تبادلۂ خیال:جامعہ فاروقیہ کراچی

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

﴾یورپ اور حقوق نسواں﴿

٭محمد نذیر ناصر طالیبانی٭ یورپ نے کبھی بھی انسان کو احترام نہیں دیا جو بحیثیت انسان احترام کا حقدار ہے مغرب میں بھی عورت کا بھی یہی حال رہا ہے ہمیشہ عورت کو متنازع بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً جب ہم عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور قبل میں فرانسیوں نے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی جس کا کا م اس بات پر تحقیق کرنا تھا کہ عورت میں روح انسانی ہے یا حیوانی ہے ٹیم بلآ خر اس نتیجہ پر پہنچی کہ عورت تو انسان ہے لیکن اس کا مقصد تخلیق مرد کی خدمت کر نا ہے ۔ 158ءمیں انگریزی قانون نے مردوں کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ چاہیں تو اپنی بیوں کو فروخت کر سکتے ہیں عورت کی قیمت بھی رائج سکے کے مطابق مقرر کردی تھی اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی مشہور ہے کہ ایک اٹالین مرد نے اپنی بیوی کو قسطوں کی مد میں فروخت کر دیا تھا جب خریدار قسط ادا نہیں کر سکا تو اس کو اٹالین نے قتل کردیا ۔ مغربی مذاہب عورت کو معاصی کی جڑ اور انسانی مشکلات کا سب سے بڑا سبب قرار دیتے ہیں۔ عسائیوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ عورت چاہے جتنی بھی خوبصورت ھسین اور جمیل ہو اس کے لیے شرم حیاءلازمی آنی چاہیے کیونکہ وہ گناہوں کا سب سے بڑا سببب ہے۔ دور قدیم روما اور یونان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عورت کو معاشرے میں مرکزی حثیت حاصل تھی یہ سب حقیقت کے بر عکس باتیں ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں اصل حقیقت تو یہ ہے کہ نسوانیت کی منزلت وہ ہر گز نہیں تھی جس کو یونان اور روما نے متعارف کرایا تھا ۔ روما اور یونان میں تو مرکزی حثیت کی حامل وہی خواتین تھی جن کا تعلق بڑھے گھرانوں سے ہوتا جو اپنے اوصاف کی وجہ سے تقریبات کی روح روان سمجھی جاتی تھی ایسی عورت کی آوبگت صرف عیاش طبقہ کرتا تھا کیونکہ ایسی خواتین بگڑے ہوئے طبقے کے لیے سامان تفریح کی حیثیت رکھتی تھی۔ حقوق نسوان کے علمبردار مغرب نے عورت کو بحیثیت انسان تعظیم اور تکریم سے کبھی نہیں نوازا بلکہ عورت کو ہمیشہ عیش وعشرت کا سامان بناکر پیش کرنے کی کوشش کی۔ جب ہم یورب کے مختلف ادار کے انقلابی کا جائزہ لیتے ہیں تو یورب کے نعرہ حقو ق نسوان اور داعوو�¿ں میں کھوکھلہ نظر آتا ہے کہ جو نعرہ یورپ کا آزادی نسواں کے نام کا یہ وہی نعرہ یورب کے ماحول اور معاشرے کے لی ناسور ثابت ہورہا ہے اور ادوار انقلاب کا جائزہ ۔ جاگیرداری نظام اور عورت :: جس وقت انگریز نے جاگیرداران نظام متعارف کرایا تو اس دور میں عورت کی حیثیت ایک مشین سی قرار دی گئی جس کا کا م بچے پیدا کرنا اور دن رات جانوروں کی طرح کام کرتے رہنا تھا اور عورت کا وظیفہ حیات اسی کو تسلیم کیا گیا تھا ۔ یور ب کا مزاج کج روی اور سنگدلی سے مرکب ہے جس کی وجہ سے ان کے اندر خلوص اور درد کا دور دور تک نام نشان نہیں ہوتا ۔ یورب اپنے فوائد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ پوری انسانیت کو مشکلات کی طرف دھکیلتا رہا ہے ۔ اور اگر اض بھی ہم یورپ کی طرف صرف نظر کریں تو ہمیں یہی نظر آئے گا کہ امریکہ ایشاءپر مداخلت کرتا ہے تو یہ اس کی سرشت کا حصہ ہے کہ وہ اپنے مفاد کے لیے پاکستان افغانستان عراق اور اب مصر اور لبنان وغیرہ مین بھی صرف اپنے مفاد کی جھنگ لڑ رہا ہے یہ تو تھی مثال یورب کی پیدا کردہ مشکلات کی ۔ صنعتی انقلاب اور عورت :: یورپ میں جب صنعتی انقلاب آیا تو عورت اور بچے گھر کی دھلیز پار کرکے اس صنعتی ڈوڑ میںشامل ہوگئے ، اور کارخانوں کا رخ کرلیا جہاں محنت مشقت کرنا پڑا پھر وہی مزدور طبقہ شہر کا رک کرنے لگا شہروں اخلاقی اعتبار سے تنزلی اور بے اصولی کی فضاءنے جنم لیا ۔ صنعتی انارکی میں مرد عورت اپنے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے جو موقع پاتے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس کی وجہ سے مردوں میں شادی کی خواہش نے دم توڑ دیا ، عورت کا احترام ختم ہوگیا عورت پہلے سے زیادہ مشقت اُٹھانے پر مجبور ہوگئی، مرد نے عورت کا سہارا بنے سے انکار کردیا، خاندانی نا انصافیاں عام ہوگئی، عورت سے کام زیادہ اور معاوضہ کم دیا جانے لگا۔ صنعتی دور میں کارخان والوں نے عورت کی مظلومیت سے ناجائز فائدہ اٹھا نا شروع کر دیا۔ صنعتی دور میں عورت کا احتجاج:: صنعتی دور میں عورتوں او ر بچوں پر جو مظالم بڑھائے گئے تھے بعض باضمیر افراد سے عورت اور بچوں کی یہ مظلومیت برداشت نہ ہوئی تو اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا ، چناچہ بچوں کے حقوق میں ان کو کامیابی تو ہوئی اور بچوں کی عمر ملازمت میں اضافہ کردیا گیا اور معاوضہ میں بھی اضافہ کر دیا گیا ۔ مگر عورت اسی طرح ظلم کا شکار بنی رہی کیونکہ ان کی کوئی فکر کرنے والا نہ تھا اور نہ ہی ان کے احتجاج کو کوئی سننے والا تھا ، ایسی فکر کے لیے تو ذہنی اور اخلاقی پاکیذگی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے یورپ خود محروم تھا عورت اپنے حقوق سے محروم ہی نہیں رہی بلکہ عورت کے مصائب و آلام میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا اور آج عور ت اس مقام پر آٹہری ہے جہاں اس کی عزت اور ناموس کو بہت سے خطرات کا سامنا ہے۔ جنگ عظیم اور عورت : جب جنگ عظیم کا سلسلہ شروع ہوا جس میں کثیر تعداد میں مرد قتل کر دئے گئے یا گرفتار کئے گئے چناچہ 24لاکھ فرانس کے اور 6لاکھ انگلینڈ کے اور 4لاکھ لوگ اس جھنگ کی نظر ہو گئے۔

جس سے مردوں اور خواتین میں اتنا خلا واقعہ ہوگیا کہ جس کو اتنی جلدی کنٹرول کرنا یورپ کے بس کی بات نہ تھی اور نہی یورپی مذاہب میں تعدد ازواج جیسا اسلامی سنہرہ قانون تھا کہ کہ ہنگامی بنیادوں میں اس خلاءکو پور کرکے معاشرے کو جنسی اور اخلاقی برائیوں سے نجات مل سکے یہ شان بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عطاءکی اور حکم دیا ۔ 

جنگ عظیم میں باقی ماندہ بوڑھے اور بچے عورتوں کے رحم کرم پر جینے لگے عورت کو اپنے متعلقین کی بھوک سے مر جانے کے ڈرنے عورت کو مذیر کارخانوں کی طرف رخ کرنے پر مجبو ر کردیا عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے لگ گئی جس کی وجہ سے عورت اپنی نسوانیت اور حرمت دونوں سے محروم ہو گئی کارخانوں کے مالکان کو اب صرف کام کرنے والے ہاتھوں کی تلاش نہیں تھی بلکہ وہ عورت کی اس بے بسی کو دیکھ کر اپنی خواہشات نفسانی کی تسکین کے لیے سامان بھی تلاش کر نے لگے اور اسے سنہرہ موقعہ سمجھ کر اس کا خوب فائدہ اُٹھانے لگے۔ یو عورت کو دھرے ظلم کا شکار ہونا پڑا ایک طرف مذدوری کی مشقت صنف نازک پر آن پڑی تو دوسری طرف کارخان مالکان کا دل بھلانا اور یو عورت کو یورپ میں اتنی بے بسی اور لاچاری کا سامنا پڑا کہ عورت جذبات اور خواہشات کی نظر ہوگئی۔ عورت میں بناو�¿ سنگار جیسی خواہشات بڑھنے لگی مردوں کا دل پھلانااور جائز ناجائز سے طریقہ سے جنسی آسودگی حاصل کرنا عورت کا مقصد حیات بن گیا۔ یورپ میں مساوی حقوق کی جنگ اور عورت : چناچہ عورت نے اپنے مساوی حقوق کے حصول کے لیے میدان میں آئی اور محنت شروع کر دی لیکن یورپی مرد اتنی آسانی سے اپنی بالادستی سے دست بردار ہونے والے نہیں تھے کہ وہ صنف نازک کے مقابلے میں اپنی آنا کی شکست کو قبول کرتے ۔ عورت کے اس احتجاج میں شدت آگئی اہل قلم نے بھی عورت کی اس جنگ میں بھر پور مدد کی تب جاکر عورت کو اپنے حقوق کی منزل مل گئی سب سے پہلے حق خواتین کا حق رائے دھی کا مطالبہ کیاگیا پھر رفتہ برفتہ عورت کی خواہشات کے قطروں نے سمندر کا رخ اختیار کیا پھر نعرہ لگا کہ عورت کو پارلمنٹ کا رکن ہوناچاہیے ، اس نعرے کی وجہ یورب کا اپنا ترتیب دیا ہوا معاشرہ تھا جس میں کسی بھی لحاظ سے مرد وزن کو برابر حقوق کا دعوی کرتا ہے لیکن یورب اس پر عمل کرنے سے قاصر تھا ۔ برطانیہ اور حقوق نسواں : یہ دور بھی عورت کے لیے سخت گیر ہوا مگر جلد ہی عورت کے مساوی حقوق تسلیم کر لئے گئے لیکن ان مساوی حقوق کو یورپی معاشرہ برداشت نہ کر سکا اور یومردوں کے حقوق کی پامالی کا ایک نیا باب کھلا ایک وقت ایسا آیا کہ قیادت وسیادت میں عورتیں مردوں سے کوسوں دور نکل گئی اور مرد وں نے اپنی ناکامی کا رونا شروع کردیا۔ 1710ءمیں برطانیہ نے حجاب پر پابندی عائد کردی عورتوں کو زبردستی کم کپڑے پہننے پر مجبور کیا عورت کو گھر کے ماحول سے نکال کر سڑکوں اور بازاروں کی زینت بنا دیا جس سے یورپ دنیاکی سب سے بڑی برائی کی اماجگاہ بن گیا ۔ 1995ءمیں بنجنگ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں عورت کی مظلومیت اور مقہوریت پر بحث کی گئی اور ایک بار پھر عورتوں کے حقوق میں مساوات کا فیصلہ کیا گیا اور یہ فیصلہ عالمی سطحی پر متعارف کرایا گیا۔ یورپی مساوات کی حقیقت : یورپ نے اپنے بخل اور سنگدلی اور محسن کشی کی وجہ سے کبھی انسانیت کو احترام سے نہیں نوازا کبھی اپنے مفاد سے ہٹ کر انسانیت کی بھلائی کا کوئی بھی کام سر انجا م نہیں دیا ہمیشہ انسان کو نقصان پہچانا یورپ کا طرہ امتیاز ہے ۔ آج کئی ہزار سال گزرنے چکے ہیں مگر یورپی مزاج میں زرہ برابر تبدیلی نہیں آئی اور نہ تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے ، الا ماشاءاللہ “ یورپ دور جدید میں بھی نام نہاد حقوق نسواں کا لگاتا ہے اور مساوات میں ہر لحاظ سے مرد اور عورت میں برابری کا اعلان کر تا ہے ، اور اسلام کو ان مساوات میں سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے جبکہ اسلام میں یورپ کی طرح کھوکھلا نعرہ نہیں بلکہ عملی طور پر اسلام مساوات کا درس دیتا ہے مرد اور عورت کے وظیفہ حیات میں اسلام عوت کی جبلت اور نسوانیت کے اعتبار سے فرق کرتا ہے اور یورپ مقصد حیات میں بھی مساوات کا حامی ہے جس پر خود وہ عمل کرنے سے قاصر نظر آتا ہے ۔ جب ہم یورپ میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیتے ہیں تو چند مسائل یورپ میں ایسے نظر آتے ہیں سے یورپی مساوات کی حقیقت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ اگر یورپ اپنے نعروں میں سچاہے تو 2000سال سے ویٹی کن سٹی میں کسی عورت کو پوپ کے منصف پر فائز کیوں نہیں کرتا ؟؟ دنیا کے ہر چرچ میںمرد عورت ایک ساتھ عبادت کرتے ہیں۔ مگر آج تک کسی عور ت کو دعا کی قیادت کیوں نہیں دی جاتی ۔ اسی طرح یورپ کا سب سے بڑا مدح بھارت جس میں ھندوں مرد عورت ایک ساتھ پوجا کرتے ہیں مگر اس میں آج تک کسی خاتون کو گروہ کے عہدے پر فائز کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اسلام جو اعلان کیا ہے ۔”الرجال قوامون علی النساءبمافضل اللہ بعضہم علی بعض و بما انفقو من اموالھم “) آیت نمبر 34سورة نساءپارہ 5رکوع نمبر 1 ( ترجمہ ؛اللہ تعالیٰ نے فوقیت دی ہے مردوں کو عورتوں پر اس وجہ سے کہ یہ مرد ان پر خرچ کریں اپنے مالوں میں سے ،

یہ سنہرہ قانون اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دیا اور انسانیت کو بتلادیا کہ دیکھو مردوں کا کا م یہ ہے اور عورت کا کام یہ ہے مرد کاکام گھر میں کماکر لانا ہے اور عورت کا کا م بچوں کی پر ورش اور اپنی عزت کا خیال رکھنا ہے ،یورپ نے اپنی پوری کوشش کے باوجود اس حقیت سے پہلوتہی نہیں کرسکا اور نہ ہی کر سکتا ہے ، اسلام دشمنی اور اپنی سرشت سے مجبور ہو کر اس کا اعتراف نہیں کرتا ۔

یورپ میں حقوق نسواں کی پامالی موجودہ دور میں : یورپ میں حقوق نسوان کی پامالی کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ یورپ اپنے نعروں میں کتنا کھوکھلا ہے۔یورپ میں امریکی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 60فیصد خواتین اپنے باس یا سینئر کے ہاتھوں جنسی بلک میلنگ اور جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ہرسال 10لاکھ کی کمسن بچیاں ناجائز بچوں کی ماں بنتی ہیں اور اتنی ہی تعداد اسقاط حمل کرواتی ہیں۔15ہزار امریکی خواتین اپنے خاوند بوائے فرینڈ کے ہاتھوں اپنی جان گنواہ دیتی ہیں۔ 34فیصد خواتین ایسی ہیں جو اپنے شوہر کا ظلم سہتے سہتے قتل ہوجاتیں ہیں،30فیصد زخمی حالت میں ایسی آتی ہیں جن کو ان کے خاوند نے زخمی کیا ہوتا ہے۔ ہر 30سیکنڈ کی مقدار میں ایک عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے،غیر سرکاری اداروں کے مطابق 3لاکھ 12ہزار سے زیادہ خواتین تشدد کا شکار بنتی ہیں جبکہ سرکاری اداروں 3لاکھ 10ہزار سے زیادہ اس کی تعداد بتاتے ہیں۔ ایک سال میں دو لاکھ سے زائد بچے زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں جن میں سے 75فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں۔ دن میں 100میں سے 35بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جن کے والد کا پتہ نہیں ہوتا دنیا میں آنے کے بعد ان کے والد کی جگہ والدہ کا نام چلتا ہے۔ مگر یورپ میں عورت کے ساتھ اتنے برے سلوک کے باوجود اسلام کوہی ہمیشہ مورد الزام ٹھرانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ رپورٹ سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یورپ حقوق نسواں کا نعرہ صرف لوگوں کو اسلام سے دور کرنے لیے لگاتا ہے مگر یورب اس بات سے بے خبر ہے کہ جتنا بھی وہ اسلام کو سازشوں کے زریعے دبانے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی اسلام پھیلتا جاتا ہے ۔ اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک رکھ دی ہے ۔۔یہ اتنا ہی اُبھرے گا جتنا کہ دباو�¿ گے


ŶÿžŬǜ == Heading text ==nazir nasir gilit nasir abad

جامعہ فاروقیہ کراچ یشیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم[ترمیم]

تعارف حضرت شیخ الحدیث بانی ٴجامعہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم کی شخصیت برصغیر پاک وہند کے علمی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ حضرت کے اجداد پاکستان کے جس علاقے سے ہندوستان منتقل ہوئے آج وہ علاقہ خیبر ایجنسی میں تیراہ کے قریب چورا کہلاتا ہے۔ آپ 25 دسمبر 1926ء کو ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے مشہور قصبہ حسن پورلوہاری کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے، آپ کا تعلق آفریدی پٹھانوں کے ایک خاندان ملک دین خیل سے ہے۔ حسن پور لوہاری ہمیشہ اکابرین کا مسکن ومرجع رہا ہے۔ حضرت حاجی امدادالله مہاجرمکی کے شیخ میاں جی نور محمد صاحب ساری زندگی اسی گاؤں میں سکونت پذیر رہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم حضرت حکیم الامت کے مشہور خلیفہ مولانا مسیح الله خان صاحب کے مدرسہ مفتاح العلوم میں حاصل کی۔ 1942ءء میں آپ اپنے تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے لیے ازہر ہند، دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے، جہاں آپ نے فقہ، حدیث و تفسیر و دیگر علوم وفنون کی تکمیل کی اور1947ء میں آپ نے امتیازی نمبرات کے ساتھ سند فراغت حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے علاقے میں موجود اپنے استادو مربی حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب رحمة الله علیہ، خلیفہ خاص حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ، کی زیر نگرانی مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں تدریسی وتنظیمی امور انجام دینے شروع کیے۔ آٹھ سال تک شب وروز کی انتہائی مخلصانہ محنت کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ مدرسہ حیرت انگیز طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا اور مدرسہ کے طلبا کا تعلیمی اور اخلاقی معیار اس درجہ بلندا ہوا کہ دارالعلوم دیوبند اور دیگر بڑے تعلیمی اداروں میں یہاں کے طلبا کی خاص پذیرائی ہونے لگی۔

مدرسہ مفتاح العلوم میں آٹھ سال کی شبانہ روز محنتوں کے بعد حضرت شیخ الحدیث مدظلہ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ کی قائم کردہ پاکستان کی مرکزی دینی درس گاہ دارالعلوم ٹنڈوالہ یار سندھ میں تدریسی خدمات انجام دینے کے لیے پاکستان تشریف لے آئے۔ تین سال یہاں پر کام کرنے کے بعد آپ ملک کے معروف دینی ادارے دارالعلوم کراچی میں تشریف لائے اور پھر مسلسل دس سال دارالعلوم کراچی میں حدیث ، تفسیر، فقہ، تاریخ ، ریاضی ، فلسفہ اور ادب عربی کی تدریس میں مشغول رہے ، اسی دوران آپ ایک سال حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمة الله علیہ کے اصرار پر جامعة العلوم الإسلامیہ بنوری ٹاؤن میں دارالعلوم کی تدریس کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں مختلف اسباق پڑھانے کے لیے تشریف لاتے رہے۔

قدرت نے آپ کی فطرت میں عجیب دینی جذبہ ودیعت فرمایا تھا جس کے باعث آپ شب وروز کی مسلسل اور کامیاب خدمات کے باوجود مطمئن نہیں تھے اور علمی میدان میں ایک نئی دینی درس گاہ ( جو موجودہ عصری تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہو) کی تاسیس کو ضروری خیال فرماتے تھے۔ چناں چہ23 جنوری1967ء مطابق شوال1387ھ میں آپ نے جامعہ فاروقیہ کراچی کی بنیاد رکھی۔ آپ کی یہ مخلصانہ کوشش الله تبارک وتعالیٰ کے ہاں اتنی قبول ہوئی کہ تاسیس جامعہ کے بعد سے لے کر اب تک (سن 2007ء)کے مختصر عرصہ میں جامعہ نے تعلیمی وتعمیری میدان میں جو ترقی ہے وہ ہر خاص وعام کے لیے باعث حیرت ہے ۔ فللہ الحمد علی ذلک آج الحمدلله جامعہ فاروقیہ کراچی ایک عظیم دینی و علمی مرکزکی حیثیت سے پاکستان اور بیرون پاکستان ہر جگہ معروف مشہور ہے اور یہ الله تبارک وتعالیٰ کے فضل واحسان اور حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب کی مخلصانہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

حضرت شیخ الحدیث زید مجدہ کا وفاق المدارس سے لازوال تعلق

حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی تعلیمی خدمات کو سراہتے ہوئے 1980ء میں آپ کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا آپ نے وفاق کی افادیت اور مدارس عربیہ کی تنظیم وترقی اور معیار تعلیم کے بلندی کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ وفاق کی تاریخ میں ایک قابل ذکر روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے وفاق المدارس العربیہ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ درج ذیل ہیں:

  1.
     آپ نے وفاق کے طریقہ امتحانات کو بہتر شکل دی ، بہت سی بے قاعدگیاں پہلے ان امتحانات میں ہوا کرتی تھیں انہیں ختم کیا۔
  2.
     پہلے وفاق میں صرف ایک امتحان دورہ حدیث کا ہوا کرتا تھا۔ آپ نے وفاق میں دورہ حدیث کے علاوہ سادسہ(عالیہ)، رابعہ،ثالثہ(ثانویہ خاصہ) ثانیہ (ثانویہ عامہ) ، متوسطہ، دراسات دینیہ اور درجات تحفیظ القرآن الکریم کے امتحانات کو لازمی قرار دیا۔
  3.
     نئے درجات کے امتحانات کے علاوہ آپ نے ان تمام مذکورہ درجات کے لیے نئی دیدہ ذیب عالمی معیار کی سندیں جاری کروائیں۔
  4.
     وزارت تعلیم اسلام آباد سے طویل مذاکرات کیے جن کے نتیجے میں بغیر کسی مزید امتحان میں شرکت کیے وفاق کی اسناد کو بالترتیب ایم اے، بی اے، انٹر، میٹرک، مڈل او رپرائمری کے مساوی قرار دیا گیا۔
  5.
     فضلائے قدیم جو وفاق کی اسناد کے معادلے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فوائد سے محروم تھے ان کے لیے خصوصی امتحانات کا اہتمام کرایا تاکہ انہیں بھی وفاق کی سندیں فراہم کی جاسکیں۔
  6.
     وفاق سے ملحق مدارس میں پہلے سے موجود قلیل تعداد کو جو چند سو پر مشتمل تھی اور جس میں ملک کے بہت سے قابل ذکر مدارس شامل نہیں تھے اپنی صلاحتیوں سے قابل تعریف تعداد تک پہنچایا۔ اب (2007ء میں) یہ تعداد پندرہ ہزار مدارس وجامعات پر مشتمل ہے۔ جس کی بنا پر اب وفاق المدارس العربیہ کو ملک کی واحد نمائندہ تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
  7.
     مدارس عربیہ میں موجود نظام کو بہتر کرنے کے لیے آپ نے نصاب درس اصلاحی کی مہم شروح کی چناں چہ اب پورے پاکستان میں یکساں نصاب پورے اہتمام سے پڑھایا جارہا ہے ۔جبکہ پہلے صورت حال نہایت ابتر تھی اور تقریباً ہر مدرسہ کا اپنا الگ الگ نصاب ہوا کرتا تھا۔
  8.
     وفاق کے مالیاتی نظام کو بھی آپ نے بہتر کیا جب کہ پہلے کوئی مدرسہ اپنی فیس یا دیگر واجبات ادا کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتا تھا۔ اب آپ کی مسلسل توجہ کے نتیجے میں وفاق ایک مستحکم ادارہ بن چکا ہے۔
  9.
     آپ نے وفاق کی مرکزی دفاتر کی طرف بھی توجہ فرمائی اور اس کے لیے بہتر ومستقل عمارت کا انتظام کرایا جب کہ اس معاملے میں پہلی عارضی بندوبست اختیار کیا جاتا تھا۔
 10.
     آپ کی انہی گراں قدر خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو1989 میں وفاق کا صدر منتخب کر لیا گیا، جب سے لے کر آج تک آپ بحیثیت صدر وفاق کی خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں۔
 11.
     الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب مدظلہم کے بے بایاں فیوض کو صحت وسلامتی کے ساتھ ہمارے لیے اور سارے عالم کے لیے قائم ودائم رکھیں۔ آمین۔
 12.
     الله تبارک وتعالیٰ نے حضرت کو تدریسی میدان میں جو کمال عطا ء فرمایا ہے وہ قدرت کی عنایات کا حصہ ہے آپ کی تدریسی تاریخ تقریباً نصف صدی پر محیط ہے، بے شمار لوگ آپ کے چشمہٴ فیض سے سیراب ہوئے ہیں، قدرت نے آپ کو فصاحت وبلاغت کا وافر حصہ عطا فرمایا ہے، مشکل بحث کو مختصر اور واضح پیراے میں بیان کرنا آپ ہی کی خصوصیت ہے۔
 13.
     گزشتہ کئی سالوں سے آپ کے تقریری ودرسی ذخیرے کو مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور آپ کے صحیح البخاری کے دروس کشف الباری اور مشکوٰة المصابیح کے لیے آپ کی تقاریر نفحات التنقیح کے نام سے شائع ہو کر علماء وطلبا میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں، اب تک (سن2007) کشف الباری کی 12 جلدیں اور نفحات التنقیح کی تین جلدیں منصہ شہود پر آچکی ہیں جب کہ بقیہ جلدوں پر کام جاری ہے۔ M. Nazir Nasir gilgiti

﴾یورپ اور حقوق نسواں﴿ ٭محمد نذیر ناصر طالیبانی٭[ترمیم]

﴾یورپ اور حقوق نسواں﴿ ٭محمد نذیر ناصر طالیبانی٭

٭ یورپ نے کبھی بھی انسان کو احترام نہیں دیا جو بحیثیت انسان احترام کا حقدار ہے مغرب میں بھی عورت کا بھی یہی حال رہا ہے ہمیشہ عورت کو متنازع بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً جب ہم عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور قبل میں فرانسیوں نے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی جس کا کا م اس بات پر تحقیق کرنا تھا کہ عورت میں روح انسانی ہے یا حیوانی ہے ٹیم بلآ خر اس نتیجہ پر پہنچی کہ عورت تو انسان ہے لیکن اس کا مقصد تخلیق مرد کی خدمت کر نا ہے ۔ 158ءمیں انگریزی قانون نے مردوں کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ چاہیں تو اپنی بیوں کو فروخت کر سکتے ہیں عورت کی قیمت بھی رائج سکے کے مطابق مقرر کردی تھی اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی مشہور ہے کہ ایک اٹالین مرد نے اپنی بیوی کو قسطوں کی مد میں فروخت کر دیا تھا جب خریدار قسط ادا نہیں کر سکا تو اس کو اٹالین نے قتل کردیا ۔ مغربی مذاہب عورت کو معاصی کی جڑ اور انسانی مشکلات کا سب سے بڑا سبب قرار دیتے ہیں۔ عسائیوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ عورت چاہے جتنی بھی خوبصورت ھسین اور جمیل ہو اس کے لیے شرم حیاءلازمی آنی چاہیے کیونکہ وہ گناہوں کا سب سے بڑا سببب ہے۔ دور قدیم روما اور یونان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عورت کو معاشرے میں مرکزی حثیت حاصل تھی یہ سب حقیقت کے بر عکس باتیں ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں اصل حقیقت تو یہ ہے کہ نسوانیت کی منزلت وہ ہر گز نہیں تھی جس کو یونان اور روما نے متعارف کرایا تھا ۔ روما اور یونان میں تو مرکزی حثیت کی حامل وہی خواتین تھی جن کا تعلق بڑھے گھرانوں سے ہوتا جو اپنے اوصاف کی وجہ سے تقریبات کی روح روان سمجھی جاتی تھی ایسی عورت کی آوبگت صرف عیاش طبقہ کرتا تھا کیونکہ ایسی خواتین بگڑے ہوئے طبقے کے لیے سامان تفریح کی حیثیت رکھتی تھی۔ حقوق نسوان کے علمبردار مغرب نے عورت کو بحیثیت انسان تعظیم اور تکریم سے کبھی نہیں نوازا بلکہ عورت کو ہمیشہ عیش وعشرت کا سامان بناکر پیش کرنے کی کوشش کی۔ جب ہم یورب کے مختلف ادار کے انقلابی کا جائزہ لیتے ہیں تو یورب کے نعرہ حقو ق نسوان اور داعوو�¿ں میں کھوکھلہ نظر آتا ہے کہ جو نعرہ یورپ کا آزادی نسواں کے نام کا یہ وہی نعرہ یورب کے ماحول اور معاشرے کے لی ناسور ثابت ہورہا ہے اور ادوار انقلاب کا جائزہ ۔ جاگیرداری نظام اور عورت :: جس وقت انگریز نے جاگیرداران نظام متعارف کرایا تو اس دور میں عورت کی حیثیت ایک مشین سی قرار دی گئی جس کا کا م بچے پیدا کرنا اور دن رات جانوروں کی طرح کام کرتے رہنا تھا اور عورت کا وظیفہ حیات اسی کو تسلیم کیا گیا تھا ۔ یور ب کا مزاج کج روی اور سنگدلی سے مرکب ہے جس کی وجہ سے ان کے اندر خلوص اور درد کا دور دور تک نام نشان نہیں ہوتا ۔ یورب اپنے فوائد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ پوری انسانیت کو مشکلات کی طرف دھکیلتا رہا ہے ۔ اور اگر اض بھی ہم یورپ کی طرف صرف نظر کریں تو ہمیں یہی نظر آئے گا کہ امریکہ ایشاءپر مداخلت کرتا ہے تو یہ اس کی سرشت کا حصہ ہے کہ وہ اپنے مفاد کے لیے پاکستان افغانستان عراق اور اب مصر اور لبنان وغیرہ مین بھی صرف اپنے مفاد کی جھنگ لڑ رہا ہے یہ تو تھی مثال یورب کی پیدا کردہ مشکلات کی ۔ صنعتی انقلاب اور عورت :: یورپ میں جب صنعتی انقلاب آیا تو عورت اور بچے گھر کی دھلیز پار کرکے اس صنعتی ڈوڑ میںشامل ہوگئے ، اور کارخانوں کا رخ کرلیا جہاں محنت مشقت کرنا پڑا پھر وہی مزدور طبقہ شہر کا رک کرنے لگا شہروں اخلاقی اعتبار سے تنزلی اور بے اصولی کی فضاءنے جنم لیا ۔ صنعتی انارکی میں مرد عورت اپنے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے جو موقع پاتے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس کی وجہ سے مردوں میں شادی کی خواہش نے دم توڑ دیا ، عورت کا احترام ختم ہوگیا عورت پہلے سے زیادہ مشقت اُٹھانے پر مجبور ہوگئی، مرد نے عورت کا سہارا بنے سے انکار کردیا، خاندانی نا انصافیاں عام ہوگئی، عورت سے کام زیادہ اور معاوضہ کم دیا جانے لگا۔ صنعتی دور میں کارخان والوں نے عورت کی مظلومیت سے ناجائز فائدہ اٹھا نا شروع کر دیا۔ صنعتی دور میں عورت کا احتجاج:: صنعتی دور میں عورتوں او ر بچوں پر جو مظالم بڑھائے گئے تھے بعض باضمیر افراد سے عورت اور بچوں کی یہ مظلومیت برداشت نہ ہوئی تو اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا ، چناچہ بچوں کے حقوق میں ان کو کامیابی تو ہوئی اور بچوں کی عمر ملازمت میں اضافہ کردیا گیا اور معاوضہ میں بھی اضافہ کر دیا گیا ۔ مگر عورت اسی طرح ظلم کا شکار بنی رہی کیونکہ ان کی کوئی فکر کرنے والا نہ تھا اور نہ ہی ان کے احتجاج کو کوئی سننے والا تھا ، ایسی فکر کے لیے تو ذہنی اور اخلاقی پاکیذگی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے یورپ خود محروم تھا عورت اپنے حقوق سے محروم ہی نہیں رہی بلکہ عورت کے مصائب و آلام میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا اور آج عور ت اس مقام پر آٹہری ہے جہاں اس کی عزت اور ناموس کو بہت سے خطرات کا سامنا ہے۔ جنگ عظیم اور عورت : جب جنگ عظیم کا سلسلہ شروع ہوا جس میں کثیر تعداد میں مرد قتل کر دئے گئے یا گرفتار کئے گئے چناچہ 24لاکھ فرانس کے اور 6لاکھ انگلینڈ کے اور 4لاکھ لوگ اس جھنگ کی نظر ہو گئے۔

جس سے مردوں اور خواتین میں اتنا خلا واقعہ ہوگیا کہ جس کو اتنی جلدی کنٹرول کرنا یورپ کے بس کی بات نہ تھی اور نہی یورپی مذاہب میں تعدد ازواج جیسا اسلامی سنہرہ قانون تھا کہ کہ ہنگامی بنیادوں میں اس خلاءکو پور کرکے معاشرے کو جنسی اور اخلاقی برائیوں سے نجات مل سکے یہ شان بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عطاءکی اور حکم دیا ۔

جنگ عظیم میں باقی ماندہ بوڑھے اور بچے عورتوں کے رحم کرم پر جینے لگے عورت کو اپنے متعلقین کی بھوک سے مر جانے کے ڈرنے عورت کو مذیر کارخانوں کی طرف رخ کرنے پر مجبو ر کردیا عورت مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے لگ گئی جس کی وجہ سے عورت اپنی نسوانیت اور حرمت دونوں سے محروم ہو گئی کارخانوں کے مالکان کو اب صرف کام کرنے والے ہاتھوں کی تلاش نہیں تھی بلکہ وہ عورت کی اس بے بسی کو دیکھ کر اپنی خواہشات نفسانی کی تسکین کے لیے سامان بھی تلاش کر نے لگے اور اسے سنہرہ موقعہ سمجھ کر اس کا خوب فائدہ اُٹھانے لگے۔ یو عورت کو دھرے ظلم کا شکار ہونا پڑا ایک طرف مذدوری کی مشقت صنف نازک پر آن پڑی تو دوسری طرف کارخان مالکان کا دل بھلانا اور یو عورت کو یورپ میں اتنی بے بسی اور لاچاری کا سامنا پڑا کہ عورت جذبات اور خواہشات کی نظر ہوگئی۔ عورت میں بناو�¿ سنگار جیسی خواہشات بڑھنے لگی مردوں کا دل پھلانااور جائز ناجائز سے طریقہ سے جنسی آسودگی حاصل کرنا عورت کا مقصد حیات بن گیا۔ یورپ میں مساوی حقوق کی جنگ اور عورت : چناچہ عورت نے اپنے مساوی حقوق کے حصول کے لیے میدان میں آئی اور محنت شروع کر دی لیکن یورپی مرد اتنی آسانی سے اپنی بالادستی سے دست بردار ہونے والے نہیں تھے کہ وہ صنف نازک کے مقابلے میں اپنی آنا کی شکست کو قبول کرتے ۔ عورت کے اس احتجاج میں شدت آگئی اہل قلم نے بھی عورت کی اس جنگ میں بھر پور مدد کی تب جاکر عورت کو اپنے حقوق کی منزل مل گئی سب سے پہلے حق خواتین کا حق رائے دھی کا مطالبہ کیاگیا پھر رفتہ برفتہ عورت کی خواہشات کے قطروں نے سمندر کا رخ اختیار کیا پھر نعرہ لگا کہ عورت کو پارلمنٹ کا رکن ہوناچاہیے ، اس نعرے کی وجہ یورب کا اپنا ترتیب دیا ہوا معاشرہ تھا جس میں کسی بھی لحاظ سے مرد وزن کو برابر حقوق کا دعوی کرتا ہے لیکن یورب اس پر عمل کرنے سے قاصر تھا ۔ برطانیہ اور حقوق نسواں : یہ دور بھی عورت کے لیے سخت گیر ہوا مگر جلد ہی عورت کے مساوی حقوق تسلیم کر لئے گئے لیکن ان مساوی حقوق کو یورپی معاشرہ برداشت نہ کر سکا اور یومردوں کے حقوق کی پامالی کا ایک نیا باب کھلا ایک وقت ایسا آیا کہ قیادت وسیادت میں عورتیں مردوں سے کوسوں دور نکل گئی اور مرد وں نے اپنی ناکامی کا رونا شروع کردیا۔ 1710ءمیں برطانیہ نے حجاب پر پابندی عائد کردی عورتوں کو زبردستی کم کپڑے پہننے پر مجبور کیا عورت کو گھر کے ماحول سے نکال کر سڑکوں اور بازاروں کی زینت بنا دیا جس سے یورپ دنیاکی سب سے بڑی برائی کی اماجگاہ بن گیا ۔ 1995ءمیں بنجنگ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں عورت کی مظلومیت اور مقہوریت پر بحث کی گئی اور ایک بار پھر عورتوں کے حقوق میں مساوات کا فیصلہ کیا گیا اور یہ فیصلہ عالمی سطحی پر متعارف کرایا گیا۔ یورپی مساوات کی حقیقت : یورپ نے اپنے بخل اور سنگدلی اور محسن کشی کی وجہ سے کبھی انسانیت کو احترام سے نہیں نوازا کبھی اپنے مفاد سے ہٹ کر انسانیت کی بھلائی کا کوئی بھی کام سر انجا م نہیں دیا ہمیشہ انسان کو نقصان پہچانا یورپ کا طرہ امتیاز ہے ۔ آج کئی ہزار سال گزرنے چکے ہیں مگر یورپی مزاج میں زرہ برابر تبدیلی نہیں آئی اور نہ تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے ، الا ماشاءاللہ “ یورپ دور جدید میں بھی نام نہاد حقوق نسواں کا لگاتا ہے اور مساوات میں ہر لحاظ سے مرد اور عورت میں برابری کا اعلان کر تا ہے ، اور اسلام کو ان مساوات میں سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے جبکہ اسلام میں یورپ کی طرح کھوکھلا نعرہ نہیں بلکہ عملی طور پر اسلام مساوات کا درس دیتا ہے مرد اور عورت کے وظیفہ حیات میں اسلام عوت کی جبلت اور نسوانیت کے اعتبار سے فرق کرتا ہے اور یورپ مقصد حیات میں بھی مساوات کا حامی ہے جس پر خود وہ عمل کرنے سے قاصر نظر آتا ہے ۔ جب ہم یورپ میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیتے ہیں تو چند مسائل یورپ میں ایسے نظر آتے ہیں سے یورپی مساوات کی حقیقت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ اگر یورپ اپنے نعروں میں سچاہے تو 2000سال سے ویٹی کن سٹی میں کسی عورت کو پوپ کے منصف پر فائز کیوں نہیں کرتا ؟؟ دنیا کے ہر چرچ میںمرد عورت ایک ساتھ عبادت کرتے ہیں۔ مگر آج تک کسی عور ت کو دعا کی قیادت کیوں نہیں دی جاتی ۔ اسی طرح یورپ کا سب سے بڑا مدح بھارت جس میں ھندوں مرد عورت ایک ساتھ پوجا کرتے ہیں مگر اس میں آج تک کسی خاتون کو گروہ کے عہدے پر فائز کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اسلام جو اعلان کیا ہے ۔”الرجال قوامون علی النساءبمافضل اللہ بعضہم علی بعض و بما انفقو من اموالھم “) آیت نمبر 34سورة نساءپارہ 5رکوع نمبر 1 ( ترجمہ ؛اللہ تعالیٰ نے فوقیت دی ہے مردوں کو عورتوں پر اس وجہ سے کہ یہ مرد ان پر خرچ کریں اپنے مالوں میں سے ،