اگرتلہ سازش
پاکستان کی تاریخ میں کئی مقدمے ایسے گذرے ہیں جنہیں مختلف سازشوں سے موسوم کیا گیا۔ ان میں اکثر مقدمے بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے دو عشروں میں راول پنڈی سازش مقدمہ 1951 میں اور اگر تلہ سازش مقدمہ 1967 میں قائم کیا گیا۔ ان دونوں مقدموں نے پاکستان کی آنے والی سیاست اور جغرافیے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
راولپنڈی سازش مقدمے سے اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ اس ملک میں ترقی پسند اورسیکولر سیاست برداشت نہیں کی جائے گی جب کہ اگر تلہ سازش مقدمے نے مجیب الرحمان کے بنگلہ بندھو بننے کے راستے ہموار کیے۔ بنگلا بندھو کا مطلب ہے ”بنگالیوں کا دوست“ یا ”بنگال کا دوست“۔ اس مقدمے نے پاکستان کی سالمیت پر گہرا وار کیا اور جو ملک مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا۔ 1971 کے بعد صرف پاکستان رہ گیا۔
گوکہ اگرتلہ سازش مقدمہ 1967 میں دائر کیا گیا تھا اس کی باقاعدہ سماعت اور کارروائی 1968 کے موسم گرما میں شروع ہوئی۔ مگر اگر تلہ سازش مقدمے پر بات کرنے سے پہلے آئیے اس کے پس منظر پر تھوڑی گفت گو کرتے ہیں۔
مشرقی پاکستان جسے پہلے مشرقی بنگال کہا جاتا تھا متحدہ پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے بڑا حصہ تھا کیوں کہ اس میں پاکستان کی تقریباً پچپن فیصد آبادی رہتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل محمد علی جناح اور وزیر اعظم لیاقت علی خان دونوں کا تعلق مشرقی بنگال سے نہیں تھا۔ مشرقی بنگال کے اس وقت تین بڑے رہ نما تھے حسین شہید سہروردی ( 1892۔ 1963 ) خواجہ ناظم الدین ( 1894۔ 1964 ) اور مولوی فضل الحق ( 1873۔ 1962 ) ۔ یہ تینوں رہ نما اپنی سیاسی قدوقامت کی بدولت برصغیر کے بڑے رہ نماؤں میں شمار ہوتے تھے اور متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم بننے کی پوری صلاحیت اور مقبولیت رکھتے تھے۔ مگر لیاقت علی خان کے تعلقات جناح صاحب سے قریب ترین تھے اس لیے لیاقت علی خان ہی پاکستان کے پہلے وزیرا عظم کے طور پر منتخب کیے گئے۔ مشرقی بنگال کے منتخب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے فضل الحق کو ابھی دو مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کے کچھ بیانات کو متنازع قرار دے کر الزام لگایا گیا کہ وہ بھارت کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس طرح غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اسی طرح کے الزام کے تحت انھیں برطرف کر دیا گیا اور وہ خواجہ ناظم الدین کے بعد دوسرے عظیم بنگالی رہ نما تھے جو اس طرح ذلیل کرکے نکالے گئے۔ فرق یہ تھا کہ ناظم الدین کو غدار نہیں بلکہ نا اہل رہ نما بتایا گیا اور فضل الحق کی بھارت سے بہتر تعلقات کی کوشش کو غداری گردانا گیا اور انھیں پاکستان دشمن قرار دیا گیا۔
فضل الحق کا جرم صرف یہ تھا کہ بھارت کے ساتھ امن کی بات کر رہے تھے اور پرامن بقائے باہمی کا ایک نیا بیانیہ دے رہے تھے جو اسٹیبلشمنٹ کے جنگجو بیانیے کی ضد تھا۔
اب تیسرا نمبر حسین شہید سہروردی کا تھا۔ انھیں پہلے مسلم لیگ میں خود لیاقت علی خان غیر موثر کرچکے تھے۔ اب انھوں نے مغربی پاکستان کے دیگر رہنماؤں اور مولانا عبد الحمید بھاشانی کے ساتھ مل کر عوامی مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی جماعت کی سیاست شروع کی۔ بعد میں اس کے نام سے مسلم کا لفظ نکال کر صرف عوامی لیگ بنا دیا گیا تاکہ غیر مسلم بھی اس میں شامل ہوسکیں۔
قیام پاکستان کے بعد شروع کے سال حسین شہید سہروردی مشرقی اور مغربی بازوؤں میں ہم آہنگی کی سیاست کرتے رہے حتیٰ کہ انھوں نے ون یونٹ کے تحت پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازوؤں میں برابری کی شرط بھی مان لی تھی حالانکہ اس سے مشرقی پاکستان کی عددی برتری ختم ہو رہی تھی۔ سہروردی نے تحفظات کے باوجود 1956 کا آئین قبول کیا اور پاکستان کے پانچویں وزیر اعظم بھی بن گئے۔ لیکن ان کا حشر بھی ناظم الدین اور فضل الحق سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوا۔
گوکہ ناظم الدین اور فضل الحق کو برطرف کیا گیا تھا۔ حسین شہید سہروردی کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں۔ پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا جو خود بنگالی ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر تھے پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں اکھاڑنے میں مصروف رہے۔ انھوں نے پاکستان میں جمہوریت کو پنپنے نہ دیا اور ملک میں جمہوری روایات کو شدید نقصان پہنچایا۔ بالکل اسی طرح جیسے تیس سال بعد غلام اسحاق نے 1988 سے 1993 تک کسی وزیر اعظم کو چلنے نہیں دیا۔
اسی طرح اسکندر مرزا 1950 کے عشرے کے وسط میں بار بار ایسی حرکتیں کرتے رہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت مستحکم نہ ہو سکے۔ ایک سیاست دان کو دوسرے کے خلاف اور جماعت کو دوسری پر ترجیح دے کر غیر یقینی کا بازار گرم رکھا۔
گوکہ سہروردی کو 1957 میں استعفیٰ پر مجبور کر دیا گیا تھا ان کی اصل ابتلا تب شروع ہوئی جب 1958 میں ایوب خان نے چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کے طور پر اقتدار سنبھالا اور اکتوبر 1958 میں خود کو صدر پاکستان بھی مقرر کر لیا۔ جنرل ایوب خان کا یک نکاتی پہلا ایجنڈا یہ تھا کہ تمام سیاسی رہ نماؤں کو سیاست بدر کر دیا جائے اور ملک کی فضا میں کوئی سیاست کا نام لینے والا بھی نہ رہے گویا سیاست کو ایک گالی بنادیا جائے جس میں حصہ لینا قابل سزا جرم ٹھہرا۔
جب جنرل ایوب خان نے سیاست دانوں سے کہا کہ وہ رضاکارانہ طور پر سیاست سے دست بردارہوجائیں ورنہ ان کے خلاف مقدمے قائم کیے جائیں گے تو سیاست دانوں کی اکثریت مقدمات کی ذلت سے بچنے کے لیے رضاکارانہ طور پر باہر ہو گئی۔ مگر سہروردی نے اپنا دفاع کیا۔ جنرل ایوب خان نے انھیں بار بار غدار کہا، بھارتی ایجنٹ پکارا اور پاکستان دشمن قرار دیا۔ ان سب سے تنگ آکر سہروردی نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور بالآخر لبنان میں ایک جلاوطن کی موت حاصل کی۔ اس وقت ذو الفقار علی بھٹو جو جنرل ایوب خان کے دست راست تھے سہروردی کو دھمکاتے رہے کہ خبردار جو وطن واپس آنے کی کوشش کی۔
1963 میں سہروردی کی وفات کے ساتھ بنگال اپنے ایک بڑے رہنما سے محروم ہو گیا۔ یاد رہے کہ اس سے صرف ایک سال قبل مولوی فضل الحق بھی وفات پاچکے تھے۔ اس کے اگلے ہی برس یعنی 1964 میں خواجہ ناظم الدین بھی وفات پاگئے اس طرح تین برس میں مشرقی پاکستان اپنے تین عظیم ترین رہ نماؤں سے محروم ہو گیا اور مجیب کے لیے راستہ صاف ہو گیا۔
یہ خیال بے جا نہیں کہ کاش اگر مشرقی پاکستان کے ان تین بڑے رہ نماؤں کے ساتھ ہمارے جج اور جرنیل عزت سے پیش آتے تو شاید مشرقی پاکستان ہم سے جدا نہ ہوتا۔ اور نہ ہی مجیب الرحمان کو اپنی علیحدگی پسند سیاست چمکانے کا موقع ملتا۔
اگر تلہ سازش مقدمے سے پہلے کے پانچ سال یعنی 1962 سے 1967 تک کے عرصے میں نہ صرف تین بڑے بنگالی رہ نما فوت ہوئے بلکہ جنرل ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف انتخابات میں زبردست دھاندلی کی اور ایک بار پھر خود کو صدر بنالیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی تھی اور انھیں امید تھی کہ انتخابات میں وہ ضرور جیت جائیں گی جس سے پاکستان میں جمہوریت کو تقویت ملے گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ان انتخابات میں دھاندلی سے مشرقی پاکستان کے بنگالی مزید متنفر ہو گئے۔ اس پس منظر کے ساتھ اب ہم اگر تلہ سازش کی طرف آتے ہیں۔ یہ مقدمہ بمشکل ایک سال چلا ہوگا کیونکہ اسے 1969 میں خود جنرل ایوب خان نے ختم کر دیا۔ لیکن اس مقدمے نے پاکستان کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
جب دسمبر 1967 میں اگر تلہ سازش مقدمے کے سلسلے میں پہلی گرفتاریاں ہوئیں تو ان میں مجیب الرحمان کا نام تک نہیں تھا۔ اس مقدمے کے شروع سے ہی بنگالی یہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے لیے ان کے صوبائی خود مختاری کے مطالبات کی نفی کی جارہی ہے۔ اس مقدمے میں کچھ بہت سینئر افسر ملوث کیے گئے جو سول اور فوجی افسر شاہی کا حصہ تھے۔ جنوری 1968 میں مجیب الرحمان کو بھی اس مقدمے میں نامزد کر دیا گیا جو پہلے ہی اپنے چھ نکات کے مقدمے کے باعث جیل میں تھے۔ جنرل ایوب خان شروع سے ہی اس کوشش میں تھے کہ ملک میں عوام کی تمام جمہوری خواہشات کو کچل دیا جائے اور خاص طور پر مشرق پاکستان میں ایسا کیا جائے۔
پاکستان کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ بار بار یہ سمجھنے سے قاصر رہی ہے کہ جب بھی عوام کی جمہوری خواہشات کو کچلا جائے اور عوام کا رد عمل اس کے باکل برعکس ہوتا ہے۔ اگر تلہ سازش مقدمے نے بنگالیوں کے قوم پرستانہ جذبات کو مزید شدید کر دیا اور مجیب الرحمان نے جلد ہی ”بنگلہ بندھو“ یا ”بنگالیوں کے دوست“ کا لقب حاصل کر لیا۔ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو اچھی طرح یاد تھا کہ کس طرح ناظم الدین، فضل الحق اورسہروردی کی آوازیں خاموش کردی گئی تھیں اور کس طرح فاطمہ جناح سے ان کی انتخابی جیت چھین لی گئی تھی۔
اگر تلہ سازش مقدمے کے لیے جنرل ایوب خان نے ایک خصوصی ٹریبیونل تشکیل دیا اور کوشش کی کہ یہ عام عدالتی مقدمہ نہ رہے۔ اس خصوصی ٹریبیونل کے سربراہ جسٹس شیخ عبد الرحمان (ایس اے رحمان) تھے جن کا تعلق پنجاب سے تھا۔ جسٹس رحمان اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں معتبر تھے کیوں کہ انھوں نے انتخابات میں جنرل ایوب خان کی دھاندلی پر آنکھیں موند کر کچھ نہیں کیا تھا۔ وہ کچھ عرصے کے لیے چیف الیکشن کمشنر بھی رہے تھے۔
اگر تلہ سازش مقدمے کو قابل اعتبار بنانے کے لیے جسٹس رحمان کے ساتھ دو بنگالی جج بھی مقرر کیے گئے جو جسٹس مجیب الرحمان خان اور جسٹس مقسوم الحاکم تھے۔ غیر جمہوری روایات کو برقراررکھتے ہوئے اس مقدمے کے ملزمان کو بھی چھاؤنی کے چھوٹے کمروں میں رکھا گیا جہاں ان کے اہل خانہ کو بھی ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔
پھر افواہیں پھیلنے لگیں کہ ملزمان جن میں سی ایس پی افسر بھی شامل تھے بدترین سلوک کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس مقدمے کی سماعت جون 1968 میں شروع ہوئی یعنی ملزمان کی گرفتاری کے سات ماہ بعد۔ سماعت کے دوران بہت بڑی تعداد میں ریاستی گواہ اور سلطانی گواہ درج کیے گئے جن کے نام حکومت نے پیش کیے تھے۔ اس مقدمے میں اعانت جرم کے الزام میں پندرہ سو سے زیادہ لوگ گرفتار تھے جن کا تعلق مختلف شعبوں سے تھا۔
ملزمان پر مقدمہ چلایا گیا اور 232 سلطانی گواہ بن گئے یا بننے پر مجبور کردیے گئے۔ شروع سے ہی اس مقدمے کی بنیادیں ہلتی دکھائی دیں کیوں کہ بہت سے سلطانی گواہ مکرنا شروع ہو گئے اور دعوے کرنے لگے کہ حکام نے تشدد کے ذریعے انھیں سلطانی گواہ بننے پر مجبور کیا تھا۔
کچھ گواہ عدالت میں رو پڑے جس سے ہم دردی کے جذبات پیدا ہونے لگے۔ پھر عدالت سے باہر ملک کے حالات بھی خراب سے خراب ترہوتے گئے اور جنرل ایوب خان کی گرفت اقتدار پر کم زور ہونے لگی۔ ایسے میں ایوب خان نے اپنے اقتدار کے دس سال پورے ہونے پر عشرہ ترقی کی تقریبات منعقد کرنا شروع کر دیں اور پورے ملک میں جشن منایا جانے لگا جس سے عوام میں غم و غصے کی لہر ابھرنے لگی۔ ایسے میں بنگالیوں کے ہجوم سڑکوں پر آکر اگر تلہ سازش مقدمے کے خاتمے کے مطالبے کرنے لگے۔
اس پورے مقدمے کی بنیاد اس اطلاع پر تھی کہ مشرقی پاکستان کے ان ملزم بنگالیوں نے آزادی کے لیے بھارت سے مدد طلب کی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان الزامات میں کچھ سچائی بھی تھی کیوں کہ بعد میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد چند ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ وہ واقعی اس سازش میں شریک تھے۔ لیکن جس طرح سے اس مقدمے کو چلایاگیا اور پھر ختم کیا گیا اس سے بنگالی عوام کی تحریک آزادی میں مزید جان پڑ گئی۔
1969 کے آتے آتے جنرل ایوب ڈانواں ڈول ہو چکے تھے اور حزب مخالف بہت سرگرم تھی۔ اس صورت حال میں جب خود فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے بھی آنکھیں پھیر لیں تو ایوب نے ایک گول میز کانفرنس بلا ڈالی۔ مجیب الرحمان نے اس مقدمے کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ شیخ مجیب الرحمان کا مطالبہ یہ تھا کہ اگر تلہ سازش کا خاتمہ نہ کیا گیا تو وہ گول میز کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ جنرل ایوب خان نے مجبور ہوکر اگر تلہ سازش مقدمہ ختم کر دیا مگر پھر بھی اقتدار نہ بچا سکے اور علیحدگی پسندوں کے ہاتھ مزید مضبوط ہو گئے۔
ملک کی سلامتی کو آخر دھچکا اس وقت لگا جب جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد انتخابات تو کرائے مگر ان کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ 1970 کے انتخابات میں عوامی لیگ جیت گئی مگر اسے اقتدار نہیں سونپاگیا بلکہ فوجی کارروائی شروع کردی گئی جو بالآخر بھارتی مداخلت پر منتج ہوئی جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکا ہوا اور مشرقی پاکستان ایک آزاد ملک کی صورت میں ابھرا جس کا نام بنگلہ دیش ہے۔
یہ باتیں مجیب الرحمان کے بڑے رہنما بننے سے بہت پہلے کی ہیں۔ مشرقی بنگال کے تینوں رہنما یعنی حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین اور مولوی فضل الحق متحدہ پاکستان کے عوام کی اکثریت کی نمائندگی کرتے تھے اور انھیں غیر بنگالی مسلمانوں کا عزت و احترام بھی حاصل تھے۔ بدقسمتی سے ان تینوں رہ نماؤں کو بار بار غدار قراردیا گیا، ان کی توہین و تذلیل کی گئی اور پاکستان میں اقتدار کے حلقوں سے انھیں نکال باہ کیا گیا۔
خود جناح صاحب کے تعلقات ان تینوں رہ نماؤں سے مستقل اور مستحکم بنیادوں پر قائم نہیں تھے۔ مثلاً شیر بنگال مولوی فضل الحق نے تیس مارچ 1940 کو قرارداد لاہور پیش کی تھی مگر جلد ہی ان کی مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت سے ان بن شروع ہو گئی تھی۔ پھر بھی جناح صاحب کے دور میں یہ تینوں رہ نما اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے اور انھیں براہ راست نشانہ نہیں بنایا گیا۔ خاص طور پر خواجہ ناظم الدین جناح صاحب کے زیادہ قریب تھے۔