احمد الدین بگوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مولانا احمد الدین بگوی کا شمار بھیرہ اور لاہور کے علما کرام میں ہوتا ہے۔ آپ نے ساری عمر درس و تدریس میں گزار دی تھی۔

ولادت[ترمیم]

مولانا احمد دین کی ولادت 1223ھ میں موضع بگہ بھیرہ ضلع سرگودھا میں حافظ نور حیات کے گھر ہوئی۔ آپ غلام محی الدین بگوی کے برادر اصغر تھے۔

تعلیم[ترمیم]

احمد الدین بگوی نے چھ سال تک علم دینیہ کی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی۔ آپ نے حافظ حسن سے قرآن پاک کے آٹھ سپارے حفظ کیے۔ اپنے بڑے بھائی غلام محی الدین کے ساتھ علم دین کے شوق میں دہلی بھی تشریف لے گئے تھے۔ آپ نے دہلی میں علم حدیث کی سند شاہ محمد اسحاق دہلوی سے حاصل کی اور شاہ عبد العزیز دہلوی سے دستار فضیلت حاصل کی۔ آپ نے مطول، شرح و قایہ تک کی کتابیں اور قرآن مجید مکمل حفظ اپنے بھائی غلام محی الدین سے کیا۔

بیعت[ترمیم]

احمد الدین بگوی نے بیعت کا شرف شاہ غلام علی مجددی نقشبندی کے دست حق پرست پر حاصل کیا۔ آپ نے کئی سال شاہ صاحب کی روحانی تربیت میں گزارے اور مدارج و سلوک طے کیے۔

درس و تدریس[ترمیم]

مولانا احمد الدین بگوی کا زیادہ عرصہ بگہ اور لاہور کے دار العلوم میں درس و تدریس کی خدمات دیتے ہوا گزارا۔

لاہور میں درس و تدریس[ترمیم]

لاہور میں آپ اپنے بھائی غلام محی الدین کی علمی خدمات میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ غلام محی مسجد بازار حکیماں میں نہ صرف مدرس حدیث تھے بلکہ مفتی پنجاب بھی تھے۔ جب بھائی اپنے وطن بگہ چھ ماہ کے لیے چلے جاتے تو تمام خدمات آپ سر انجام دیتے۔ ان خدمات میں فتوی نویسی اور درس علوم دینیہ وغیرہ شامل ہوتے تھے۔

بھیر میں درس و تدریس[ترمیم]

مولانا احمد الدین بگوی 1262ھ میں مستقلاً اپنے وطن بگہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ وہاں آپ نے اپنے معتقد غلام حسن جو بھیرہ کے رئیس تھے کی مدد سے ایک عظیم الشان جامع مسجد کی تعمیر کروائی۔ اس مسجد میں ایک دار العلوم قائم کیا۔ اس مدرسے سے ہزاروں کی تعداد میں طلبہ نکلے جو بلند پایہ کے عالم دین بنے۔ آپ کی آمد بھیرہ سے بھیرہ کی قسمت بدل گئی۔ بھیرہ کے لوگ علم کی دولت سے مالا مال ہونے لگے۔ اطراف کناف سے ہزاروں طلبہ آپ کے گرد جمع ہو گئے اور علم دین کا فیض حاصل کرنے لگے۔

تلامذہ[ترمیم]

مولانا احمد الدین بگوی کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ تھی جن کے چند کے نام درج ذیل ہیں۔

  1. حکیم شیخ احمد
  2. حکیم تاج محمود
  3. حکیم نور الدین
  4. مولانا غلام رسول قلعہ والے
  5. مولوی سلطان احمد کھٹالہ شیخاں
  6. حافظ ولی اللہ مناظر اسلام لاہوری
  7. مولوی کرم الہی بھیروی
  8. مولوی غلام علی قصوری
  9. مولانا غلام قادر بھیروی
  10. مولوی محمد بخش جلال پوری
  11. مولوی نور الدین چکوڑی
  12. مولانا زین العابدین چنیوٹی

غلام محی الدین سے محبت[ترمیم]

مولانا احمد الدین کو اپنے بھائی غلام محی الدین بگوئ سے بہت زیادہ محبت تھی۔ آپ نے ساری زندگی ان کی سرپرستی میں گزاری۔ آپ تحصیل علم کے بعد علمی خدمات میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان کے وصال کے بعد ان کا عرس اپنی سرپرستی میں عقیدت و احترام سے منعقد کرواتے تھے۔

مسجد بھیرہ کی اسرنو تعمیر[ترمیم]

شیر شاہ سوری کے کے جانشینوں نے بھیرہ شہر کی مرکزیت کو دیکھتے ہوئے ایک شاندار مسجد تعمیر کروائی تھی۔ سکھ دور میں اس مسجد کو خاص طور پر پامال کر دیا گیا۔ ایک دن مولانا غلام رسول قلعہ میہاں سنگھ والے بھیرہ میں تقریر کر رہے تھے اور اس مسجد کی حالت زار پر نوحہ کر رہے تھے۔ اس تقریر کو سننے کے بعد مولانا احمد الدین 1276ھ میں اس مسجد کو دیکھنے کے لیے طلبہ کے ساتھ چلے گئے۔ آپ نے دیکھا تو مسجد کھنڈر میں تدیل ہو چکی تھی اور ایک مجذوب وہاں ملا جس نے آپ کو مسجد کی تعمیر نو کی ہمت دلائی۔ واپس آپ گھر تشریف لے آئے۔ اسی رات کو آپ خواجہ دو عالم کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ نے اس خواب کی تعبیر یہ لی کہ یہ خدا کا گھر بنانا میری قسمت میں ہے۔ آپ نے کھنڈر کی کھدائی کا کام شروع کر دیا۔ آپ کی ہمت و عزم کو دیکھتے ہوئے پہلے طلبہ اور پھر قصبہ والے مسجد کی تعمیر میں اس طرح مشغول ہوئے کہ مسجد کی مکمل تعمیر تک دم نہیں لیا۔ جب یہ مسجد دوبارہ تعمیر ہوئی تو اس کی عمارت قلعہ نما تھی۔ ان دنوں انگریز اپنے قدم پنجاب میں جما رہے تھے۔ کسی نے رپورٹ کی کہ ایک مولوی بھیرہ میں قلعہ بندی میں مصروف ہے۔ ایک فوجی جرنیل دستہ لے کر وہاں پہنچا تو ایک کھدر پوش کو شاگردوں کو درس قرآن دیتے دیکھا۔ یہ دیکھ کر جرنیل نے کہا ایسے لوگ قلعہ نہیں بنایا کرتے۔

وفات[ترمیم]

مولانا احمد الدین آخر عمر میں علاج کے لیے کھٹالہ شیخاں تشریف لے گئے۔ وہاں بیمار ہو گئے تھے۔ ادھر سے واپس بھیرہ تشریف لے آئے۔ آپ نے 13 شوال 1286ھ میں 63 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کا مزار بھیرہ کی جامع مسجد کے جنوبی احاطہ میں ہے۔

تصانیف[ترمیم]

علمائے بگہ میں مولانا احمد الدین بگوی صاحب تصنیف عالم تھے۔ آپ نے درس و تدریس کے علاوہ درسی کتب کی تصنیف اور حواشی سے طلبہ کی بڑی خدمات کیں۔ آپ تصانیف درج ذیل ہیں۔

  1. ضیاء الصرف شرح صرف میر
  2. احمدیہ حاشیہ ملا جامی
  3. احمدیہ حاشیہ خیالی
  4. احمدیہ حاشیہ مطول [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ علمائے اہلسنت و جماعت، علامہ اقبال احمد فاروقی، صفحہ152 تا 154۔ مکتبہ نبویہ، لاہور