مندرجات کا رخ کریں

صارف:مسعودتنہا/ریتخانہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اسد اعوان اور اس کی شاعری

ازقلم: مسعود تنہاؔ(ایڈیٹر’’فکرِ نو،لاہور)

اسد اعوان قریباً تین دہائیوں سے شعروادب کی آبیاری میں مصروف ہیں،تحصیل ساہیوال میں علم وادب کے فروغ اور مشاعروں کا انعقاد کرانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسداعوان ایک کل وقتی شاعر ہیں۔ 1995میں بزم فکر ادب کی بنیاد رکھ کر اسداعوان نے علم وادب کے فروغ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔اور اب تک بزم فکر ادب نے سینکڑوں ادبی محافل منعقد کروائیں۔ شروع میں فکر ادب کے زیراہتمام ہفتہ وار شعری محافل ہوا کرتی تھیں ،اس کا کریڈٹ بھی اسدکو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسداعوان نے اپنی شاعری کے ذریعے ملکی اور غیر ملکی سطح پر اپنی ایک الگ شناخت قائم کرلی ہے ۔وہ آسان الفاظ میں مشکل اور مشکل الفاظ میں آسان مضامین باندھنے کا ہنر خوب جانتا ہے اور بے دھڑک اپنی بات کہہ دیتا ہے۔اسداعوان کی غزل روایت اور جدّت کا حسین امتزاج ہے ۔ بحروں کا انتخاب ، خوبصورت الفاظ کا چنائو اور تراکیب کا خوب سے خوب استعمال اس کی شاعری کا ایک خاص وصف ہے۔

2008میں اسد کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا تھا اوراس کے یکے بعد دیگرے اسے یہ کہنا، کہاں ملو گے شائع ہوئے جنہیں اہل ادب نے خوب سراہا اور ان کے فنی کمالات پر انہیں ڈھیروں داد بھی دی پھر بالترتیب ،فرحت عباس شاہ کے ساتھ مل کر ایک سو ایک شاعرکے نام سے شعری انتخاب شائع کیا۔غلام محمد دردتوں امتیاز علی گوہر تک، اسد رضوی سے محسن نقوی تک ،مظفر وارثی سے مظفر احمد مظفر تک ،جیسے شعری انتخاب شائع ہونا اسداعوان کی ادب سے کمٹمنٹ ظاہر کرتا ہے ۔اسداعوان کے شعری مجموعوں پر ملک کے ممتاز شعرا نے اپنی رائے کا اظہار کیاہے ۔

باقی احمد پوری لکھتے ہیں۔’’پاکستانی ادب کی ترقی میں اس وقت جو نوجوان دن رات کوشاں دکھائی دیتے ہیں ان میں اسد اعوان کا نام بھی نمایاں ہے ۔سرگودھا کی زرخیز زمین کا یہ شاعر تھوڑے سے عرصہ میں بامِ شہرت پر قدم رکھ چکا ہے ۔اسداعوان کا لہجہ غزل کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔اس میں ایک ایک کسک ہے جوغزل کی آبیاری کرتی ہے۔

  ڈاکٹر شبیہ الحسن نے لکھا کہ ’’اسد اعوان کے اشعار تیر کی طرح دل میں پیوست ہوجاتے ہیں۔

فرحت شاہ ان کے بارے میں کہتے ہیں۔’’ اسداعوان ہماری شعری روایت کے امین شعرا کی صف میں تازہ دم نمایاں اور مضبوط قدم شاعر ہیں اس کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے اردو شعرا کی کلاسیکی روایت کی قوت اور اثر پذیری کا ایک بار پھر سے قائل ہونا پڑا۔‘‘

یہاں معاصرین اور ناقدین کی آراکی روشنی میں اسداعوان کے چند شعر ملاحظہ کریں۔

روشنی تیرے چراغوں کے رہے تابہ ابد

اک دیا جلتا ہوا جادئہ شب گیر میں رکھ

اس قدر عشق نے بے کار کیا ہم کواسدؔ

ہم نہ باہر کے رہے اور نہ ہم گھر کے رہے

ہم بھی غالبؔ کی طرح کوچہئ جاناں سے اسدؔ

نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے

ہم سے ملنے کے لئے گھر سے سرِ شام اسدؔ

شوخ وشنگ نکلا کوئی بانکا سجیلا نکلا