سارہ انعام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سارہ انعام ایک مفکر تھیں ذہین اور نرم گفتار انسان۔ وہ اپنا فارغ وقت نان فکشن کتابوں کو پڑھنے میں گزارتی تھیں

سارہ انعام پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں مبینہ طور پر اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت خاتون تھیں وہ پُرکشش شخصیت کی حامل ایک بے ضرر انسان تھیں[1] مگر اُن کے شوہر نے اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں واقع فارم ہاؤس پر مبینہ طور پر انھیں بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا تھا۔ اُن کے شوہر اور اس کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز فی الحال جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں[2]

سارہ انعام نے کینیڈا کی یونیورسٹی آف واٹر لو سے سنہ 2007ء میں آرٹس اور اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ یونیورسٹی آف واٹر لو کو دنیا بھر میں اکنامکس کی تعلیم کے لیے بہترین تعلیمی اداروں میں سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد سارہ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز جونیئر ایویلیوئیشن افسر کی حیثیت سے کینیڈا ہی سے کیا تھا[3] سنہ 2010ء میں انھوں نے ابوظہبی میں بزنس کنسلٹینسی کی کمپنی ’ڈیلوئیٹ‘ میں شمولیت اختیار کر لی جہاں وہ چار سال تک بحیثیت کنسلٹنٹ اور بعد ازاں سینیئر کنسلٹنٹ خدمات سر انجام دیتی رہیں۔ اس نوکری کے بعد انھوں نے ابوظہبی کے ادارے ’ایجوکیشن اینڈ نالج‘ میں شمولیت اختیار کی۔ یہاں ملازمت کے دوران انھوں نے ابوظبہی میں ’تعلیم ہر بچے کے لیے‘ جیسے بڑے منصوبے پر کام کیا اور اسی منصوبے کے تحت پہلی مرتبہ ایک چارٹرڈ اسکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سنہ 2021ء میں سارہ نے ابوظہبی کے ہی معیشت سے متعلقہ ادارے میں شمولیت اختیار کر لی جہاں ان کی بنیادی ذمہ داری سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے پالیسیاں ترتیب دینا تھا[4]

سارہ اکثر کیفے یا پارک کے کسی کونے میں بیٹھی کتاب پڑھتی ملتی تھی سارہ انعام کو مطالعے کا بہت شوق تھا۔ ان کی ایک دوست کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی ابوظہبی میں اتفاقیہ طور پر اُن سے ملاقات ہوتی تو وہ کسی پارک یا کسی بھی مقام پر کسی بینچ پر بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھ رہی ہوتی تھیں۔وہ فارغ ہوتیں تو اُن کا کام صرف اور صرف پڑھنا اور پڑھنا ہوتا تھا۔ سارہ کو سفر کرنا اور مختلف ثقافتوں کو تلاش کرنا پسند تھا۔ وہ مختلف زبانوں کو فوری طور پر سیکھ لیتی تھیں[5] ’'سارہ انعام ایک مفکر تھیں ذہین اور نرم گفتار انسان۔ وہ اپنا فارغ وقت نان فکشن کتابوں کو پڑھنے میں گزارتی تھیں۔ تاریخ اور سیاست سے لے کر مذہب تک۔ ہم نے اکثر اس کو کسی نہ کسی کیفے کے کونے میں بیٹھ کر سکون سے کوئی نہ کوئی کتاب پڑھتے پایا ہے۔‘'

سارہ کو اپنے خاندان اور ثقافت کا بہت پاس تھا۔ ’وہ ہمشیہ اپنے والدین کو خوش رکھنا اور انھیں محبت اور سکون فراہم کرنا چاہتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ اُن کے والدین اُن پر فخر کر سکیں۔‘ وہ اکثر اپنے والدین اور دوست احباب کو ملنے کینیڈا اور پاکستان آتی جاتی رہتی تھیں۔ ’'وہ اپنے والدین کو اپنے پاس ابوظہبی بلاتی تھیں، خاص کر وہ اپنی والدہ کے حوالے سے بہت زیادہ حساس تھیں۔ ’وہ اپنی والدہ کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ اکثر اُن کا ذکر کرتی تھیں۔ وہ اپنی والدہ کی بھی لاڈلی تھیں۔ میں جب سوچتی ہوں کہ اس کے والدین کس طرح اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے واقعے کو برداشت کر ' ہوں گے تو میرے دل میں ہول اٹھنے لگتے ہیں۔ اُن کے لیے اپنے خاندان سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں تھا۔’مجھے امید ہے کہ ایک دن ہمارے بچے بھی ہمارے دوست ہوں گے۔ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ اس کے لیے اپنے خاندان سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ عمر کے اس حصے میں اب وہ اپنی فیملی لائف شروع کرنا چاہتی تھیں۔ ’ہر کسی کی طرح وہ بھی چاہتی تھیں کہ وہ بھی کسی کو چاہئیں اور اُن کو بھی کوئی بہت محبت دے[6] میں جانتی ہوں کہ اگر وہ ماں بن جاتی تو وہ کتنی عظیم ماں ہوتی۔ وہ اپنے مسقبل اور اپنی فیملی لائف کے حوالے سے ہم سے بات کرتی تھی۔‘'

حوالہ جات[ترمیم]