اسلام اور دہشت گردی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اسلام اور دہشت گردی

فقیرحافظ علی رضا

اپنی اٹھائیس سالہ زندگی میں اپنے اطراف میں جب نظریں دوڑرایں تو عجیب سی آوازیں اٹھتی دکھائی دیں۔ ہر سو ایک ہی پظار سننے کو ملی, اپنے پرائے, دوست دشمن سب کی زبان پر کلمہ دہشت گردی سننا۔ بار بار ذہن میں یہ سوال پنپنے لگا کہ آخر یہ دہشت گردی ہے کیا؟ دہشت گرد کون ہیں؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟

دہشت گردی پر سوچنے سمجھنے اور اس کے بارے جاننے کے لیے جب اخبارات و رسائل و دیگر کتب کا جائزہ لینا شروع کیا تو ناقابل یقین انکشافات رونما ہونے لگے۔ ہر جانب سے گھوم کر, کھینچا تانی کر کے واقعات کی کڑیاں ملتی ہیں تو دہشت گردی کی سلاسل کا اختتام اسلام پر ہوتا ہے۔

لیکن جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا تو محبت و امن و آشتی کا نام صرف پیام ملا بلکہ اس کے عملی نمونے بھی ماضی و حال میں موجود پائے۔ ہر جگہ اسلام امن کا درس دیتا ہے کی بل و بالا صدائیں سنائی دیں, تو کیوں ہر واقعہ, ہر حادثے کے پیچھے اسلام کا نام ملتا ہے؟ مسلمان ملتا ہے؟

تجسس بڑھتا گیا جس اسلام نے امن و آشتی کا پیام دیا, مسلم و غیر مسلم حتی کہ جانوروں تک کے حقوق معین کر دیے تو یہ اچانک دہشت گردی کا رواج کیسے پڑ گیا؟ یہ لعنت جو ہمارے گلے پڑی کیا اس کی کچھ حقیقت بھی ہے یا من گھڑت واقعات تسلام کے ساتھ منسلک کیے جاتے رہے؟

اسی جستجو میں جب مخلتف مکاتب فکر سے گفت و شنید کی نشستیں ہوئیں تو لوگوں کے اذہان پر حیرت بھی ہوئی اور کم علمی کی بنا پر کیے گئے تجزیات پر ماتم کرنے کو بھی دل چاہا۔

تاریخ کے جھرکوں میں تحقیق کے گھوڑے دوڑائے تو دہشت گردی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اہل مغرب و یہود و نصران کے سفید کپڑوں میں لپٹے کالے کرتوت کی گرہیں کھلنے لگیں۔ مسلمانوں پر مسلسل دہشت گردی کی تہمت لگانے والے اہل مغرب نے اپنی 4 سو سالہ تاریخ میں اڑھائی ہزار سے زائد جنگیں مسلط کیں لیکن دہشت گرد پھر بھی مسلمانوں کو کہا۔

مائیکل مین نے " دی ڈارک سائیڈ آف ڈیمو کریسی " میں لکھا کہ امریکا جو امن و انسانیت کا علمبردار کہلاتا ہے نے 9کروڑ سرخ ہندیوں ( Red indians ) کا نا صرف قتل عام کیا بلکہ ایسا ظلم کیا کہ ان کی تہذیب اور زبان تک کا نشان صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

امریکا کے ممتاز دانشور سوسن سوینٹگ نے برطانیہ کے مشہور اخبار " گارجین " میں لکھا کہ امریکا کی بنیاد ہی نسل پرستی پر رکھی گئی۔

ایک اور ماہر نفسیات ایرک فرام نے امریکا و یورپ دہشت گردی پر جو یورپ کی باہمی جنگوں اور انسانی خون پانی کی طرح بہانے کو اپنی 570 صفحات کی کتاب میں قلمبند کیا۔

اہل مغرب نے 1480 سے لے 1940 تک کے عرصہ میں 6259 جنگیں کیں۔ جن میں صرف دو جنگوں جنگ عظیم اول و دوم میں 12 کروڑ افراد کو لقمہ اجل بنایا اور 36 کروڑ افراد زخمی ہوئے۔

جب میں نے مسلمانوں کے حالات کا مطالعہ کیا تو میں خود میں الجھ کر رہ گیا, اپنی ناواقفیت پر خود کو کوسنے لگا۔ میرے رونگھٹے اس وقت کھڑے ہو گئے جب میری نظروں میں 1950 سے 2009 تک 5 کروڑ مسلمانوں کے قتال کی داستان آئی۔ برطانیہ کے میڈیکل جنرل " دی لارنسٹ " کے شائع شدہ رپورٹ کے مطابق عراق صرف اٹھارہ ماہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد کو نشانہ بنا کر جہان فانی سے عدم کی طرف دھکیل دیا گیا۔ 1991 سے لے کر 2015 تک پندرہ لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا جن میں نصف سے زیادہ تعداد ان افراد کی تھی جن کی عمر ابھی 5 سال سے کم تھی۔

ڈاکٹر پولیا نے اس کا موازنہ یہودیوں کے قتل عام " ہولوکاسٹ " سے کرتے ہوئے لکھا کہ مسلمانوں کا نقصان یہودیوں سے 100 گنا زیادہ ہوا۔

تو پھر میں یہ شعر لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچہ نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

آہ یہ کیسی دہشت گردی ہے کہ مرتے بھی ہم ہیں اور بدنام بھی ہم, مقتول بھی ہم ہیں اور دہشت گرد بھی ہم ہی کہلاتے ہیں۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ فرانس میں 160 افراد جاں بحق ہوں تو دہشت گرد مسلمان اور برما میں 80 ہزرا مسلمان جنون کی بھینٹ چڑھیں تو خامشی۔ اسرائیل کا ایک فرد مارا جائے تو فلسطینی جارحیت اور فلسطین کے ہزاروں شیرخوار مارے جائیں تو مہر لب و بام, بھارت میں گائے کے ذبح پر ہندو وویلا کرتے سینکڑوں کی تعداد میں بھالے, تلواریں اٹھائے نکل آتے ہیں, کشمیر میں ہزاروں بے گناہوں کے خون پر امن کے ٹھیکداروں پر جوں تک نا رینگتی ہے۔

افسوس صد افسوس ان مغرب زدہ غلام ذہنوں پر جو مظلوم ہوتے ہوئے بھی خود دہشت گرد بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے پھر کوئی شرمندگی یا عار محسوس نہی ہوتی, میرا سر شرم سے جھکنے کی بجائے فخر و جرات کے ساتھ بلند ہو گا جب تم بزدل ہمارے معصوم اور نہتے بچوں پر بم برساؤ گے اور ہماری پاکباز عورتوں پر اپنی ناپاک نگاہیں جماؤ گے تو وہ دن دور نہیں جب یہ سوئے ہوئے شیر اپنی کھچاروں سے باہر نکل کر تم پر جھپٹ پڑیں گے اور یہ شاہین تمھاری آنکھیں نوچ لیں گے۔ اب ہر گھر میں محمد بن قاسم پیدا ہوگا, ہر گھر سے صلاح الدین ایوبی نکلے گا۔ تب ہر بچہ طارق بن زیاد ہوگا اور تم پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ

یہ بازی خون کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے

ہر گھر سے مجاہد نکلیں گے, تم کتنے مجاہد مارو گے