تبادلۂ خیال:مولانا ضیاء القاسمی

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

--182.189.14.63 09:19, 28 اکتوبر 2013 (م ع و)دبیز متن آج میرے نانا (حضرت مولانا محمّد ضیاء القاسمی رحمتہ الله علیہ) کا یوم وفات ہے. آج پھر میری آنکھوں کے سامنے ان کا آخری وقت بہت سے یادیں لئے کھڑا ہے. جس انگلی کو میں نے توحید کی خاطر اٹھتے اور اہل شک و بدعت و رفض کے لئے آخری دم تک خوف کی علامت دیکھا، کہیں فتنہ قادیانیت کو اس پر ماتم کناں دیکھا تو اسی انگلی کو میں نے حالت نزع میں اپنے رب کی طرف اٹھ کراس کی وحدانیت بیان کرتے دیکھا. آپ میں سے بہت سے لوگوں نے میرے نانا کو سٹیج پر گرجتے دیکھا ہو گا.لیکن میں نے اس مرد حق کو نزع کے تخت پر بھی گرجتے دیکھا ہے..... الله اکبر اے دارالعلوم دیوبند، اے میرے اکابر، اے شیخ الہند، اے سید مدنی، اے عثمانی و اشرفی (رحمہ الله) میں آج میں شرمندہ ہوں جو گوہر نایاب آپ نے ہمیں دیا ہم اس کی قدر نہ کر سکے. ہم نے فکر شیخ الہند کا نام تو لیا، ہم نے دفاع ختم نبوّت و دفاع صحابہ و اہلبیت کا نام تو لیا مگر اس بے سحر رات کے مسافر کو یکسر بھلا دیا. اور جو قوم اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہے الله اسے تباہ و برباد کر دیتا ہے. لیکن میں آج عہد کرتا ہوں کے اپنے نانا کے مشن کو آخری دم تک پورا کرنے کی کوشش کروں گا چاہے تحریک ختم نبوت کا میدان ہو یا دفاع صحابہ و اہل بیت عظام کا میدان. شرک و بدعت ہو یا منکرین حدیث ہر میدان میں.... دیوار قاسمی کھڑی کروں گا. گو کے اپنوں کی مخالفت، شریروں کے شر کا ،حاسدوں کے حسد کا دشمنوں کی دشمنی کا سامنا ہے مگر اس مرد جلیل نے مرنا سکھایا ہے جینا نہیں.....کٹنا سکھایا ہے جھکنا نہیں..... للکارنا سکھایا ہے بکنا نہیں..... کانٹوں پر چلنا سکھایا ہے مصلحت نہیں. آج کا دن مجھے بہت سے پیغام دے رہا ہے. انشاالله تاریخ اوروقت اپنا رخ بدل رہے ہیں. الله حضرت قاسمی کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے. آمین @ ... یہ ہم ہے تھے جن کے لباس پر سر راہ سیاہی لکھی گئی یہ ہم ہے تھے جو سجا کا باب سر بزم یار چلے گئے نہ رہا جنون_رخ وفا، یہ دار، یہ رسن کرو گے کیا جنھیں جرم عشق پے ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے عمر قاسمی.