتظر ہے۔ انھوں نے کہا کہ لمبی چوڑی قرارداد ایک مذاق بن جائے گی۔ پاکستان کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس وقت سیاسی اکابرین کو صرف اور صرف ایک نکتے پر توجہ مرکوز رکھی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ جنرل مشرف کے فوجی اقتدار سے کس طرح جان چھڑائی جائے۔ ]
اے پی ڈی ایم
[ترمیم]صدارتی انتخاب کے موقع پر استعفوں کی تجویز پر شدید اختلاف سامنے آئے اور پیپلز پارٹی نے اس شق سے کسی صورت میں بھی اتفاق نہیں کیا۔ جس کے بعد نواز شریف نے اے آر ڈی کی جگہ پیپلز پارٹی کے بغیر ہی اپوزیشن کا نیا اتحاد قائم کیا۔ جسے اے پی ڈی ایم کا نام دیا گیا۔ جس کا مقصد صدر مشرف کو ہر حالت میں صدر بننے سے روکنا تھا۔