سانحہ سپینہ تنگی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

24 اگست1930کے یادگار دن بمقام سپین تنگی ضلع بنوں کے غیور پٹھان عوام نے سامراج کے خلاف جدوجہد آزادی میں جو شاندار قربانی دی وہ پاک و ہند کی تاریخ آزادی میں سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔ اس جنگ آزادی نے میدانِ کربلا کا نقشہ پیش کیا تھا۔ ایک طرف مسلح، گورا فوج تھی دوسری طرف شمع آزادی کے پروانے غیر منظم غیر مسلح۔ ناکردہ گناہ کے طور اس مجمع عظیم پر گولیاں برسائی گئیں۔ بے گناہ عوام کا قتل عام ہوا بہت سارے شہید ہو کر امر ہو گئے۔ کیونکہ ان شہیدوں کا گر کوئی قصور تھا تو یہ کہ وہ بے گناہ اور بے قصور تھے۔ حصولِ آزادی کے لیے اپنی خواہش اور حسرت کا اظہار کرنے کے لیے میدان سپینہ تنگی میں جمع ہو گئے تھے۔ ان دنوں عوام کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ وہ تحریک آزادی کے جلسے اور جلوسوں میں شرکت کرنے بیس پچیس میل کا فاصلہ پیدل طے کرتے تھے۔
حکوت می کی تمام تر استبدادی تدابیر ان جلسوں اور جلوسوں کو روک نہ سکیں حالانکہ اس وقت تحریک کے تقریبا تمام سرکرہ لیڈر جیلوں میں بند تھے۔ مثلامقرب خان، میر محمد اسلم خان، حاجی محمد اسلیم، شیخ فارق صاحب، سالار یعقوب خان، خان ملنگ، ملک اکبر علی خان، شیخ حق نواز خان، محمد غلام خان، حاجی آزاد خان، حاجی پیر شہباز خان، مولوی گل خوئیدود، حکیم عبد الرحیم، قاضی حبیب الرحمن،بیرسٹر محمد جان عباسی، حاجی عبد الرحمان وغیرہ، جیل میں مقفل تھے۔ بنوں شہر کو مکمل طور پر محاصرہ کر کے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی تھے۔ فصیل شہر کے تمام دروازے بند اور مقفل تھے۔ جس سے شہر میں آنا جانا ممنوع تھا۔ ان حالات میں جو بیرون سے سے شہر کی آبادی کے مویشیوں کے لیے چارہ بلا قیمت فصیل کے باہر کی طرف سے پھینکا جاتا تھا۔ اور پابندی کے باوجود اہل شہر کی ضروریات کو پورا کرتے رہے۔
عوام کے مظاہروں کو روکنے کے لیے جب حکومت کی تمام انسدادی تدابیر ناکام ہوئیں تو گولی چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ وہ بھی بغیر اشتعال کے ۔
24اگست 1930کے روز سپینہ تنگی جو شہر بنوں سے 12 میل کے فاصلے پر بنوں کوہاٹ سڑک کی مشرقی جانب واقع ہے۔ یہ ایک خشک ریگستانی علاقہ ہے بے آب و گیاہ، یہاں ایک زبردست بہت بڑا جلسہ ہونے والا تھا۔ ظہر کا وقت تھا کرنل سی ایچ گڈنی ڈپٹی کمشنر بنوں فوج، پولیس اور فرنٹیر فورس کے ہمراہ صبح سویرے وہاں پہنچ چکا تھا۔ فوچ پہنچتے ہی وجہ بتائے بغیر ہیبت خان اور رائے بت خان منتظمین جلسہ تھے ان کے گھر جلا دیے گئے۔ یہ افراد ایک دن قبل گرفتار بھی ہوئے تھے۔ ان کے آٹھ بڑے بڑے اطاق جو اناج سے بھرے ہوئے تھے نذر آتش کیے گئے۔ گھر وں کے اندر سامان کے ساتھ ساتھ مویشی بھی جل کر خاکستر ہوئے دیگر آس پاس کے مکانات کو بھی نقصان پہچا۔ اور رہائشی تشدد، جبر کے شکار ہوئے گھروں کو لوٹا گیا۔
ڈپٹی کمشنر نے میر داد خان، ایوب خان، قاضی فضل قادر کو اطلاع کی کہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کریں۔ گویا ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہوا تھا۔ ان تینوں نے جواب میں کہا کہ ہم عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔ البتہ جلسے کے اختتام پر ہم خود کو قانون کے حوالہ کریں گے۔ کیونکہ اس وقت جذباتی ماحول ہے اگر ہمیں گرفتار کیا گیا تو عوام مشتعل ہو کر قانون شکنی پر اتر آئیںگے۔ سر ایچ گڈنی نے ایوب خان وزیر کے درمیان مذکرات جاری تھے۔ جبکہ فوج جنگ کی تیاری میں مصروف دکھائی دے رہی تھی سارے راستے اور سڑکیں جو جلسہ گاہ تک جاتی تھیں ان پر فوج اور پولیس کاقبضہ تھا۔ کپٹن ایش کرافٹ جو گھروں کے جلانے میں مصروف تھا ان سے فرصت پا کر پرامن جلسہ گاہ میں گھس آیا۔ آتے ہی ہی سفید ریش قاضی فضل قادر جو جلسہ کی صدارت کر رہے تھے صدارتی تقریر کے دوران داڑھی سے پکڑ کر اسے سٹیج سے گرا کر زمین پرپٹخ دیا۔ ایک رضاکار نے مداخلت کی اسے پولیس نے گولی سے زخمی کر دیا۔ اس پر میاں محمد یوسف (ممش خیل) نے ایش کرافٹ پر حملہ کیا اور اسے لور سے ہلاک کر دیا۔ جس پر فوج اور پولیس نے جلسہ گاہ پر اندھ دھند گولیاں برسانی شروع کر دیں جو کئی گھنٹوں پر محیط تھیں۔ سینکڑوں لوگ شہید ہوئے بہت سارے زخمی بھی ہوئے مرنے اور زخمی ہونے والوں میں کئی خواتین بھی تھیں۔ 400بھیڑیں، اونٹ اور بکریاں ہلاک ہوئیں۔
زخمیوں کی بڑی تعداد شدت گرمی، پیاس اور زخموں کی وجہ سے بے کسی اور بے بسی کی موت مرے اور شہید ہوئے۔ فضل قادر صدرِ جلسہ بھی شہید ہوئے ان کا جسم گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ ان کی لاش سرکاری تحویل میں لے لی گئی۔ اور انھیں بنوں کی جیل کے احاطہ میں دفن کر دیا گیا۔ اور پھر قبر کو بے نام و نشان کردیاگیا۔ گویا اس پرزمین ہموار کر دی گئی۔ پاکستان بننے کے بعد کسی کی نشان دہی پروہاں ان کا مزار بنا دیا گیا۔ یوں پچاس سال سے زیادہ عرصے تک آزادی کے بعد بھی قید میں رہے۔ دو سال پہلے جب بنوں جیل کی عمارت ٹاون شپ منتقل کی گئی تو اکرم خان درانی نے بنوں جیل کی جگہ قاضی فضل قادر کے نام ایک بہت بڑا پارک لائبریر ی اور ان کا مزار بنانے کا فیصلہ کیا۔ یوں اس مجاہد کی قید کا خاتمہ ہوا۔ [1]


قاضی فضل قادر شہید کے علاوہ جو سرکردہ حضرات شہید ہوئے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
ترکال خان ترخوبہ کلاں، مولوی محراب خان نوری محمدی کلہ، پیاو خان پٹال خیل زخمی، زر خان اصل ولایت موسیٰ خیل، شدایر پٹال خیل، گنج خان موار کلہ، اسد خان موار کلہ، تھانیدار خان پٹال خیل، محمد شیر خان شہباز عظمت خیل۔
چوبیس گورا سپاہیوں کے علاوہ کپٹن ایش کرافت کمانڈر ایف سی بھی ہلاک ہوا۔ حکومت وقت نے 84 بے گناہ شخصیات کو گرفتار کرکے انھیں مختلف میعاد کی سزائیں دیں۔ ملک میر داد خان اور ایوب خان وزیر کو چودہ چودہ سال قید، محمد بشیر خان کو دس سال قید با مشقت کی سزا دی گئی ۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سپینہ تنگی کے ’شہید‘ قاضی فضل قادر: بنوں کے وہ رہنما جن کی قبر کو بھی برطانوی سرکار نے قید میں رکھا - BBC News اردو https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53900346