صارف:میاں وقارالاسلام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

'آباؤ اجداد کی تاریخ[ترمیم]

ہماری معلومات کے مطابق ہمارے آباؤ اجداد کی تاریخ حکیم میاں جلال الدین لاہوری سے شروع ہوتی ہے۔ حکیم میاں جلال الدین لاہوری، مغلیہ سلطنت کے سرکاری حکیم تھے، اس کے علاوہ مغل سلطنت کے سیاسی اور مذہبی مشیر بھی تھے۔ شہنشاہ محمدجلاال الدین اکبر تیسرا مغل شہنشاہ تھا۔ جب اس نے 1582ء میں دینِ الہٰی متعارف کرایا تو مختلف مسلم علماءکرام کے ساتھ حکیم میاں جلال الدین نے بھی اس کی بھر پور مخالفت کی اور یہ کہ کر بادشاہ کو چھوڑ دیا کہ یہ اسلام کی توہین ہے۔ حکیم میاں جلال الدین اس کے بعد لاہور منتقل ہو گئے اور اپنی حکمت لاہور میں ہی شروع کر دی۔

بادشاہ جہانگیر چوتھا مغل بادشاہ تھا اور اپنے باپ کے برعکس ایک روایتی مسلمان تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے دینِ الہٰی پر اصرارکیا۔ شیخ احمد (مجدد الف ثانی کے طور پر جانے جاتےہیں) نے بھرپور مخالفت کی اور حکم ماننےسے انکار کر دیا۔ جس کے نتیجے میں انہیں گوالیار فورٹ میں قیدکر دیا۔ حکیم میاں جلال الدین نے مکمل طور پر شیخ احمد کی تحریک میں حصہ لیا۔ تاہم دو سال بعد ہی شہنشاہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ بادشاہ جہانگیر نے پھر صرف شیخ احمد کو رہا ہی نہیں کیا بلکہ واپس آگرہ بھی بلا لیا اورتمام غیر اسلامی قوانین جو شاہ محمد اکبر کی طرف سے لاگو تھے وہ بھی ختم کر دیے۔

بادشاہ جہانگیر نے حکیم میاں جلال الدین لاہوری کی سابقہ خدمات کے بدلے میں انہیں پرگنا ہانکڑا میں 10،000 ایکڑ اراضی سے نوازا۔ حکیم میاں جلال الدین لاہوری نے اپنی رہائش اور سیکورٹی کے لیے 20 کنال فورٹ تعمیر کیا۔ حکیم میاں جلال الدین لاہوری نے اپنی باقی زندگی مقامی لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ انہوں نے تبلیغ کی اور علاقے میں اسلام کو فروغ دیا۔ اس علاقے میں ہندؤں اور سکھوں کی اکثریت تھی اور مسلمان اکثر تنازعات کا شکار ہوتے تھے۔ انہوں نے مسلم کمیونٹی کی حمایت اور سپوٹ کا کام شروع کیا۔ حکیم میاں جلال الدین لاہوری اور ان کی فیملی جنجوعہ آرائیں کے نام سے جانی جاتی تھی۔ حکیم میاں جلال الدین لاہوری کے بعد ان کی فیملی نے مسلم کمیونٹی کی سپورٹ اور دیگر فلاح کے کاموں کو جاری رکھا ۔

اسلامی جدوجہد کا سلسلہ جاری رہا، مختلف لڑائیوں میں مسلمان شہید ہوتے رہے جس کے نتیجے میں اس علاقے میں شہیدا کے نام پر 9 قبرستان قائم ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔ 1۔ نورن شہید ،2۔ شادن شہید، 3۔ ابراہیم جتی ستی، 4۔ عالم شاہ، 5۔ محمدشاہ، 6۔ گل چند شہید، 7۔ حافظ اللہ بخش، 8۔ ال بخش اور 9۔ جدے والا۔ آج یہ علاقہ جلہ جیم کے نام سے مشہور ہے۔ یہ نام میاں جلال الدین کے نام سے منسوب ہے۔1050 ہجری میں میاں جلال الدین لاہوری کے بیٹے حکیم رکن الدین نے بادشاہی جامع مسجد جلہ جیم کی تعمیر کی۔ تمام تاریخی قبرستانوں، بادشاہی جاما مسجد اور فورٹ کی نشانیاں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

میاں جلال الدین سے میرے دادا حکیم میاں قمر الزمان سکلینی تک:[ترمیم]

ہمارے بزرگوں نے جلہ جیم کی سیاسی، سماجی اور حکمت کے لحاظ سے خاطر خواہ خدمت کی ہے۔ میاں جلال الدین سے میرے دادا حکیم میاں قمر الزمان سکلینی تک ہمارے بزرگوں کی فہرست یوں ہے۔

1. حکیم میاں جلال الدین لاہوری 2. حکیم میاں رکن الدین 3. حکیم میاں محمد رمضان 4. حکیم میاں جوم علی 5. حکیم میاں حسین علی 6. حکیم میاں محمد رمضان 7. حکیم میاں رکن بخش 8. حکیم میاں فضل الحق 9. حکیم میاں قمر الزمان سکلینی

آج ہماری جنجوعہ آرائیں فیملی صرف جلہ جیم ہی آباد نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے مختلف حصوں میں نقل مکانی کر چکی ہے۔

میرے دادا جناب حکیم میاں قمر الزمان کا تعارف[ترمیم]

میرے دادا کا نام حکیم میاں قمر الزمان تھا۔ وہ خاکسار تحریک میں کافی سرگرم رہے۔ 1931 ء میں علامہ عنایت اللہ مشرقی نے خاکسار تحریک کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک سماجی تحریک تھی جو لاہور سے شروع ہوئی اس کا بنیادی مقصد بھارت کو برطانوی سلطنت کے تسلط سے آزاد کروانا تھا۔ علامہ مشرقی نے 4 جولائی 1947 کو خاکسار تحریک تحلیل کر دی کیوں کہ بھارت کے مسلمان نئی اسلامی ریاست یعنی پاکستان کے حصول کی کوششوں پر زیادہ مطمئن اور پر امید نظر آتے تھے۔ ساتھ ہی خاکسار تحریک میں مسلمانوں کی دلچسپی بھی کم ہو چکی تھی۔ حکیم میاں قمر الزمان خاکسار تحریک کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ میں سرگرم تھے۔ حکیم میاں قمر الزمان پاکستان کے قیام کے بعد یونین جلہ جیم کے 2 دفعہ چیئرمین بنے، پہلی ٹرم 1959 سے 1964 اور دوسری ٹرم 1968 سے 1964 تھی۔

بطور چیئر مین حکیم میاں قمر الزمان کی اہم کامیابیاں[ترمیم]

علاقہ کے فلاحی کاموں کے لیے 24 ایکڑز رقبہ کی فراہمی ممکن بنائی۔ جسے درج ذیل فلاحی کاموں کے لیے الاٹ کیا گیا۔

1۔ 14 ایکڑ ز پر ہائی اسکول کی تعمیر 2۔ 3 ایکڑز پر یونن کونسل کی تعمیر 3۔ 1 ایکڑ پر خدام القران 4۔ 1 ایکڑ پر ویٹرنری ہسپتال 5۔ 2/1 ایکڑ پر گرلز اسکول 6۔ 2/1 ایکڑ پر کلب گھر 7۔ 5 ایکڑز پر ہیلتھ سینڑ جلہ جیم

انہوں نے 1938 میں فضل ربانیا کے نام سے ایک شفا خانہ بھی قائم کیا، جس کا مقصد علاقے کے غریب اور ضرورت مند لوگوں کی خدمت کرنا تھا۔ مستحق مریضوں کو کھانا، پینا، رہنا اور ادویات وغیرہ کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی تھیں۔ جب تک وہ حیات رہے کارِ خیر کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا۔

فیملی کا تعارف[ترمیم]

17 جنوری 1978 کو میری پیدائش ایک ایسی فیملی میں جہاں اقدار اور اصولوں کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی تھی جس کی وجہ سے مجھے ہمیشہ اپنی فیملی کا تعارف کرواتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے۔ میرا تعلق ایک سرائیکی آرائیں فیملی سے ہے اورمیں گذشتہ 18 سال سے لاہور میں مقیم ہوں۔ میری فیملی کا تعلق تحصیل میلسی، ضلع وہاڑی سے ہے، ہمارے اکثر رشتہ دار بنیادی طور پر زراعت کے پیشہ سے منسلک ہیں۔ ہماری زیادہ تر زمینیں اپنے آبائی علاقہ جلہ جیم میں ہیں۔ میرے والد کا نام میاں عبد السلام ہے وہ ایک تجربہ کار وکیل ہیں۔ میری والدہ ہاؤس وائف ہیں، وہ زندگی میں ہر موقع میری حوصلہ افزائی کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہیں۔ ہم چاربھائی ہیں۔ بھائیوں اور والدین کی طرف سے ہمیشہ خاطر خواہ سپورٹ حاصل رہی ہے۔ میری شادی17 فروری 2009 کو ہوئی۔ میرے دو بچے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی، بیٹے کا نام میاں اسماعیل وقار ہے جس کی عمر 3 سال ہے اور بیٹی کا نام مریم وقار ہے جس کی عمر 2 سال ہے۔

میرے والدِ محترم میاں عبد السلام صاحب کا تعارف[ترمیم]

میرے والد کا نام میاں عبد السلام ہے، انہوں نے ایل ایل بی کی ڈگری 1973 میں پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی اور ملتان بار سے اپنی پریکٹس کا آغاز کیا۔ صاحبزادہ فاروق علی خان ایڈوکیٹ (سابق سپیکر قومی اسمبلی پاکستان)، محمد بشیر خان ایڈوکیٹ (سابق وائس چئیر مین، پاکستان بار کونسل) چوہدری عبد الطیف فروز پوری ایڈوکیٹ اور چوہدری پرویز آفتاب ایڈوکیٹ سے پیشہ ورانہ رہنمائی حاصل کی۔ 1974 میں وہ میلسی منتقل ہو گئے اور میلسی بار سے پریکٹس شروع کر دی۔ 1989 میں انہوں نے میلسی بار ایسو سی ایشن کے الیکشن میں حصہ لیا اور بغیر مقابلے کے صدر منتخب ہوئے۔ حلف برداری کی تقریب میں جسٹس ہائی کورٹ جناب محمد منیر خان نے بطور چیف گیسٹ شرکت کی اور میاں عبد السلام سے بطور صدر بار ایسوسی ایشن میلسی حلف لیا۔ دیگر معزز مہمانوں میں ریٹائرڈ چیف جسٹس ہائی کورٹ جناب سردار عبد الجبار خان اور ایکس سپیکر پاکستان نیشنل اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان شامل تھے۔

میاں عبد السلام نے بطور صدر جن چیلنجز کو قبول کیا وہ درج ذیل تھے۔[ترمیم]

1۔ نوٹیفکیشن آف سیشن ڈویژن 2۔ ججز کے لیے کورٹ رومز اور رہائش گاہوں کی فراہمی 3۔ اے سی ہاؤس سے 8 کنال کی زمین کا حصول اور اس سے کورٹس کمپلیکس کی توسیع 4۔ بار رومز، لائبریری، کیفے، ٹی وی لانج وغیرہ کی توسیع 6۔ میلسی کے وکلا ء کے لیے رہائشی کالونی کا حصول

انہوں نے بار روم اور لائبریری روم کو ایڈیشنل سیشن جج کے نئے کورٹ روم میں تبدیل کیا۔ علاوہ ازیں ٹی ایم اے کے کلائنٹس شیڈ کو سول جج کے نئے کورٹ روم میں بدل دیا۔ ستمبر 1989 میں، انہوں نے سول جج میلسی چوہدری محمد یونس ( جوبعد میں بطور جج ہائی کورٹ لاہور ریٹائر ہوئے) کی کو آرڈینیشن سے ایک ترقیاتی سکیم تجویز کی اور اسے برائے منظوری چیف جسٹس، ہائی کورٹ لاہور کو بھیج دیا۔ اس سکیم کے تحت سول ججز کے لیے 4 نئے کورٹ رومز اور سول ججز کے لیے 4 نئی رہائش گاہیں شامل تھیں۔ بعد میں اس اسکیم کو مکمل طور پر چیف جسٹس، ہائی کورٹ لاہور کی طرف سے منظور کر لیا گیا۔ میاں عبد السلام میلسی بار ایسوسی ایشن کے 6 دفعہ صدر منتخب ہوئے، 1989 کے بعد بالترتیب سال 1990، 1995، 1998، 2000 اور 2001 میں صدر رہے۔ بطور صدر انہوں نے بار ایسوسی ایشن میلسی میں منعقد ہونے والے سینکڑوں پروگرامز کی میزبانی کی اور چیف جسٹس، ہائی کورٹ، لاہور، کے علاوہ کئی سینئر ججوں کو مدعو کیا۔ سیاست دان اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھی کئی مہمانوں نے شرکت کی۔

ضلع کونسل سے بار ایسوسی ایشن میلسی کے لیے فنڈز کی فراہمی برائے تعمیر بار روم کمپلیکس، ہائی کورٹ سے فنڈز برائے تعمیر کورٹ کمپلیکس اور قیام گاہ برائے ججز، چیمبرز، لائبریری،کینٹین اینڈ کیفیٹیریا کی ڈیویلپمنٹ، ٹریننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ پروگرامز کا انعقاد، بار اور بنچ کے درمیان میں خوشگوار تعلقات کو فروغ کے لیے ایکسپویر لیکچرز، انصاف اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات ان کی اہم کاوشوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ سماجی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی اور کئی علاقائی بار ایسوسی ایشز اور سول سوسائٹیز کو اکھٹا کیا۔ میلسی وکلا رہائشی کالونی کے حصول کے لیے انہوں نے تسلسل کے ساتھ جدوجہد کی، جنوری 1990 ء میں انہوں نے میاں نواز شریف (جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے) اور میاں شہباز شریف سے ن لیگ سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن(لاہور) میں ملاقات کی اور تجویز جمع کروائی۔ اپریل 1998 ء میں میاں نواز شریف ( جب وہ پاکستان کے وزیر اعظم تھے) میلسی کا دورہ کیا اور اس دوران میں ملاقات میں انہوں نے ریلوے اور اوقاف اراضی سے رقبہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔

اپنی کالج کی زندگی سے ہی انہوں نے سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ کالج کی سطح پر ان کی سیاسی سر گرمیوں میں جو ساتھی شامل تھے ان تصدق حسین جیلانی (پاکستان کے سابق چیف جسٹس)، جاوید ہاشمی (سابق وفاقی وزیر اور مشہور قومی رہنما)، محسن نقوی (مشہور اردو شاعر)،اصغر ندیم سید (مشہور رائٹر اور پروفیسر)، وقار احمدقریشی (کنٹرولر امتحانات، بی زیڈ یو) اور ملک محمد ناظم(ریٹائرڈ تحصیل میونسپل آفیسر) وغیرہ شامل تھے۔ نومبر 1968 ء میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا، انہوں نے ملتان ائیر پورٹ پر مورخہ 18 مارچ 1970 کو صاحبزادہ فاروق علی خان کی قیادت میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اور سوال کیا کہ آپ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا تے ہیں، آپ عوام کو صرف یہ بتا دیں کہ آپ خود کیا پہنیں گے، آپ خود کیا کھائیں گے اور آپ خود کس طرح کی رہائش میں رہنا پسند کریں گے۔ اگر آپ عوام کو صرف یہ بتا دیں کہ آپ کا طرز بودوباش بطور حکمران کیسا ہو گا تو عوام کے دکھوں کا مداوا ہو جائے گا۔ ہمیں آج بھی اپنی سیاسی قیادت سے اسی سوال کا جواب چاہیے۔ سماجی شعبے میں "انجمن شہرانِ میلسی" کے صدر رہے اور " سول کلب میلسی " کا قیام کیا جس میں سول سوسائٹی اور اسسٹنٹ کمشنر کی مدد حاصل کی۔ انہوں نے ان ڈور گیمز کے فروغ کے لیے سول کلب میں بطور جنرل سیکرٹری بھی اپنی خدمات سر انجام دیں اور وکلا، بینک آفیسرز، سرکاری حکام سمیت کاروبار ی اور سماجی حلقوں میں انڈور گیمز کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ انہیں سماجی، سیاسی، کاروباری اور وکلا کے حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے کام سے محبت کرتے ہیں، روزانہ کام کرتے ہیں، بے مثال قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، وہ طویل مدتی تعلقات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی باتیں حکمت اور دانائی سے بھر پور ہوتی ہیں، اسلامک لیکچرز اور سیاسی تقاریر سننے سے تعلق رکھتی ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اردو ادب خاص طور پر اقبالیات پر کافی عبور حاصل ہے۔ تاریخ ِ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے تقریباََ ہر پہلو کو جانتے ہیں۔ بچپن سے ہی انہیں اپنے والدین اور بزرگوں کا احترام اور خدمت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہمیشہ پُر امید رہتے ہیں، مشکلات کا سامنا ڈٹ کر کرتے آئے ہیں۔ اپنے اصولوں پر کبھی بھی سودا نہیں کرتے۔

میاں وقارالاسلام مختصر تعارف[ترمیم]

17 جنوری 1978 کو میری پیدائش ایک ایسی فیملی میں جہاں اقدار اور اصولوں کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی تھی جس کی وجہ سے مجھے ہمیشہ اپنی فیملی کا تعارف کرواتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے۔ میرا تعلق ایک سرائیکی آرائیں فیملی سے ہے اورمیں گذشتہ 18 سال سے لاہور میں مقیم ہوں۔ میری فیملی کا تعلق تحصیل میلسی، ضلع وہاڑی سے ہے، ہمارے اکثر رشتہ دار بنیادی طور پر زراعت کے پیشہ سے منسلک ہیں۔ ہماری زیادہ تر زمینیں اپنے آبائی علاقہ جلہ جیم میں ہیں۔

میرے والد کا نام میاں عبد السلام ہے وہ ایک تجربہ کار وکیل ہیں۔ میری والدہ ہاؤس وائف ہیں، وہ زندگی میں ہر موقع میری حوصلہ افزائی کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہیں۔ ہم چاربھائی ہیں۔ بھائیوں اور والدین کی طرف سے ہمیشہ خاطر خواہ سپورٹ حاصل رہی ہے۔ میری شادی17 فروری 2009 کو ہوئی۔ میرے دو بچے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی، بیٹے کا نام میاں اسماعیل وقار ہے جس کی عمر 3 سال ہے اور بیٹی کا نام مریم وقار ہے جس کی عمر 2 سال ہے۔

میٹرک سے لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے کا شوق تھا، میٹرک سے لے کر ایم بی اے تک اپنے بہت سے ٹیچرز کو آئی ٹی اور ایڈمنسٹریشن سے متعلقہ مضامین پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے۔ خود سے پڑھنے کا اور نئی نئی کتابوں سے مستفید ہونے کا شوق تھا، گریجوایشن تک پہنچتے پہنچتے میری اپنی ذاتی لائبریری تشکیل پا چکی تھی جس میں 300 سے زائید کتابیں شامل تھیں۔ مجبوری کے تحت کوئی جاب نہیں کی، شوقیہ انٹرویوز ضرور دیے، جس بھی کمپنی میں کام کرنے کی خواہش ہوئی اسی میں ہی جاب کی۔ ہر جاب کو خوب انجوائے کیا، جیسے چاہا اپنی تحقیق مکمل کی اور بہت سے نئے ٹرینڈز سیٹ کیے۔ پہلی کمپنی سے لے کر آخری کمپنی تک خوشگوار تعلقات کو قائم رکھا، کبھی تعلقات کو کمرشل ازم پر ترجیح نہیں دی۔ اسی وجہ سے اب میری کنسلٹینسی فرم میں میری پہلے کمپنی سے لے کر آخری کمپنی تک سب اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ تعلقات میں انوسٹ کیا ہے اور اب وہی تعلقات میری کمپنی کی بڑی انوسٹمنٹ اور اثاثہ ہیں۔

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم اپنے مقامی شہر میلسی کے گورنمنٹ پرائمری اسکول میلسی سے حاصل کی اور پھر گورنمنٹ ہائی اسکول میلسی سے ہی میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد سی کام اور ڈی کام گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے مکمل کیا۔ ریگولر ایجوکیشن کی مکمل تفصیل نیچے دی گئی ہے۔

ریگولر ایجوکیشن:[ترمیم]

انٹرنیشنل اسکول آف مینجمنٹ سائنسز (آئی ایس ایم ایس)،نیوپورٹ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، یو ایس اے (لاہور کیمپس، پاکستان) سے 3/1998 – 12/1999 میں ماسڑ آف بزنس ایڈمنسٹریشن ( مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) کی ڈگری حاصل کی۔ 98-3 کے بیج میں/4.0 3.52 جی پی اے کے ساتھ اور فائنل ٹرم، ایم آئی ایس میں 4.0/ 3.89 جی پی اے کے ساتھ نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ بہاؤدین زکریا یونیورسٹی، ملتان،کامرس ملتان پاکستان گورنمنٹ کالج سے 3/1996 – 3/1998 میں بیچلر آف کامرس (مارکیٹنگ) کی ڈگری حاصل کی۔ (مارکیٹنگ اور سیلز پروموشن میں گروپ پوزیشن ہولڈر رہا) پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ملتان ،گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میلسی سے 8/1993 – 12/1995 میں انٹرمیڈیٹ ڈپلوما آف کامرس کی ڈگری لی۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ملتان، گورنمنٹ ہائی اسکول، میلسی، وہاڑی سے 3/1991 – 6/ 1993 میں میٹرک( سائنس )(طبیعیات، کیمسٹری، بیالوجی)کی ڈگری حاصل کی۔

کیریئر سرٹیفکیشنز[ترمیم]

2001/10 مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل (ایم سی پی) ونڈوز 2000 ایڈوانس سرور کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ 2000/ 8 میں انٹرنیٹ سروسس پرووائڈرز (آئی ایس پی) سیٹ اپ میں لینکس ریڈ ہیٹ کے ساتھ (کاروٹ سسٹم، لاہور کیمپس سے پروفیشنل سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ 2000/ 6 میں سسکو سرٹیفائیڈ نیٹ ورک ایسوسی ایٹ (سی سی این اے)، سیکنڈ اور تھرڈ لیئر سسکو ڈیوائسس پر ہینڈز آن پریکٹس کے ساتھ سسکوکا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔

999/ 8 میں انگلش لینگویج سرٹیفکیٹ ( جو برٹش کونسل اور نیوپورٹ یونیورسٹی کے زیر اہتمام تھا) حاصل کیا

پروفیشنل سمری[ترمیم]

میں ایک پروفیشنل مینجمنٹ کنسلٹنٹ ہوں اور گذشتہ کئی برس سے مختلف سیکڑز میں اپنی خدمات سر انجام دے چکا ہوں جن میں پبلک پے فون سسٹم، پبلک ایڈریس سسٹم، پبلک سرویلنس سسٹم، پاور ڈائیگنوسٹک سسٹم، برڈ ر رپیلنٹ سسٹم، ٹرانزٹ میڈیا سسٹم، پبلک ڈسپلے سسٹم، ملٹی پرپز ایلیویٹرز اینڈ لفٹرز، ملٹی پرپز سیکورٹی ڈورز، بیریرز اینڈ ٹرنسٹائلز، مارکیٹ سروے، مارکیٹ ریسرچ، کارپوریٹ ٹریننگ اینڈ ایچ آر ڈیویلپمنٹ، وومن ایمپاورمنٹ، چائلڈ لیبر، مائیکرو فنانس، لارج فارمیٹ پرنٹنگ، فارمیسی، ریئل اسٹیٹ، ٹرانسپورٹیشن اینڈ لاجسٹکس وغیرہ اہم ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں میں نئی ٹیکنالوجیز متعارف کراونے کا ایک کامیاب ٹریک ریکارڈ ہے، جن میں کئی ملٹی ملین ڈالرز پراجیکٹس شامل ہیں۔ دنیا بھر کی متعددمعروف کمپنیوں کی جدید ایجادات پر ریسرچ بھی کی ہے۔ پاکستان کے لیے بہت سی بین القوامی کمپنیوں کی نمائندگی بھی حاصل کی اور پاکستان میں ان کے پراڈکٹس اور ٹیکنالوجیز کو متعارف بھی کروایا۔ بہت سی ایگزیبیشنز میں بھی حصہ لیا جن میں کیریئر ایگزیبیشنز، صنعتی ایگزیبیشنز، پاور اینڈ انرجی ایگزیبیشنز، پراپرٹی ایگزیبیشنز، ایجوکیشنل ایگزیبیشنز، پاک چین ایگزیبیشنز، پاک بھارت ایگزیبیشنز اور آرٹ اینڈ کلچرل ایگزیبیشنز وغیرہ شامل ہیں۔ انٹرنیشنل ایگزیبیشنز میں شرکت کے لیے کمپنیز کوباقاعدہ کنسلٹنسی بھی فراہم کی۔گوادر، مری لاہور، اسلام آباد، ملتان اور دیگر علاقوں کے رئیل اسٹیٹ پراجیکٹس کو پاکستان کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور یورپ اور دیگر ممالک میں انٹرنیشنل مارکیٹنگ نیٹ ورک کے ذریعے متعارف بھی کروایا اور پاکستان میں کئی ملین ڈالرز کی انوسٹمنٹ کروائی۔ کئی کاروباری سیمینارز، ورکشاپس، نیو پراڈکٹ لانچ، سی ای او فورمز وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔ پریس ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کے لیے کور سٹوریز، میڈیا رپورٹس، انٹرویو ز اورسکرپٹ وغیرہ بھی لکھے۔

اہم سنگ میل[ترمیم]

2016 -BRRP برڈ ر رپیلنٹ سسٹم ریسرچ پروگرام 2015 -SERP سولر انرجی ریسرچ پروگرام 2014 -PDRP پاور ڈائیگنوسٹک سسٹم ریسرچ پروگرام 2013 -PARP پبلک ایڈرس سسٹم ریسرچ پروگرام 2012 -THRP ٹیکنیکل ایچ آر ڈیویلپمنٹ پروگرام 2011 -GIRP گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ریسرچ پروگرام 2010 -HRBP ہائی رائز بلنڈنگز ریسرچ پروگرام 2009 -GPRP گوادر پراپرٹی ریسرچ پروگرام 2008 -CVRP کارپوریٹ ولاز ریسرچ پروگرام 2007 GPRP- گوادر پورٹ ریسرچ پروگرام 2006 HRRP- ہیومن ریسورس روبوٹکس ریسرچ پروگرام 2005 MFML- مائیکرو فنانس اینڈ مائیکرو لیز 2004 GTRP- گرافکس ٹیکنالوجیز ریسرچ پروگرام 2003 IFMS- انٹرنیشنل فرنچائزنگ منیجمنٹ سسٹم 2003 WTRP- وائرلیس ٹیکنالوجی ریسرچ پروگرام 2002 -ASRP ایڈوانس سرور ریسرچ کے پروگرام 2001 USCS- یونیورسلی سسٹین ایبل کمپیوٹر سویٹ 2000 APMS- ایریا پے فون مینجمنٹ سسٹم

پیشہ ورانہ صلاحیتیں[ترمیم]

ایڈ منسٹریٹیو: ماہر: کریکلم ڈیولپمنٹ، پروپوزل رائٹنگ، اسٹریٹجک پلاننگ، ٹریننگ اینڈ ریسرچ، کیمپین ڈیزائننگ، مارکیٹنگ ریسرچ، ہیومن ریسورس، فرنچائزنگ اینڈ لائسنسنگ، انوسٹمنٹ اینڈ فنڈز، مائیکرو فنانس، کپیسٹی بلڈنگ، نان فارمل ایجوکیشن اور چائلڈ لیبر او ایس پلیٹ فارم: پام او ایس، ایم ایس ونڈوز، ایکس پی، این ٹی، 2000 ایڈوانس سرور: ایپل میک او ایس، سسکو آئی او ایس، لینکس ریڈ ہیٹ اور لنڈوز(لینکس پر مبنی ونڈوز) ہارڈ ویئر پلیٹ فارم: ایکس ڈی اے سیلولر فونز اور ہینڈ ہیلڈ، کلیمشل، لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ پی، میڈ رینج کلائنٹ / سرور کمپیوٹرز، ڈیل، گیٹ وے، ایچ پی اور آئی بی ایم نیٹ ورکنگ: اے پی ایم ایس، ایئر کارڈز، ڈبلیو اے پی، بلیوٹوتھ، وائی فائی، 802.11، X.25، آئی پی 6، وی او آئی پی، کال سینٹرز، آئی ایس پیز، جی ایس ایم، جی پی آر ایس، سی ڈی ایم اے اور 3 جی لارج فارمیٹ پرنٹنگ : میڈیا بوپ 3 ڈی اینڈ فلپ ایمجنگ، ماڈیولر ڈسپلے سسٹم، پلاسٹک آئی ڈی کارڈز اور سی آئی ایس پرینٹنگ، لارج فارمیٹ انک جیٹ پرنٹنگ، پلاسٹک / میٹل انگریونگ اور ڈیجیٹل چاکلیٹ گرافکس آفس ایپلی کیشنز: کورل آفس سویٹ، ایم ایس آفس، ایم ایس آؤٹ لک، کورل ڈرا اور نورٹان / میکیفے ایڈوب فوٹوشاپ، ایم ایس منی، پیچ ٹری اکاؤنٹنگ اور ایس پی ایس ایس ویب ڈویلپمنٹ: ایم ایس فرنٹ پیج، فلیش / ڈریم ویور، میکرو میڈیا اور زارا 3 ڈی، ایچ ٹی ایم ایل، ایکس ایم ایل، جاوا، پی ایچ پی، ورڈ پریس، ویب سرورز ڈیٹا بیس : ایس کیو ایل، اوریکل، فاکس پرو، کرسٹل رپورٹ، ایم ایس اکسیس، پاکٹ آرگنازرز

پروفیشنل اچیومنٹس[ترمیم]

نیازی گروپ آف کمپنیز کی طرف سے سال 2016 کا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ

اس کے علاوہ دنیا کی بہترین کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے اور ان کو پاکستان میں متعارف کروانے کا اعزاز

آئی این اے ٹی گروپ سعودی عرب: ٹریڈنگ، کوالٹی مینجمنٹ، این ڈی ٹی اور سول ٹیسٹنگ میں ماہر گروپ ڈینا کارڈ، جرمنی: دنیا کا بہترین پبلک ساؤنڈ سسٹم، موبائل آڈیو، کنسرٹ ساؤنڈ اور پیجنگ سسٹم سیبا کے ایم ٹی، جرمنی: دنیا کا بہترین فالٹ ڈایا گنوسٹک سسٹم (پانی، بجلی اور ٹیلی کام) چاکلیٹ گرافکس، اسٹریلیا: چاکلیٹ پر چاکلیٹ سے 3 ڈی اور ڈیپتھ پرنٹننگ میڈیا بوپ، چائنہ: لینٹی کلیر ڈیجیٹل پرنٹننگ (3 ڈی، فلپ اور ڈیپتھ پرنٹننگ) بینر میٹ، چائنہ : موڈیولر ڈیسپلے سٹینڈ سسٹم، (انڈور ایڈورٹائزنگ ) سی آئی ایس، چائنہ:اپسان پرنٹرز کے لیے کانٹیوس انک فلو سسٹم ٹ گیون کنسلٹینسی گروپ، امریکا: بزنس اینڈ انوسٹمنٹ میں ماہر کنسلٹینسی گروپ جی اے پی، امریکا: کلوجن آر ایکس سکن کریم کے گلوبل ڈسٹریبوٹر چیتا سکیورٹی، اسٹریلیا: ہوم سیکورٹی اینڈ سرویلنس سسٹم، اسٹریلیا جی ٹی سی سی ایل، چائنہ: پے فون سیٹس، لائن پروٹیکشن یونٹ اور ائیریا پے فون منیجمنٹ سسٹم

مارول سسٹم، بطور پرنسپل کنسلٹنٹ[ترمیم]

مارول سسٹم: 1995 ء میں مارول سسٹم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ مارول سسٹم ایک ملٹی فنگشنل بین القامی بزنس کنسلٹینسی گروپ ہے۔ ہمارے بزنس کنسلٹنٹس اور منیجمنٹ ایکسپرٹس ہر کانٹینٹ میں موجود ہیں۔ ہم ایک منظم گروپ کی صورت میں دنیا بھر میں کام کر تے آ رہے ہیں۔ آج ہم ملٹی ڈسیپلنری (مختلف خدمات دے رہے ہیں)،ملٹی نیشنل (مختلف ممالک میں موجود ہیں)، ملٹی سیکٹرز (مختلف شعوبوں میں ایکسپرٹ ہیں)، ملٹی لوکیشنز (مختلف شہروں میں موجود ہیں) اورملٹی لینگول (مختلف زبانیں بولتے) ہیں۔ آج ہماری 300 سے زائد ممبر آرگنائزیشنز ہیں، ہم ان تمام کے ساتھ گزشتہ 10 سے لے کر 20 سال سے کام کر رہے ہیں،۔ ہم صرف ممبر آرگنائزیشنز کے ساتھ سہولت کار کے طور پر کام کرتے ہیں تاکہ وہ اپنا کام مزید بہتر طریقے سے سر انجام دے سکیں۔

مارول سسٹم انوسٹمنٹ فیڈریشن، بطور پریزیڈنٹ[ترمیم]

مارول سسٹم انوسٹمنٹ فیڈریشن، مارول سسٹم کی ممبر آرگنائزیشنز کو شارٹ لسٹ اور گروپ کرتی ہے تاکہ ممبرز کے لیے انوسٹمنٹ کے مواقع تلاش کیے جا سکیں۔ فیڈریشن اپنی ممبر آرگنائزیشنز کی سرمایہ کاری کا تحفظ کرتی ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت بھی کرتی ہے۔ فیڈریشن سرمایاکاروں میں اعتماد کی فضا قائم رکھنے اور نئی انوسٹمنٹ سے متعلق مواقع کی فراہمی اور آگاہی دینے میں بھی معاونت کرتی ہے۔ آج ہمارے پاس 10 سپیشل سیکٹرز میں اپنی ممبر آرگنائزیشنز کے لیے 100 سے زائد کی سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔

نیازی گروپ آف کمپنیز بطور ڈائیرکٹر آپریشنز اینڈ کنسلٹنٹ[ترمیم]

میں گزشتہ 15 سال سے نیازی گروپ آف کمپنیز کے ساتھ بطور ڈائیرکٹر آپریشنز اینڈ کنسلٹنٹ کے منسلک ہوں۔ نیازی گروپ کاقیام 1960 میں ہوا۔ آج نیازی گروپ ایک معروف کاروباری ادارہ ہے۔ نیازی گروپ کو کنسٹرکشن بزنس، رئیل اسٹیٹ پراجیکٹس، ٹرانسپورٹ نیٹ ورک، لاجسٹک سروسس، ٹوورازم سیکٹر، برکس مینوفیکچرنگ اور اگریکلچر فارمنگ سمیت متعدد شعبوں میں انتہائی اہم مقام ہے۔ میں نے ان کمپنیوں میں سے تقریباً سب کے ساتھ کام کیا ہے اوراس کے علاوہ کئی مختصر اور طویل مدتی منصوبوں میں بھی حصہ لیاہے۔ مجھے نیازی گروپ آف کمپنیز کی طرف سے سال 2016 کا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

دی پروفیشنل آرگنائزیشن، بطور کارپوریٹ ٹرینر[ترمیم]

میں دی پروفیشنل آرگنائزیشن کے ساتھ کارپوریٹ ٹرینر، ٹرینر آف ٹرینرز اور کیریئر کونسلر کی حیثیت سے منسلک ہوں۔ ہم گورنمنٹ آف پاکستان ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہیومن ڈیویلپمنٹ (این سی ایچ ڈی)، پلان پاکستان، این آر ایس پی، یو این ڈی ایف، پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن، ادارہ تعلیم و آگہی، الہجرہ ٹرسٹ پاکستان، الہجرہ ٹرسٹ یو کے، الہجرہ ٹرسٹ ترکی اور دوسرے بہت سے مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ بھی پراجیکٹس کر رہے ہیں۔ ہمارے متعدد ٹریننگ پروگرامز میں، آئی ٹی ٹریننگ، منیجمنٹ ٹرینگ، انگلش لینگوج، زندگی کی مہارتیں، سوشل ڈیولپمنٹ پروگرامز اور اسکولوں کی ری ہیبی لیشن اینڈ ایمپرومنٹ پروگرامز سب سے اہم ہیں۔

ادب سرائے انٹرنیشنل، بطور ایڈوائزر[ترمیم]

ادب سرائے انٹرنیشنل ایک اردو ادبی تنظیم ہے جو گذشتہ 30 سالوں سے اردو کے فروغ کے لیےمقامی اور بین القوامی سطح پر مسلسل کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد نئے لکھنے والوں کی بھر پور حوصلہ اٖفزائی کرنا اور انہیں ان کی شاعری اور نثر کے لیے ایک کھلا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔ ادب سرائے انٹرنیشنل کے ممبرز اور معروف شاعر، مصنف اور اہل علم سے دنیا بھر میں اردو ادب کے فروغ کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ادب سرائے انٹرنیشنل کی نمایاں کامیابیاں: 100 سے زیادہ مقامی اور عالمی ادبی تنظیموں سے باقاعدہ روابط، 600 سے زیادہ ماہانہ ادبی پروگرامز کا انعقاد، 1000 سے زیادہ مقامی ادبی پروگرامز میں شرکت، 100 سے زیادہ عالمی ادبی پروگرامز میں شرکت، 100 سے زیادہ معروف شاعروں کو خصوصی مہمان کے طور پر دعوت، 300 سے زائد سپیشل ڈے پروگرامز کا انعقاد،100 سے زیادہ نئی کتابوں کے افتتاحی پروگرامز، 5000 سے زائد نئی اردو کتابوں کا جائزہ اور 1000 سے زیادہ نئے اردو اور پنجابی لکھاریوں، شاعروں کی مدد اور اصلاح۔

1993 سے آج تک کا ادبی سفر[ترمیم]

جب میری شاعری کا سفر شروع ہوا تب میری عمر تقریباََِ 16 سال کے لگ بھگ تھی اور میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میری پہلی کتاب کا نام "من کٹہرا "تھا جو سال9 200 " میں منظر عام پر آئی۔ کتاب کی رو نمائی ہوٹل سن فورٹ لاہور میں ہوئی اور پروگرام کی صدارت ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ نے کی۔ میری دوسر کتاب کا نام "مثلِ کلیات"تھا۔ جو 2014 میں مکمل ہوئی۔ میری تیسری کتاب کا نام "شہرِ داغدار" ہے جو 2016 میں مکمل ہوئی ہے۔ میری چوتھی کتاب جو ابھی زیرِ طباع ہے اس کا نام "سوزِ محشر " ہے۔

"مثلِ کلیات" محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی 30 کتابوں سے شاعری کا ایک مجموعہ ہے۔ "مثلِ کلیات" میں ڈاکٹر شہناز مزمل کی شاعری کے علاوہ ان کے ساتھ اور ادب سرائے انٹرنیشنل (دنیا میں معروف اردو ادبی فورم) کے ساتھ میرا 15 سالہ ادبی سفر نامہ بھی ہے ۔

میری تین کتابیں: 1۔"من کٹہرا" 2۔" شہرِ داغدا ر" اور 3۔ "سوز محشر " تینوں مل کر ایک عظیم تصور "اسلامک وے آف لائف" کو بیان کرتی ہیں۔ "من کٹہرا" ہمارے خود کو سمجھنے کے بارے میں ہے کہ ہم کس طرح بنائے گئے ہیں۔ "شہرِ داغدار" ہماری کائنات کے بارے میں ہے کہ کس طرح کائنات تخلیق ہوئی ہے۔ "سوزِ محشر" قیامت کے دن کے بارے میں ہے کہ زندگی کے بعد کیا ہو گا۔ مزید یہ کہ یہ تینوں کتابوں بالترتیب " نفسِ امارہ"، "نفسِ لوامہ " اور نفس متمعئنہ پر بھی بات کرتی ہیں۔

اردو کی شاعری کی کتابوں کو علاوہ میری ایک اردو کی اور کتاب بھی ہے جس کا نام ہے "بیسٹ لائف نوٹس" بیسٹ لائف نوٹس اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔ اس کتاب میں میری زندگی کے بہترین نوٹس کی کولیکشن ہے۔ کچھ نوٹس قرانِ مجید کے بارے میں ہیں یعنی جب میں قران پہلی دفعہ پڑھا تو کیا محسوس کیا اور بار بار پڑھنے کے بعد کس نتیجے پر پہنچا۔ پھر کچھ نوٹس حضرت محمدؐ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے ہیں، کچھ انؐ کی زندگی کے اہم پہلوؤں پر اور کچھ انؐ کے آخری خطبہ کے بارے میں۔

اسی طرح قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کے کچھ اہم واقعات پر کچھ نوٹس میں اور کچھ علامہ اقبال ؒ کی زندگی کے حالات و واقعات پر شامل کیا ہے۔ پھر کچھ مولانا رومی کی حکایتیں اور کچھ دیگر مثالیں وغیرہ جن سے زندگی کے رہنما اصول ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک واقعہ مرحوم اشفاق احمد صاحب کی کتاب زاویہ سے بھی لیا گیا ہے۔ کچھ نوٹس میرے پروفیشن اور بزنس کے حوالے سے ہیں، جو میں نے مختلف شخصیات کے ساتھ کام کرنے اور سیکھنے کے دوران میں قلم بند کیے تاکہ انہیں مزید لوگوں کی رہنمائی کے لیے سامنے لایا جا سکے۔ اسی طرح کچھ نوٹس کا تعلق میرے ادبی اور تعلیمی سفر سے ہے، جو آج بھی میری رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ کچھ نوٹس کا تعلق پاکستان کے تاریخی، معاشی اور سیاسی پس منظر سے ہے۔ جن میں گوادر سی پورٹ، پاک چین اکنامک کوریڈور، پاک چین سیاسی، عسکری اور معاشی تعلقات اور پاکستان کے موجودہ اور مستقبل کے اہم ترقیاتی منصوبوں وغیرہ کی تفصیل شامل ہے۔ ان میں سے اکثر نوٹس، میری گوادر سے متعلقہ اہم پبلیکیشنز سے ہے۔ بیسٹ لائف نوٹس میری اردو کی چوتھی کتاب ہے اس کے آخری حصے میں میری گذشتہ اردو پبلیکیشنز میں سے کچھ نوٹس شامل کیے گئے ہیں۔ ان پبلیکیشنز میں "من کٹہرا"، "شہر داغدار" اور مثلِ کلیات شامل ہیں۔ اس حصے کا اختتام میری پروفیشنل سمری کے ساتھ ہوتا ہے۔

گوادر سے متعلقہ پبلیکیشنز[ترمیم]

اردو کی کتابوں کے علاوہ میری 8 دیگر کتابیں ہیں، جن میں 7 گوادر "نیوز بکس" شامل ہیں اور ایک گوادر "ہینڈ بک" شامل ہے۔ یہ کتابیں 150 سے زیادہ نیشنل اور انٹرنیشنل نیوز پیپرز سے نیوز کا تحقیقی مجموعہ ہے۔ نیوز کولیکشن کا تعلق براہ راست گوادر کے تمام میگا پراجیکٹس اور گوادر ڈیپ سی پورٹ سے ہے۔ علاوہ ازیں چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق بھی بہت سی نیوز شامل ہیں۔" گوادر ہینڈ بک" میں ضلع گوادر کی اہم معلومات گوادر پورٹ کی تفصیلات، اہم پراجیکٹس، گوادر کا تصویری سفر، اہم نقشاجات، اہم اقدامات، اہم بیانات اور گوادر میں مستقبل کے منصوبوں کا احاطہ وغیرہ سب شامل ہے۔

میاں وقارالاسلام موبائل: 0563862924

ای میل: mianwaqarpk@yahoo.com

ویب سائٹ: www.mianwaqar.com

پروفیشنل آیوارڈ: نیازی گروپ آف کمپنیز، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ 2016

انٹرنیشنل مارکیٹنگ مینیجر ال دوسر انٹرنیشنل کمپنی لمٹیڈ

ویب سائٹ: www.dousor-sa.com