تبادلۂ خیال:زینب بنت علی

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تمام انٹروکی روابط غلط ہونے کی بنا پر مضمون واپس پلٹ دیا سیف اللہ (تبادلۂ خیال) 09:41, 30 جنوری 2007 (UTC)

درست اندراج[ترمیم]

درست اندراج کر دیا گیا ہے۔ سید سلمان رضوی

کربلا کی شیر دل خاتون[ترمیم]

زینب کبری کی تحریک

زینب کبریٰ سلام اللہ علیہاایک عظیم خاتون ہیں۔ مسلمانوں کی نظر میں اِن عظیم خاتون کو جو عظمت حاصل ہے وہ کس وجہ سے ہے؟ یہ نہیں کہا جاسکتاکہ آپ کو یہ عظمت اِس لیے حاصل ہے کہ آپ علی ابن ابیطالب علیه السلام کی بیٹی اور حسنین کریمین کی بہن ہیں۔ (کیونکہ صرف یہ) نسبتیں ہرگزایسی عظمت کا سبب نہیں بن سکتیں۔ ہمارےباقی ائمہ طاہرین علیهم السلام کی بھی مائیں اور بہنیں تھیں، لیکن اُن میں سے کوئی بھی ایسی ہے۔ زینب کبری جیسی کون ہے ؟ زینب کبری کی اہمیت اورآپ کی عظمت، آپ کی عظیم اسلامی اور انسانی تحریک اور موقف کی وجہ سے ہے، جسے آپ نے فریضہ الٰہی کی بنیاد پر انجام دیاتھا۔ آپ کے کام، آپ کے فیصلے اور آپ کی تحریک کی نوعیت نے ،آپ کو ایسی عظمت عطا کی ہے۔(پس)جو خاتون بھی ایسا کام کرے گی اگرچہ وہ امیرالمومنین امام علی علیه السلام کی بیٹی نہ بھی ہو، تب بھی ایسی عظمت حاصل کر سکتی ہے۔ اِس عظمت کا بہترین حصّہ یہ ہے کہ آپ نے پہلے مرحلے میں ہی موقع شناسی کا ثبوت دیا، امام حسین علیہ السلام کے کربلا جانے سے پہلے کے موقعہ کو بھی پہچانا اور روز ِعاشورا کے بحرانی موقعہ کو بھی اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے واقعات کے موقعہ کو بھی پہچانا اور دوسرے مرحلے میںہر موقع کی مناسبت سے الگ الگ اقدام کا انتخاب کیا اور انہی اقدامات نے زینب کبری کی شخصیت کوعظیم ترین بنادیا۔ کربلاکی جانب روانگی سے پہلے ابنِ عباس اور ابن جعفر جیسے بزرگان اور صدرِ اسلام کی نامور شخصیات جو فقاہت، شہامت، ریاست اورآقازادگی کے دعویدار تھیں، وہ بھی شش و پنج کا شکار ہوگئیں تھیں، وہ یہ نہیں سمجھ سکیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے؟ لیکن زینب کبری علیہا السلام شش وپنج کا شکار نہیں ہوئیں۔ بلکہ وہ سمجھ گئیں کہ آپ کو اس راستے کا انتخاب کرنا چاہیے اور اپنے امام کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے اور آپ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ چلی گئیں۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ آپ نہ جانتی ہوں کہ یہ راستہ بہت سخت ہے۔ بلکہ آ پ دوسروں سے بہتر اِس بات کو محسوس کررہی تھیں۔ آپ ایک خاتون تھیں، جو اپنے فریضے کی ادائگی کے لیے اپنے شوہر اور خاندان سے دور ہورہی تھیں، اس بناء پر اپنے چھوٹے بچوں اور نوجوان بیٹوں کو اپنے ساتھ لیا۔ آپؑ محسوس کررہی تھیں کہ کیسا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ ایسے بحرانی حالات میں، جب طاقتور ترین مرد حضرات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اِنہیں کیا کرنا چاہیے، لیکن آپ اپنا فریضہ سمجھ گئیں اور اپنے امام کی حمایت کرتے ہوئے آپ کو شہادت کے لیے تیار کیا۔امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد جب دنیا تاریک ہوگئی، دل و جان اور آفاقِ عالم پر اندھیرا چھاگیا، تو یہ عظیم خاتون روشنی بن کر چمکنے لگیں۔ حضرت زینب اُس منزل پر فائز ہوگئیں کہ جہاں تک تاریخِ بشریت کے صرف بلندترین افراد ہی پہنچ سکتے ہیں۔ یقیناً اگر حضرت زینب سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں تو واقعۂ کربلا باقی نہ رہتا اور نہ ہی آپ کے بغیر عاشور کا واقعہ اتنا عام ہوتا اور تاریخ میں زندہ و جاوید بن کر ابھرتا؛واقعۂ عاشورا کے آغاز سے آخرتک علی کی بیٹی زینبِ عُلیا مقام کی شخصیت اور کردار اتنا نمایاں ہے کہ انسان یہ سوچنے لگتاہے کہ یہ ایک خاتون کے لباس اور علی علیہ السلام کی بیٹی کی صورت میں ایک دوسرا حسینؑ ہے۔ قطعِ نظر اس کے کہ اگر جناب زینب سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں تو عاشور کے بعد کیا ہوتا، شاید امام زین العابدین علیہ السلام بھی شہید کر دیئے جاتے، شاید امام حسین علیہ السلام کا پیغام کہیں بھی نہ پہنچتا۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے پہلے بھی جناب زینب سلام آپ کے لیے ایک ایسے سچے غمخوار کی مانندتھیں کہ ان کی موجود گی میں امام حسین علیہ السلام کبھی بھی تنہائی اور تھکاوٹ کا احساس نہیں کرتے تھے۔ انسان ایسے کردار کوجناب زینب کے مقدس چہرے،آپ کے فرمودات اور آپ کے کردار میں مشاہدہ کرسکتاہے۔

زینب کبری کربلا کی شیر دل خاتون

دو مرتبہ جناب زینب سلام اللہ علیہا نے کسی حد تک بے قراری کا احساس کیا اور امام حسین علیہ السلام کے پاس جاکر اپنی اِس بے چینی کا اظہار بھی کیا۔ ایک مرتبہ مکہ سے کربلا جاتے ہوئے ،کسی ایک منزل پہ جب حضرت مسلم ابن عقیل کی شہادت سے متعلق مختلف خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہابھی آخر ایک عورت تھیں، وہ بھی زنانہ جذبات رکھتی تھیں اور لطیف زنانہ احساسات کی مالک تھیں؛ بلکہ جذبات اور احساسات کا اصلی مظہرتو خاندانِ پیغمبرﷺ ہے۔ تمام ترطاقت، شجاعت اور مصائب و مشکلات کے مقابلے میں ڈٹ جانے کے باوجود انسانی نفاست، پاکیزگی اور انسانی ترحُّم کا جوش مارتاہوا سرچشمہ بھی تویہی خاندان ہی ہے۔ ہم امام حسین علیہ السلام کی مثال پیش کرتے ہیں، وہ حسین علیہ السلام جو پوری دنیا کے مقابلے میں کھڑےہوجاتے ہیں یا ایک صحرا میں بھرے بھیڑیوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے سے نہیں گھبراتے ،لیکن وہی شخص کبھی بعض چھوٹی چھوٹی چیزوں کے مقابلے میں منقلب ہوجاتے ہیں مثلاً اُس وقت جب ایک حبشی غلام زخمی ہوکر زمین پر گرگیا، شایدوہ ابوذر غفاری کا غلام’’ جون‘‘ تھا جو امام کے چاہنے والوں اور آپ کے ارادتمندوں میں سے تھا۔ اجتماعی اور معاشرتی حوالے سے اُس دور کے مسلمانوں میں غلام کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتاتھااور نہ ہی خاندانی لحاظ سے کسی اعلیٰ خاندان سے اس کا تعلق تھا۔ عاشور کے دن کربلاکے میدان میں امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں بڑے بڑے لوگوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کیے ،جیسے حبیب ابن مظاہر، زہیر ابن قین اور دیگر شہداء کربلا جن کا شمار کوفہ کے بزرگوں میں ہوتاتھا ،ان میں سے کسی کی شہادت پر امام حسین علیہ السلام نے ایسا ردِّ عمل ظاہر نہیں کیا تھا، جو ردِّعمل اِس حبشی غلام کی شہادت پر دکھایا۔ جب مسلم بن عوسجہ زخمی ہوکر زمین پر گرپڑے تو آپ نے مسلم بن عوسجہ سے مخاطب ہوکر کہا:’’ انشاء اللہ تم اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر پاؤ گے۔‘‘ لیکن یہ حبشی غلام گرتا ہے کہ جسکی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اُس کا کوئی رشتہ دار اِس پر رونے والا ہے توامام حسین علیہ السلام ٓگے بڑھتے ہیں اور اِس غلام کےساتھ وہی کچھ کرتے ہیں جو آپ نے حضرت علی اکبر کے ساتھ کیاتھا؛ یعنی امام حسین علیہ السلام اِس غلام کے سرہانے زمین پر بیٹھ گئے اور اس کے خون آلود سر کو اپنے زانو پر رکھا، لیکن امام کے دل کو اب بھی سکون نہیں ملااور سب نے یہ منظر دیکھا کہ ایک مرتبہ امام عالی مقام نے اپنے چہرہ مبارک کو ’’جون ‘‘کے خون آلود چہرے پر رکھا۔ یوں انسانی ہمدردی اور احساس کا ایک عجیب منظر سامنے آگیا ! لہٰذا حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ایک عورت کی حیثیت سے لطیف زنانہ احساسات کے ساتھ، نہ کہ ایک عام عورت کی حیثیت سے ،بلکہ امام حسین کی بہن اورایک ایسی بہن جو اپنے دل و جان سے اپنے بھائی کو چاہتی ہے، ایک ایسی بہن جو اپنے شوہر اور گھربار کو چھوڑ کر امام حسین کے ساتھ آگئی ہے اور وہ بھی تنہا نہیں آئی، بلکہ اپنے ساتھ اپنے دونوں بیٹوں عون و محمدکو بھی لے آئی ہے، تاکہ وہ ان کے ساتھ رہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی ضرورت پڑے توانہیں قربان کر سکیں۔ لیکن اِس کے باوجود جناب زینب سلام اللہ علیہا نے جب راستے میں ایک منزل پر خطرے کا احساس کیا تو امام حسین علیہ السلام کے پاس جاکر عرض کی بھائی جان!مجھے خطرے کی بو آرہی ہے، حالات خطرناک لگ رہے ہیں۔ اگرچہ آپ جانتی تھیں کہ جانوں کے نذرانے پیش کرنے ہیں اور قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی ہیں؛ لیکن اِس کے باجود اِس حد تک حالات کے دباؤ میں آجاتی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام سے رجوع کرتی ہیں، اِس موقع پر امام حسین علیہ السلام ٓپ سے کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کرتے، بلکہ امام فرماتے ہیں کوئی بات نہیں، اللہ جو چاہے وہی ہوگا،یعنی آپ نے تقریباً اس قسم کا ایک جملہ کہا:مَا شَائَ اللّٰہُ کَانَ جو اللہ چاہے گا وہ ہوکر رہے گا۔‘‘ اس کے بعد تاریخ میں ہمیں کچھ نہیں ملتاہے کہ حضرت زینب نے امام حسین علیہ السلام سے حالات کے متعلق کچھ کہا ہو یا کوئی سوال کیا ہو یا اپنے چہرے سے کسی قسم کی پریشانی کا اظہار کیا ہو۔ سوائے شب عاشور کے۔ شبِ عاشور کے ابتدائی حصّے کے بارے میں بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِس موقع پر بھی جناب زینب کبری علیہا السلام شدت غم سےبے چین ہوئیں، اِس واقعہ کے راوی خود امام زین العابدین علیہ السلام ہیں جو اُس وقت بیمار تھے ،آپ فرماتے ہیں: میں اپنے خیمے میں لیٹا ہواتھا اور پھوپھی زینب علیہا السلام میری تیمار داری میں مشغول تھیں ،ہمارے ساتھ والے خیمے میں میرے بابا امام حسین علیہ السلام تشریف فرماتھے۔ آپ کے خیمے میں جناب ابوذر کاغلام ’’جون‘‘آپ کی تلوار کو صیقل کر رہاتھا اور اس کی دھار سدھار رہا تھا، گو یا امام کل کی جنگ کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہے تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام نے زیرِلب کچھ اشعار پڑھنا شروع کیے اور ایک شعر پڑھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ: دنیا نے اپنا رُخ موڑلیا ہے اور زندگی انسان سے وفا نہیں کرتی اور موت نزدیک ہے: یَادَہْرُ اُفٍّ لَکَ مِنْ خَلِیْلِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کَمْ لَکَ بِالاِشْرَاقِ وَالأصِیْلِ اے زمانے !تف ہو تیری دوستی پر! تو اپنے بہت سے دوستوں کو صبح و شام موت کے سپرد کردیتا ہے ۔ یہ اِس بات کی علامت ہے کہ جو شخص یہ شعر پڑھ رہاہے اُسے یقین ہے کہ وہ بہت ہی جلد اِس دنیا سے رخصت ہونے والاہے۔ امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں :جب میں نے یہ شعر سنا تو اس کے معنی اور مفہوم کو بھی سمجھ گیا،یعنی میں جان گیا کہ امام حسین علیہ السلام اپنی شہادت کی خبردے رہے ہیں؛ لیکن میں نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ مگر پھوپھی زینب علیہا السلام یہ سن کے پریشان ہوگئیں اور اُٹھ کر بھائی کے خیمے میں چلی گئیں اور امام حسین علیہ السلامسے مخاطب ہوکرکہنے لگیں: بھائی جان!میں سن رہی ہوں کہ آپ اپنی شہادت کی خبر دے رہے ہیں۔ جب باباشہید ہوئے، تو ہم نے کہا ہمارے بھائی موجود ہیں اور جب بھائی حسن علیہ السلامشہید ہوئے تو ہم نے کہا: ہمارے بھائی حسین علیہ السلامموجود ہیں اور کئی سالوںسے آپ ہی کے بھروسے پر جی رہی ہیں اور آج میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ بھی اپنی شہادت کی خبر دے رہے ہیں۔

کربلا میں حضرت زینب کا کردار

البتہ پریشان ہوناحضرت زینب سلام اللہ علیہا کا حق بھی بنتاہے۔ میں تصّور کرسکتاہوں کہ اُس دن زینب کبری سلام اللہ علیہاکی جو حالت تھی وہ ایک استثنائی حالت تھی؛ کسی بھی عورت، یہاں تک کہ خود امام زین العابدینعلیہ السلام کی حالت کا بھی زینب کبری سلام اللہ علیہا سے موازنہ نہیں کیا جاسکتاہے۔ حضرت زینب علیہا السلام کی حالت انتہائی سخت اور طاقت فرسا تھی۔ (قافلے میں شامل) تمام مرد عاشور کے دن شہید کر دیے گئےتھے۔ عصرِ عاشور ان خیموں میں امام زین العابدین علیہ السلام کے علاوہ کوئی مرد باقی نہیں بچاتھا اور امام زین العابدین علیہ السلام بھی بستر بیماری پر پڑے ہوئے تھے اورشاید بے ہوشی کی حالت میں تھے۔

اب ایسے حالات میں آپ سوچئے کہ اس خیمہ گاہ میں تقریباً۸۴ عورتیں اور بچے موجود تھے، جنھیں چاروں طرف سے دشمن کے ایک جمِّ غفیر نے گھیررکھا تھا؛انھیں کس قدر توجہ اور حمایت کی ضرورت تھی، جب کہ ان میں سے کوئی بھوکا تھا تو کوئی پیاسا بلکہ یہ کہاجائے کہ سب کے سب بھوکے، پیاسے اور خوفزدہ و پریشان حال تھے۔ان کے شہیدوں کے لاشے زمینِ کربلا پر پامال شدہ بکھری پڑی تھیں؛کسی کا بھائی تو کسی کا بیٹا(اور کسی کے دوسرے اعزاء واقرباء)۔ بہر حال یہ ایک انتہائی تلخ اور وحشتناک واقعہ ہے جسے صرف ایک ہی شخصیت نے آگے بڑھ کر سنبھالاتھا اور وہ شخصیت حضرت زینب کبریٰ علیہا السلام کی تھی۔

صرف ایسا نہیں تھاکہ جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا نے اپنے بھائی کو کھودیاہو یا اپنے دوبیٹوں یا اپنے دیگر بھائیوں اور عزیزو اقارب یابنوہاشم کے اٹھارہ جوانوں اور اپنے (بھائی)باوفا اصحاب و انصار کو کھودیاہو، ان حالات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک اہم حقیقت تھی اور شاید اس کی اہمیت اس سے کسی بھی لحاظ سے کم بھی نہ تھی، وہ یہ کہ اتنے سارے دشمنوں کی موجودگی میں اِس شکست خوردہ اور منتشر قافلے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر تھی، یہاں تک کہ خود امام زین العابدین علیہ السلام کی دیکھ بھال بھی آپ ہی کے ذمہ تھی۔ لہٰذا اِن چند گھنٹوں کے درمیان، یعنی واقعۂ عاشور کے بعد سے لے کر یہ طے ہونے تک کہ دشمن اس لٹے ہوئے قافلے کے ساتھ کیا سلوک کرناچاہتاہے؛ یعنی اِس تاریک اور سخت رات کے اِن چند گھنٹوں کے دوران، اللہ ہی بہتر جانتاہے کہ جناب زینب علیہا السلام پر کیا گزری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس دوران حضرت زینب مسلسل مصروف اور بھاگ دوڑ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ آپ کبھی ایک بچے کے پاس جاتی ہیں، تو کبھی کسی ایسی ماں کے پاس پہنچتی ہے جس کی گود اجڑگئی ہیں اور کبھی ایسی بہن کے پاس پہنچ جاتی ہیں کہ جس کے سر سے بھائی کا سایہ چھینا گیاہے، گویا آپ مسلسل مصروف ہیں، ان سب کو جمع کرتی ہیں اور انکی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور انھیں تسلی دیتی ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آتاہے کہ زینب سلام اللہ علیہا کا حوصلہ جواب دے جاتاہے۔ آپ اپنے اُس بھائی کی طرف رُخ کرتی ہیں جو آپ کی واحد پناہ گاہ تھے۔ روایت میں ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہاآتی ہیں اور اپنے بھائی کے پامال شدہ لاشے کے قریب کھڑی ہوتی ہیں اور دل کی گہرائیوں کے ساتھ فریاد کرتے ہوئے کہتی ہیں: یَا مُحَمَّدَاہُ صَلَّی عَلَیْکَ مَلائِکَۃُ السَّماء اے نانا جان!آپﷺ پر آسمان کے فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں۔ ھَذَا الْحُسَیْنُ مُرَمَّلٌ بِالدِّمَائِ یہ آپ کا پیارا حسین ہے جو خاک و خون میں غلطاں کربلا کی گرم ریت پر پڑا ہے۔

حوالہ جات

الکافی ،ج۲،ص۵۳۰

بحار الانوار ،ج۴۴،ص۳۱۶

اللہوف سید ابن طاؤوس ص۱۳۳

بیرونی روابط کی درستی (اکتوبر 2022)[ترمیم]

تمام ویکیپیڈیا صارفین کی خدمت میں آداب عرض ہے،

ابھی میں نے زینب بنت علی پر بیرونی ربط میں ترمیم کی ہے۔ براہ کرم میری اس ترمیم پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ بوٹ ان روابط یا صفحے کو نظر انداز کرے تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے یہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری تبدیلیاں حسب ذیل ہیں:

نظر ثانی مکمل ہو جانے کے بعد آپ درج ذیل ہدایات کے مطابق روابط کے مسائل درست کر سکتے ہیں۔

As of February 2018, "External links modified" talk page sections are no longer generated or monitored by InternetArchiveBot. No special action is required regarding these talk page notices, other than ویکیپیڈیا:تصدیقیت using the archive tool instructions below. Editors have permission to delete these "External links modified" talk page sections if they want to de-clutter talk pages, but see the RfC before doing mass systematic removals. This message is updated dynamically through the template {{sourcecheck}} (last update: 15 July 2018).

  • If you have discovered URLs which were erroneously considered dead by the bot, you can report them with this tool.
  • If you found an error with any archives or the URLs themselves, you can fix them with [iabot.wmcloud.org/iabot/index.php?page=manageurlsingle this tool].

شکریہ!—InternetArchiveBot (بگ رپورٹ کریں) 08:04، 24 اکتوبر 2022ء (م ع و)