صارف:Ansir473/تختہ مشق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ڈاکٹر نواز کاوش[ترمیم]

اصلی نام:       رب نواز

قلمی نام:        نواز کاوش

تاریخ پیدائش:  ۱۱ ،اکتوبر ۱۹۵۲

جائے پیدائش:  احمد پور ڈیرہ نواب

ولدیت:        قادر بخش چوہان

والدہ:           جنت بی بی

بھائی:          پانچ۔ نذیر احمد(مرحوم)، محمد نواز (مرحوم)، رشید احمد (مرحوم)، رب نواز کاوش(خود)،اور شاہ نواز(سب سے چھوٹے)

ہمشیر گان:      دو۔رضیہ بی بی، صفیہ سلطانہ  

تعلیم:        [ترمیم]

میٹرک، ۱۹۷۱،ایس ڈی ہائی سکول بہاول پور۔

               ایف۔اے، ۱۹۷۶، ایس ای کالج بہاول پور۔

               بی ۔اے، ۱۹۷۶، ایس ای کالج بہاول پور۔

ایم۔اے ،۱۹۸۲، اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور)طلائی تمغہ(اول پوزیشن۔

ڈاکٹریٹ، ۱۹۹۶، اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور۔

تحقیقی موضوع:[ترمیم]

’’بہاول پور میں اردو زبان و ادب کا آغا ز و ارتقاء‘‘

               ایم۔اے میں بھی مضمون کی بجائے تحقیقی مقالہ لکھا جس کا عنوان ’’ عبد الحق شوق،شخصیت و فن‘‘ تھا۔

حصولِ علم کے شوق یا پھر تشنہ آرزوئے علم کی سیرابی کے لیے اور تدریسی ہنر جاننے کے لیے بی۔ ایڈ، بعد ازاں ایم ۔ایڈ کے امتحان پاس کیے۔ ایم۔اے ایجوکیشن اور سرائیکی ادب میں بھی ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کیں۔ معلمی کے گر جاننےکے بعد طلبہ و طالبات کی علمی تشنگی مٹانے لگے۔

شادی خانہ آبادی:[ترمیم]

پہلی شادی بیگم نسیم نواز سے ہوئی  جو ۱۹۹۹ میں وفات پاگئیں۔ ان کے بطن سے رب تعالی نے محسن نواز، مدثر نواز اور علی نواز عطا کیے۔

بیگم ثوبیہ نواز ۲۰۰۰ میں آپ کی زوجیت میں آئیں۔ اللہ نے انھیں اپنی رحمت و نعمت دونوں سے نوازا۔ ان کے بطن سے اللہ تعالی نے عنزہ نواز، منیب  نواز اور دعائے سحر عطا کیے۔

عملی زندگی:    [ترمیم]

آغاز میں مختلف  اخبارات میں فری لانسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ’’امروز‘‘(ملتان)،’’کارواں‘‘،’’مغربی پاکستان‘‘، مغربی پاکستان اور دستور‘‘(یہ مقامی اخبارات تھے) میں دستکیں کے عنوان سے کالم لکھے۔

ریڈیو سے وابستگی:       [ترمیم]

زمانہ طالب علمی سے ہی  ریڈیوپر مختلف ادبی و سیاسی مذاکرات میں شریک ہوتے رہے۔

                       بطور سکرپٹ رائٹر ۱۹۷۵ سے ۱۹۸۱ تک مستقل ادبی و غیر ادبی موضوعات پر لکھا۔

                       اردو رسالہ ’’نخلستان‘‘ سرائیکی ’’پھوار‘‘ کے حوالے سے پندرہ روزہ پروگرام ترتیب  دیے۔اخبار و رسائل سے آپ کا تعلق ہمیشہ قائم رہا ۔ادب نوازی،کالم نگاری اورمضمون نویسی کا سلسلہ جاری رہا۔ مثلا:۔

                       زینت، اوراق، نئی قدریں(حیدرآباد،سندھ) ، الزبیر(بہاول پور) ،تخلیق(لاہور)،آہنگ(کراچی)، سائبان(بہاول پور)،ادب جہاں (رحیم یار خاں)، السیف(اسلام آباد)،روزنامہ جنگ(لندن،لاہور،ملتان)۔ ان تمام رسائل و جرائد میں آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔

آج کل صدر شعبہ اردو نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن بہاولپور تعینات ہیں

درس و تدریس:    [ترمیم]

سب سے پہلے   خطہ بہاول پور کی تاریخی درس گاہ صادق پبلک سکول میں تدریسی خدمات سرانجام دیں(۱۹۸۲)۔

                       انٹر کالج صادق آباد میں طلبہ کے ذوقِ علم کو سیراب کرتے رہے(۱۹۸۳)۔ بعد ازاں ایس ای کالج میں بطور لیکچرار تعینات ہوئے اور رشتۂ علم کو خوب نبھایا۔ اکتوبر ۲۰۱۳ میں اپنی تدریسی ذمہ داریوں سےسبکدوش ہوئے۔ اس دوران  درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ادبی خدمات بھی جاری رہیں۔ ’’نخلستانِ ادب‘‘ سے وابستہ رہے ۔شخصیات نمبرجاری کیا جن میں ’’قائد اعظم نمبر‘‘، ’’خواجہ غلام فرید نمبر‘‘ اہم ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے مختلف شخصیات کے خاکے بھی لکھےہیں۔ یہ تمام ادبی ورثہ کالج کی ادبی تاریخ ہے۔ ۲۰۰۱ میں لیڈیز انٹر کالج قائم کیا جو نا مساعد حالات کی وجہ سے ۲۰۱۳ میں بند کر دیا گیا۔

                       آج کل نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس میں صدر شعبہ اردو کے طور پر خدمات  انجام دے رہے ہیں۔

تخلیقی سفر:      [ترمیم]

       شاعری کے فطری رجحان نے اس راہ پر ڈال دیا۔

                       جانباز جتوئی نے اس نظم کے خیال کو سراہااور مشورہ دیا کہ تم ’شہید‘ تخلص کے تحت اپنی شناخت بناؤ لیکن کچھ عرصہ بعد آپ نے ’کاوش‘ کو پسندکیا جو آپ کی ادبی شناخت بنا۔ابتدا میں بہاول پور کے نام ور شاعر اور صحافی سید آل احمد(ایڈیٹر روزنامہ ’کارواں‘) سے اصلاح لی۔شعری سرپرستی میں آل احمد کا دستِ شفقت میسر رہا۔ یہ ادبی سفر اب بھی جاری و ساری ہے۔

نخلستانِ ادب کے روح رواں:[ترمیم]

       قلم قبیلہ، کاروانِ ادب، بزمِ اہلِ قلم اور چولستان ادبی فورم آپ کی توجہ کا مرکز ہیں۔ بلکہ چولستان ادبی فورم کی بنیاد میں منور جمیل قریشی (جنھیں مرحوم کہتے ہوئے قلم روٹھ جاتا ہے) دیگر احباب اور آپ کی کوشش شامل ہے۔

ادبی پذیرائی:[ترمیم]

       مختلف ادبی تنظیموں اور عالمی سطح پر اداروں نے آپ کی سرشاریٔ شعر و سخن کو سراہا۔

       زیڈ ۔اے بخاری ایوارڈ۔ ۱۹۷۹(بطور بہترین سکرپٹ رائٹر)

       بہترین سرائیکی لکھاری کے۔ ۱۹۸۹ میں ایوارڈ دیا گیا۔

       اعلی کارکردگی برائے ریڈیو۔ شمس الدین حیدر ایوارڈ سے نوازا۔ اس حوالے سے اسپیشل شیلڈ بھی عطا کی گئی۔ مجلہ ’نخلستانِ ادب‘ کی ادارت کے حوالے سے بھی ایس ۔ای کالج کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر ایوارڈ دیا گیا۔

       ملکی اور عالمی سطح پر منعقدہ ادبی سیمینارز میں دعوت ِ فکر و خیال۔ (تخلیق،تحقیق،تنقید)

  1. عالمی ادبی کانفرنس لندن۔ سرائیکی۔ زیرِ اہتمام:علمی و ادبی کانفرنس۱۹۸۹
  2. گولڈن جوبلی ترقی پسند امن کانفرنس۔ کراچی ۱۹۸۶
  3. ظہور نظر عالمی کانفرنس۔ بہاول پور۲۳۔۳۴۔۲۵ اکتوبر ۱۹۸۵

خواجہ غلام فرید سے عقیدت و فیض کا اظہار:[ترمیم]

       اس حوالے سے خواجہ غلام فرید کے فکری رجحان جہتوں کی تلاش میں رہے۔

       سرائیکی مرکز لندن۔ ۱۹۸۵ میں بعنوان’’خواجہ فرید کا علامتی نظام‘‘۔

       خواجہ غلام فرید فاؤنڈیشن ،کوٹ مٹھن کے زیرِ اہتمام کانفرنس میں ترتیب سے اپنے مضامین پیش کیے۔ موضوعات ملاحظہ کیجیے:۔

       خواجہ فرید، محبت انسان دوست۔۲۰۰۴

       خواجہ فرید اور فطرت۔ ۲۰۰۵

       خواجہ فرید کی اردو شاعری۔ ۲۰۰۶

چہرہ ادب۔ مرزا غالب پر خامہ فرسائی بعنوان’’ غالب، نئے رجحانات‘‘ ۱۹۸۹۔ اردو مرکز لندن۔

شخصیت:[ترمیم]

       عام طور پر احباب ظاہری شکل و صورت کو ہی شخصیت جانتے ہیں۔  اصل شخصی حوالہ انسان کا اخلاق و کردار، دنیا والوں سے معاملات کا سلیقہ، احباب سے بلا تفریق ان کے حقوق کا ایماندارانہ برتاؤ،ادائیگی الفت اور رشتوں کی تقدیس کا احساس ہے۔

       نواز کاوش بظاہر کوئی اپنی ذات کا تاثر نہیں دیتے۔ یہی ان کی ذات کا مثبت حوالہ بنتا ہے۔نبھا کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ روشن آنکھیں، جب کسی طرف اٹھ جائیں تو اپنے احساسِ مسرت کو نہیں چھپا سکتے۔ مسکراہٹ اور دھیما لہجہ سارے راز اگل دیتا ہے۔ سادہ مزاج،ارے بھئی نہیں مکمل بامروت عاشق مزاج سادہ لباس میں ملبوس، اپنی کرسی پر براجمان اپنی ذمہ اری پورا کرنے کی کوشش میں مصروف۔

       مہمان دار بھی ہیں ۔ اگرچہ اپنے خاص بندوں کو چائے پلاتے ہیں، وگرنہ پوچھ کر چائے پئیں گے؟ مہمان کے جواب سے پہلے سر جھکا کر اپنی فائل دیکھنے لگتے ہیں یا پھر سامنے والی کھڑکی سے لان کا نظارہ کرتے ہیں۔

       لیکن پھر بھی۔ اک دستک مرے در پر۔ اک دستک میرے دل پر۔مجھے سبھی جانتے ہیں۔

       آئیے، پہلا در کھولتے ہیں۔

       بیٹا،بابا کیسے ہیں؟

       بیک آواز۔ بابا کے ہم بہن بھائیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ ہم ہر موضوع پر ان کی مشاورت کے منتظر رہتے ہیں۔بہت  شفیق مہربان والد ہیں۔

       بیگم نے کہا، بحیثیت شوہر بہت اچھےمحبت کرنے والے اور غمگسار ہیں۔

شاگرد:[ترمیم]

آپ کو درست طور پر بہاول پور کا ادبی چہرہ کہا جاسکتا ہے۔ (ذی شان تبسم)

       آپ کا رویہ اپنے طالب علموں کے ساتھ بہت مخلصانہ ہے۔ (سلمی افضل)

دوست:[ترمیم]

       نذیر احمد زندہ ہوتے تو وہ ان کو اپنے محبوب کردار کے طور پر کسی ناول میں ضرور جگہ دیتے۔(پروفیسر محمد علی اختر)

       بہاول پور کی تخلیقی مٹی جس سے نواز کاوش کا خمیر اٹھایا گیا، یہی قلمی نام اس کا ادبی منشور بن گیا۔)ڈاکٹر انوار احمد)

ڈاکٹر نجیب جمال

ڈاکٹر نصر اللہ خا ں ناصر

ڈاکٹر اسلم ادیب

ڈاکٹر محمد کامران

       نواز کاوش ہشت پہلو شخصیت ہیں۔ ان کا سب سے نمایاں پہلو بے پایاں خلوص ہے۔

رہ گئی بات، درِ دل پہ دستک۔ انھیں انہوں نے اپنے شعر میں چھپا بھی رکھا ہے اور بیان بھی کر دیا ہے۔      

مجموعی طور پر شریف النفس، اچھی سیرت کے مالک ہیں، معاشرتی اقدار و روایات کے پابند ہیں۔

       غصہ آتا ہےلیکن فورا کنٹرول کر لیتے ہیں۔

بطور شاعر[ترمیم]

میرے دست ِ ہنر میں فیض، غالب اور خواجہ کا قلم تھمادیا گیا اور میں چلتا گیا۔۔۔ چلتا گیا۔ میرے سینے کی روشنی اور احساس کی چبھن نے جینے نہ دیا۔اور شعر کا سفر جاری رہا۔ جاری ہے کی مصداق۔ نظم ہو۔ غزل ہو، وہ میری زندگی کا حوالہ بنتی گئی۔(نواز کاوش)

’’محبت کام آئے گی‘‘ کا دیباچہ جو انہوں نے شعری انداز میں تحریر کیا ہے، ان کے ذاتی کرب کی ترجمانی ہے۔آغاز ہی میں صورتِ درد کی تصویر کشی دیکھیے:۔

       میں بھول گیا ہوں

       کہ مجھے کیا کہنا ہے

       اپنی اس محبت کا ،جسے آپ شاعری سمجھ کر پڑھ رہے ہیں

       اس کا کیا جواز پیش کرنا

       میں بھول گیا ہوں