مندرجات کا رخ کریں

تبادلۂ خیال:ایوب خان

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ایوب خان کی ایکسٹینشن

[ترمیم]

پاکستان میں آرمی چیف کی پہلی توسیع ایوب خان کی ہوئی تھی، سال شاید 54 یا 55 تھا ایوب کھوڑو وزیر دفاع تھا اس زمانے میں سمری وزیر دفاع کے دفتر سے چلتی تھی - ایوب اور اسکندر مرزا نے طے کیا کہ ایوب کو اگلے چار سال کی توسیع دے دی جائے ، مرزا نے کھوڑو کو فون کیا کہ ایوب کی توسیع کی سمری بھیجو ، اسنے کہہ دیا اچھا بھیج دوں گا لیکن دن گزرتے رہے بھیجی نہیں ، ایوب پریشان ہو رہا تھا کہ ریٹائرمنٹ ڈیٹ قریب آ رہی ہے اور کھوڑو سمری نہیں بھیج رہا ، پھر گیا مرزا کے پاس کہ کھوڑو کو سفارش کرے کہ بھیج دے،،،مرزا نے دوبارہ فون کر دیا اور ایوب سے کہا جا کے کھوڑو کے دفتر بیٹھ کر خود سمری کی فائل دستی لے کر میرے پاس لے آؤ، پی ایم سے میں خود کرا لوں گا .. ایوب خان کھوڑو کے دفتر چلا گیا اطلاع کرائی لیکن کھوڑو نے اسکو پی اے کے پاس بیٹھنے کو کہا کہ فارغ ہو کے بلاؤں گا - ایوب خان پی اے کے دفتر بیٹھا رہا ، ہر گھنٹے مرزا کو فون کرتا کہ کھوڑو نہیں بلا رہا..مرزا نے کھوڑو کو پھر فون کیا کہ یار کیوں تنگ کر رہا ہے ایوب خان کو بلا کے سمری بنا دے..خیر پورے پانچ گھنٹے انتظار کروانے کے بعد کھوڑو نے ایوب کو ازن حاضری دیا - پھر کچھ ٹائم سمری ٹائپ ہونے میں لگا، جب بن گئی تو ایوب سے کہا تم جاؤ میں اسے تھرو پراپر چینل بھجوا دوں گا، ایوب کو پتا تھا کہ یہ سالہ تین چاردن بھجوانے میں لے گا اور میں ریٹائر ہی ہو جاؤں گا، درخوست کی کہ بھائی مجھے دے دے فائل میں خود پی ایم اور مرزا کے پاس لے کر جاؤں گا، کھوڑو پھر نخرے کرنے لگا، ایوب نے باہر آ کے مزرا کوفون پر کہا کہ یار اس نےمجھے خوار کر رکھا ہے اسکو کہومجھے فائل دے دے..خیر اب مرزا کی بات مان کے کھوڑو نے ایوب کو فائل دے دی...یوں پورے چھ گھنٹے میں ایوب خان کھوڑو کے دفتر سے فائل کے ساتھ نکلا, اگلے دن سب سے دستخط کرا کے اپنی توسیع حاصل کی . .مرزا سے کہا کہ اس کووزیر دفاع بھی بنا دے ، کھوڑو کو کوئی اور منسٹری مل گئی، اسکے بعد وزیر اعظم ہر سال چھ مہینے میں بدلتے رہے لیکن ایوب خان مستقل وزیر دفاع رہا ، جب تک خود مارشل لا نہ لگا لیا -.. .اب مزے کی بات سنیں مارشل لا لگا کے پرانے سیاست دنوں کو مختلف عرصے کے لئے ایبڈو/پڑودہ قسم کا قانون بنا کا سیاست سے باہر کیا..کھوڑو کو اپنے چھ گھنٹے کی ذلت کے بدلے چھ سال کے لئے بین کیا-امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 13:37، 27 نومبر 2019ء (م ع و

ایوب خان

[ترمیم]

1958میں مارشل لاء لگا کر جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ تو کرلیا، لیکن اسے معلوم تھا کہ پرانے سیاستدانوں کو ٹھکانے لگائے بغیر سکون سے حکومت کرنا مشکل ہوگا، لہٰذا ایبڈو (EBDO) کے نام سے نیب کی طرز پر ایک قانون بنایا، جس کے تحت سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے جاتے۔ جواب میں یا تو سیاستدان 7 سال تک سیاست سے بے دخلی قبول کرتا، یا فوجی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرتا۔ جن چند سیاستدانوں نے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا، ان میں عوامی لیگ کے بانی اور شیخ مجیب کے سسر جناب حسین شہید سہروردی بھی تھے، جو 12 ستمبر 1956 سے 17 اکتوبر 1957 تک وزیر اعظم رہے۔ سہروردی صاحب پر الزام لگا کہ بطور وزیراعظم انہوں نے اپنے ایک چہیتے صنعتکار کو بلا استحقاق امپورٹ پرمٹ دیا۔ فوجی عدالت میں سہروردی صاحب نے ریکارڈ سے ثابت کردیا کہ مذکورہ پرمٹ کے اجراء کیلئے وزارت تجارت کے سیکریٹری نے ان سے منظوری لی ہی نہیں، بلکہ خود ہی پرمٹ جاری کردیا۔ فوجی عدالت کے سربراہ کرنل نے سہروردی صاحب سے کہا کہ کسی سیکرٹری کیلئے یہ کیسے ممکن ہوا کہ متعلقہ وزیر اور وزیراعظم سے منظوری لیئے بغیر اتنا بڑا پرمٹ خود ہی جاری کردیا۔ سہروردی نے جواب دیا کہ یہ اس لئے ممکن ہوا کہ وقت کے آرمی چیف نے اس کیلئے سیکریٹری پر دبائو ڈالا۔ (آرمی چیف ایوب اس وقت چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بن چکا تھا)۔ یہ سن کر کرنل کا چہرہ پیلا پڑ گیا، اور کانپتے ہوئے پوچھا: آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟. سہروردی صاحب نے جیب سے ایوب کی ایک دستخط شدہ پرچی نکال کر دکھائی، جو وزیراعظم سہروردی کے نام تھی، اور ان سے مذکورہ صنعتکار کو پرمٹ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ سہروردی صاحب نے کہا کہ میں نے کیس دیکھ کر پرمٹ دینے سے انکار کردیا تھا، تو آرمی چیف نے وزیر اور وزیراعظم کی منظوری کے بغیر سیکریٹری سے پرمٹ جاری کروا دیا۔ اس گفتگو کے بعد سہروردی صاحب کو 7سالہ نااہلی کی سزا تو پھر بھی دی گئی، لیکن پریس کو عدالتی کارروائی رپورٹ کرنے سے روک ديا گیا. سہروردی کی جگہ شیخ مجیب نے عوامی مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور مسلم لفظ نکال دیا۔ یـہ تاریـخ کـا جھـروکہ ان کے لیـئے جـن کـو معلـوم نہیـں ملـک کیـوں ٹـوٹا. پاکستان کی تاریخ کے وہ اوراق جو ہمیں کتابوں میں پڑھائے نہیں جاتے اور میڈیا عوام کو بتاتا نہیں ۔ جانئیے ، پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ کس نے کیا ۔ قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد سردار عبدالرب نشتر نے ایوب خان کے بارے میں ایک فائل قائد اعظم کو بھجوائی تو ساتھ نوٹ میں لکھا کہ ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کے بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے ۔ اس پر قائد اعظم نے فائل پر یہ آرڈر لکھا : ’’ میں اس آرمی افسر (ایوب خان) کو جانتاہوں ۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے ۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔ ‘‘ حوالہ: کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل مصنف: قیوم نظامی قائد اعظم کا ایوب خان کے بارے میں غصہ بعد میں بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور جب وہ ڈھاکہ گئے اور انھیں فوجی سلامی دی گئی تو انھوں نے ایوب خان کو اپنے ساتھ کھڑے ہونے سے روک دیا ۔ بحوالہ: کتاب: گوہر گزشت مصنف: الطاف گوہر دراصل تقسیم کے زمانے میں امرتسر میں ہندو مسلم فسادات پر قابو پانے کے لئے ایوب خان کو ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر وہ وہاں جا کر مہاراجہ پٹیالہ کی محبوبہ پر عاشق ہو گئے اور اپنا بیشتر وقت اسکے ساتھ گزارنے لگے اور فسادات پہ کوئی توجہ نہیں دی ۔ جس پر قائد اعظم نے سزا کے طور پر ان کو ڈھاکہ بھیجا تھا ۔ بحوالہ: کتاب: گوہر گزشت مصنف: الطاف گوہر اپنی اس تنزلی پر ایوب خان بہت رنجیدہ ہوئے اور انہوں نے قائد آعظم کے احکامات کے برخلاف اسوقت کے فوجی سربراہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے انہوں نے اپنے دوست بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی سے مدد مانگی ۔ شیر علی خان پٹودی پہلی فرصت میں کراچی سے راولپنڈی گئے اور کمانڈر انچیف سر فرینک میسروی سے اپنے دوست کی سفارش کی لیکن بات بنی نہیں ۔ بحوالہ :

کتابب: گوہر گزشت

مصنف : الطاف گوہر لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ جس ایوب خان سے قائداعظم اس قدر نالاں تھے اسی ایوب خان کو لیاقت علی خان نے اس وقت کے سینئر ترین جنرل ، جنرل افتخار پر فوقیت دے کر فوج کا سربراہ بنا دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس حوالے سے بھی انکے دوست بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی اور دیگر رفقاء نے اہم کردار ادا کیا ۔

اور بد نصیبی دیکھئے ، وہی ایوب خان پاکستان کا پہلا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا اور پاکستان پر گیارہ سال تک حکومت کرتا رہا ۔

بحوالہ: کتاب: The Crossed Sword مصنف: شجاع نواز قائد آعظم خاص جمہوری انداز میں مملکت چلانا چاہتے تھے اور اسی حوالے سے کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے تھے ۔ اس حوالے سے قائد اعظم نے ایک اور فوجی افسر اکبر خان کے مشوروں سے زچ ہو کر اس سے کہا تھا کہ آپ کا کام پالیسی بنانا نہیں ، حکومت کے احکامات کی تعمیل کرنا ہے ۔ اور بعد ازاں وہی جنرل اکبر لیاقت علی خان کے خلاف بغاوت کے جرم میں گرفتار ہوا اور تقریباََ پانچ سال جیل میں رہا ۔

اور بد نصیبی دیکھئیے ، عدالت سے غداری کی سزا کاٹنے والے ، اسی جنرل اکبر کو 1973 میں بھٹو صاحب ، قومی سلامتی کونسل کا رکن نامزد کر دیتے ہیں ۔
بحوالہ:
کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
مصنف:  قیوم نظامی
بانی پاکستان جون 1948 میں سٹاف کالج کوئٹہ گئے تو وہاں گفتگو کے دوران ان کو اندازہ ہوا کہ اعلیٰ فوجی افسران اپنے حلف کے حقیقی معنوں سے واقف نہیں ہیں ۔ اس موقع پر انھوں نے اپنی لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھ کے فوجی افسران کو یاد دہانی کے طور پر ان کا حلف پڑھ کر سنایا ، اور انہیں احساس دلایا کہ انکا کام حکم دینا نہیں صرف حکم ماننا ہے ۔
بحوالہ:
کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
مصنف:  قیوم نظامی
بعد کے ادوار میں فوجی جرنیلوں نے اس حلف کی اتنی خلاف ورزی کی کہ ائیر مارشل اصغر خان کو لکھنا پڑا کہ میری تجویز ہے کہ اگر ہم پر جرنیلوں ہی نے حکمرانی کرنی ہے تو یہ الفاظ حلف سے حذف کردیے جائیں : ’’ْمیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں، خواہ ان کی نوعیت کچھ بھی ہو، حصہ نہیں لوں گا۔‘‘ 
بحوالہ:
کتاب: جنرل اور سیاست
مصنف:  اصغر خان

جنرل گریسی جب اپنے پیشہ ورانہ دورے پر لاہور گئے تو کرنل ایوب کو دیکھا اور بلا کو پوچھا کہ "آپ کو تو ڈھاکہ میں رپورٹ کرنی تھی تو آپ یہاں کیا کر رہے ہیں"جس پر ایوب خان نے کہا کہ وہ کراچی لیاقت علی خان سے ملنے جا رہے ہیں ۔۔ اس پر جنرل گریسی نے ایوب کے کورٹ مارشل کے آرڈر کئے اور انہیں اپنے ساتھ کراچی لے آئے ۔ بحوالہ میموریز آف اے سولجر ۔۔جنرل وجاہت حسین "سیکریٹری جنرل گریسی" حاصلِ کلام : جس دن ہم نے پاکستان میں جمہوریت بحال کر دی اسی دن سے پاکستان ترقی کرنا شروع کر دے گا اور عوام خوش حال ہو جائیں گے ۔ اسرار عبدالل امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 13:02، 7 فروری 2023ء (م ع و)