تبادلۂ خیال:یار محمد بندیالوی

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

فقیہ العصراستاذ العلما،استاذ الکل،امام المناطقہ،امام المعقول والمنقول،شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ حافظ یار محمد بندیالوی چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ(سجادہ نشین آستانہ عالیہ چشتیہ صابریہ بندیال شریف و مؤسس جامعہ مظہریہ امدادیہ بندیال شریف [1]) ولادت باسعادت اور خاندانی پس منظر

تھل کے اس دور افتادہ اور پس ماندہ علاقہ کے قدیمی قصبہ بندیال شریف میں ایک بزرگ پیر طریقت حضرت میاں شاہ نواز صاحب بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ(1225ھ/1810ء تا 1295ھ /1878ء) مشہور زمانہ ولی تھے ۔ان کی ذاتِ گرامی دور و نزدیک کے تمام علاقوں کے لیے مرجع عقیدت تھی۔لوگ دینی اور دنیاوی مشکلات میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ایک عالَم آپ رحمۃ اللہ علیہ کے فیض سے مستفید ہورہا تھا۔مشہور روایت ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کے سامنے ایک درخت تھا جس کے نیچے اگر طاعون زدہ مریض کی چارپائی رکھ دی جاتی تو وہ فوراً ٹھیک ہوجاتا اور دنیا کا لا علاج مریض اس روحانی علاج کے ذریعے شِفا حاصل کرلیتا۔

حضرت فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ بچپن میں ایک دفعہ میں رات کے وقت قبلہ والد صاحب کے ساتھ بندیال کے شرقی جانب (جو کہ غیر آباد سی تھی)آرہا تھا ۔اچانک ہمارے سامنے ایک گدھا نمودار ہوا جو ہمارے آگے آگے چلتا رہا اور کچھ دور جا کر وہ غائب ہوگیا ،پھر ایک سیاہ کتا سامنے آگیا اور کچھ دور ہمارے آگے چلتا رہا ،بالآخر وہ بھی غائب ہوگیا ۔قبلہ دادا صاحب پیر طریقت حضرت میاں شاہ نواز صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس وقت بقید حیات تھے ۔ان کی خدمت میں قبلہ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے قصہ بیان کیا تو قبلہ دادا جی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ خوف اور فکر کرنے کی کون سی بات ہے یہ پُھلو نامی ایک جن ہے جس کا فلاں جگہ پر ٹھکانا ہے ،اس نے تمہارے ساتھ تمسخر کیا ہے۔ پیر طریقت حضرت میاں شاہ نواز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کثیر جن حلقہ بہ گوش تھے،چناں چہ جب چھوٹے بچے ڈر جاتے یا کسی کا جانور بیمار ہوجاتا تو لوگ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے چولہے سے راکھ لے جاتے اور اسی سے اللہ تعالیٰ شِفا عطا فرمادیتا۔اب تک یہی عادت جاری ہے کہ اگر بچوں کو دورہ پڑنے لگ جائے اور ماں کا دودھ پینا چھوڑ دیں یا بھیڑ بکریاں چکر کھانے لگ جائیں ،منہ سے جھاگ بہنا شروع ہوجائے تو لوگ اب بھی چولہے کی راکھ لے کر استعمال کرتے ہیں اور شِفا حاصل کرتے ہیں۔اسی قسم کے دیگر امورِ فیوض و برکات کے سبب آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ذات لوگوں کے لیے عقیدت کا مرکز بنی ہوئی تھی۔انہی بزرگ کے ایک صاحب زادے جن کا نام پیر طریقت حضرت صاحب زادہ میاں محمد سلطان صاحب بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ(1256ھ/1840ء تا 1335ھ /1917ء) تھا ، حضرت فقیہ العصر استاذ العلما،امام المناطقہ بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ ،انہی کے گھر 1287ھ بمطابق 1870ء میں پیدا ہوئے۔فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے جس فضا میں آنکھ کھولی وہ فضا شریعت و معرفت سے بھرپور تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بچپن کا زمانہ بڑا سادہ تھا ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عمر بچے جب کھیل کود میں مشغول ہوتے تو اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ قرآن مجید کی تلاوت فرمارہے ہوتے۔لہو لعب سے دلی نفرت تھی۔‮

تحصیلِ علم کے کٹھن مراحل

قبلہ فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے ذہن اور حافظہ غضب کا پایا تھا ،جب چھ سال کی عمر ہوئی تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والدین نے حفظ ِ قرآن کی تحصیل کے لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو1876ء میں موضع پکہ گھنجیرہ (ضلع میاں والی)میں بھیج دیا جہاں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے غیر معمولی سرعت کے ساتھ قرآن کریم کی منزل کو طے کرلیا۔پھر ایک مقامی عالِم کے پاس نظمِ فارسی پڑھی۔دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ جب سبق پڑھتے جاتے تو سر اور چہرے پر چادر ہوتی تھی ،صرف آنکھیں ظاہر ہوتی تھیں ،نیچے دیکھتے جاتے اور کسی طرف التفات نہ فرماتے تھے۔فارسی کے بعد استاذ العلما حضرت علامہ مولانا محمد امیر صاحب دامانی رحمۃ اللہ علیہ (مصنف قانونچہ محمد امیری)جو کہ اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم تھے ،ان سےابتداءً بندیال شریف میں اور بعد ازاں جھنڈیر(ملتان)میں دو سے تین سال صَرف و نحو کے علاوہ کافی کتب دینیہ پڑھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس گوہر یکتا کی آب یاری کے لیے عظیم الشان اصداف کو مامور کیا کہ جن کی آغوش میں اس دُرِّ شہسوار نے منازل ِ عروج طے کیں۔

56 بکرمی کا قحط اور فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کا شوقِ تعلیم

موضع پنجائن (ضلع جہلم)میں استاذ العلما حضرت علامہ مولانا ثناء اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ رہائش پزیر تھے جو کہ شمعِ علم کے پروانوں کے لیے ایک مرکز کی حیثیت رکھتے تھے اور خصوصا "الفیہ ابن مالک" کی تدریس میں نظیر نہیں رکھتے تھے ۔جب حضرت فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا شہرہ سنا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک دوسرے ساتھی کے ساتھ (جو کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے "سکندر نامہ"پڑھتا تھا )"الفیہ ابن مالک"کی تحصیل کے لیے1881ء کے بعد وہاں تشریف لے گئے۔یہ 56 بکرمی کے مشہور قحط کا زمانہ تھا جس میں گندم کا ایک ایک دانہ گوہرِ نایاب کی حیثیت رکھتا تھا اور بھوک کے سائے پھیلتے جارہے تھے ،ادھر آپ رحمۃ اللہ علیہ کا شوق بڑھتا جارہاتھا۔استاذ العلماحضرت علامہ مولانا ثناء اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعا ظاہر کیا تو انہوں نے بہ وجہ قلتِ طعام ،درس میں شامل کرنے سے انکار کردیا۔لیکن جن کا مقصد ِ حیات علم حاصل کرنا ہو وہ کھانے پینے کی کچھ ایسی پروا نہیں کرتے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ عزم کے ایک پہاڑ تھے۔لہٰذا وہ مایوس ہونا تو جانتے ہی نہ تھے۔قریب کی دوسری مسجد میں ڈیرہ ڈال لیا۔دوچار آنے کی کل کائنات پاس موجود تھی۔دو پیسے کا پیاز اور دو پیسے کا گُڑ لیا۔پیاز پتوں سمیت کوٹ کر اس میں گُڑ ملا کر کھا لیتے ،اسی پر صبر کرتے ہوئے کتنے دن اسی مسجد میں گزار دئیے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ چوں کہ قحط سالی کا زمانہ تھا ،ہم کو روٹی وغیرہ تو کسی نے نہ دی لیکن ایک سفید پوش شخص نے (جو اہلِ محلّہ میں سے تھے )ہم سے پوچھا کہ تم کس مقصد کے لیے یہاں ٹھہرے ہو؟میں نے تمام ماجرا بیان کیا کہ بڑے دُور دراز علاقہ سے استاذ العلما،حضرت علامہ مولانا ثناء اللہ صاحب( رحمۃ اللہ علیہ )کا شرفِ تلمذ حاصل کرنے آیا تھا لیکن قبلہ استاذ صاحب(رحمۃ اللہ علیہ)نے ہمیں جواب دے دیا ہے کہ میرے پاس جگہ نہیں ہے،اب واپس جانے کو بھی جی نہیں چاہتا۔شخص مذکور پر اس بات کا بڑا اثر ہوا اور وہ فوراً استاذ العلما، حضرت علامہ مولانا ثناء اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ آپ (رحمۃ اللہ علیہ)نے مفت خوروں کو ٹھہرایا ہوا ہے اور جو اتنا شوقین طالب ِ علم ہے وہ تقریباً نصف ہفتہ سے فاقہ برداشت کرکے صرف اسباق کے لیے ٹھہرا ہوا ہے ۔اسے آپ نے جواب دے دیا ہے ۔یہ سننے کے بعد حضرت استاذ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے بلایا اور اسباق شروع کرادئیے۔

کمال ریاضت

پنجائن (ضلع جہلم)کے قیام کے دوران آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عادت تھی کہ رات کو سبق یاد کرتے وقت اپنی پگڑی ایک ٹانگ کے نیچے سے گزار کر سر سے باندھ لیتے تاکہ نیند آنے کی صورت میں جھٹکا لگے اور آنکھ کُھل جائے۔ایک رات اسی طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ سو گئے ،اتفاقاً استاذ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اس عالَم میں دیکھا تو طلبا سے پوچھنے لگے کہ بھائی اس کو کس نے باندھ رکھا ہے؟لڑکو ں نے بتایا کہ قبلہ! ہم میں سے تو کسی نے نہیں باندھا یہ خود ہی اپنے آپ کو اس طرح باندھ لیتا ہے۔

فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے منجھلے بیٹے،امام المناطقہ ،استاذ العلما ،تاج الفقہاء،خلیفہ بابوجی ؒ، حضرت علامہ صاحب زادہ محمد عبدالحق صاحب بندیالوی زید شرفہ(سجادہ نشین آستانہ عالیہ بندیال شریف و سرپرست اعلیٰ جامعہ مظہریہ امدادیہ بندیال شریف)فرماتے ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے حالات کا کتمان فرماتے تھے۔خواہ مخواہ بغیر مقصد کے اپنا کوئی واقعہ بیان نہ فرماتے تھے بلکہ جب کوئی خاص مقصد ہوتا تب بیان فرماتے۔مثلا مجھے سبق پڑھاتے وقت تحصیل علم کی طرف رغبت دلانے کے لیے گاہے گاہے اپنی طالب علمی کا کوئی قصہ بیان کرتے اور فرماتے کہ ہم نے تو علم بڑی بڑی مشکلات کو برداشت کرکے حاصل کیا ہے تم گھر بیٹھے ناز و نعمت میں ہو۔مجھ سے جس وقت پڑھو جتنا پڑھو میں پڑھانے کو تیار ہوں۔

گھوڑے کے ساتھ پاپیادہ چلتے ہوئے حصول ِ تعلیم

(قبلہ فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے بیٹے تاج الفقہاء بندیالوی زید شرفہ کو فرماتے کہ )ہماری تو یہ حالت ہوتی تھیکہ جب میں پنجائن میں مصروفِ تعلیم تھا تو چوں کہ استاذ العلما، حضرت علامہ مولانا ثناء اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حکمت کا کام کرتے تھے ،آپ رحمۃ اللہ علیہ کا گھوڑا تھا جس پر سوار ہو کر آپ رحمۃ اللہ علیہ گردونواح کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور اس گھوڑے کے چارے وغیرہ کا انتظام ہمارے ذمہ تھا۔چوں کہ وہ گھوڑا بڑا نحیف و لاغر تھا اور اس کی پیٹھ زخمی تھی تو کوے اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر نوچتے اور اس کو تنگ کرتے ،ہم سبق پڑھ کر باہر کھیتوں میں گھوڑے کو چراتے رہتے اور کووں سے اس کی دیکھ بھال بھی کرتے ،لیکن کوا چوں کہ بڑا عیار و خبیث جانور ہے اس سے گھوڑے کی نگہ داشت کرنے میں ہمیں کافی تکلیف ہوتی کیونکہ ہمارا روزمرہ کا یہی معمول تھا۔وہیں کا رہنے والا ایک میراثی تھا ،جب اس نے ہماری یہ حالت دیکھی تو اس کو رحم آگیا اور کہنے لگا کہ مجھے کم زور و لاغر گھوڑے کی چنداں ضرورت تو نہ تھی تاہم آپ کے استاذ صاحب سے میں یہ گھوڑا خرید کر آپ کو نجات دلادوں گا۔چناں چہ اس میراثی نے ایک دن نہایت اچھے دام دے کر وہ گھوڑا خرید لیا۔

اسی ضمن میں ایک دن فرمایا کہ کئی دفعہ ہم جب سبق پڑھنے کے لیے قبلہ استاذ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور انہیں کسی مریض کو دیکھنے کے لیے باہر جانا ہوتا تو قبلہ استاذ صاحب رحمۃ اللہ علیہ گھوڑے پر سوار ہوجاتے اور ہم طالب علم ساتھ پیدل چل پڑتے اور سفر بھی طے کرتے جاتے اور سبق بھی پڑھتے ۔لیکن چوں کہ ہمارا مقصد حصول ِ علم تھا اس لیے ہم یہ تمام صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتے اور بالکل طبیعت میں کسی قسم کا ملال نہ آتا۔

دورانِ تعلیم چھٹی کا تصور ہی نہیں تھا

اسی طرح ایک دفعہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ہر طالب علم کو علمی ذوق و شوق ہونا چاہیئے اور ہر وقت اپنا مطمعِ نظر علم کو سمجھنا چاہیئے اور اس کے سوا دیگر خواہشات کو خاطر میں نہ لانا چاہیئے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس وقت میں مدرسہ فتح پوری دہلی میں پڑھتا تھا تو ایک دن دیگر ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ ہم دہلی کی جامع مسجد دیکھنے جارہے ہیں ،تم بھی ہمارے ساتھ چلو !میں نے کہا :مجھے اسباق سے فراغت نہیں ۔انہوں نے کہا کہ پھر جمعہ کا پروگرام رکھ لیتے ہیں ،اس دن تو اسباق کی تعطیل ہوگی ۔میں نے کہا :مجھے جمعہ کو بھی فرصت نہیں ملتی کیوں کہ میں جمعہ کے دن پچھلے ہفتے کے تمام سبق دہراتا ہوں۔جب آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جمعہ کے دن کی بھی ساتھیوں کے سامنے معذرت کی تو وہ سب مجبور ہوگئے(قبلہ فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ) بالآخر عید کے دن ہم سب گئے اور جامع مسجد دہلی کی زیارت کی۔یہی وجہ تھی کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو کتابیں ازبر تھیں،مختلف حواشی اور شروحِ نادرہ کی تحقیقات آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ذہن اقدس میں موج زن تھیں۔

(تاج الفقہاء بندیالوی زید شرفہ بیان فرماتے ہیں کہ )ایک دن بندہ نے از راہ ِ نازِ فرزندانہ عرض کیا کہ حضور !بعض اوقات الفیہ اور دیگر کتب میں آپ بہت مفصل اور طویل تقریر فرمادیتے ہیں جس کا ضبط کرنا مشکل ہوجاتا ہے حالاں کہ یہ مطالب و معانی دیگر بڑی کتابوں میں آجاتے ہیں اُن میں پڑھ لیں گے۔اس وقت اتنی بسط و شرح کی کیا ضرورت ہے؟آپ رحمۃ اللہ علیہ نے معمولی تبسم کے ساتھ فرمایا کہ یہ بات نہیں،میں جن کتابوں کی تقریر کرتا ہوں تجھ کو وہ کتابیں عمر بھر دیکھنی بھی نصیب نہ ہوں گی۔

پنجائن میں ہر شب "الفیہ ابن مالک "کا تکرار

چوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے دین کا عظیم کام لینا تھا اس لیے حافظہ غضب کا عطا فرمایا تھا ،اسی لیے تو تحقیقات نادرہ ہر وقت آپ رحمۃا للہ علیہ کو مستحضر ہوتیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ اسباق کی تقریر قلم بند کرنے کے مخالف تھے اور فرماتے تھے کہ سبق کی تقریر ،تحریر کرلی جائے تو اس تحریر پر اعتماد ہوجاتا ہے اور سبق بھول جاتا ہے۔لہٰذا اسباق کو ازبر کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔(قبلہ تاج الفقہاء بندیالوی زید شرفہ فرماتے ہیں کہ)میں عرض کرتا کہ ہم آپ جیسا حافظہ کہاں سے لائیں !! آپ اپنے ذہن و دماغ پر سب کو قیاس فرماتے ہیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ پنجائن میں قیام کے دوران میں ہر رات الفیہ کو ابتداء سے اخیر تک دہراتا ۔نیز فرماتے تھے کہ اگر طالب علم ،ہفتہ تک ہر سبق کو دہراتا رہے تو اس طرح اس کو کتاب یاد ہوجائے گی۔سبحان اللہ !!تحصیل ِ علم میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کو کس قدر توغل اور یک جہتی تھی۔اس قلبی شغف اور یک سوئی کی بہ دولت ایک وہ دن آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ایک عظیم منصب پر فائز فرمایا۔سچ ہے:

؎رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پِس جانے کے بعد

سُرخ رُو ہوتا ہے انسان ٹھوکریں کھانے کے بعد

پٹھان طالب علم کا ذوق ِ تکرار

(تاج الفقہاء بندیالوی زید شرفہ بیان فرماتے ہیں کہ)علمی جذبے سے متعلق ایک دن مجھ سے فرمایا کہ تحصیل ِ علم میں کمال ریاضت کی ضرورت ہے۔ایک دفعہ طالب علمی کے زمانہ میں مَیں پشاور گیا۔سردی کا موسم تھا اور سردی زوروں پر تھی ۔ میں رات کو ایک مسجد میں ٹھہرا ۔معمولی بوندا باندی ہورہی تھی۔ایک پٹھان طالبِ علم کو دیکھا کہ وہ اپنے سر پر مصلیٰ لیے ہوئے مسجد کے صحن میں تمام رات "کافیہ" کی یہ عبارت پڑھتا رہا:

"الضمیر لاَ یُوصَفُ وَلاَ یُوْصَفُ بِہِ ۔"۔۔میں اُس کے اِس انہماک سے بڑا متاثر ہوا ۔دورانِ تعلیم جو شخص محنت وجاں فشانی سے کام لیتا ہے کام یابی و کام رانی سے ہم کنار وہی ہوتا ہے۔کیوں کہ

؎نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا

سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا

خداداد لیاقت

جس محنت اور جاں فشانی سے حضرت قبلہ فقیہ العصر استاذ العلما بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے تحصیلِ علم کا آغاز کیا تھا اور اَن تھک لگن سے رات دن اس میں کوشاں رہتے تھے اس کا قدرتی ثمرہ یہ تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دیگر طلباء سے ایک ممتاز حیثیت حاصل ہوئی۔

فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے منتہی طالب علم کا مبہوت ہونا

پنجائن میں ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ نحو کی مشہور کتاب "عبدالغفور "پڑھنے والے ایک طالب ِ علم نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہرانہ سادگی اور وضع کو دیکھ کر ازراہِ تمسخر کہا کہ یہ بھی کوئی طالب ِ علم ہے!!باقی طلباء نے اسے سمجھایا کہ تم اس کے ظاہری سادہ لباس کو نہ دیکھو ،علمی بحث میں تم اس کے مقابلے کی تاب نہ لاسکو گے۔مگر اس نشہ کبر میں چور طالبِ علم نے اور زیادہ پھبتیاں کسنی شروع کردیں ۔آخر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پوچھا کہ بھلا بتاؤ تو مفعول فیہ کا عامل کتنی جگہ وجوباً حذف ہوتا ہے؟تو جواب میں اس نے مفعول بہ کے عامل کے مقام ِ حذف بیان کرنے شروع کردئیے جس پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ردِّ بلیغ فرمایا۔وہ ایسا سٹپٹایا کہ ساری شیخی دُور ہوگئی اور حیرت سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا منہ تکنے لگا۔

طلبا میں مشہور ہوگیا کہ یہ لڑکا(فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ)اندھیرے اجالے میں یکساں کتاب پڑھ سکتا ہے

آپ رحمۃ اللہ علیہ نہایت ذکی و فہیم تھے۔حافظہ اس قدر مضبوط تھا کہ "کافیہ "کی "رضی" جیسی عظیم شرح آپ رحمۃ اللہ علیہ کو زبانی یاد تھی۔چناں چہ ایک دفعہ لڑکوں نے کہا کہ کوئی اندھیرے میں کتاب پڑھ سکتا ہے؟اگر کسی میں اس امر کی طاقت ہے تو وہ "رضی شرح کافیہ"پڑھے۔آپ نے تبسم فرماتے ہوئے کہا کہ اسے میں پڑھوں گا چونکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کتاب زبانی یاد تھی اس لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ اندھیرے میں مسلسل کتاب پڑھتے رہے۔چناں چہ تمام لڑکوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ یہ اندھیرے اُجالے میں یکساں طور پر کتاب پڑھ سکتے ہیں۔

ہندوستان کا سفر

تحصیلِ علم کی تشنگی بہ تدریج بڑھتی جارہی تھی ۔جس قدر آپ رحمۃ اللہ علیہ سیراب ہوتے جاتے تھے تشنگی اتنی ہی بڑھتی جاتی تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس دوران کئی قابل اور مشہور اساتذہ سے استفادہ کیا۔استاذ العلما حضرت علامہ مولانا ثناء اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ مذکور کے علاوہ استاذ العلما حضرت علامہ مولانا محمد امیر صاحب دامانی رحمۃ اللہ علیہ اور استا ذ العلما حضرت علامہ مولانا غلام احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ حافظ آبادی(کوٹ اسحاقی)سے 1885ء میں جامعہ نعمانیہ (لاہور)میں دو ، اڑھائی سال پڑھنے کے بعد مزید تحقیقات کا شوق لیے1888ء میں ہندوستان کی مشہور درس گاہوں کا رُخ کیا اور عروس البلاد دہلی کی جامع مسجد فتح پوری کی درس گاہ میں داخل ہوگئے اور پڑھائی شروع کردی۔

جامع مسجد فتح پوری (دہلی)کی درس گاہ کے مہتمم صاحب کا قبلہ فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ سے متاثر ہونا

(قبلہ تاج الفقہاء بندیالوی زید شرفہ فرماتے ہیں کہ)آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اس مدرسہ کے قریب ایک باغ تھا۔جب دوسرے طلبا سیر وتفریح کی غرض سے شہر کو جاتے تو میں اس باغ کے کسی درخت کے نیچے محوِ مطالعہ ہوجاتا ،حتیٰ کہ جمعۃ المبارک کے دن بھی کتابیں لے کر وہیں مطالعہ کرتا رہتا۔اسی مدرسہ کے مہتمم ہر روز ٹم ٹم پر سوار ہو کر اس طرف سے گزرتے اور مجھے مطالعہ کرنے کی حالت میں دیکھتے ،جب کہ مدرسہ کے دیگر طلبا کھیل کود اور تفریح میں مشغول ہوتے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مجھے ان کے متعلق علم نہیں تھا کہ یہ ہمارے مدرسہ کے مہتمم ہیں۔ایک دن خلاف ِ معمول انہوں نے ٹم ٹم ٹھہرایا اور میرے پاس آکر پوچھنے لگے کہ تم کس مدرسہ کے طالب ِ علم ہو؟میں نے انہیں اپنا نام اور مدرسہ کا نام بتادیا۔اس سے قبل ہمیں مدرسہ کی طرف سے ہر مہینے دو روپیہ وظیفہ ملتا تھا ۔اس مہینہ میں میرے وظیفہ کی رقم بڑھا کر چار روپے کردی گئی اور یہ حالت اس وقت تک بہ دستور رہی جب تک میں اس مدرسہ میں زیرِ تعلیم رہا۔چناں چہ مجھے چار روپے اور باقی طلبا کو دو روپے وظیفہ ملتا رہا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اس وظیفہ کی رقم سے کافی کتابیں خرید کرلیں۔

قبلہ فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کپڑے بیچ کر کتابیں خرید لیتے تھے

(قبلہ تاج الفقہاء بندیالوی زید شرفہ فرماتے ہیں کہ ،قبلہ فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے بتایا کہ)دہلی میں ایک کابلی پٹھان میوہ کی دکان کرتا تھا۔اس نے مجھے بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس دیکھ کر کچھ پیسے دئیے کہ ان کے کپڑے لے لو لیکن میں نے اس رقم کی بھی کتابیں خرید لیں۔پٹھان مذکور نے جب مجھے انہی کپڑوں میں دیکھا تو میرے استاذ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اس طالب ِ علم کو کپڑوں کے لیے پیشے دیئے تھے اس نے کپڑے نہیں بنوائے تو استاذ ِ محترم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ طالبِ علم کپڑوں کی نسبت کتابوں کا زیادہ شوقین ہے اور لباس پر کتابوں کو ترجیح دیتا ہے۔بعد ازاں اس پٹھان نے خود کپڑے سلو ا کر مجھے دئیے ،میں نے وہ بھی بیچ دئیے اور حاصل کی ہوئی رقم سے کتابیں خرید لیں۔

جب مدرسہ میں امتحان ہوا تو ممتحن حضرات آپ رحمۃ اللہ علیہ کی لیاقت و قابلیت دیکھ کر دنگ رہ گئے مگر ساتھ ساتھ انہیں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے لباس کی بوسیدگی اور شکستہ دامانی کر دیکھ کر حزن و ملال بھی ہوا اور اُنہوں نے منتظمینِ مدرسہ سے کہا کہ جو طالبِ علم اس سارے مدرسہ کی لاج ہے اس کے ساتھ آپ نے یہ بت اِلتفاتی اور بے توجہی کی ہوئی ہے تو انہوں نے ممتحن کو بتایا کہ اس طالبِ علم کا مزاج انوکھا ہے۔اس کی فطرت اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے کتب خانہ کو دیکھ لیں وہی اس کا اوڑھنا بچھونا ہےاور وہی اس کا زیب سراپا ہے۔

ہندوستان کی متفرق درس گاہوں میں حصول تعلیم کے بعد مسیح الملک حکیم اجمل خان سے اکتسابِ علم

ہندوستان میں پہنچتے وقت چوں کہ فقیہ العصر استاذ العلماء بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ اکثر کتب پڑھ چکے تھے اس لیے دو سال کم و بیش جامع فتح پوری میں پڑھنے کے بعد تقریباً 1891ء میں دورہ حدیث کیا۔پھر حاذق الملک ،مسیح الملک حکیم اجمل خان دہلوی (1927ء ت)سے 1893ء تک جدیدی نفیسی اور دیگر اہم کتب طب پڑھیں۔

اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری اور خیر آبادی نسبت کا حصول

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت میں جو رسول اللہ ﷺ کی والہانہ لگن بس رہی تھی اور عشقِ مدینہ کی جو مستی دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھی یہ اس کا ہی اثر تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تحصیلِ علم کے دوران ایسے اساتذہ کو چُنا جن کا جسم ہند میں تھا اور رُوح روضہ انور کی جاروب کشی کرتی تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کو جہاں کہیں بھی کسی محب ِ رسول عالم دین کی خبر پہنچتی آپ رحمۃ اللہ علیہ وہیں جا پہنچتے۔بریلی شریف میں جو محبت ِ رسول ﷺ کا گلستاں کِھلا ہوا تھا ،جہاں عشقِ نبی ﷺ کے گلاب مہکتے تھے ، مدحتِ رسول ﷺ کے گل دستے سجائے جاتے تھے،فضاؤں میں منقبتِ نبیﷺ کے نغمے گونجتے تھے،جب اس باغ کی خوش بوئیں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دماغ تک پہنچیں تو دلِ بے تاب ٹھہر نہ سکا ،روح مضطرب ہوگئی،آپ رحمۃ اللہ علیہ بے اختیار اس کوچے میں پہنچے جہاں رسول اللہ ﷺ کے نام پر مر مٹنے کا درس دیا جاتا تھا ،نگاہوں سے دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کی بجلیاں بھری جاتی تھیں ،بریلی کے درو دیوار سے وارفتگی رسول ﷺ کی خوش بُو آتی تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ وہاں بہ صد ادب و نیاز پہنچے ،یہ اس ذات کا آستاں ہے جس کے سینے میں سوز و گدازِ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کا پرتو تھا،آنکھوں میں جامی رحمۃ اللہ علیہ کی التجاؤں کا انداز تھا ،دل میں تڑپ صدیق کی جھلک تھی،ماتھے کی وسعت پر رازی ؒ کا گمان ہوتا تھا ،چہرے کی سادگی سے رومی ؒکا جاہ و جلال ٹپکتا تھا ،غرض اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کیا تھی ،یوں معلوم ہوتا تھا کہ گزرے ہوئے عشاق کی پریشان ادائیں ایک جگہ مجتمع ہوگئی ہیں۔فقیہ العصر استاذ العلما بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا اور سراپا دید ہوگئے ،پھر دل تمام آرزو بن کر گویا ہوا کہ کچھ استفادہ کا موقع حاصل ہومگر وہ وقت کچھ ایسا تھا کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت علیل تھی ،تدریس کے لیے مزاج سازگار نہ تھا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مجاہد اعظم امام المعقول والمنقول استاذ مطلق مجاہد تحریک آزادی حضرت علامہ مولانا فضل حق خیر آبادی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مایہ ناز تلمیذِ رشید ،استاذ العلما امام المناطقہ حضرت علامہ مولانا ہدایت اللہ خان صاحب جون پوری ثم رام پوری رحمۃ اللہ علیہ(1908ء ت) کی طرف راہ نمائی کی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ 1893ء میں ان کے درس میں پہنچے اور جملہ فنون کی ان سے دوبارہ تکمیل کی اور قدما کی کتابیں مثلاً اُفق المبین ،شرح اشارات اور جدیدہ قدیمہ ان سے پڑھیں۔صدر الشریعہ استاذ العلما حضرت علامہ مولانا محمد امجد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ (مصنف بہارِ شریعت)بعض اسباق میں حضرت فقیہ العصر استاذ العلما بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم درس رہے ہیں۔

1908ء میں استاذ علامہ جون پوری رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ استاد صاحب کی مسند ِ تدریس پہ متمکن ہوئے

علما کو استاذ مطلق امام المعقول والمنقول حضرت علامہ مولانا فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہونے میں بڑا فخر حاصل ہوتا ہے اور وہ کئی کئی واسطوں سے مجاہد تحریک آزادی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور یہ فقیہ العصر استاذ العلمابندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے لیے کتنا قابلِ فخر اعزاز تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اور استاذ مطلق،امام المناطقہ والفلاسفہ حضرت علامہ مولانا فضلِ حق خیر آبادی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان صرف ایک واسطہ تھا ۔آج کل عام لوگ درسِ نظامی کی تکمیل کو آخری سند گردانتے ہیں۔لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ نے درسِ نظامی ختم کرکے تقریباً آٹھ سال حضرت استاذ العلما امام المناطقہ حضرت علامہ ہدایت اللہ خان صاحب جون پوری ثم رام پوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لگائے۔پھر اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک قابل استاد علامہ کی ضرورت تھی اور استاذ العلما امام المناطقہ حضرت علامہ مولانا ہدایت اللہ خان صاحب رام پوری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف تحریر فرمایا تو قبلہ استاذ العلماجون پوری رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ نے حضرت فقیہ العصر استاذ العلما بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہی انتخاب کیا۔مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں استاذ کی مَحبت اور عقیدت کچھ اس طرح گھر کر چکی تھی کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاد کی چوکھٹ کے مقابلے میں درس و تدریس کی مسند کو قبول نہ کیا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ چوں کہ استاذ العلما امام المناطقہ حضرت علامہ مولانا ہدایت اللہ خان صاحب جون پوری ثم رام پوری رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں زیادہ معتمد علیہ میں شمار ہوتے تھے اور استاد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ذات پر مکمل اور پورا وثوق تھا ۔اس لیے 1908ء میں استاد علامہ جون پوری رحمۃ اللہ علیہ کے وصال مبارک کے بعد اراکین مدرسہ کی نگاہ ِ انتخاب نے جانشینی کے لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ ہی کو چنا ۔چناں چہ کچھ عرصہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے وہاں رہ کر دینی خدمات سرانجام دیں۔

استاذ العلماامام المناطقہ حضرت علامہ ہدایت اللہ خان صاحب جون پوری رحمۃ اللہ علیہ کا عشقِ رسول ﷺ اور جلالتِ علمی

استاذ الکل امام المناطقہ حضرت علامہ ہدایت اللہ خان صاحب رام پوری ثم جون پوری رحمۃ اللہ علیہ نہایت متقی اور عاشقِ رسول ﷺ تھے۔اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مشاہرہ صرف ایک سو روپیہ تھا ،لیکن سخاوت و فیاضی کا یہ عالَم تھا کہ ہر مہینے میں محفل میلاد النبی ﷺ کا انعقاد کرتے اور اس محفل کے لیے قرض لینا پڑتا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت علمی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ استاذ المعقول والمنقول استاذ الکل فی الکل،مجاہد تحریک آزادی ،امام المناطقہ والفلاسفہ حضرت علامہ مولانا فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادہ استاذ العلما امام المناطقہ حضرت علامہ مولانا عبدالحق خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے تکمیل ِ علوم آپ رحمۃ اللہ علیہ ہی سے کی تھی۔

بیعت و اجازت

حضرت قبلہ فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں ہندوستان کی عظیم دینی درس گاہوں کے اعاظم فضلاء سے علوم ظاہری کی تکمیل کی وہاں فقراے ہند کی قلب و جگر شکار کرنے والی نگاہوں سے جذب و مستی بھی لی اور اخلاص کے مصلے پر بیٹھنے والے خرقہ پوشوں سے روحانی فیوض و برکات بھی حاصل کیے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد علومِ باطنی کے حصول کی خاطر مقتداے زمانہ پیر طریقت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز اعظم پیر طریقت حضرت علامہ مولانا شاہ صوفی محمد حسین صاحب چشتی صابری الہ آبادی محب اللٰہی ،المعروف بہ شہید ِ عشق رحمۃ اللہ علیہ(1904ء ت) کی خدمت میں تقریباً 1901ء میں حاضر ہوئے اور ان کے دستِ اقدس پر سلسلہ چشتیہ صابریہ میں بیعت ہوئے اور اڑھائی سال تک شیخ ِ کامل کی بارگاہ ِ عالی میں رہ کر تصوف کی اکثر کتابیں سبقا پڑھیں اور سلوک کے منازل و مراتب بھی طے کیے ۔آخر اجازت و خلافت سے نوازے گئے۔

پیرِ طریقت شاہ مولانا محمد حسین صاحب چشتی صابری محب اللٰہی ،الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ(1904ء ت) کا طریقہ بیعت

پیر طریقت حضرت علامہ مولانا شاہ محمد حسین صاحب چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ مبارکہ یہ تھا کہ وہ مسترشد کو تب بیعت فرماتے جب کہ وہ تین سال تک آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہنے کا عزم ِ مصمم کرلیتا۔اس عرصہ میں تجرید و تفرید اور مراتب ِ تصوف کی تقریر فرما کر مراقبہ کے ذریعے منکشف فرمادیتے۔سال اوّل کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ خود ،طالب کو حسبِ استعداد،آئندہ یا اسی سال کی تعلیم حاصل کرنے کا ارشاد فرمادیتے۔حضرت علامہ مولانا احمد حسن صاحب کان پوری رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے درسِ نظامی کی مشہور کتاب "حمد اللہ"پر حاشیہ تحریر فرمایا ہے ،اپنی مثنوی کے حاشیہ میں متعدد مقامات پر پیر طریقت حضرت شیخ کامل شاہ محمد حسین صاحب الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہکے فرمودہ مطالب نقل کرتے ہیں۔

حضور شہید عشق رحمۃ اللہ علیہ کا دولت کدہ فقر و درویشی کا سرچشمہ

حضرت قبلہ فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ:ایک دفعہ جب مجھے قبلہ پیر و مرشد رحمۃ اللہ علیہ کے کاشانہ اقدس پر جو کہ مسجد سے متصل تھا جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں بجز چائے کی پیالیوں،مٹی کے کوزے اور ایک مسواک کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔گھر کا یہ کل اثاثہ دیکھ کر فرمانِ نبوی ﷺ "کُن ْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ"کے امتثال کا یقین ہوگیا۔

وائس رائے ہند کا حاضرِ خدمت ہونا اور حضور شہید ِ عشق رحمۃ اللہ علیہ کی شانِ بے نیازی

اسی طرح یہ بھی اکثر حضرت فقیہ العصر استاذ العلما بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ انگریز وائس رائے ہند کا الہ آباد شریف کی طرف دورہ تھا ۔اس نے حضرت قبلہ پیر و مرشد کی شہرت سن کر زیارت کا قصد کیا۔خدامِ آستانہ کو جب معلوم ہوا تو دوڑ کر حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اطلاع دی لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ بہ دستور مطمئن بیٹھے رہے۔وائس رائے سلام کرکے ایک طرف بیٹھ گیا ۔پھر نہ جانے کس جذبہ کے تحت کہنے لگا کہ میں کچھ جائداد لنگر کے نام منتقل کرنا چاہتا ہوں ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کمال شانِ بے نیازی سے جواب دیا کہ مجھے اللہ کافی ہے ۔جب وہ انگریز وہاں سے رخصت ہوا تو لوگوں کو کہنے لگا کہ اِس شخص نے اللہ کو پہچانا ہے۔

؎مدینہ کے گدا دیکھے ہیں دنیا کے امام اکثر

بدل دیتے ہیں تقدیریں محمد ﷺ کے غلام اکثر

قبلہ فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کا اعزاز

حضور شہیدِ عشق رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادے ،پیر طریقت حضرت صاحب زادہ مولانا ولایت حسین صاحب نے چند کتبِ نحو قبلہ فقیہ العصر استاذ العلمابندیالوی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی ہیں

والد ِ حضور فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ ،پیر طریقت حضرت صاحب زادہ میاں سلطان صاحب بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کی ناراضی اور خواہش

حضرت فقیہ العصر استاذ العلما بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کا خاندان بھی چوں کہ رشد و ہدایت کا منبع تھا اس لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے والد ماجد مجھے ملنے کے لیے اِلہ آباد تشریف لے گئے جب آپ رحمۃ اللہ علیہ کو علم ہوا کہ حضرت فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں بیعت کرلی ہے تو ذرا ناراض ہوئے ،لیکن جب مولانا شیخ الٰہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کی تو خود بھی بیعت کی التجا کی۔چوں کہ حضرت مولانا شیخ الٰہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت کے لیے اڑھائی سال ،تین سال رہنا شرط تھا ،اس لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بیعت سے معذوری کا اظہار فرمایا کہ بابا آپ اتنی مدت یہاں ٹھہر نہیں سکتے۔

مرشدِ فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ،حضور شیخ طریقت شاہ محمد حسین محب اللٰہی ،الٰہ آبادی چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال باکمال وطن مالوف کو واپسی مناظرات دیوبندی حکیم الامت کا حضرت فقیہ العصراستاذ العلما بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے لاجواب ہونا حسین علی الوانی واں بھچروی دیوبندی کا حضرت فقیہ العصر استاذ العلما بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کا سامنا کرنے سے انکار مسئلہ علم غیب اورمقامی دیوبندی شیخ غلام یٰسین واں بھچروی کے شبہات کا ازالہ دیوبند کے شیخ القرآن غلام خان دیوبندی(خطیب راولپنڈی)کا لاجواب ہونا حضور فقیہ العصر استاذ العلما بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کا تبحر علمی "حمد اللہ "کے ایک مقام کا حل ایک شرعی فیصلے کا حل "میر زاہد اور "ملا جلال"کے رنگ میں اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کے دائمی علم میں ایک لطیف فرق درّمختار میں منقول ضعیف روایت پر علامہ شامی ؒ کا رد اور فقیہ العصر استاذ العلمابندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کی وضاحت مولوی الٰہی بخش صاحب دامانی کی چند شبہات پر تشفی مفتی محمد امین الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قلبی آرزو شیخ غلام یٰسین واں بھچروی کا اعتراف ِ عظمت فقیہ العصر استاذ العلمابندیالوی رحمۃ اللہ علیہ بحیثیت فقیہِ اعظم علماے حزب الاحناف کی ایک مسئلہ میں راہ نمائی علماے ڈیرہ غازی خان کا بھیجا ہوا ایک سائل نکاح میں سوئے اختیار کے مفہوم پر ایک مولوی صاحب کے مسئلہ کی تغلیط تعمیل بر فتویٰ کا نرالا انداز اپنے موقف کی پختگی کا تیقن اور اس پر استقلال حکم شرعی کی تعیین سے قبل تحقیقِ احوال اور فتویٰ میں احتیاط ایک دنیادار کی نیچ حرکت اور فقیہ العصر کا شرعِ مطہر کا تحفظ عمر کے اخیر حصے میں بھی دینی امور کے لیے جواں جذبہ ملک محمد امیر خاں ذیل دار کا اندازِ محبت ریاست ٹونک کے نواب صاحب کی قدر دانی شیخ الاسلام پیر طریقت حضرت علامہ خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کی والہانہ عقیدت حضور فارتح قادیاں ،حضرت اعلیٰ پیر سید مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری اور آپ کا خیر مقدم آفتاب ِ علم و عرفاں کی ضیاباریاں تاثیرِ وعظ تلامذہ تحریکِ پاکستان میں حصہ آفتابِ علم و عرفاں کا غروب مزار اقدس حلیہ مبارک اخلاق و محاسن معمولات فقیہ العصر استاذ العلما بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد صاحب زادہ محمد عبداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ(1940ء ت) امام المناطقہ استاذ العلما تاج الفقہاء،خلیفہ بابوجیؒ،حضرت علامہ صاحب زادہ محمد عبدالحق صاحب بندیالوی زید شرفہ (سجادہ نشین آستانہ عالیہ چشتیہ صابریہ بندیال شریف و سرپرست اعلٰی جامعہ مظہریہ امدادیہ بندیال شریف) حضرت علامہ صاحب زادہ محمد فضل حق صاحب بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کراماتِ استاذ العلما فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ قبلہ فقیہ العصر بندیالوی کا گلشن ِ علم و عرفاں :مرکز اہل سنت دارالعلوم جامعہ مظہریہ امدادیہ بندیال شریف(قائم شدہ :1910ء) جامعہ مظہریہ امدادیہ بندیال شریف کے ایک سو بارہ(112)سال جامعہ مظہریہ امدادیہ بندیال شریف کی شاخیں(کیپمس) جامعہ مظہریہ امدادیہ بندیال شریف کی نشاۃ ثانیہ اور مستقبل کے اہداف فضلائے جامعہ مظہریہ امدادیہ بندیال شریف پہلا دور دوسرا دور تیسرا دور پُر شکوہ جامع مسجد شجرہ طیبہ سلسلہ چشتیہ صابریہ اسنادِ حضرت استاذ العلما فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ 1۔سند ِ قرآن و حدیث و فقہ 2۔سندِ فنون 3۔سندِ طب استاذ العلما فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ علما و مشاہیر کی نظر میں نذرانہ عقیدت بہ حضور فقیہ العصر استاذ العلما حضرت علامہ مولانا یار محمد بندیالوی چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ

بندیالوی، محمد شاہد ظفر. بندیال شریف میں وصال فرمایا،وجھارا قبرستان شادیہ (ضلع میانوالی)میں مدفون ہیں.

بندیالوی، محمد شاہد ظفر(خویدم جامعہ مظہریہ امدادیہ بندیال شریف) (2022). كتب في بندیال شریف،تحصیل قائدآباد،ضلع خوشاب،صوبہ پنجاب،پاکستان. فقیہ العصر حضرت علامہ حافظ یار محمد بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ. بندیال شریف: بندیال (نشر 2 جمادی الثانی 1444ھ بمطابق 26 دسمبر 2022ء). صفحات فقیہ العصر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح تاریخ ولادت یہی ہے۔جہاں کہیں تاریخ ولادت 1887ء لکھی ہے وہ درست نہیں ہے۔(محمد شاہد ظفر بندیالوی).

سعیدی، شارح بخاری و مسلم حضرت علامہ غلام رسول (پہلا ایڈیشن:اپریل 1969ء۔۔دوسرا ایڈیشن:2012). حیات استاذ العلما مولانا یار محمد بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ. لاہور: محمد رضاء الحسن قادری،ادارہ دارالسلام،لاہور. صفحات 10–09.