سمپلیفائیڈ سپیلنگ بورڈ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سمپلیفائیڈ سپیلنگ بورڈ (انگریزی: Simplified Spelling Board) ایک امریکی ادارہ تھا جو 1906 میں قائم ہوا۔ اس ادارے کا مقصد انگریزی زبان کے سپیلنگ یا ہجوں کی اصلاح کرتے ہوئے انھیں سیکھنے میں مزید سادہ اور آسان بنانا تھا۔ اس کے لیے یہ ادارہ الفاظ کے ہجوں میں عدم مطابقت (inconsistencies) کو بھی ختم کرتا تھا۔ یہ بورڈ 1920 تک کام کرتا رہا ہے۔بورڈ کے سرپرست اور بانی کی وفات کے ساتھ ہی یہ ادارہ بھی ختم ہو گیا۔ ادارے کی کارکردگی اور کام کے طریقہ کار کی وجہ سے ادارے کے بانی پر کافی تنقید بھی کی گئی تھی۔ سمپلیفائیڈسپیلنگ بورڈ کا اعلان 11 مارچ 1906 میں کیا گیا ۔ اینڈریو کارنیگی اس ادارے کے بانی تھے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر نیویارک سٹی میں تھا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق کارنیگی اس بات کے قائل تھے کہ ”انگریزی مستقبل میں دنیا کی عالمی زبان (ورلڈ لینگوئج) ہو سکتی ہے“ اور عالمی امن کے لیے پُر اثر بھی ہو سکتی ہے، اس کے اس کردار میں اس کے ”متضاد اور مشکل ہجے“ حائل ہیں۔کارنیگی نے اس ادارے کو شروع کرنے کے لیے 5 سال تک 15 ہزار ڈالر سالانہ مختص کیے۔ اس بورڈ کے ابتدائی 30 اراکین میں مصنفین، پروفیسر اور لغت نویس شامل تھے۔ ان کے اراکین میں سپریم کورٹ کے جج ڈیوڈ جوسیا بریور، کولمبیا یونیورسٹی کے صدر نکولس مرے بٹلر، ڈیوے ڈیسیمل کلاسیفیکیشن کے موجد میلویل ڈیوے، سٹینڈرڈ ڈکشنری کے ایڈیٹر ڈاکٹر آئزک کے فنک، امریکا کے سابق سیکریٹری خزانہ لیمن جے جاجامیکا کے کمشنر آف ایجوکیشن ولیم ٹورے ہیرس (ایڈیٹر انچیف 1909 ویبسٹر نیو انٹرنیشنل ڈکشنری، پبلیشنگ ٹائیکون ہنری ہولٹ، پروفیسر کالون تھامس اور مصنف مارک ٹوین بھی شامل تھے۔ اس ادارے کے دفاتر1 میڈیسن ایونیو میں واقع میٹروپولیٹن لائف بلڈنگ میں حاصل کیے گئے۔ بورڈ کا چیئرمین برانڈر میتھوز کو بنایا گیا۔ بورڈ کے خزانچی یونین ڈائم سیونگز انسٹی ٹیوشن کے چارلس ای سپراگ نے بتایا کہ گروپ اپنے نام میں لفظ Reform رکھنے میں تو احتیاط کر رہا تھا لیکن لفظ believe کو ایک مثال بنا رہا تھا جس میں سے غیر ضروری i ہٹایا جانا تھا۔ انھوں نے بتایا ”اگر believe کے ہجے believe کر دیے جائیں تو میرے خیال میں یہ اچھی تبدیلی ہوگی۔ 13 مارچ 1906 کو نیویارک ٹائمز نے سمپلیفائیڈ سپیلنگ بورڈ کی کوششوں کی حمایت میں ایک ایڈیٹوریل لکھا۔ انھوں نے لکھاکہ 90 فیصد الفاظ تو اچھی طرح ہجے کیے جاتے ہیں لیکن 10 فیصد زیادہ استعمال کیے جانے والے کے ہجے میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔اخبار کے اگلے دن کے ایڈیٹرویل میں انھوں نے بورڈ کے مخالفین کا موقف بیان کیاجن کا کہنا تھا کہ زبان کو جیسی ہے ویسی ہی رکھنا چاہیے۔اسے بہتر طریقے سے سکھایا جائے اور بورڈ کے ارکان بہتریاں لاتے ہوئے زبان کی تاریخ کو نہ چھپائیں۔ بورڈ کے چیئرمین برانڈر میتھوز نے زور دیا کہ بورڈ کابنیادی مقصد غیر ضروری حروف نکال کر زبان کو آسان بنانا ہے۔ آئزک فنک نے 20 مارچ 1906 کے ٹائمز میں لکھا کہ بورڈ بورڈ کا بنیادی مقصد الفاظ میں سے خاموش الفاظ کو نکالنا بھی ہے۔اس سے صدیوں پر محیط عمل تیز ہوجائے گا۔ اس کے لیے امریکن فیلولوجیکل ایسوسی ایشن کا تیار کردہ فونیٹک الفابیٹ استعمال کیا جانا تھا۔اس میں انگریز ی میں استعمال ہونے والی 40 بنیادی آوازیں شامل تھیں۔ فونیٹکس بچوں کو نرسری یا کے جی میں سکھایا جانا تھا۔ اس بورڈ نے 1 اپریل 1906 کو 300 الفاظ کی ابتدائی فہرست شائع کی۔اس فہرست میں زیادہ تر الفاظ وہ تھے جن کا اختتام ed پر ہوتا تھا۔ بورڈ نے انھیں آخر کے ed کو t سے بدل دیا تھا۔ مثال کے طور پر addressedکو addresst، caressed کو carest، missed کو mist، possessed کو possest اور wished کو wisht میں تبدیل کیا۔دوسری اہم تبدیلیوں میں سائلنٹ حروف کو ختم کر دیا گیا۔ اس طرح catalogueکو catalogسے بدل دیا گیا۔ ایک اور تبدیلی re سے ختم ہونے والے حروف میں آخر کے re کو er سے بدل دیا گیا جیسے calibreکوcaliber اور sabre کو saber سے بدل دیا گیا۔ اسی طرح ough کو o سے بدل دیا گیا۔ یعنی althoughکو althoاور thorough کو thoro میں بدل گئے۔اسی طرح s کی آواز کو zکی آواز سے بدلا گیا۔ جیسے brazen اور surprise کو brazen اور surprizeکر دیا گیا۔ بورڈ نے بتایا کہ اُن کی فہرست کے بہت سے الفاظ پہلے ہی مختلف لغات میں شامل تھے جیسے ویبسٹر میں آدھے سے زیادہ، سنچری میں 60 فیصد اور سٹینڈرڈ میں دو تہائی تھے۔جون 1906 میں بورڈ نے 300 الفاظ کی فہرست تیار کی۔ یہ فہرست درخواست پر استاتذہ، لیکچرار اور مصنفوں کو بھیجی جاتی۔ جون 1906 میں ہی نیویارک سٹی بورڈ آف ایجوکیشن کو بورڈ آف سپریٹنڈنٹس کی طرف سے تجاویز ملیں کہ ان 300 الفاظ کی فہرست کو اپنا لیا جائے اور تجاویز کو منظوری کے لیے کمیٹی آن سٹیڈیز اینڈ ٹیکسٹ بکس کے پاس بھیجا جائے۔ اگست 1906 میں امریکی صدر تھیورڈور روزویلٹ نے نے اس منصوبے کی حمایت کر دی۔ انھوں نے اوسٹر بے، نیویارک میں واقع اپنے گھر سے ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے اور اپنی کانگرس کو سرکاری خط کتابت میں تبدیل شدہ ہجوں کے استعمال کو لازمی قرار دیا۔ پروفیسر میتھو نے بتایا کہ انھیں صدر کے حکم کا ایڈوانس نوٹس نہیں ملا تھا اس لیے جب یہ جاری ہوا تو انھیں حیرت ہوئی۔ روز ویلٹ نے وفاقی حکومت پر بھی نئے ہجوں کو اپنانے پر زور دیا۔ انھوں نے پبلک پرنٹر کو حکم دیا کہ پبلک فیڈرل ڈاکیومنٹس میں اس نئے سسٹم کو اپنائے۔اُن کے احکام کی پابندی کی گئی اور بہت سے ڈاکیومنٹس نئے سسٹم سے ٹآئپ کیے گئے۔ ان میں نہر پانامہ سے متعلق پیغامات بھی ہیں۔


حوالہ جات[ترمیم]