تبادلۂ خیال:میر خلیل الرحمٰن
تبصرہ 14 فروری 2013
[ترمیم]یہ مضمون جامعہ کراچی مغربی پاکستان کے تدریسی شعبہ 'ابلاغیات‘ کے جرنلسٹس‘ کے 'جنگ نمبر‘ کے لئے اردو کے ممتاز ادیب اور نقاد مرحوم شمیم احمد نے تحریر کیا تھا جو بعض وجوہات کی بناءپر شائع نہ ہو سکا تھا۔ مجلہ 'ساحل‘ کراچی نے اس مضمون کو جولائی 2006ءکی اشاعت میں شائع کیا تھا۔ معاشرے جب عروج اور ارتفاع کی طرف گامزن ہوتے ہیں تو اس کی وجہ وہ استعداد ہوتی ہے جو انہوں نے ماضی میں حاصل کی ہوتی ہے۔ اِسی طرح زوال اور پستی سے پہلے، فکر اور خیال کے سوتے خشک ہوتے ہیں۔ اعلیٰ قدروں سے پہلو تہی، نفس پرستی اور بے عملی زوال پذیر معاشرے کی نمایاں صفات ہوتی ہیں ہم اپنے وجدان سے اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ عروج وزوال فطری یا طبعی اصول کے تابع ہیں مگر کوئی معاشرہ کب دو میں سے کسی ایک راہ پر چل پڑتا ہے۔ انسان کی دانش ابھی اسے دریافت نہیں کر پائی ہے۔ ہاں زوال کے دوران میں اگر معاشرے میں اپنے تصور حیات سے کسی نہ کسی سطح پر حقیقی تعلق باقی رہتا ہے تو پھر ایسے معاشرے میں نسبتاً جلد وہ قوت پیدا کی جا سکتی ہے جو عروج اور ارتفاع کی سمت معاشرے کو لے جاتی ہے۔ اعلیٰ اقدار سے انحراف کے خطرناک اثرات: معاشرے میں اعلیٰ قدروں کی ترویج یا ان سے انحراف معاشرے میں جلد ہی اپنے اثرات پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ بھی ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں اُس کی تشکیل کے ساتھ ہی زوال کے عوامل پیدا ہو گئے۔ اس معاشرے کا ایک فرد کی حیثیت سے میں تحریک پاکستان کی کامیابی سے لے کر زوال کے عوامل تک کے اپنے مشاہدات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ پاکستانی معاشرے کی تباہی میں "جنگ" کا پچاس فیصد حصہ: پاکستانی معاشرے کی تباہی میں جتنا کردار جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ان کی محافظ نوکر شاہی اور اقتدار پسند فوج کا رہا ہے اتنا ہی ہمارے ایک اکیلے اخبار روزنامہ جنگ کا ہے۔ میں کسی مبالغے سے کام نہیں لے رہا۔ 'جنگ‘ نے محض اپنی ذاتی مفاد کیلئے ہر اُس قدر کو پامال کیا جو ایک نوتعمیر معاشرے کی بنیاد مضبوط کر سکتی تھی۔ قربانیاں ہماری روایت نہیں: روزنامہ جنگ کے بانی میر خلیل الرحمان کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کا اخبار قربانی کے فلسفے پر پورا نہیں اترتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کسی پارٹی کا نمائندہ اخبار بھی نہیں ہے جو اپنے نصب العین کیلئے نقصان اٹھانا برداشت کر لیتے ہیں۔ بھٹو دور میں جب مخالف صحافیوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی تھی تو ہڑتالیوں کی حالت زار دیکھ کر میر خلیل الرحمان نے کہا تھا، بیشک آپ مشنری لوگ ہیں۔ آپ کا اخبار کاغذ کے پرزے پر بھی بک جائے گا۔ روزنامہ جنگ پر اگر کوئی ایسی افتاد پڑے تو اس کو دوسرے دن پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ انہوںنے بارہا کہا کہ 'جنگ‘ ایک کمرشل اخبار ہے۔ اس سے آپ 'زمیندار‘ والی یا 'کامریڈ‘ والی کسی قربانی اور ایثار کی توقع نہ رکھئیے۔ ان بیانات میں کسی قسم کی شرمندگی کے بغیر جو نیم فخریہ انداز اخبار کے کمرشل ہونے پر موجود ہے اُسی نے 'جنگ‘ کو ابتداءسے پاکستان کی سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی تباہی میں 'قابل فخر‘ کردار انجام دینے کے قابل بنا دیا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل انجام اور جنگ کا موازنہ: اخبار 'انجام‘ کو مسلم لیگ کا آرگن ہونے میں وہ اعزاز حاصل نہیں تھا جو اخبار 'منشور‘ کو حاصل تھا، مگر شہرت میں انجام منشور سے آگے تھا۔ انہیں دنوں میر خلیل الرحمان نے سید محمد تقی صاحب کی زیرادارت 'جنگ‘ کا آغاز کیا مگر قیام پاکستان تک 'جنگ‘ دہلی میں مقبول نہیں ہو سکا تھا اور نہ ہی مدیران اخبار کی نیتوں سے پردہ اٹھا تھا۔ سنسنی خیزی اور عوام کے جذبات سے کھیلنا اور اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں سے روزنامہ 'جنگ‘ 'انجام‘ جیسے بھاری قدیم اخبار کا وقار نہیں گرا سکا تھا۔ البتہ نیم خواندہ یا نچلے طبقوں میں وہ اس طرح اپیل کرتا تھا جس طرح کراچی میں شام کا اخبار 'نئی روشنی‘ کسی زمانے میں کیا کرتا تھا۔ جرم وسزا کی خبریں نمایاں کرنا، نیم برہنہ عورتوں کی تصویروں کی نمائش کرکے ظاہر ہے روزنامہ 'جنگ‘ کسی سیاسی یا تہذیبی تربیت کا فریضہ انجام نہیں دے رہا تھا۔ اُس وقت 'جنگ‘ کی یہی حیثیت تھی۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی کی صحافت کا منظر: تقسیم ہند کے بعد ڈان، انجام اور جنگ کراچی منتقل ہو گئے، ابھی تک ہر اخبار کا محدود طبقہ برقرار تھا، یہاں بھی 'انجام‘ سب سے مقبول اخبار بنا رہا، عثمان آزاد اِس بات کا ادراک نہ کر سکے کہ روزنامہ جنگ اب اپنی سرزمین سے شائع ہو رہا ہے۔ دلی والے ہتھکنڈے کراچی کی فضا میں برگ وبار لانے لگے، البتہ قوم کو سنجیدہ صحافت سے روشناس کرانا یہاں بھی جنگ کا مطمح نظر نہیں تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کے ابتدائی زمانے میں لمحہ لمحہ بدلتے ہوئے سیاسی تناظر، کشمیر کے مسئلے، نئی سرحدوں اور دریاؤں کی تقسیم کے نہایت اہم معاملات کے ساتھ بین الاقومی سطح پر ایک خاص انداز کی گروہ بندیوں میں 'جنگ‘ نے تمام اخبارات کے مقابلے پر سب سے زیادہ سیاسی استحصال کیا اور اپنے عوام میں کبھی وہ شعور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جو ایک حقیقی صحافت کا فرض ہوتا ہے۔ چڑھتے سورج کے ساتھ موضوعات بدل دینا 'جنگ‘ کی صحافت کا بڑا وصف تھا۔ بحران کی صورت میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کی بجائے اپنی اشاعت کو بڑھانا اور حقائق سے پردہ نہ اٹھانا 'جنگ‘ کی پالیسی تھی، اس کے نتیجے میں غلام محمد جیسے افراد اقتدار میں آئے، فوج کو مداخلت کا موقع فراہم ہوا اور بالآخر ملک ٹوٹ گیا۔ ملک کی تباہی میں 'جنگ‘ کی ترقی کا سامان وافر تھا، 'جنگ‘ کے اثاثے لاکھوں سے کروڑوں میں ہو گئے تھے۔ اخبار انجام کو شکست دینے کیلئے سنسنی خیز مواد، جنسی اور جرائم پر مبنی کہانیاں اور عورت کا جسم اخبار کی مستقل خصوصیت بنا رہا۔ نظریاتی اور دینی پس منظرکا احساس وہاں کوئی قیمت نہیں رکھتا تھا۔ مس جین کی کہانی لوگوں کو اب بھی یاد ہوگی۔ یہ بے ہودگی اس سے پہلے کسی اخبار کی زینت نہیں بنی تھی۔ 'جنسی عمل کا دورانیہ‘ شہ سرخی کے ساتھ دینا، فلمی دُنیا کے اسکینڈل، لوگوں کیلئے موضوع سخن بنا دینا، 'جنگ‘ کو اس میں یدطولی حاصل تھا۔ 'جنگ‘ کی دیکھا دیکھی اخبار انجام نے بھی یہی روش اپنانے کی کوشش کی مگر ایک تو اس کا مزاج ایسا نہیں تھا دوسرے دلی سے کراچی منتقلی کی وجہ سے اُس کے وسائل بھی کم تھے تیسرا 'جنگ‘ نے ایک اور گھٹیا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ جن کے ہاں 'انجام‘ باقاعدگی سے آتا تھا وہاں صبح سویرے ہاکر جو اخبار پھینک جاتا وہ 'جنگ‘ ہوتا، ہاکر سے تڑکے تڑکے ملنا کوئی آسان نہیں تھا مہینے کے آخر میں حساب کرنا تھا، ہاکر نے کہا کہ 'انجام‘ ہم کو ملتا ہی نہیں، نیوز ایجنسی جا کر معلوم ہوا کہ 'انجام‘ وقت پرنہیںپہنچ پاتا۔ا یسی بدنظمی کا شکار'انجام‘نہیںہو سکتا تھا۔ ہاکر، نیوز ایجنسی اور حکام کے ساتھ ملی بھگت کے علاوہ جنگ نے اپنی ذاتی نیوز ایجنسیاں بھی قائم کر لی تھیں۔ عثمان آزاد کو الگ بدنام کرنے کی مہم چل نکلی تھی، بازار سے 'انجام‘ کے بنڈل کے بنڈل خرید کر نذر آتش کر دیے جاتے۔ یہی کھیل اقتدار کی سطح پر حکمران طبقہ بھی کر رہا تھامعاشرے کی اقدار داؤ پر لگی تھیں۔'انجام‘ اپنے انجام کو پہنچا۔ جنگ کا ہدف اب کل پاکستان میں مونوپولی پیدا کرنا تھا، اخبار 'حریت‘ کے فخر ماتری نے ہاکرز کی انفرادی ٹیم کے ذریعے اپنے اخبار کو بروقت پہنچانے کا اہتمام کیا۔ طباعت کے معیار میں بھی 'حریت‘ 'جنگ‘ سے کہیں بہتر تھا مگر قومی ذمہ داری سے نچنت ذہنیت والے کثیر سرمایہ اور سیاسی اثر ونفوذ والے 'جنگ‘ کا وہ مقابلہ نہ کر سکے۔ جنگ والے اپنی کامیابی کے یہ اسباب بتاتے ہیں۔ 'جنگ‘ صرف اخبار ہے۔ ہر خبر اور اسکینڈل کو غیر جانب داری سے پیش کرنا ہماری صحافتی ذمہ داری ہے۔ 'جنگ‘ جو پیش کرتا ہے وہی عوام کی خواہش ہے تبھی تو 'جنگ‘ سب سے زیادہ فروخت ہونے والا روزنامہ ہے۔ ہر طبقے کیلئے مواد بہم پہنچانا، جنگ کی مقبولیت کا سبب ہے۔ معاملہ ایسا سیدھا سادھا نہیں ہے۔ 'جنگ‘ سے پہلے ہندستان میں سنجیدہ اخبار کیوں مقبول تھے۔ کیا شہرت اور سرمایہ کا آجانا بذات خود کوئی قابل فخر بات ہے۔ قوم فروشی اور ملک فروشی تک آپ کے اخبار میں وہ سنسنی نہیں پھیلاتے جو محلے اور سینما کی سطح پر ہونے والے معمولی واقعات پھیلاتے ہیں۔ اتنے ہمہ گیر واقعات سے چشم پوشی بھی صحافتی ذمہ داری ہے؟ 'جنگ‘ کا اصول یہ رہا ہے کہ "جس کی لاٹھی اس کی بھینس"۔ غلام محمد جیسے سازشی بیورو کریٹ یا ایک فوجی اقتدار پسند نے تحریک آزادی کے تمام خوابوں کو ملیامیٹ کرکے اور تحریک پاکستان کے تمام اصولوں کو روند کر اور ان پڑھ مسلمان عوام کی اکثریت کی خواہشات کو دھوکہ دے کر جس طرح پاکستان پر قبضہ جما لیا تھا آپ ان کی کامیابی کو پاکستانی عوام کی خواہشات کا نتیجہ یا ان مفاد پرستوں کو پاکستان کے مخلص لیڈروں کے مقابلے پر ہم انہیں اقتدار کا اصل حق دار اور انہیں آئیڈیل حکمران یا پاکستانی معاشرے پر حکومت کا بہترین نمونہ کیسے قرار دینے لگیں! عملاً یہی ہوا ہے، مگر 'جنگ‘ کی تمام کوششوں کے باوجود پاکستان کے عوام اب بھی اسلام کو ہی پسند کرتے ہیں، غلام محمد، جنرل ایوب خان، سکندر مرزا، یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو بانی پاکستان پر کون ترجیح دیتا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان میں مسلم لیگ کی پالیسی کے سنگ 'جنگ‘ کون سے عوام کی خواہشات پوری کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد عوام کی شرافت کہاں چلی گئی تھی؟ ہندوستان میں موجود دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی نے اپنے دین کیلئے جو جدوجہد کی تھی اور جسے اُس وقت 'جنگ‘ بھی مہمیز دیتا تھا وہ اب مضحکہ خیز ہی نہیں بن گئی بلکہ 'جنگ‘ شاید ایسی جدوجہد کو بطور اصل اصول کے تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیں ہے، و ہ اُسے بے شعوری کی حالت پر محمول کرتے ہیں۔ کیا اس اصول کو بنیاد تسلیم نہ کرکے تقسیم ہند کیلئے کوئی اور دلیل پیش کی جا سکتی ہے؟ جنگ جو اس وقت مسلمانوں کی نمائندگی کا دعوے دار تھا ___ وہ مسلمان جو ایک نظریہ حیات کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے ایک خطے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ___ وہ اخبار اب غیر جانبداری پر فخر کس منہ سے کر سکتا ہے۔ تحریک کی ناؤ کنارے لگی تو بجائے اصل نظریے کو فروغ دینے کے 'جنگ‘ نے سنسنی خیزی، جرائم پیشگی، عورت کے استحصال، نظریہ پاکستان کی بیخ کنی، سیاست میں جذباتیت کا گھناؤنا کاروبار، ارباب اقتدار کی خوشامد، حکام کی کاسہ لیسی، قومی امور میں بے بصیرت تجزیہ نگاری، فرقہ پرستی سے نسل پرستی تک ہر گھناؤنا عمل محض اپنی مفاد پرستی کیلئے انجام دیا۔ خیر نظریہ حیات اور اصول پرستی سے 'جنگ‘ کو کیا واسطہ، خالص پیشہ ورانہ مغربی صحافت کے معیار پر 'جنگ‘ کو پرکھ لیتے ہیں۔ مغربی پریس کو بھی آپ بامقصد معاشرے کو تعمیر کرنے، قوم کی ترقی اور تہذیب وشائستگی اور بااصول قوم بنانے کے عمل سے خارج نہیں کر سکتے۔ 'جنگ‘ کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ لندن کے معاشرے کو ایک مہذب قوم بنانے میں اسپیکٹیٹر، ٹیٹلر اور لندن پنچ نے کیا کیا خدمات انجام دی ہیں۔ان اخبارات نے انگلینڈ میں جو قوم بنائی تھی سیاسی زوال اور سماجی انحطاط کے باوجود انفرادی اخلاقیات سے لے کر اجتماعی بہبود تک وہ آج بھی بہت سے معاشروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ انگریز نے تو غلامی سے آزاد بھی نہیں ہونا تھا، نظریاتی ریاست قائم کرنا بھی ان اخبارات کے پیش نظر نہیں تھا پھر بھی انہوں نے بلند خیال اور اعلیٰ قدروں کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا، ایک ایسا معاشرہ جس پر اچانک اپنے نظریے کو ثابت کرنے کی ذمہ داری آن پڑی تھی، اُس کی تہذیب اور تربیت کیلئے اخبارات کا کیا فریضہ بنتا تھا۔ 'جنگ‘ والے اس کا جواب کبھی نہیں دے سکتے۔ ہندوستان میں بھی اُردو صحافت انگریزوں کی لائی ہوئی صحافت سے پیدا ہوئی تھی، اُردو صحافت کی تاریخ سے تو میر خلیل الرحمان شناسا ہوں گے۔ سرسید کا 'تہذیب الاخلاق‘ اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلر کے تتبع میں جاری ہوا تھا۔ لکھنؤ میں 'اودھ پنچ‘ کے سامنے لندن پنچ کا نمونہ تھا۔ منشی سجاد حسین اکبر الہ آبادی جیسے اصلاح کاروں کو ہندوستان میں اُردو صحافت نے پیدا کیا تھا۔ اودھ اخبار اور اودھ پنچ نے نہ صرف دانشوروں کی کھیپ پیدا کی جنہوں نے مسلمانوں کے قومی شعور کی تعمیر وترقی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب، اخلاقیات، تاریخ، تہذیب اور معاشرت کی بہترین اقدار کی آبیاری کی اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیق کار بھی تھے۔ ان اخبارات کی بدولت جدید ادبی اصناف متعارف ہوئیں۔ ناول نگاری، افسانہ نگاری، تنقید، مضمون نگاری، نظم اور طنز ومزاح۔ اُس دور کو بیسیویں صدی کا سب سے اہم اُردو ادبی دور مانا جاتا ہے۔ ہمارا مشرقی معاشرہ کب واہیات کا خوگر رہا ہے! اُردو صحافت کا مسلم نشاۃ ثانیہ میں کردار: اُردو صحافت نے بیسویں صدی میں زندہ اور بیدار قومی شعور پیدا کیا تھا۔ سیاسی اور قومی قیادت اخبارات کرتے تھے، ہمیں آزادی کی جنگ لڑنے والی قوم 'جنگ‘ نے نہیں بنایا تھا نہ جنگ میں وہ سوز ہے اور نہ وہ جگر داری۔ کیا الہلال، البلاغ، کامریڈ، ہمدرد اور زمیندار کی خدمات بھلائی جا سکتی ہیں۔ حالی، شبلی، اکبر الہ آبادی، سجاد حسین، عبدالحلیم شرر، اقبال، حسرت موہانی، اسماعیل میرٹھی، مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، علامہ مشرقی، سلیمان ندوی، ابوالاعلی مودودی اور مولانا ظفر علی خان جیسے دیانت دار اور جگر پاش شخصیات نے جو ادب تخلیق کیا تھا وہ سب عوام کی خواہشات کے برخلاف فروغ پا گیا تھا! جہاں ملک کا ایک بازو کٹ گیا ہو اور دوسرا لہو لہو ہو، غربت کا گراف روز بروز بڑھ رہا ہو، وہاں اخبار کے مالکان لکھ پتی سے کروڑ پتی بن جائیں تو ایسی صحافت کو کیا کہیے گا! یقینا اسے ایک نئی قوم اور نئی مملکت کو اپنے کرتوتوں، ذہنیت اور بداعمالیوں کی چاٹ کی بھینٹ چڑھا کر بانسری بجانے کے عمل سے ہی موسوم کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے معصوم، بھولے بھالے اور ناخواندہ عوام جس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے، تحریک پاکستان کا کردار بنے تھے ان کی کردار سازی میں 'جنگ‘ کا بھی کوئی کردار ہے!؟ میر خلیل الرحمان اگر زندہ ہوتے تو اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے۔ مس ڈولنگر کی ننگی ٹانگوں سے لے کر پرتعیش فاحشاؤں کے چٹخارے دار داستانوں تک اور ہر قسم کی بدکرداری میں مبتلا کرکے اپنی قوم میں کسی قسم کا قومی اور سیاسی شعور بیدار نہ ہونے دینا، مغربی صحافت کا امتیاز کب رہا ہے، اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ 'جنگ‘ ایک مغربی طرز کا حامل اخبار ہے۔ قیام پاکستان کے بعد تقریباً پانچ سال تک قوم اپنے نصب العین سے غافل نہیں ہوئی تھی، تحریک پاکستان پر گہری نظر رکھنے والے اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے، وہ اس انتظار میں رہے کہ کب ان سے کئے گئے وعدے پورے ہوتے ہیں، سیاست دانوں سے مایوس ہو کر ایوب خان کے مارشل لاءسے ان کی امید بندھی، ناامید ہو کر آخر قوم نے حالات کے دھارے پر اپنے مقدر کی ناؤ رکھ دی۔ امید وبیم کے اِن پانچ برسوں میں 'جنگ‘ نے عوام کی خواہشات کا کتنا پاس لحاظ رکھا تھا۔ حالات سے قوم کو باخبر رکھنے میں کتنے جتن کئے، قومی اخبار تو کیا عام روزنامہ بھی اپنے آپ کو اس فریضے سے لاتعلق نہیں رکھ سکتا۔ 'جنگ‘ نے ان دنوں جو بویا تھا قوم اُسے آج کاٹ رہی ہے۔ 'جنگ‘ نے صرف سیاسی حالات اور اقتدار کی سازشوں سے ہی عوام کو بے خبر نہیں رکھا، ناپاک اور بدطینت حکمرانوں کو اقتدار کے آخری لمحوں تک خوش کرنا اور ان کی سبکدوشی یا جلاوطنی کے بعد ان کی پشت پر ایک لات لگا، اس سے بدتر حکمرانوں کی کاسہ لیسی کرنا، علاوہ اس کے رشوت دے کر نیوز پرنٹ کے حصول کیلئے جھوٹے دعوے داخل کرنا اور پھر انہیں بلیک میں فروخت کرکے نفع کمانا بھی 'جنگ‘ کو ایک صنعت بنانے کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اس مجرمانہ عمل کا آغاز سب سے پہلے 'جنگ‘ ہی نے کیا تھا۔ فلمی اداکاراؤں کو نوجوانوں کیلئے آئیڈیل بنانے کا فریضہ بھی سب سے پہلے 'جنگ‘ نے انجام دیا ہے۔ جنگ سے پہلے اُردو صحافت میں اس کی نظیر نہیں ڈھونڈی جا سکتی۔ اخبارات کو اس بُرائی میں مبتلا کرنے کا اعزاز 'جنگ‘ کو حاصل ہے۔ کم از کم 1960ءتک پنجاب کی صحافت اس گندگی سے پاک تھی جس کے تراکم سے کراچی میں سرانڈ پیدا ہو گئی تھی۔ میر خلیل الرحمان ابتداءمیں کئی سال تک مجالس یا قومی فورموں کو اپنی سرپرستی سے رونق افروز نہیں کرتے تھے۔ جب جھجک جاتی رہی تو کہا کرتے تھے، صاحب وہ زمانہ اور ہی تھا جب اخبار واقعتا جہاد کرتے تھے۔ میر صاحب زمیندار تو قیام پاکستان کے بعد بھی نکلتا رہا تھا، اسی سے آپ حوصلہ پا لیتے! پاکستان کے تمام طبقات کی ضروریات کا خیال بھی 'جنگ‘ نے خوب کیا ہے۔ سفلی صحافت کی وجہ سے 'جنگ‘ پر سخت تنقید ہوئی تو اپنی منافقانہ روش اور اسلام دشمنی کے تاثر کو کم کرنے کیلئے بہت بعد میں مذہبی ایڈیشن کا اضافہ کیا گیا۔ بے ضرر سطحی معلومات پر مبنی ایڈیشن کے ساتھ ہی نیم عریاں تصاویر 'جنگ‘ کے مذہبی طبقے کی نمائندگی کی چغلی کھا رہی ہوتی تھیں۔ 'جنگ‘ کے ایک مذہبی کالم نگار شیر فروشی کے ساتھ ملت فروشی کا کام بھی کرتے تھے اور دوسرے کالم نگار محض قرآن مجید کا ترجمہ شائع کرکے اسلامی نظریہ حیات کی خدمت کرتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسلامیات کا پرچہ دینے والے طالب علم جو ایک مشکل سے دو چار تھے۔ پہلے وہ آیات اور ان کا ترجمہ خود لکھ کر امتحانی ہال میں آتے تھے، 'جنگ‘ نے ان کی یہ مشکل آسان کردی تھی۔ شروع میں میر خلیل الرحمان نے مسلم لیگی قبا پہن کر صحافت میں قدم رکھا تھا، سرمایہ دار بننے کے عمل میں آج تک کوئی یہ نہ جان سکا کہ اُن کے عقائد کیا تھے۔ ذاتی طور پر وہ کمیونسٹ تھے نہ دہریے۔ البتہ ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جنگ کے مستقل اور بنیادی کالم نگار ہمیشہ ترقی پسند یا سوشلسٹ رہے ہیں۔ مرزا جمیل الدین عالی کو چھوڑ کر ابراہیم جلیس، ابن انشائ، احمد ندیم قاسمی اور انعام درانی سب سکہ بند بائیں بازو کے ادیب ہیں۔ مہمان کالم نگار جو بائیں بازو سے تعلق نہیں رکھتے تھے، پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل ہوتے تھے، اس لئے ان کا کالم دینا 'جنگ‘ کی مجبوری بن گئی تھی۔ جس قوت نے پاکستان بنوایا تھا وہاں ترقی پسند تحریک زیادہ نہ چل سکی مگر یہ اعزاز روزنامہ 'جنگ‘ کو حاصل ہے کہ مسلم لیگ کی سیاست کو اپنا کر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کرنے والے اخبار کے تمام مستقل کالم نگار بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ ترقی پسند ہونے کی وجہ سے اگر انہیں کوئی نظریاتی لوگ سمجھتا تھا تو جنگ سے وابستگی نے اُسے بھی داغدار کردیا تھا۔ خدا جانے مسلم اُمہ کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، اسپین ہو یا سمرقند بخارا ہو یا بغداد یا پھر اپنا پیارا پاکستان، سازشیں ہمیشہ ان کے اپنے وطن میں پنپتی ہیں اور ملک گنوانے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ سب ہمارے اپنوں کا کیا کرایا ہے۔ اگر 'جنگ‘ برسر جنگ نہ ہوتا تو ایک متعین ہدف کو پالینے کے لئے متحرک ہونے والی قوم اتنی جلد گم گشتہ راہ نہ ہوتی تلخیص: محمد زکری 2.145.100.46 20:10, 14 فروری 2013 (م ع و)