شیخ یوسف برکی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شیخ یوسف برکی شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کا خلیفہ خاص تھا۔

تعارف[ترمیم]

شیخ یوسف برکی کا وطن کابل و قندھار کے درمیان شہر برک تھا۔ شروع میں آپ کسی شیخ سے بیعت ہوئے اور توحید خیالی کا مشرب پیدا ہو گیا اور وجد وشوق، نعرہ و آہ اور فریاد والے بن گئے۔ اس طرح توحید صوری میں فنائیت حاصل کی تھی۔

بیت و خلافت[ترمیم]

اس زمانے میں شیخ یوسف نے ایک خواب دیکھا کہ اولیائے کرام مجدد الف ثانی کی تعریف کر رہے ہیں اور آپ کو حضرت مجدد کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے شوق دلا رہے ہیں۔ چنانچہ آپ نے مجدد الف ثانی کی خدمت میں اپنے احوال و کیفیات کے بارے میں ایک عریضہ لکھا۔ مجدد الف ثانی نے اس کے جواب میں آپ کی جانب ایک مکتوب تحریرفرمایا جس میں لکھا تھا:

  • اس قسم کے حالات اس راستے کے مبتدیوں کو پیش آتے ہیں، ان کا اعتبار نہ کرنا چاہیے، بلکہ ان کی نفی کرنی چاہیے۔ (جلد1 مکتوب 230 صفحہ 395)۔

اس مکتوب کے وصول ہونے کے بعد آپ کو مجدد الف ثانی کی زیارت کا ذوق وشوق دامن گیر ہو گیا لہذا آپ انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ مجدد الف ثانی کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ شیخ یوسف برکی نے بیعت کی التماس کی۔ مجدد الف ثانی نے آپ کی التماس کو شرف قبولیت بخشا اور آپ کو مجدد الف ثانی کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل ہو گیا۔ یوسف برکی کو قلیل عرصہ میں مراتب کمال کا شرف حاصل ہو گیا۔ مجدد الف ثانی نے آپ کو خلافت و اجازت عطا فرمائی اور جالندھر (ہندوستان) روانہ فرمایا۔

مرشد کامل سے عقیدت[ترمیم]

شیخ یوسف برکی کو اپنے مرشد سے بے پناہ عقیدت تھی۔ جب آپ مرشد کے حکم پر جالندھر جانے کے لیے رخصت ہونے لگے تو مجدد الف ثانی والے سے بڑے اخلاص، محبت اور عشق کا اظہار کیا۔ آپ بے قرار اور بے بس ہو کر نعرہ زنی اور فریاد کرنے لگے۔ بعد ازاں آپ جالندھر میں مقیم ہو گئے اور تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد سرہند شریف آ کر مجدد الف ثانی کی زیارت وصحبت سے مستفیض ہوتے اور پھر جالندھر چلے جاتے۔ گاہ بگاہ اپنے احوال و کیفیات کے بارے میں عریضے مجدد الف ثانی کی خدمت میں ارسال کرتے تھے اور مجدد الف ثانی آپ کو جواب عطا فرماتے تھے۔ آپ کو حضرت مجدد سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی۔ ایک بار سرہند شریف سے رخصت ہونے لگے تو بے قابو ہو کر بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا اور یہی شعر پڑھنے لگے:

از در دوست چہ گویم بچہ عنوان رفتم ہم شوق آمده بودم ، ہم گریاں، رفتم

(کیابتاؤں کہ دوست کے دروازے سے میں کیسے لوٹا؟ بڑے شوق سے آیا تھا، بہت روتا ہوا واپس لوٹا)

مجدد کی نظر میں[ترمیم]

مجدد الف ثانی نے اپنے ایک مکتوب میں ایک شخص کو شیخ یوسف کے بارے میں یوں تحریر فرمایا:

  • شیخ یوسف ہمارے پاس آئے تھے اور ایک عرصے تک یہاں رہے۔ بہت سے فیض حاصل کیے اور حقیقت فنا سے مطلع ہوئے۔ پھر آنے کا وعدہ کر کے اپنے گھر چلے گئے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ مرد مستعد اور سچے اخلاص والے ہیں۔

وصال[ترمیم]

شیخ یوسف برکی کا وصال 1034ھ بمطابق 1624ء میں جالندھر میں ہوا۔ آپ کا مزار جالندھر ہندوستان میں مرجع خلائق ہے۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ و تذکرہ خانقاہ سرھند شریف مولف محمد نذیر رانجھا صفحہ 577 اور 578