وادی سندھ کا رسم الخط

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(سندھو رسم الخط سے رجوع مکرر)
وادی سندھ کا رسم الخط
قِسمابھی تک پڑھی نہیں جا سکی Bronze Age writing
زبانیںنامعلوم (دیکھیے ہڑپہ زبان)
مدّتِ وقت3500–1900 قبل مسیح[1][2][3]
آیزو 15924Inds, 610
Unicorn seal of Indus Valley, Indian Museum
Seal impression showing a typical inscription of five characters
Collection of seals

وادی سندھ کے بہت سے سربستہ رازوں میں سے سب سے دلچسپ راز وادی سندھ کا رسم الخط ہے۔ اسے پڑھنے کوششیں دنیا بھر کے ماہرین نے کی ہیں۔ لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔

وادی سندھ کی کل تحریریں 5000 سے بھی زائد ہیں۔ جو مختلف مہروں، ٹکیوں اور برتنوں پر ثبت ہیں۔ ان میں سے بعض عبارتیں دہرائی گئی ہیں۔ اس اعتبار سے کل عبارتیں 1500 سو ہیں۔ ان عبارتوں میں بنیادی علامات 396 سو ہیں۔ جو اپنے زمانے کے اعتبار سے خاصی مختصر ہیں اور زبان کے ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت بھی ہیں۔ بعض ماہرین تو کہتے ہیں ان کو 250 تک گھٹایا جا سکتا ہے اور بعض کہتے ہیں 150 تک گھٹایا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ابتدائی سومیری رسم الخط میں 900 اشکال تھیں۔ عراق میں 2000 ہزار اور قدیم چینی میں 40000 ہزار اشکال تھیں۔

اس رسم الخط کو پڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ دستیاب عبارتیں نہایت مختصر ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ایک سہولت بھی ہے۔ یہ رسم الخط ہر دور اور ہر علاقے میں یکساں اور سخت گیر گرامر کی پابند ہے۔ اس اپنی وضع ہمیشہ برقرار رکھی اور اس میں زوال کبھی نہ آیا۔ جب ختم ہوئی تو یک لخت ختم ہو گئی۔ کوئی سی تحریر ایک آدھ جملے سے زیادہ نہیں۔ سب سے طویل عبارت میں صرف سترہ علامتیں یا شکلیں ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شاید بعض افراد کے نام ہیں یا قبیلوں کے نام یا خطابات یا کسی تجارتی ادارے یا مذہب ( مندر ) یا تجارت کے نام ہیں۔

اس سلسلے میں روسی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے کمپیوٹر کی مدد سے ریاضی اصولوں کو برت کر اسے بڑھ لیا ہے۔ انھوں نے زبان کی صوتیات کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔ البتہ مفاہیم سے اس سماج کی مذہبی اور سماجی زندگی کے بارے میں کچھ اشارے کیے ہیں۔ ان کے نذدیک ان مہروں پر پڑھ لینے سے اہم انکشافات کلینڈر سسٹم کے بارے میں ہوا ہے۔ ان کے خیال میں وادی سندھ کے لوگ سال کو تین بڑے اور چھ چھوٹے موسموں میں تقسیم کرتے تھے۔ ( بڑا موسم دو چھوٹے موسموں کے برابر تھا یوں سال بارہ موسموں کا ہوا ) پھر ہر موسم کو ایک علامت سے ظاہر کرتے تھے۔ یہ علامت جانور کی شکل ہوتی تھی۔ سال کی علامت اک سنگھا تھا۔ چھوٹے چھ موسموں کی علامت بکری، شیر، بڑے سینگوں والا سانڈ، چھوٹے سینگوں والا سانڈ، بیل اور ایک سنگھا۔ ایک سنگھا ایک چھوٹے موسم کی علامت بھی تھا اور سال کی بھی۔ اساطیری جانوروں کی تصویریں بڑے موسموں کی۔ مثلاً دریاؤں کے چھلک جانے کا موسم مگر مچھ کی شکل سے ظاہر کیا جاتا تھا۔ سال سانڈ کی تصویر والے موسم سے شروع ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ سال بہار اور خزان کے دو موسموں میں منقسم تھا۔ بہار کی علامت پالتو بیل تھا جس کے سینگ بڑے تھے، اٹھتی ہوئی کوہان تھی اور بہت بڑا ہیگا گردن کے نیچے لٹکا ہوا تھا۔ خزاں کی ششماہی کو بچھو سے ظاہر کیا کرتے تھے۔ ساٹھ سالوں کا ایک کلینڈر بھی تسلیم کیا جاتا تھا۔ جو بارہ بارہ سال کے پانچ حصوں میں منقسم تھا۔

ممتاز بھارتی عالم اراواتھم مہادیون کا کہنا ہے کہ یہ رسم الخط حروف یا حروف نما اشکال پر مبنیٰ نہیں ہیں اور نہ ہی اس کا اپنے ہم عصر رسم الخط سے تعلق بھی نہیں ہے۔ جو چند اشکال جو مغربی ایشیائ سے ملتی جلتی ہیں ان رسم الخط سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ صرف خیالات کے اثر و نفوذ کا ثبوت ہیں۔ یہ ملتی جلتی اشکال آدمی، مچھلی، پہاڑ، دریا، بارش، شہر، چوک اور مکان وغیرہ ہیں۔ یہ رسم الخط بعد کے ہندوستانی رسم الخط سے بھی اس کا تعلق نہیں ہے۔ مختلف اشکال کے بعد جو اختتامی نشانات آتے ہیں وہ گرامری لاحقے نہیں بلکہ لغوی اہمیت رکھتے ہیں۔ جب یہ رسم الخط ختم ہوا تو اس کی کئی اشکال سماج میں مختلف شکلوں میں بکھر گئیں اور محفوظ ہوگئیں۔ مثلاً مذہبی علامات، شاہی نشانات، سکوں اور مہروں پر علامات اور اجتماعی علامات وغیرہ۔ مہادیون کا خیال ہے کہ ان مہروں پر اختتامی علامات اکثر بیشتر ان اشخاص کے طبقے (مرتبے، عہدے اور مقام) کو ظاہر کرتی ہیں، جو ان کا مالک ہوتا ہے۔ انھوں نے نتیجہ نکالا کہ ماضی میں اس رسم الخط کو پڑھنے کے جتنے دعوے کیے گئے ہیں وہ سب غلط ہیں۔ انھوں نے چند اشکال کی تشریخ اور انھیں پڑھنے کی کوشش کی ہے۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "'Earliest writing' found"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 ستمبر 2014 
  2. "Evidence for Indus script dated to ca. 3500 BCE"۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 ستمبر 2014 
  3. Edwin Bryant (2001)۔ The Quest for the Origins of Vedic Culture: The Indo-Aryan Migration Debate۔ Oxford University۔ صفحہ: 178 
  4. یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور

بیرونی روابط[ترمیم]