تبادلۂ خیال صارف:Arsalan Ahmed Akif

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

آیا ہے تو رک بھی جا، جانِ جگر بات کر آ اب سخن آزما، اب رات بھر بات کر

اک رات کی بات ہے، برسات کی رات ہے دیکھوں تری رہ گزر، تو ہے کدھر بات کر

تو کیوں ہے مجھ سے خفا، یہ راہ ہے کیوں جدا تیرے لیے ہی ہوا، میں در بدر بات کر

میں ہوں ترا رازداں، تو ہے مرا آئینہ پھر کیوں ہے یہ تلخیاں، ایسا نہ کر بات کر

ڈھونڈے تجھے یہ نظر، باتیں تری خوب تر جو آج پھر ہو اثر، اے با اثر بات کر ارسلان احمد عاکف

غزل، ارسلان احمد عاکف[ترمیم]

اٹھائے ہیں کیا کیا ستم رات بھر میں دیے جل رہے ہیں امیدِ سحر میں

بہت سے کٹھن راستے ہیں مگر تم چراغوں کو بجھنے نہ دینا نگر میں

بتاتی ہے بے چین پلکوں کی الجھن دریچے کھلے ہی رہے رات بھر میں

اٹھاتے اٹھاتے میں اب تھک چکا ہوں بہت آئے پتھر مری رہ گزر میں

نگر کی اداسی بتاتی ہے ہر روز بہت سے ہیں عاکف ستم گر نگر میں ارسلان احمد عاکف