احمد شمیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


احمد شمیم(31 مارچ 1927 تا 7 اگست 1982) کو سری نگر میں پیدا ہوئے۔اُن کے والد کا نام اسد اللہ زرگر اور والدہ کا نام زینب زرگر تھا اپنی ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول سری نگر میں ہی حاصل کی۔[1]پرتاب کالج سری نگر سے ایف۔ایس کی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔راولپنڈی میں قیام کیا اور گورڈن کالج راولپنڈی سے ایم۔اے کیا۔ریڈیو پاکستان سے بھی منسلک رہے اور پھر 1956،میں محکمہ اطلاعات میں انفرمیشن آفیسر کے عہدے پر فائز ہو گئے۔بعد میں اس محکمے کے ڈائریکٹر بھی بنے۔احمد شمیم کا شمار چند ان ادبی شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے بیک وقت دو یا دو سے زائد زبانوں میں شاعری کی۔[2][3]

نمونہ کلام[ترمیم]

کبھی ہم خوبصورت تھے

کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت

سانس ساکن تھی!

بہت سے اَن کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے

پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر

دُور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے

جو ہم سے دُور تھے لیکن ہمارے پاس رہتے تھے

نئے دن کی مسافت

جب کِرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی

تو ہم کہتے تھے… امی!

تتلیوں کے پَر بہت ہی خوبصورت ہیں

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو

کہ ہم کو تتلیوں کے’ جگنوؤں کے دیس جانا ہے

ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں

نئے دن کی مسافت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ

کھڑکی سے بلاتی ہے

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو

کہ ہم کو تتلیوں کے’ جگنوؤں کے دیس جانا ہے!

حوالہ جات[ترمیم]

  1. منیرہ احمد شمیم (1982)۔ احمد شمیم شخصیت اور فن۔ اسلام آباد: اکادمی آف ادبیات پاکستان۔ صفحہ: 212 
  2. منیرہ احمد احمد شمیم (1982)۔ احمد شمیم شخصیت اور فن۔ اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکساتن۔ صفحہ: 212 
  3. منیرہ احمد شمیم (1987)۔ ہوا نامہ بر ہے۔ لاہور: توصیف پبلی کیشنز۔ صفحہ: 7