تبادلۂ خیال زمرہ:تاريخ

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
  1. تذکرہ

حضرت شیخ سید یار محمد پاپینی رحمتہ اللہ علیہ مشہور بہ شیخ یار محمد جلال آبادی نور اللہ مرقدہ ۔

                ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
                ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

تیرے کس کس انداز کو الفاظ میں قید کروں۔۔۔ اب تو الفاظ بہی تیرے انداز کے محتاج ہیں۔۔ ۔علم تصوف کے ایک عظیم شہباز تھے۔صاحب سلوک اور بلند پایہ شاعر بھی تھے ۔سلسلہ نقشبندیہ بنوریہ میں آپ سیدالطائفہ حضرت سیدنا ادم بنوری رح کے باکمال، صاحب جمال اور عالم فاضل خلیفہ تھے ۔ آپ کے والد حضرت شیخ محمد طاہر پاپینی رحمتہ اللہ علیہ بھی حضرت سید آدم بنوری نوراللہ مرقدہ کے خلیفہ مجاز تھے۔ شیخ محمد طاہر پاپینی رحمتہ اللہ علیہ اپنے قبیلہ کے سردار بھی تھیں ۔ اپ کے کئ فرزند تھیں ۔جوکہ سارے کے سارے صاحب سلوک اور مجاہدین اسلام تھے ۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ انکے خاندان کو ورثہ میں ملی تھی ۔ درویشوں کی خدمت اور مہمان نوازی کی صفات انکے خاندانی روایات میں چلے آرہے تھیں ۔ اپ شروع ہی سے پابند شریعت'اور پابند صوم والصلواہ تھے۔ آپ کو حضرت شیخ سید آدم بنوری رحمتہ اللہ علیہ نے سلسلہ نقشبندیہ میں خرقہءخلافت سے نوازا تھااور کچھ عرصہ اپنے مرشد کامل کیساتھ مکتب عشق و سلوک میں رہنے کے بعد اپ اپنے وطن ننگرہار واپس لوٹ گئے۔ شیخ سید یار محمد پاپینی رحمتہ اللہ علیہ شیخ محمد طاہر پاپینی کے بڑے صاحب زادے تھے۔ اپ نے طالب علمی کا آغاز جوانی سے کیا۔ حصول علم کے بڑے شوقین تھے۔ نہایت ذہین تھے۔اپ اپنے علاقے کے صوفیاء کے غلط عقیدے اور غلط طریقوں سے خائف و منکر تھے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے سال 1056 ھجری میں حج اکبر ادا کیا۔اور اس کے بعد ہندوستان چلے گئے۔ اور اپنے رشد و ھدایت میں مشغول رہے ۔ 1068 میں دوبارہ حج پہ تشریف لے گئے۔ حج کے بعد کچھ عرصہ ملک شام وغیرہ میں بھی قیام پذیر رہے۔حضرت سید یار محمد پاپینی رحمتہ اللہ علیہ نے عرصہ 15 سال سلسلہ نقشبندیہ میں علم تصوف سے فیض یاب رہے۔اور پیری مریدی 'طریقت کے عمدہ باطنی احوال دیکھے۔ کابل میں بھی انکے مریدوں اور عقیدت مندوں کا ایک بہت بڑا حلقہ احباب تھا۔ شیخ سید یار محمد پاپینی رحمتہ اللہ علیہ پھٹانوں کے فتنہ انگیزی'شروفساد سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے بہت سارے مرد و عورتوں کو خیبر کے پٹھانوں کے قید و بند سے رہائ دلائ تھی ۔اور انہیں ساتھ پشاور لے گئے۔ اکثر انہیں خیبر کے پٹھانوں کے ظلم و ستم سے غم و غصہ اٹھانا پڑا۔ اپ رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان کے ایک آور ستارہ حضرت مولانا سید فاضل محمد پاپینی رحمتہ اللہ علیہ بھی علوم ظاہری و باطنی کا مشال روشن کرکے آپ کیساتھ مٹہ مغل خیل شبقدر چارسدہ تشریف فرما ہوئےتھے ۔لیکن آپ صاحب اقدس اپنے مرشد پاک سیدالطائفہ حضرت سیدنا آدم بنوری رحمتہ اللہ علیہ کے حکم پر اپنے وطن پاپین ننگرہار واپس چلے گئے۔اور حضرت مولانا سید فاضل محمد پاپینی رحمتہ اللہ علیہ مٹہ مغل خیل شبقدر چارسدہ میں مقیم رہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے فیض سے ہزاروں تشنگان عشق حقیقی سیراب ہوگئے اخر کار علوم ظاہر و باطن کا یہ عظیم شہباز 25 رجب 1080ھ کو دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔اور کم پاپین ننگرہار افغانستان میں اسودہ خاک ہوئے۔ پہ بوئے د ٹولے ونے رنگ کڑی اصلی چندنڑہ پہ تا پریوتل گردونہ راقم الحرام نے آپ صاحب اقدس کے اور اسی ہی خاندان تصوف و سلوک کے دیگر اکابرین مشاہیر مشائخ کے سوانح حیات 'خالنامے 'خاندانی پس منظر 'شجرہ نسب 'دینی و علمی خدمات ۔مجاھدانہ زندگی اور اولاد و خلفاء پر کافی ریسرچ و تحریر شروع کی ہے انشاءاللہ بہت جلد اس خاندان عظیم کے کار ہائے نمایاں اور علمی و دینی خدمات سے عوام الناس بالخصوص اپ کے نسبیان مستفید ہوں گے ۔آپ کے زیادہ تر اولاد مٹہ مغل خیل'کانگڑہ شبقدر چارسدہ میں آباد ہیں جسمیں زیادہ تر مملکت خداداد پاکستان میں سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ علم تصوف و سلوک اور علوم ظاہر کے بلند پایہ مقام پربھی فائز ہیں ۔اسوقت بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے منسوب سلسلہ نقشبندیہ بنوریہ کے کئی خانقاہ عشق و سلوک کے خوشبو سے طالبان سلوک کو معطر کر رہےہیں ۔ ستا د خائست گلونہ ڈیر دی جولئے مے تنگہ زہ بہ کوم کوم ٹولوومہ آپ کے ولولہ انگیز شخصیت کے بارے میں حضرت شیخ محمد آمین بدخشانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے کتاب مناقب الحضرات جو حضرت مولانا سید آدم بنوری رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ہے ۔میں بہت اچھے الفاظ میں رقم طراز ہے یہی نہیں بلکہ جو بھی کتب اور تذکرے حضرت مولانا سید آدم بنوری رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ہو اس میں آپ صاحب اقدس کا ذکر ضرور ہوگا کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت مولانا سید آدم بنوری رحمتہ اللہ علیہ کے جلیل القدر خلفاء میں سے تھے ۔ تحریر:سید مسعود ۔شاہ صاحب 12 مئی ۔2020ع