دربار گھوڑے شاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

دربارگھوڑے شاہ یہ دربار لاہور شہر گھوڑے شاہ کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ پیرسید بہاؤ الدین جُھلن شاہ کے مزار سے بھی معروف ہے۔

اصل نام[ترمیم]

اصل نام مخدوم سید بہاؤ الدین شاہ بخاری سہروردی جھولن شاہ بخاری المعروف گھوڑے شاہ ہے گھوڑے شاہ کے دادا سید عثمان المعروف شاہ جھولہ بخاری وقت کے بہت بڑے ولی تھے۔ ان کا شجرہ نسب آٹھ سلسلوں سے حضرت مخدوم سید جلال الدین بخاری تک پہنچتا ہے۔

شاہ جھولہ کی وجہ[ترمیم]

ان کے دادا سہروردیہ سلسلے سے تعلق رکھنے تھے جو اچ شریف سے یہاں آئے تھے ایک بار اونٹ پر سوار ہو کر لاہور جاتے ہوئے ان کا بازو مسلسل اونٹ کو ہانکنے کے باعث کچھ تھکن اور کمزوری کا شکار ہوا تو انھوں نے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، کیا تجھے جھولہ یعنی رعشہ ہو گیا ہے، ان کے لبوں سے نکلی بات چند لمحوں میں حقیقت بنی اور رعشہ موت تک باقی رہا۔ان کا مزار، شیخ حسینی اور پنج پِیر کے نام سے معروف ہے۔شاہی قلعہ کی تعمیر سے قبل یہ علاقہ لاہور کی آبادی میں شامل تھا۔یہیں شاہ جھولہ کو دفن کیا گیا۔ اب ان کا مزار شاہی قلعے کے تہ خانے میں ہے۔ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سید شاہ محمد ان کی مسند پر بیٹھ کر سماج کو خیر کی جانب راغب کرتے رہے دادا کی نسبت سے جھولن شاہ کہلاتے ہیں

گھوڑوں سے محبت[ترمیم]

گھوڑے شاہ کی عمر دو تین برس کی تھی مٹی کے بنے گھوڑوں سے کھیلنا بہت پسند تھا۔ ولایت کی خبر عام ہونے کے بعد اپنی خواہشات کی تکمیل اور درد کے مداوے کی تمنا لے کر آنے والے حاجت مند مٹی کا بنا کھلونا گھوڑا عقیدتاً آپ کی خدمت میں پیش کرتے اور دعائے خیر کی استدعا کرتے۔اسی مناسبت سے لوگ انھیں گھوڑے شاہ کے نام سے پکارنے لگے جو امر ہوتا گیا۔جب دور دور تک یہ خبرپھیل گئی کہ گھوڑوں سے کھیلنے والے بچے کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اسے راز کی باتیں معلوم ہیں تو ان کے والد سید شاہ محمد نے شدید اظہارناپسندیدگی کیا مگر بچے کو قائل کرنا اور روحانی اسرار ظاہر نہ کرنے پر راضی کرنا مشکل تھا۔ اس لیے خدا سے دعا کی کہ یہ بچہ وہ راز ظاہر کرنے لگا ہے جن کی اولیاء پردہ پوشی کرتے آئے ہیں۔میں اسے باز نہیں رکھ سکتا، اس کی وجہ سے دین کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لوگوں کے اعتقادات کو ٹھیس لگ سکتی ہے اس لیے اپنے اِس خاص بندے کو اپنے پاس واپس بلا لے۔ والد کی دعا قبول ہوئی اور دس برس کی عمر میں میں اس ولی کا انتقال ہوا جس کی شہرت ہندوستان کے حاکم جلال الدین محمد اکبر کے دربار تک پہنچ چکی تھی۔ جس جگہ ان کا دربار ہے وہ سڑک آج بھی گھوڑے شاہ کے نام سے موسوم ہے اور لوگ آج بھی ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔

وفات[ترمیم]

آپ کی وفات ربیع الاول 1003ھ 1624ء میں ہوئی۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ لاہور، صفحہ 239، بہادر کنہیا لال، وکٹوریہ پریس لاہور