تبادلۂ خیال صارف:MirzaZee

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

بے مثال اور ذی وقار ہستی خاتونِ جنت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا



جھک شو ق سے قلم کے ادب کا مقام ہے


تیری زباں پہ بنت محمد کا نام ہے



حضرت فاطمة الزہرہ ؓ تاریخ بشریت کی ایک نادراور صاحب فضل کمال شخصیت کا نام ہے جو خواتین عالم کےلئے اسوہ کامل کا درجہ رکھتی ہےں ۔ بیٹی ، ماں اور اہلیہ کی حیثیت سے انہوں نے وہ ناقابل فراموش کردار پیش کیا جو ہر اعتبار سے عدیم المثال ہے ۔


دامنِ رسالت کی پروردہ اس عظیم خاتون نے چھ برس کی کمسنی میں ہی اپنے والدمحترم رسول ا للہ کے قابل تحسین مشن کی کامیابی کے لئے نمایاں خدمات کا سلسلہ شروع کردیا ۔


حضرت فاطمہؓ کی سیرت دنیا بھر کی عورتوں کے لئے مشعل راہ سے کم نہیں ۔ آپؓ صبر استقلال کا پہاڑ ، حلم وبردباری کی آہنی دیوار اور مساوات کا مجسمہ تھیں ۔اطاعت شوہر اور بچوںکی صالح پرورش کا طور طریقہ آپ ؓکے حسن کردار کا آئینہ دار ہے ۔ یہ آپؓ کی نیک سیرتی کا اثر تھاکہ حبش کی رہنے والی کنیز جس کا نام فضہ تھا ،بعد وفات فاطمہ ؓ چالیس برس زندہ رہی مگر قرآن کی آیتوں کے علاوہ کوئی گفتگو نہ کی ۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ گھر کی فضاءاور رہن سہن کا ماحول کس قدر قرآن کے پیمانے میں ڈھلا ہوا تھا۔


آپ کی کنیت ام الحسنین ، ام السبطین ، ام الائمہ وغیرہ ہیں ۔ رسول اکرم نے بھی فاطمہؓ کو مختلف القاب سے نوازا تھا مثلاً رافیہ ، مرفیہ ، عابدہ ، زاہدہ ، ساجدہ ، ماجدہ ، طاہرہ وغیرہ ۔ ہر لقب اس وقت ملا جب عملاً آپؓ اس پر کاربند رہتیں ۔یہ منزل تھی کہ جہاں بڑے بڑے اوالعزم پیغمبروں کی ازواج مطہرات بھی ایسے القاب یاخطابات سے محروم رہیں ۔ اگر میں فاطمہ کے مقابلے میں حوّا یا مریم کو لاﺅں تومجھے سخن فتحپوری کا یہ شعر یاد آتاہے


ایک ہوئیں جنت سے خارج ایک بیت اللہ سے


مریمؑ و حواؑ سے کیا دو ں تجھ کو نسبت فاطمہؓ


فضل وشرف کے لئے یہی کافی ہے کہ آپؓ باعث ایجاد کائنات حضرت سرور کائنات کی بیٹی نورنظر ولخت جگر ہیں اورجناب خدیجتہ الکبریٰ جیسی جامع صفات ماں کی بیٹی ہیں ۔ یہ وہ فضیلت وشرافت نسبی ہے جو ابتدائے آفرینش سے آج تک کسی اور کو نصیب نہ ہوئی ۔ پھر شوہر وہ ملا جو تمام خوبیوں کا مالک ،تمام بزرگیوں کا پیکر ، تمام فضیلتوں اور عظمتوں کا حامل اور اس پر قدرت نے امامین حسنین ؑ جیسے عظیم الشان جلیل القدر، بے مثال اور لاجواب فرزندعطا فرماکر فضیلت اور عظمت میں چارچاند لگائے ۔ یہ وہ شاہزادے ہیں جن کے فضل وکمال کے مقابل عرش اعلیٰ کی بلندیاں سرنگوں ہیں ۔ جن کی سعی جمیلہ کے نتیجے میں اسلام کو حیات ابدی اور بقائے دائمی نصیب ہوئی ۔ دین الٰہی کی عظمت ان کی مرہون منت ہے ۔ ان کے بے پناہ اور گراں قدر احسان سے اسلام اور اہل اسلام کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتے ۔ ایسے برگزیدہ شہزادوں کی ماں کی قدر ومنزلت کی کیا انتہا ہوسکتی ہے ۔


مریم از یک نسبت ِ عیسیٰؑ عزیز


ازسہ نسبت حضرت زہراؓ عزیز


(اقبالؒ)


حضرت فاطمہ زہراؓ کی ذات گرامی حیائ،عفت ، پابندی حجاب، پاکدامنی ، امور خانہ داری کی انجام دہی ، حقوق شوہر کی ادائیگی اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کے معاملہ میں اعلیٰ اور حساس طبیعت کی حامل تھیں اور عام بچیوں سے افضل وجداگانہ تھیں چنانچہ ایک مرتبہ جب ام سلمہ ؓسے کہا گیا کہ بچی کو تعلیم دیا کریں تو آپ ؓ نے برجستہ فرمایا کہ میں خود اس بچی سے تعلیم حاصل کیا کرتی ہوں ۔ میں اس کو کیا تعلیم دوں گی ۔ تاجدار دوعالم کی اپنی بیٹی سے ایسی محبت ہے جس کی مثال دنیا میں موجود ہی نہیں ۔ آپ فرماتے ہیں فاطمہؓ میرا ٹکرا ہے ۔ فاطمہ ؓمیرے جگر کا ٹکڑاہے ۔ فاطمہؓ میری روح ہے جو اس کو ایذادیتاہے وہ مجھے ایذا دیتاہے ۔جس نے اسے غضبناک کیا اس نے ہمیں غضبناک کیا۔ یہی نہیں بلکہ فرماتے تھے کہ فاطمہؓ کے غضبناک ہونے سے خدا غضبناک ہوجاتاہے اور اس کے راضی ہونے سے خداراضی ہوجاتاہے ۔ محمد مصطفی کی بیٹی کااعزازدیکھو سرور دوعالم خود روح کائنات ہیں لیکن سیدہ فاطمہؓ کو اپنی روح کہتے ہیں ۔روح کائنات کی روح کے مقام کو کون جان سکتاہے ۔ امام الانبیائ نے فرمایا میری بیٹی فاطمہؓ دونوں جہاں کی عورتوں کی سردار ہیں ۔ یہ ہے شانِ فاطمہؓ کہ جس پیغمبراعظم کی تعظیم وتکریم کے لئے انبیاءکرام کھڑے ہوجاتے ہیں وہ سیّدہ فاطمہؓ کا اٹھ کر استقبال کرتے ہیں ۔ حضرت فاطمہؓ کے ساتھ رسول کی محبت وہ بحر بیکراں ہے جس کا کنارا تلاش ہی نہیں کیا جاسکتا۔حضرت زہرہ کے فضائل وکمالات اور آیت تطہیر کے بعد جس میں ان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔گھرکا سارا کام ایک دن خود کرتی اور ایک دن فضّہ کرتی ۔ ایک دن فاطمہؓ کی باری تھی جبکہ وہ روزہ رکھے ہوئے تھیں ۔ چکّی پیستے پیستے سو گئیں ۔ اُم ایمن کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ فاطمہ زہرہؓ سوگئیں ہیں ۔چکی خود بخود چل رہی ہے ۔ تسبیح لٹکی ہوئی ہے مگر ا س کے دانے گردش کررہے ہیں ۔ حسینؑ جھولے میں ہیں اور جھولا خود بخود چل ہل رہاہے ۔ میں نے اس واقعہ کی خبر پیغمبراسلام کو دی ۔آپ نے فرمایا ” ام ایمن تم کو خبر نہیں فرشتہ چکی چلا رہاہے ۔ جبرئیل جھولا جھلا رہے ہیں ۔ فاطمہؓ روزہ کی حالت میں تھیں خداوند کریم نے اس پر غنودگی طاری کردی تاکہ آرام مل جائے “۔


دشمنوں کے مقابلہ میں پرامن روحانی جہاد یعنی مباہلہ کا ایسا موقعہ بھی آیا جبکہ سیّدہ عالمؓ نے خدا کے حکم سے برقعہ میں نہاں ہوکر اپنے والد محترم اور شوہر نامدار کے ساتھ باہرنکلیں مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسنؑ اور حسینؑ جیسے بیٹوں ، فاطمہ زہراؓ جیسی بیٹی اور علیؓ جیسے دامادکو اپنے ساتھ لے کر میدان مباہلہ میں تشریف لے گئے تو کفار نے مباہلہ سے انکار کردیا ۔ ان کے ایک سردار نے اپنے ساتھیوں سے کہا : اے گروہ نصاریٰ! میں جن صورتوں کو دیکھ رہاہوں اگر یہ دعا کریں کہ پہاڑی اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ یقینا اپنی جگہ چھوڑ دے گی ۔ اگر انہوں نے بدعا کردی تو کوئی بھی عیسائی قیامت تک زمین پر باقی نہیں رہے گا اور تم ہلاک ہوجاﺅ گے ۔عیسائی اپنے سردار اسقف کی باتیں سن کر مباہلے سے باز آگئے ۔


کون خاتون جنت !جس نے اپنی ردائے مبارک فروخت کرکے سائل کا سوال پورا کردیا ، جو چکی بھی پیس رہی ہوتی اور تلاوت قرآن کریم بھی فرمارہی ہوتی۔ حوریں اور ملائکہ جس کے فرمان کے منتظر تھے مگر اس نے اپنی رضا کو شوہر نامدار میں گم کردیا تھا جو نماز پڑھتی تو آنکھوں سے اشک جاری ہوتے ،جس کے آنسوﺅں کو جبرئیلؑ موتیوں کی طرح چن کر شبنم کی طرح عرش بریں پر بکھیر دیتا تھا ۔


اشک اوبر چیدجبرئیل از زمین


ہمچو شبنم ریخت برعرش بریں


اس کے بعداقبال ؒکہتے ہیں کہ میرے پاﺅں میں قانونِ خداوندی کی زنجیرہے اور رسول کے حکم کا پاس ہے ورنہ میں حضرت فاطمہؓ خاتونِ جنت کے مزارِ اقدس کا طواف کرتا اور آپ کی قبرانور پر سجدے کرتا۔


پردے کا اس قدر خیال تھاکہ فاطمہؓ نے ایک دفعہ حضرت فضہ سے فرمایا ”یہ مجھے بہت ہی برا معلوم ہوتاہے کہ عورت کی میت تختے پر اٹھائی جائے ۔ اس طرح میت کے جسم کی جسامت نظر آتی ہے ،اگر چہ اس پر چادر ہی کیوں نہ پڑی ہو “۔ یہ سن کر فضہ نے کہاکہ ہمارے ملک حبش میں میت کو تابوت میں رکھ کر قبرستان لے جاتے ہیں ۔ یہ کہہ کر فضہ نے تابوت کا نقشہ پیش کیا ۔فاطمہؓ کو بےحد پسند آیا اور پیغمبر کے بعد صرف یہی ایسا موقعہ تھا کہ آپ کے لب ہائے مبارک پر مسکراہٹ آگئی ۔ چنانچہ آپ نے وصیت فرمائی کہ اسی طرح کے لکڑی کے تابوت میں ان کو اٹھایا جائے ۔ اس کے علاوہ آپؓ نے جنازہ کو پردہ شب میں لے جانے کی وصیت فرمائی ۔ تاریخ اسلام میں یہ پہلا تابوت ہے جس میں حضرت فاطمہؓ قبر کی منزل تک پہنچیں۔ کہنے کہ تو جناب فاطمہ زہراؓ کی زندگی کی مدت بہت کم ہے لیکن ان کی اس مختصر حیات کی مثال اس بسم اللہ کی مانند ہے جس میں کل قرآن سمایا ہوا ہے ۔


اسلام کی بیٹی جب تک شہزادی اسلام ملکہ سلطنت عفت وعصمت سیّدہ فاطمہ الزہراؓ کی حیات طیبہ کو نشان منزل نہیں بنائے گی ۔ منزل سے دور ہوتی جائے گی ۔ ان کے نقش قدم پر چل کر ہی عورت عورت بن سکتی ہے ۔ جس کی سیرت سے سبق حاصل کرکے ہی مسلمان مائیں مجاہد پیدا کرسکتی ہیں ۔ اس لئے کہ بیٹیوں کی سیرت ماں کی سیرت سے بنتی ہے ۔ ماں بے پردہ ہو تو اولاد بے حیاءہوتی ہے ۔ ماں کا کردار بلند ہوتو اولاد کا کردار بلند ہوتاہے ۔ ماں عبادت گذار ہوتو بیٹے ولی پیداہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری بیٹیوں کو اسوہ فاطمہ زہراؓ پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔آمین