تبادلۂ خیال:اعلٰی حضرت

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

امام احمد رضا خان صاحب مسئلہ تکفیر میں بے حد محتاط تھے مولوی محمد اسماعیل دہلوی صاحب کی کتاب تقویت الایمان جس میں جگہ جگہ توہین رسالت کا ارتکاب کیا گیا ہے اور اس پر بہت سے علماء نے فتویٰء کفر بھی صادر فرمایا، جناب امام احمد رضا خان صاحب نے بھی اس کی تردید میں متعدد بلیغ کتب تحریر کیں مگر احتیاطا آخر میں شرعی فیصلہ تحریر فرمایا۔ وضاحت دیکھیے اپنی کتاب سبحان السبوح عن عیب کذب مقبوح میں تحریر فرماتے ہیں"علمائے محتاطین انہیں کافر نہ کہیں ،﴿سبحان السبوح عن عیب کذب مقبوح﴾۔انہیں کے متعلق دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں " ہمارے نزدیک مقام احتیاط میں کفار سے کف لسان ماخوذ و مختار و مناسب"﴿الکوکبت الشہابیہ﴾

کتاب سل السیوف الہندیہ میں لکھتے ہیں کہ "لزوم و التزام میں فرق ہے"

اقوال کا کلمہء کفر ہونا اور بات اور قائل کو کافر مان لینا اور بات۔ہم احتیاط برتیں گے، سکوت کریں گے جب تک ضعیف سے ضعیف احتمال ملے گاحکم کفر جاری کرتے ڈریں گے۔" خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام احمد رضا کا کہنا تھا کہ گستاخانہ عبارتوں کے ذریعے ان لوگوں نے گستاخی کی ہے اور شان رسالت میں اہانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور عظمت و محبت حضور علیہ الصلوٰة والسلام ضروریاتﹺ دین سے ہے، اس لئے ان لوگوں نے اہانت کرکے ضرورتﹺ دین کا انکار کیا ہے۔ چنانچہ ان عبارتوں سے رجوع کا امام موصوف نے مطالبہ کیا اور بارہا اس دینی ضرورت کی طرف توجہ دلائی۔پھر بھی ان لوگوں نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی اور لگ بھگ بیس سال تک یہ مسئلہ چلتا رہا۔امام احمد رضا خان کوشش فرماتے رہے کہ اس دینی اور شرعی مسئلہ کا حل تلاش کر لیا جائے۔لیکن یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ علمائے دیوبند نے خلوص و ہمدردی کے جواب میں خلوص کی بجائے مناظرانہ داؤپیچ کی راہ اختیار کی اور سامنے آنے اور جواب دینے سے ہمیشہ گریزکیا۔ بطور اتمام حجت اور آخری جدوجہد ، ایک خط بذریعہ رجسٹری ارسال فرمایا، جس کی تحریر ملاحظہ ہو "یہ اخیر دعوت ہے، اس پر بھی آپ سامنے نہ آئے تو الحمد للہ میں فرضﹺ ہدایت ادا کر چکا۔آئندہ کسی کے غوغے پر التفات نہ ہو گا۔منوا دینا میرا کام نہیں، اللہ عزوجل کی قدرت میں ہے۔ واللہ یہدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم۔" قارئین اب انصاف خود فرمائیں