کچھ دن پہلےسوچا کہ کچھ اس عظیم شخصیت کے بارے میں لکھا جائے.
نورا مینگل کا اصلی نام نور محمد تھا.. مینگل مشہور براہوئی قوم کی طرف نسبت ہے بعد میں تخلص بن گیا
وہ بکریوں کا واہ پار کرتا تھا وڈھ اور سارونہ سے بکریاں بیچنے بکرا پڑی لے جاتا
نورا مینگل کو خواب میں اللہ تعالیٰ کے محبوب محمد مصطفیٰؐ کی طرف سے کئی بار انگریز سے لڑنے کے اشارے ملے
مگر باقاعدہ جہاد کا آغاز کهڈہ مارکیٹ کے مولانا محمد صادق صاحب رحمتہ اللہ کے کہنے پر کیا جنہوں نے اپنے یا مولانا عبیداللہ سندھی رحمتہ اللہ کے خواب میں محبوبؐ کا دیدار اور اپنے توسط سے اللہ کے رسول علیہ السلام کا نورا مینگل کے نام پیغام سنایا
مولانا محمد صادق صاحب رحمتہ اللہ نے اللہ کے رسول علیہ السلام کے بتائے ہوئے نشانیوں سے نورا مینگل کو بکرا پڑی میں ڈھونڈ نکالا
نورا مینگل علاقہ آیا اور اپنے روئیداد ساتھیوں کو سنائے تو سردار نور الدین مینگل. غازی سلیمان گرگناڑی نے ان کا ساتھ دینے کا عہد کیا
بعد ازاں نور الدین مینگل. شہباز خان گرگناڑی. نورا مینگل. سردار رسول بخش ساسولی زیدی میں ایک جگہ جمع ہو کر تادم مرگ انگریز سے لڑنے کے معاہدے پر دستخط کر دیئے
کہتے ہیں کہ وہ تحریر آج تک اپنے اصلی حالت میں موجود ہے!!!
پھر ان کے کچھ ساتھی مغربی بلوچستان میں اسلحہ حاصل کرنے گئے جو کہ اب ایران کا حصہ ہے !!
وہاں سے واپسی پر نورا مینگل. رسول بخش ساسولی. محمد خان گرگناڑی. سلیمان گرگناڑی. گهرام مینگل. لالو مینگل نے باقاعدہ جہاد کا آغاز کر دیا اور لاڑکانہ. دادو. شکار پور وغیرہ میں چھاپہ مار کارروائیاں کیں
لالو اور نورا نے لاکھوریاں کے مقام پر انگریزوں کے قافلے پر حملہ کیا اور قریب تھا کہ پورے سوراب کو فتح کرلیتے مگر اپنوں کی غداری کی وجہ سے ایسا نہیں کر پائے
پهر انگریز نے ایک چال چلی رسول بخش ساسولی کو گرفتار کرنے کے بہانے زیدی جانے کا اعلان کیا
نورا مینگل ساتھیوں سمیت "پهب" (پہاڑ کا نام) میں موجود تھے
انہوں نے بھی زیدی پہنچنے کا فیصلہ کیا
جب وہ زیدی کے قریب "گاج" کے علاقے میں پہنچے پتہ چلا کہ انگریز زیدی کے بجائے "وڈہ" کا رخ کیا ہے
وہ بھی مڑے اور پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے وڈہ پہنچے
یہاں انگریز نے نورا مینگل کے 33 ساتھیوں کو ان کے گھروں میں محاصرہ کر لیا تھا جن میں گہرام مینگل. حسین خان گمشادزئی اور شہباز خان بهی تھے.
نورا مینگل نے ان کو پہاڑوں پر جانے کا کہا تھا مگر انہوں نے اس کو غیرت کے خلاف جانا کہ گهر بار کو چھوڑ کر پہاڑوں پر جائیں
ان کے پاس صرف تلواریں تھیں انگریز نے ان کو تسلیم ہونے کا پیغام بھیجا مگر انہوں نے تسلیم ہونے کو اسلامی اور براہوی اقدار کے منافی سمجھ کر لڑنے کو ترجیح دی
اس دوران گہرام کی نظر انگریز کے پستول پر پڑی تو انہوں نے کہا کہ اس سے کوئی بھی نہیں مرتا
حسین خان نے کہا کہ مرتا ہے ان میں بحث بھی ہوئی مگر آخر میں گہرام نے کہا کہ مجھے اس سے جتنی بھی گولیاں لگیں جب تک میں مارنے والے کو قتل نہ کر دوں تب تک نہیں مروں گا
یہ 25 جون 1916 ء کا یادگار دن تھا جس دن نورا کے 33 ساتھی انگریز سے لڑ کر جان جان آفرین کے سپرد کر رہے تھے
حسین خان اور دیگر ساتھیوں کی شہادت کے بعد گہرام مردانہ وار مقابلہ کرنے کیلئے نکلے انگریز کرنل اینڈرسن نے ان کو آتے دیکھ کر پستول سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی 7 گولیاں گہرام کے پیٹ میں پیوست ہوئیں !!!
گهرام کے انتڑیاں زمین پر آگئیں انہوں نے ان کو ازار بند میں لٹکائے اور پہنچ کر انگریز کرنل کو موت کے گھاٹ اتار دیا پھر وہیں پر شہادت کے جام نوش فرما گئے
اس دن شہید ہونے والوں کی تعداد 33 تهی جن کے نام
1۔ صالح محمد ولد دودا قوم گرگناڑی
2۔ رسول بخش ولد ناکام قوم گرگناڑی
3۔ محمد خان ولد بٹے خان قوم قلندرانی
4۔ عارف ولد بٹے خان قوم قلندرانی
5۔ سنجر خان ولد جمعہ خان قوم زہری
6 ۔دین محمد ولد نور محمد قوم میروانی
7 ۔ضرور ولد هیبت خان قوم بارانزئی
8۔ اعظم خان ولد سید خان قوم ڈهلوجو
9۔ ولیداد محمود زئی مینگل
10۔ حسین خان ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل
11۔ لعل محمد ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل
12۔ سنجر خان ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل
13۔ مہیم خان ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل
14۔ بلوچ خان ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل
15۔ مراد خان ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل
16۔ عبد الکریم ولد حسین خان قوم گمشادزئی مینگل
17۔ دین محمد ولد مراد قوم قوم گمشادزئی مینگل
18۔ سید خان قوم گمشادزئی مینگل
19۔ احمد ولد فتح محمد قوم گمشادزئی مینگل
20۔ پیارا ولد علی محمد قوم گمشادزئی مینگل
21۔ حسن خان ولد بلوچ خان قوم گمشادزئی مینگل
22۔ نورا ولد هیبت خان قوم گمشادزئی مینگل
23 ۔حسین خان ولد گمشاد قوم گمشادزئی مینگل
24۔ محمد ولد دوست محمد قوم گمشادزئی مینگل
25۔ جنگی خان قوم گمشادزئی مینگل
26۔ جان محمد ولد موسیٰ خان حمل زئی
27۔ علی مراد ولد حمزہ حمل زئی
28۔ محمد ولد کانبو حمل زئی
29۔ حسین خان ولد میر محمد حمل زئی
30۔عبداللہ قوم دولت خان زئی
31۔ میر گہرام ولد حسن خان حمل زئی
32۔ شہداد ولد یار محمد قوم چهٹو
33۔ کیچی ولد دهنگو قوم زہری
25 جون کو ہونے والے معرکہ دودکی میں مردوں کی شہادت کے بعد انگریزوں نے لوٹ مار کی اپنی بدترین تاریخ دہرائی
ادھر نورا مینگل خان محمد گرگناڑی کے 14 ساتھیوں میں سے صرف نورا اور خان محمد کے پاس رائفل باقی کے پاس رغدار بندوقیں تھیں
بارش بهی ہورہی تھی رغدار بندوقیں بارود کی بارش میں بھیگ جانے کی وجہ سے فائر نہیں کر سکیں۔
نورا اور خان محمد نے انگریزوں کے ساتھ وہ تاریخی لڑائی لڑی خود نورا مینگل کے بقول کہ ان کے مارے گئے 90 گولیوں میں سے صرف تین خچروں کو لگے باقی سب انگریزوں کے سر وسینے میں پیوست ہوئے
نورا مینگل نے وڈھ .مولہ. گاج کولاچی. سارونہ. نال. گریشہ. مشکے وغیرہ میں انگریزوں سے لڑی
بندوق کی خراب ہونے کی وجہ سے خان حبیب اللہ خان نوشیروانی کے پاس بنوانے کے غرض سے گئے
جس نے اسلامی اور بلوچی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے نورا مینگل کو انگریزوں کے ہاتھوں گرفتار کروا دیا
جسے کالا پانی منتقل کیا گیا
معرکہ دودکی کی شہداء میں سے 31 ایک (کوم) بهوسہ خانہ میں مدفون ہیں ان کے مقبرے کے چاروں طرف ایک دیوار ہے جس پر شہداء کے کتبہ لگے ہیں۔
مگرمیں یہاں کچھ ایکسٹرا حقائق بیان کرونگا، اس معرکہ
میں انگریز کا بہت بڑا نقصان ھوا
کسی نے انگریزی سرکار کو غلط اطلاع دی کہ شھید نورا مینگل دودکی گاؤں میں موجود ھے، بدلہ لینے کے لیئے انگریز نے دودکی گاؤں کا محاصرہ کرلیا چند غازیوں نے انگریزوں کو اپنی دلیری سے روکے رکھا، آخر کار وہ ایک ایک کر کے شھید ھوگئے، انگریز گاؤں میں داخل ہو کر عورتوں اور بچوں کو علیحدہ کرکے تمام مردوں کو بلا تفریق تہ تیغ کیا اور ان کو ایک کھڈے میں ڈال کر خود دس دن تک ان کے اوپر بیٹھا رھا، انگریز کے جانے کے بعد سردار مینگل نے جب اس جگہ کا معائنہ کیا تو وہ سب جسم مسخ ھو چکے تھے، تو ان کی نماز جنازہ پڑھا کر ان کو اس اجتماعی قبر میں ھی دفنایا گیا، لیکن ان میں سے تین شھداء کے جسم تازہ تازہ تھے، ان کے جسم سے ابھی تک خون رس رھا تھا ان کی داڑھیاں اور ناخن بڑھے ھوئے تھے، سر دار صاحب نے ان ھر تین کو اجتمائي قبر سے نکال کر علیحدہ علیحدہ قبروں میں دفنایا ان تینؤں میں ایک شھید شھداد چھٹہ تھا، بعد میں جب ان کی قبریں پختہ ھوئی تو ان دو شھیدوں کے نام کے ساتھ اسکے اصلی طائفہ اور سب کاسٹ بھی لکھی گئی ۔
تحریر. شاہ نواز خان چھٹہ