مندرجات کا رخ کریں

صارف:ABDULKARIMDOST/تختہ مشق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ذکری مکتب فکر ایک مختصر تعارف

تحریر : عبدالکریم دوست

ہم سب مسلمان اللہ کو معبود اور محمد ﷺ کو آخری پیغمبر مانتے ہیں اور قرآن مجید کو آخری کتاب ،لیکن اس کےباوجود فرقہ واریت نے ہمیں اس قدر اندھا کردیا ہے کہ ہر گروہ اپنے آٗپ کے سواء دوسرے کو مسلمان ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ ہونا یہ چاہیئے کہ ہم سب ملکر اسلام کے اُس پیغام کو آگے بڑھاتے جو حضوراکرم ہمیں دے کر گئے تھے لیکن ہم اب اس قدر حقیقت سے ناآشناء ہوچکے ہیں کہ ہر مکتب فکر اپنے اندر ہی ایک دین ہے اور ہر کوئی اپنے علاوہ دوسرے کو مسلمان تک ماننے کے لیے تیار نہیں ۔اسی وجہ سے ہر فرقہ کے لوگ دوسرے فرقے سے متعلق بلاتحقیقی نفرت بھری باتیں سن کر نہ صرف اسے فورا ًمان لیتے ہیں بلکہ بلاجھجک نفرت اور حسد پھیلانا شروع کردیتے ہیں یہی معاملہ ذکری مکتب فکر کے ساتھ ہوا ہے ۔ اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ذکری مکتب فکر کا مختصر تعارف بیان کروں تاکہ طالبا ن ِحق حقیقت حال سے آشنا ہوسکیں ۔

ذکری مکتبہ فکر چھ صدی پہلے اُس وقت ایک اصلاحی تحریک کی صورت میں سامنے آئی جب مسلمان برصغیر سمیت دنیا بھر میں اخلاقی زوال سے دوچار ہوئے ۔ اس فکر کے بانی سید محمد مھدی جونپوری ہیں جو 847ہجری میں جونپور داناپور میں پیدا ہوئے اور 910 ہجر ی میں فرہ افغانستان میں فوت ہوئے ۔اس تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو اخلاقی پستی اور زاوال سے نجات دلانا تھا ۔اس مکتب فکر کے بانی سید محمد علیہ السلام ہر اعتبار سے اخلاق عالیہ کے پیکر تھے بر صغیر پاک و ہند کے بڑے بڑے علما ءنے نہایت ادب و اخلاق کے ساتھ اُنکی شخصیت کا ذکر کیا ہے جن میں عبدا لحق محدث دہلوی ، شاہ عبدالعزیز ، ،مولانا ابو الکلام آزاد ، مولوی خیر الدین سمیت دیگر مورخین و علما ء شامل ہیں ۔

ذکری مکتب فکر کے ماننے والے لوگ اس وقت ہندوستان ، ایران پاکستان کے علاوہ عر ب ممالک میں بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں ذکریوں کا مرکز تربت کیچ ہے جہاں ان کا مقدس زیارت کوہ مراد بھی واقع ہے ۔

ذکری مکتب فکر کے بارے میں جو کچھ عمومی طور پر بیان کیا جاتا ہے یا جو تحریریں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی جاتی ہے اکثر بیشتر اُن لوگوں کی کتابوں سے ماخوذ ہیں جو ذکریت کے رد میں لکھی گئی ہیں ان تمام کتابوں کا بغور مطالعہ کے بعد میرا تجزیہ یہ ہے کہ یہ تما م کتب بغض وعناد او تعصب پرستی کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں ان کتب میں ذکری مکتب فکر کے بنیادی مصادر کو نظر ا نداز کرکے چند ایسی کتابوں کا سہارہ لیکر ذکریوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جن کتب کا ذکریت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس لیے کسی بھی مکتب فکر کے بارے میں جاننے کے لیے درست طریقہ کار یہ ہے کہ اُس مکتب فکر کی اپنی کتب کا جائزہ لیا جائے تو کوئی شخص اُس مکتب فکر کے بارے میں درست رائے قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔

میں اپنی مطالعے کی روشنی میں ذکری مکتب فکر کے بارے میں جو کچھ جانتا ہوں بیان کررہا ہوں ۔ ذکری مکتب فکر دیگر اسلامی مکاتب فکر کی طرح ایک مکتب فکر ہے جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں محمد ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں قرآن مجید کو آخری کتاب مانتے ہیں تمام انبیاء کرام پر ایمان رکھتے ہیں ۔عقائد کے باب میں ذکریوں کا اختلاف صرف مھدی سے متعلق ہے سنی مکتب فکر میں یہ عقیدہ موجود ہے کہ مھدی قیامت کے قریب آئینگے جبکہ ذکری مکتب فکر سید محمد کو مھدی مانتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مھدی آچکے ہیں ۔عقائد کےباب میں صرف یہی ایک اختلاف ہے اگر اس اختلاف پر غور کیا جائے تو یہ صرف ذکریوں ا ور سنیوں کے درمیان اختلاف نہیں ہے بلکہ مھدی سے متعلق اسلامی مکتب فکر میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے حاتکہ کچھ ایسے مکاتب فکر بھی موجود ہیں جو آمد مھدی کو خرافات سمجھ کر اسرائیلی روایات کا تسلسل قراردیتے ہیں اس مکتب کے ماننے والوں میں ابن خلدون کے علاوہ امین احسن اصلاحی ، جاوید ا حمد غامدی ،مولانا وحیدخان کے علاوہ دبستان شبلی کے نامور علماء شامل ہیں اس لئے میرا خیال یہ ہے کہ اس اختلاف کی بنیاد پر کسی مکتب فکر کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا ، اگر دیا جاتا ہے تو پھر ہم سب مسلمان کافر ٹھہر جاہینگے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ مھدی سے متعلق تمام مکتب فکر میں اختلافات موجود ہیں ۔

اس کے علاوہ دیگر چیز وں سے متعلق اگر چہ چیدہ چیدہ اختلافات موجود ہی سعی لیکن اُن اختلافات کی بنیاد پر کسی مکتب فکر کو کافر ہر گز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اور اگر قرار دیا جاتا ہے تو پھر علم و عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مکتب فکر پر یہ فتویٰ جاری کیا جائے ۔

ذکری مکتب فکر کے لوگ عبادت پنجگانہ کو فرض سمجھتے ہیں زکواۃ ادا کرتے ہیں اور رمضان اور حج کو فرض مانتے ہیں جیساکہ دیگر مکاتب فکر کے لوگ مانتے ہیں تاہم فروعی معاملات میں کچھ چھوٹے چھوٹے اختلافات پائے جاتے ہیں ۔

کوہ مراد ایک مقدس زیارت ہے جو تربت شہر میں واقع ہے یہ نہ ذکریوں حج ہے اور نہ ہی حج کا متبادل ،ذکریوں میں سے جو لوگ حج کی استطاعت رکھتے ہیں وہ خانہ کعبہ میں حج کے لیے جاتے ہیں یہ دعویٰ محض مخالفین کے کتب میں موجود ہے کہ ذکری کوہ مراد کو حج مانتے ہیں ذکری کتب میں اس طرح کی کوئی بات بیان نہیں ہوئی ہے ۔ اس کے برعکس جس کتاب میں بھی کوہ مراد کا ذکر موجود ہے وہاں اس کو بطور ایک مقدس زیارت یاد کیا گیا ہے اس لیے یہ ایک مقدس زیارت ہے کہ جہاں مھدی تشریف لائے تھے اور یہ بھی کہ مدت گزرنے کے بعد یہ جگہ اب تاریخی حیثیت حاصل کرچکی ہے اس لیے یہ جگہ نہ صرف ذکریوں کے لئے بلکہ اس خطہ ارض میں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے مقدس ہے شاعروں کی شاعری سے لیکر ادیبوں کے افسا نے اس مقدس جگہ کی ذکر سے خالی نہیں ، یہ جگہ نہ صرف ذکریوں کے لیے اثاثہ ہے بلکہ وہاں رہنے والے تمام مکاتب فکر کے لوگ اسے محبت و عقیدت سے دیکھتے ہیں

۔

یہاں آخر میں ایک امر کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر مکتب فکر میں جہان پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں وہاں جائل بھی موجود ہیں اس لیے تحقیق کا علمی طریقہ یہ ہے کہ کسی مکتب فکر کے علماء کی رائے اُس مکتب فکر کے بارے میں مستند مان لیا جائے ، کسی عام شخص کی رائے کو بنیاد پر کوئی مفروضہ قائم کرنا کسی مکتب فکر کے خلاف علمی رویہ نہیں ہے اس بات کی وضاحت اس لیے کرنی پڑی کیونکہ اکثر محققین ذکریوں سے متعلق یہی رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جو نہ صرف تحقیق و جستجو کا قاتل ہے بلکہ غلط نتیجے کا حامل بھی ہے ۔

ذکری مکتب فکر سے متعلق جو کچھ ضروری باتیں تھیں میں نے اس مختصر مضامین بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اگر کوئی شخص مزید اس بارے میں جاننے کا خواہش مند ہو تو میں ویب سائٹ سمیت یوٹیوب چینل کا لنک منسلک کررہا ہوں جہا ں سے وہ اس مکتب فکر سے متعلق مزید معلومات حاصل کرسکتے ہیں اور ذکری مکتب فکر سے متعلق تمام کتب ڈانلوڈ کرسکتے ہیں ۔

WWW.ZIKRI-INFO.COM

https://www.youtube.com/channel/UCApxqZPkNa22dwuWWVvGdUw

حوالہ شمع بصیرت 2021 صفحہ 79[1]

  1. بصیرت (2021)۔ شمع۔ تربت بلوچستان: الذاکرین ویلفئیر فاؤنڈیشن۔ صفحہ: 79۔ ISBN 2211 تأكد من صحة |isbn= القيمة: length (معاونت)