خواجہ سرا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عثمانی حرم کے خواجہ سرا

خواجہ سرا (انگریزی: Eunuch، یونانی: εὐνοῦχος)[1] ایک ایسا مرد ہے جسے خصی کر دیا گیا ہو۔

لفظی بحث[ترمیم]

خواجہ‘ فارسی کا لفظ ہے اور اس کی جمع ’خواجگان‘ ہے۔ خواجہ سردار یا آقا کو کہتے ہیں۔ لغت کے مطابق توران میں سادات کا لقب جیسے خواجہ معین الدین۔ اور خواجہ سرا وہ غلام جو نامرد ہو اور گھر میں زنانہ کام کرتا ہو۔ یہ امیروں اور بادشاہوں کے زنانہ محل کی دربانی بھی کرتے ہیں اور زنانے میں آنے جانے کی انھیں اجازت بھی ہوتی ہے۔ ان کو محلّی بھی کہتے ہیں۔

اردو زبان میں اس صنف کو ہیجڑا، کھسرا، زنخا یا خواجہ سرا ء کے ناموں سے جانا جاتا ہے جبکہ عربی میں ان کو مخنث کہا جاتا ہے۔

صنف[ترمیم]

خواجہ سرا تیسری صنف ہیں۔ اگرچہ خواجہ سراؤں کے جسم مردانہ ہوتے ہیں لیکن اُن کی روش صنف نازک کی طرح ہوتی ہے۔[2] پاکستان میں سرکاری طور پر مردم شماری میں ان کی تعداد الگ شمار کی جاتی ہے، پاکستان کی کل آبادی میں 21744 ہیں،

اولین مدرسہ[ترمیم]

اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ایک خواجہ سرا نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک مدرسہ قائم کیا ہے جہاں صرف خواجہ سراؤں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ خواجہ سراؤں کا اولین مدرسہ ہے، مدرسے کی سربراہ 34 سالہ خواجہ سرا رانی خان روزانہ تقریباً 25 خواجہ سراؤں کو قرآن مجید پڑھاتی ہیں۔

نکاح[ترمیم]

ضیا الحق نقشبندی کے مطابق 50 زائد مفتیان نے فتوی دیا ہے کہ ’ایسا خواجہ سرا جن میں جسمانی طور مردانہ علامات پائی جاتی ہوں ان کا ایسے خواجہ سرا سے نکاح جائز ہے جس میں زنانہ علامات موجود ہوں۔‘

فتویٰ کے مطابق واضح علامات والے خواجہ سراؤں سے عام مرد اور عورت بھی نکاح کر سکتی ہیں۔

اولین ڈاکٹر[ترمیم]

کراچی کی 27 سالہ ڈاکٹر سارہ گل نے پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر بن کر تاریخ رقم کردی۔ انھوں نے جنوری 2022ء میں ڈگری پاس کی

مقابلے کا امتحان[ترمیم]

لاہور ہائی کورٹ نے خواجہ سرا فیاض اللہ کو پنجاب پبلک سروس کمیشن (پی پی ایس سی) کے تحت امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دے دی ہے۔(5 فروری 2021ء)

سائنسی تحقیق[ترمیم]

خواجہ سراء (Kilnefelter Syndrome)

یہ زماروت ہیں۔پشاور سے تعلق ہے اور خیبر پختونخوا کی خواجہ سراء کمیونٹی میں نہ صرف اپنی خوبصورتی بلکہ دانائی کی وجہ سے نمایاں نام رکھتی ہیں۔ یہ Kilnefelter Syndrome کے ساتھ پیدا ہوئیں۔ ہمارے تئیسواں کروموسوم کا جوڑا جنس کا تعین کرتا ہے۔ XX ہو تو لڑکی اور XY ہو تو جسمانی خدوخال اور ساخت لڑکوں کی ہوتی ہے۔ اس سنڈروم میں تئیسویں کروموسوم کے ساتھ ایک X کروموسوم اضافی جڑ جاتا ہے۔ اگر XY کے ساتھ جڑ جائے تو اسے XXY 47 کہتے ہیں۔ یعنی ہے وہ لڑکا ہی مگر جنسی تعین والے کروموسوم میں ایک ایکس کی ایکسٹرا کاپی ہونے کی وجہ سے جسمانی ساخت اور ہارمونز میں قدرتی طور پر تقریباً 33 فیصد لڑکیوں والے کام آجاتے ہیں۔۔ یوں سمجھیں دو حصے مرد اور ایک حصہ عورت۔ ایک تو جسمانی ساخت کا مسئلہ ہوتا دوسرا نفسیات میں 33 فیصد رجحان فی میل سائیکالوجی کا ہوتا ہے۔

ان کو انگلش میں انٹر سیکس کہا جاتا ہے۔ یعنی جنسی اعضاء کا واضح نہ ہونا یا مکس ہونا۔ یا نمایاں نہ ہونا۔ ٹرانز جینڈر ایک الگ اصطلاح ہے۔ یعنی وہ لوگ جسمانی طور پر مکمل لڑکا اور لڑکی ہوتے ہیں۔۔ بس ذہنی طور پر اپنی جنس کو قبول نہیں کرتے۔ یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ ہمارا موضوع وہ لوگ نہیں ہیں۔

انٹر سیکس میں ایک ایکس زیادہ ہونے کی وجہ سے ہی اس سنڈروم کا شکار Male کو X فی میل کروموسوم کی وجہ سے Shemale بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ بس ایک آپریشن کروا کر شادی بھی کر سکتی ہیں۔ مگر اس کے بعد ہارمونل بیلنس رکھنے کے لیے کچھ دوائیں کھانا ہوتی ہیں جو حمل وغیرہ اور جنسی صحت کو متاثر کر سکتی ہیں۔ چندی گھڑ کرے عاشقی ایوشمن کھرانہ کی حالیہ ریلیز ہوئی فلم اسی موضوع پر ہے۔

گذشتہ برس زماروت پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا گولیاں پیٹ میں لگیں۔ الحمد للہ ان کی جان بچ گئی مگر گھر والوں سے ملے جو زخم روح کو گھائل کر گئے وہ کبھی بھی بے درد نہ ہو سکیں گے۔

آج اکتیس مارچ کو پوری دنیا میں خواجہ سراء کمیونٹی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس کمیونٹی کو کئی نام دیے جاتے ہیں جو سب کے سب غیر انسانی اور ہتک آمیز الفاظ ہیں۔ ہیجڑہ، کھسرہ، تیسری جنس ، وغیرہ

لفظ خواجہ کا مطلب ہے افسر اور سرائے کا مطلب ہے رہنے کی جگہ۔ مغلیہ دور میں بادشاہوں نے اپنے درباروں میں اپنی بیویوں کے رہنے کی جگہوں پر اس کمیونٹی کو ملازمت دی اور ان کو سرا کا افسر یعنی خواجہ سراء کہا جانے لگا۔ تب سے اب تک ان کے لیے یہ لفظ قدرے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ مگر اب یہ خواجے یعنی افسر تو نہیں ہیں۔ بس سرائے میں ہی قید ہو کر رہ گئے ہیں۔

پاکستان میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ ایک تو ان لوگوں کا علاج نہیں ہو پاتا ۔ دوسرا والدین ان بچوں کے مسائل کو سرے سے سمجھ ہی نہیں پاتے ۔ XXY 47 ہوتا تو دکھنے میں لڑکا ہی ہے مگر رجحان عادات و اطوار لڑکیوں والے ہوتے ہیں۔ میک اپ کرنا بال لمبے کرنا اور لڑکیوں جیسی باتیں کرنا ان کی سرشت میں ہوتا ہے جسے نظر انداز کرکے ان بچوں پر جسمانی و ذہنی تشدد و ظلم کیا جاتا ہے۔ کہ وہ ان چیزوں کا اظہار نہ کریں۔ اور خود کو مرد ظاہر کریں۔ ایک وقت آتا ان لوگوں کو گھر سے نکال دیا جاتا اور یہ خواجہ سراء کمیونٹی میں جا کر پناہ لے لیتے۔ وہاں ان کی گرو ان کی بڑی بہن اور ماں کا درجہ حاصل کر لیتی۔

زماروت Kilnefelter Syndrome سنڈروم کی وجہ اور آپریشن نہ ہونے کیوجہ سے گھر سے نکالی جا چکی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایک بار بھی وہ غلط فعل نہیں کیا جسے ہماری کمیونٹی سے جوڑا جاتا ہے۔۔ اور اکثریت ایسا دھندہ نہیں کرتی۔ جب بھوکوں مر رہے ہوں تو جان بچانے کی غرض سے اس لعنت کو قبول کیا جاتا ہے۔ کہ ہمارے ساتھ نا انصافی تو گھر سے ہی شروع ہو جاتی پھر اسکول کالج یونیورسٹی اور ورکنگ پلیسز سب ہمارے لیے سرکس کا روپ دھار لیتی ہیں ۔ اور ہم اپنی شناخت ظاہر کرکے جوکر یا سیکس ورکر سمجھے جاتے۔

سنہ 2020 میں پاکستان کے 50 جید مفتیان کرام نے ایک فتویٰ جاری کیا۔ جس میں یہ کہا گیا ان کو تیسری جنس کہنا حرام ہے۔ اور مردانہ یا زنانہ واضح خصوصیات والے افراد اپنی مخالف جنس سے دین محمدی کے تحت نکاح کر سکتے ہیں۔ جن کی جنس واضح نہیں وہ اپنا علاج کروا کر نکاح کر سکتے ہیں۔ اور ان کو حق حاصل ہے وہ خود کو باقاعدہ علاج کے بعد اپنی جسمانی ساخت کے اعتبار سے لڑکا یا لڑکی کے طور پر متعارف کروا سکتے ہیں۔

اس ضمن میں شعور بہت ہی کم ہے۔ خواجہ سراء کمیونٹی کی شادی پر ان کے اپنے ہی گھر والے پولیس کا چھاپا ڈلوا کر ہم جنس پرستی کی دفعہ لگوا کر ان کو ذلیل کرتے ہیں۔ یعنی ایک تو گھر سے نکال دیا اور جب وہ لوگ اپنی فیملی شروع کرنے کا سوچیں تو اس کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔

اس بارے میں اپنی قانونی طور پر کئی سقم موجود ہیں۔ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت بہت ضروری ہے۔

یہ لوگ شادیوں میں ناچتے گاتے ہیں۔ تماشا کی جگہوں پر لوگوں کے سامنے ناچتے ہیں۔ ہمارے بچے پیدا ہونے پر خوشیاں بکھیرنے آتے ہیں۔ ہماری ہر خوشی میں خوش ہوتے ہیں۔ مگر ان کی اپنی زندگی میں خوشی دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ان کی زندگی میں سالگرہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کہ عیدوں شبراتوں اور دیگر مذہبی تہواروں پر بھی ان کے اپنے ان سے نہیں ملتے۔ وہ لوگ مسجد مندر چرچ بھی جائیں تو نفرت سے دیکھے جاتے ہیں۔ پھر اپنی سالگرہ کو ہی سال بھر کی خوشی کا تہوار سمجھ کر منا لیتے ہیں۔

میں بحیثیت سپیشل ایجوکیشن ٹیچر سمجھتا ہوں۔ کہ ان لوگوں کو کسی الگ شناخت یا پہچان یا علاحدہ اداروں کی ضرورت نہیں ہے۔ مجموعی شعور اور قبولیت کے ساتھ معیاری صحت کی سہولیات ان کی زندگی میں بے حد آسانیاں لا سکتی ہیں۔ والدین کی کاؤنسلنگ اور اساتذہ و علما کا اس شعور کو عام کرنا ان کے ذمے ایک قرض ہے۔۔

جرگہ ممبر[ترمیم]

خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا کو پہلی مرتبہ جرگہ ممبر منتخب کر لیا گیا ہے، پشاور سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراء ثوبیہ خان کو شہر میں تمام ڈی آر سیز کا رکن منتخب کیا گیا

گرو کا کردار[ترمیم]

خواجہ سرا بچپن میں ہی اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی گرو کے پاس آجاتے ہیں کیونکہ رشتے دار ان سے ہر قسم کا ناتا توڑ دیتے ہیں مرنے کے بعد بھی ان کی میت کو گھر میں کوئی نہیں دیکھتا ،تمام تر رسومات خواجہ سرا ادا کرتے ہیں

احادیث[ترمیم]

رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں یہ جنس موجود تھی،بعض کے نام بھی ملتے تھے کہ وہ معیت ،نافع ،ابوماریہ الجنّہ اور مابور جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے۔ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ شرائع اسلام ادا کرتے تھے۔ نمازیں پڑھتے ،جہاد میں شریک ہوتے اور دیگر امور خیر بھی بجا لاتے تھے۔ رسول اللہﷺ ان کے متعلق پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ بے ضرر مخلوق ہے۔آدمی ہونے کے باوجود انھیں عورتوں کے معاملات میں چنداں دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے آپ ازواج مطہرات کے پاس آنے جانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن جب آپ کو پتہ چلا کہ انھیں عورتوں کے معاملات میں خاصی دلچسپی ہی نہیں بلکہ یہ لوگ نسوانی معلومات بھی رکھتے ہیں ، تو آپ نے انھیں ازواج مطہرات اور دیگر مسلمان خواتین کے ہاں آنے جانے سے منع فرما دیا، بلکہ انھیں مدینہ بدر کرکے روضہ خاخ، حمرآءالاسد اورنقیع کی طرف آبادی سے دور بھیج دیا ، تاکہ دوسرے لوگ ان کے برے اثرات سے محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری ،المغازی:4234)

رسول اللہﷺ نے عورتوں کو حکم دیا کہ انھیں بے ضرر خیال کرکے اپنے پاس نہ آنے دیں ، بلکہ انھیں گھروں میں داخل ہونے سے روکیں۔ (صحیح بخاری، النکاح:5235)

رابعاً:واضح رہے کہ مخنث بنیادی طور پر مرد ہوتا ہے، لیکن مردی قوت سے محروم ہونے کی وجہ سے عورتوں جیسی چال ڈھال اور اداو گفتار اختیار کیے ہوتا ہے۔ یہ عادات اگر پیدائشی ہیں تو انھیں چھوڑنا ہوگا، اگر پیدائشی نہیں بلکہ تکلف کے ساتھ انھیں اختیار کیا گیا ہے تو رسول اللہﷺ نے اس اختیار پر لعنت فرمائی ہے کہ ‘‘وہ مرد جو عورتوں جیسی چال ڈھال اور وہ عورتیں جو مردوں جیسی وضع قطع اختیار کریں اللہ کے ہاں ملعون ہیں۔’’ (صحیح بخاری ،اللباس:5787)

رسول اللہﷺ کے پاس ایک ایسا مخنث لایا گیا جس نے عورتوں کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ یہ ازخود عورتوں جیسی چال ڈھال پسند کرتا ہے تو آپ نے اسے مدینہ بدر کرکے علاقہ نقیع میں بھیج دیا، جہاں سرکاری اونٹوں کی چراگاہ تھی۔ آپ سے کہا گیا اسے قتل کر دیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ‘‘ مجھے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ’’ (ابو داؤد، الادب:4928

حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]