تفہیم القرآن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تفہیم القرآن قرآن مجید کی تفسیر بقلم ابو الاعلی مودودی ہے۔ قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر پر اُردو زبان میں اتنا کام ہو چکا تھا کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف برکت اور سعادت کے لیے تفہیم القرآن تحریر نہیں کیا بلکہ انکا حقیقی مقصد یہ تھا کہ عام تعلیم یافتہ لوگوں تک روحِ قرآن اور اس کتابِ عظیم کا حقیقی مدعا پہنچ سکے۔ اس کے لیے انھوں نے لفظی ترجمہ کی بجائے آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا تاکہ ادب کی تند وتیز اسپرٹ جو قرآن کی اصل عربی عبارت میں بھری ہوئی ہے وہ متاثر نہ ہو کیونکہ یہی تو وہ چیز ہے جوسنگ دل سے سنگ دل آدمی کا دل بھی پگھلا دیتی ہے۔ جس کی قوت ِتاثیر کا لوہا اس کے شدید ترین مخالفین تک مانتے تھے اور ڈرتے تھے کہ یہ جادو اثر کلام جو سنے گا وہ بالآخر نقدِ دل ہار بیٹھے گا۔ اور یہ سارے فوائد لفظی ترجمہ کے ذریعہ حاصل کرنا مشکل ہے۔ چنانچہ مولانا نے تفہیم القرآن میں جس انداز کو اپنایا اس نے لاکھوں دلوں کو متاثر کیا خصوصاً نوجوان طبقے میں قرآن فہمی اور اس پر عمل کرنے کا احساس تیزی سے ابھرا۔ تفہیم القرآن چھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ (محرم 1361ھ ) فروری 1942 ء میں تفہیم القرآن لکھنے کے کام کا آغاز ہوا۔ پانچ سال سے زیادہ مدت تک اس کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ سورة یوسف کے آخر تک ترجمانی اور تفہیم تیار ہو گئی۔ اس کے بعد حالات کی بنا پر مولانا کو کچھ لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ بعد ازاں 1948ء میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے داخل ِ زنداں کر دیا گیا۔ جہاں انھیں تفہیم القرآن کے مواد پر کام کرنے کا خاصہ موقع ملا۔ 24 ربیع الثانی ١392ھ بمطابق 7 جون1972ء کو تفہیم القرآن تیس سال چار مہینے کے عرصے میں پایہٴ تکمیل کو پہنچی۔ اس کے متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

مفید ویب سائٹس[ترمیم]