صارف:Hakeem qari M younas shahid
تاریخ میو اور داستان میوات
یہ مضمون حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد نے لکھا ہے
تعارف ہمیں اس ضرورت کا بار بار احساس ہواکہ ہم میئو ہونے کی حیثیت سے نہ صرف میو قوم بلکہ دوسروں کو بھی میو قوم کی تہذیب وتمدن اور تاریخ سے متعارف کرائیں اور یہ بتائیں کر میوکون ہیں؟ ۔ ان کی تہذیبی و تاریخی روایات کیا ہیں؟ اور ہندوستان کی تاریخ میں انہوں نے کیا کرداراداکیاہے؟۔ نیز یہ غلط فہمیاں ان کی تاریخ کے بارے میں پائی جاتی میں وہ قطعی طور پر دور کر دی جائیں۔ اگرچہ میوجیسی عظیم منفر دقوم کی تاریخ بیان کرنے کے لئے یہ کتابچہ بالکل ناکافی ہے۔لیکن میو قوم کی تاریخ اور حالات جاننے کے لئے جوتشنگی عام طور پر پائی جاتی ہے اس نے ہمیں مجبور کیا کہ تاریخ مئیو اور داستان میوات کی اشاعت کا انتظار کرنے کے بجائے اس کتاب کو شائع کر دیںجو موجودہ تشنگی کوبجھاسکے۔ لہذایہ مختصر وضاحتی مقالہ پیش خدمت ہے جس کو ہم نے بڑی محنت تحقیق اور جانفشانی کے ساتھ مرتب کیا ہے اور یہ تاریخ میو اور داستان میوات کا ایک حصہ ہے۔ اوراس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ جوچیز اس میں لکھی جائےوہ تاریخی طورپر صحیح ہو۔کتاچہ کی زیادہ معلومات میو قوم کی مستند تاریخ :تاریخ میو چھتری:سے لی گئیں ہیں، تاریخ میو چھتری" میو قوم کی مستند تاریخ ہے ۔ جسے محترم بزرگ حکیم عبدالشکور صاحب نے مرتب کیا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے علمی و تاریخی حلقے 2۔۔۔
بڑی حد تک اس سلسلہ میں مطمین ہو جائیں گے اورایک ایسی قوم کی تاریخ سے روشنا ہو سکیں گے جس کے متعلق بیشتر تاریخیں ابھی تک خاموش ہیں۔۔۔۔
دوسری قسط
اصل ونسل
میوقوم ہندوستان کی ایک ممتازآرین نسل چھتری قوم ہیں جس کا کرسی نامہ مشہور آ رین نسل "چندربنسی"اگنی کل خاندان سے مل جاتا ہے یہی وہ خاندان ہیں جن سے چھتری نسل کے(36)کل وبنس(شاخ) نکلتے ہیں۔ ان کل وہنس ہائے میں چھ سات کل ونس ایسے جن سے میوقوم کا تعلق ہے۔ تومربنس، جادوبنسی، ، کنواہہ بنسی،،چوہان بنسی، بڈھ گوجر، راتھور بنسی۔پنواربنسی وغیرہ ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ میوآرین نسل چھتری راجپوت ہیں ان کا کرسی نامہ ،گوت و پال، عادات و اطوار ،رسم و رواج، نیز برادرانہ تعلقات تقریبا ایک ہیں۔لہذ اس تاریخی حقیقت پر زیادہ خامہ فرسائی کی ضرورت نہیں ہےمیوآریہ نسل چھتری تاریخ اور روایات اس کے شاہد ہیں میو
میو لفظ بہت پراناہے جوقدیم تاریخی کتابوں میں" مید،اور میر"کے نام سے ملتاہے۔ مشہور عربی تاریخ" فتوح البلدان "میں علامہ بلاذری نے اس لفظ کو" مید" لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مید دیبل نے ساحل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3۔۔۔۔۔۔۔۔ پرجہاز کو لوٹا اورجو کچھ اس میں تھا وہ لے لیا۔ وہ یہ بھی فرماتے کہ مید(میوء) اور(زط ) جاٹ قوم کا تسلط پورے راجپوتاپر تھا ۔ راجہ دا ہراُن پر حکمرانی کرتا تھا ،اسی کے اشارے سے یہ لوگ جہازوں کو لوٹتے تھے ۔ راجہ داہر کے بارے میں بھی ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ بھی مید ہی تھا۔ عباسی اور حکومت میں مید قوم کی لڑائی مسلم عرب حکمرانوں سے ہوئی ۔ چنانچہ عمران بن موسی نے خلیفہ معتصم باللہ کے حکم سے قوم مید وزط سے لڑائی کی ۔ اسی طرح سے خلیفہ مامون الرشید کے عہد میدوںنے 70جنگی جہازوں کا مقابلہ کیا جس میں وہ بے شمار قتل ہوئےتھے، اس عرب مورخ نے لکھا ہے کہ۔ میوقوم بڑی خونخوارتھی، مسلمانوں کے ابتدائی آمد کے دنوں میں سندھ و راجپوتانہ میں آباد تھی اور بڑے بڑے شہروں میں اس کی حکومت تھی۔ انگریز مصنف مسٹرالیٹ کا بیان ہے کہ جاٹ اور میو قوم کراچی سے لاہور تک آباد تھی اور وہاں سے نقل مکانی کر کے دوسری جگہ پہچنی ۔مسٹر ٹاڈ نے ٹار ڈاراجستان میں کہا کہ میواورمیرمیں کوئی فرق نہیں۔میدوں کے تین سو فرقے تھے جو راجہ حجات کی اولاد تھے، وہ سندھ کے مشرق میں پھیلے ہوئے تھے ۔پرتھی راج راسومیں میر اورمیرات کے ۔ عنوان میواور میوات کا ذکر آیا ہے اور اس کی تاریخ تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ مولوی ذکاء اللہ نے اپنی "تاریخ ہند" میں سندھ میں میوکی آبادی اور لڑائی کا ذکر کیا ہے ۔جاٹ ہسٹری کے مصنف رسالدار رام سروپ بھی اس بیان کی تائید فرماتے ۔ تاریخ محمد قاسم میںجنرل اکبر خان نے لکھا ہے کہ جاٹ اور مئیو کسی زمانے میں سواحل۔ سمندر پر تجارت کرتے تھے اور بندرگاہوں پڑ رہتےہیں پس ۔۔۔4۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ قدیم مورخین کے نزدیک/لئے میو قوم درا صل میئو قوم نہیں۔ اور اس لئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ الفاظ کہیں سے کہیں بدل جاتے ہیں ۔سندھ یاراجستان کے میدامیر ہی اصل میئوہیں - میوقوم کی آبادی کی وجہ سے تاریخی کتابوں میں اودے پورمیواڑکا نام میدیات ملتا ہے، بعد میں وہ میواڑا کے نام سے پکارا گیا ۔ کیونکہ ان علاقوں میں کبھی مید یا میو قوم تھی آج بھی ان علاقوں میں میو قوم سے خونی رشتہ رکھنے والی قومیں آباد ہیں اس مو قع پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ میئو کا ایک نام میوڑا بھی ہے۔ خانزادہ اور دیگر قومیں اس الفاظ کو طغذیہ استعمال کرتے
اور لفظ میو سے بھی میو قوم کو مناسبت رہی ہے چنانچہ میوئوں کے نام آج بھی امید ، مید خاں ، میدی،موہے سنگھ، مدےخان وغیرہ پائے جاتے ہیں اس لئے یہ ثابت ہوا ہے پرا نی تاریخی کتابوں میو قوم کا تذکرہ میدیا میرہی کے نام سے ملتا ہے اورکسی قدیم کتاب میں میونہی ہے، ہاں بعد کی کتابوں۔تاریخ فرشتہ ،طبقات ناصری، تاریخ فیروز شاہی، تزک بابری، تزک جہانگیری وغیرہ میں یہ لفظ میوموجود ہے ۔
میوات میوات کا علاقہ میو قوم کی آبادی کی وجہ سے میوات کہلاتا ہے میر کی مناسبت سے میرات یا میر داس لکھا ہے مثلاََپرتھی راج، رسو میں میراور میرات ہی ہے،اور اسی عنوان کے تحت میو قوم اور میوات کا ذکر آیا ہے۔مسٹر ٹاڈ بھی ایسا ہی فرماتے ہیں ان کے نزدیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5۔۔۔۔۔۔ میوات میرہی سے بنایا گیا ہے۔مسٹرڈنزل ایبٹ نے کہاسے کہ الوز،بھرت پور کے رہنے والے مئیو کہلاتے ہیں۔ اوران کے رہنے کی وجہ سے اس علا قہ کو میوات کہتے ہیں۔ میرا رجحان اس طرف گیا ہے کہ مولفظ میو لفظ میرا ساقی کا بگڑا ہواہے جس کے معنی پہاڑی دروںکے رہنے والوں کے ہیں ۔ قدیم ہندی تاریخوںیہی بتاتی ہیں، مید اورمیر نام کی قوم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ اسی کی مناسبت سےسندھ او رراجستان کے مختلف علاقوں کو مارواڑو، میواڑ، میرواڑہ یا میوات وغیرہ کہتے ہیں ،میوات کا علاقہ اسی طرح میو قوم کی مناسبت سے میوات کہلاتا ہے۔ یہ علاقہ دلی سے شروع ہوکرالورتک پہنچتا ہے، اس کا زیادہ رقبہ پہاڑی ہے، کم میدانی اربلی پربت کی شاخیںپورے میوات میں پھیلتی ہیں ۔ پہاڑ کسی زمانے میں میو قوم کی پناہ گاہ تھے اور اسے اِن پر بڑا ناز تھا۔ قدرتی طور پر میوات تین حصوں تقسیم ہوتا ہے،
بھیانا۔ آبریزر۔۔ پہاڑ اوپر۔۔
علاقہ کے پہاڑ ہی ان حلقوں کی حد بندی کرتے ہیں انکے علاوہ بعض حصوں کو گوت وپال کی نسبت سے سنیگل واٹی۔ باگھوڑا، نا ئی واڑہ،پاہٹ واڑہ ، دولوت واٹی۔دہنگل وا نی وغیرہ ناموں سے جانتے ہیں۔ مغل عہد حکومت تک میوات ایک باقاعدہ صوبہ تھا۔ کوٹلہ ایک زمانے میں اس کی راجدھانی رہی ہے ناہر بہادر اس کا حکمران تھا مختلف ادوار میں میو اور غیر میو حکمران اس علاقہ پر حکمرانی کرتے تھے ۔ انگریزنے اس صو بہ کوخطرناک قرار دیتے ہوئے اس کی وحدت کوپارہ پارہ کیا، اور اسے ہندوستان کے مختلف صوبوں ،راجستان، پنجاب ، یو پی،دہلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔6۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بانٹ دیا چنانچہ آج بھی یہ علاقہ اسی پوزیشن میں موجود ہے حالانکہ یہ ایک مستقل علاقہ ہے اس کی ایک مستقل تہذیب، زبان، رسم وراج ہیں۔جو اور کسی علاقے سے نہیں ملتے، میو قوم کے برادرانہ ، رشتہ دارانہ تعلقات بدستور نہایت مضبوط طریقے پرقائم ہیں اوریہ تقسیم اسکی ان خصوصیات و روایات کوختم نہ کرسکی ۔ اس علاقہ متعدد بار تباہیاں بھی آچکی ہیں۔ جیسا کہ غیاث الدین بلبن کے عہد میں پھر غدر 1857ء میںدوسری تباہی آئی، اس کے بعد1947ء میں دوسری تبا ہی بھی کم نہیں تھی،لیکن ان تمام تباہ کاریوں کے باوجودیہ علاقہ موجود ہے۔ اتنا ضرور ہوا ہے کہ آبادی میں کافی فرق گیا ہے۔ ذیل میں ہم علاقہ میوات کا نقشہ پیش کر رہےجو آپ کے لئے کافی دلچسپی کا باعث ہو گا۔ ۔۔۔7۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آبادی میو قوم کی آبادی علاقہ میوات میں تو خیر ہے ہی،ہندو پاکستان کے دوسرےحصوں میں بھی پھیلی ہوئی ہے ان کی مجموعی تعداد کا اندازہ تقربا70 لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔1947 سے پہلے ان کی بڑی آبادی میوات میں تھی تقسیم کی وجہ سے وہ تتر بترہوگئی تقر با50 لاکھ میو پاکستان ہجرت کر گئے اور اب علا قہ میوات میں صرف ۲۰ لاکھ رہ گئےہیں۔ اسکے علاوہ میووں کی آبادی مالوہ ۔مدھیہ پردیش ۔ یوپی،بہارراجستان کے مختلف علاقوں اوراضلاع میں جاتی ہے جہاں ان کے بڑے بڑے گاؤں، خطے اور شہروں میں محلہ میواتیاں ملتے ہیں۔ یہ میو مختلف زمانوں میں میوات ہی سے ہجرت کر گئے تھے مثلاََکچھ تو قحط سالوں کے زمانے میں اورکچھ مختلف شاہان سے لڑائیاں لڑنے کے دوران تربترہوئے اور وہیں دور دراز مقامات پر جا کر آباد ہوگئے۔آج ان کی زبان تہذیب ، رسم ورواج بھی بدل گئے ہیں۔بعض ایسے بھی بیرون مقامات میں ملتے ہیںجواپنے کو میو کہلانا پسند نہیںکرتے اور وہ کہیں پٹھان، کہیں سید بنے ہوئے ہیں،غیر میو کےساتھ رشتہ کرنا بھی شروع کر دیا ہے حالانکہ میور سم دروداج کے یہ بالکل خلاف ہے ۔ پاکستان میں بھی میووں کی بہت بڑ تعدادمنتتر طورپراآبا دہوئی ہے، یہ لوگ سندھ اور پنجاب کے اضلاع لاہور ۔ سیالکوٹ، شیخوپورہ، لائل پور ، ملتان ،منٹگمری وغیرہ میںپھیلے ہوئے ہیں، ابھی ان کے رسم ورواج ، زبان میں کوئی فرق نہیں آیا ،لیکن تبدیلی کا پورا امکان ہے۔ میو قوم کی آبادی اگرچہ منشر ہے لیکن قومی یکجہتی اس میں بہت زیادہ ہے۔ برادرانہ، اور گوت پال وار تعلقات کے کچھ اس طرح کے ہیں کہ وہ اسے مرکزیت کی طرف لے آتے ہیں اور ان لوگوں کے مظالم و سفاکیوں کا ہر وقت مذاق اڑا سکتی ہیں جنہوں میو قوم اور علاقہ میوا کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا ہے گوت پال۔ میو قوم کی بارہ پال و باون گوت مشہور ہیں ،پوری میو قوم انہیں پال و گوتوں میں منقسم ہوئی ہے ان پالوں و گوتوں کا سلسلہ آرین نسل چھتری خاندانوں،تومر بنسی،جادو بنسی،کشواہیہ بنسی،بڑ گوجر بنسی،چوہان بنسی،راتھور بنسی وغیرہ سے مل جاتا ہے،مثلاََ میو قوم کی پانچ پال چھرک لوت،پوند لوت،ڈیمروت۔دولوت،نیائی جادو بنسی ہیں۔اسی طرح بانوت،ڈیروال،لڈاوت۔رٹاوت،تومر بنسی وغیرہ باقی سلسلہ بھیی اسی طرح ہے۔ہر پال و گوت کا سلسلہ انہیں کل ونس ہائے سے مل جاتا ہے۔ذیل میں ہم میو قوم کے بارہ پال ایک پلاکڑہ اور باون گوتوں کے نام درج کررہے ہیں،ان سے آپ اندازہ فرمائے اور کبشیروں کی بناولیاں و شجرہائے انساب ملاکر دیکھئے کہ میو قوم کے گوت و پال دوسری چھتری اقوام کے گوتوں و پالوں سے کس قدرملتے ہیں اور ان میں دراصل کوئی فرق نہیں ہے۔۔ پال۔۔۔ (1)چھرک لوت(2)دولوت(3)پوند لوت(4)نیائی(5)ڈیمروت(6)بالوت(7)ڈہروال(8)لڈاوت۔جوباگوریا کے نام سے مشہور ہیں(9)کلیسا۔ گوت۔۔۔ (1)بیسانیہ(2)کٹاریہ(3)سوکیڑیہ(4)بوڑمان(5)جمینہ(6)بلاوت(7)سنگڑاوت(8)جلاوت(9)گونچھیہ(10)بکڑلوتلاوت (11)کانگر(12)گوروال(13)میوال(14)ناگلوت(15)سنگالیہ(16)مچھالیہ(17)ترکٹیہ(18)بھابلاد(19)بہمناوت( )(20)بیگوت(21)جونوانی(22)سوگن(23)گومل(24)خیلدار(25)کمالیہ(26)بڑ گوجر(27)چھونکڑ(28)مور جھنگا(29)پنوار(30)نائرواڑ(31)لم کھیر(32)میلانہ (33)کاہوت(34)بٹلاوت (35) گوڑ(36) مانڈر(37) چاکولیہ(38)مارگ(39)چوراسیہ(40)لیک(41) کھوکرد (42)کڑنیائی (43)بڑنیائی (44)بگلہ(45) بھوسلہ (46) سورہیہ(47)منگریہ(48)چوہان(49)بھان(50)جٹلاوت(51)بھڑکیہ۔ قبول اسلام۔ یوں تو ہندستان کی مشہور اقوام جاٹ،گوجر،اہیر،راجپوت وغیرہ نے بھی مذۃب اسلام قبول کیا ہے لیکن میو قوم تقریبا تمام تمام کی مسلمان ہوگئی ہے،جس کی بہت بڑی وجہ ہے اسے جاننے کے لئے ہمیں تاریخ کی طرفلوٹنا پڑے گا۔ہندستا کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میو قوم نے دوسری اقوام ہند کے مقابلہ میں ہندستان پرحملہ کرنے والوں کا سب سے زیادہ مقابلہ کیا ہے اور نسبتا زیادہ لڑائیاں لڑی ہیں کیونکہ اکثر بیرونی حملہ آور سب سے پہلے دہلی پر حملہ کرتے تھے اور دہلی کے محافظ تومر نسل میں تھے۔ جب تک دلی تومر کی۔ یہ مقولہ اسی دور کی عظیم یادگار ہے ان بیرونی مسلم حملہ آور،اور ان کئے تہذیب اور مذہب کے اثرات بھی مسلسل اختلاف کی وجہ سے انہیں پر زیادہ ہوئے ہیں،میو قوم کا قبول اسلام سندھ ہی سے شروع ہوجاتا ہے جہاں سب سے پہلے مسلم حملہ آورمحمد بن قاسم نے حملہ کیاتھا۔راجہ داہر کی رہنمائی میںمید قوم (میو قوم نے)اس کا مقابلہ کیا،تاریخی کتابوں سے ثابت ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے قبائل سندھ میں اسلام لے آئے تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم حملہ آور محمد بن قاسم محض انتقامی و فاتحانہ ھذبہ لیکر حملہ آور ہوئے تھے،بلکہ اسلام پھیلانا بھی ان کا مقصد تھا ،چنانچہ ان کے واپس چلے جانے کے بعد بھی ایک عرصہ تک عرب لوگوں کاآنا جانا سندھ مین رہا،یہ لوگ وہاں نہ تجارت ہی کرتے تھے،بلکہ اسلام کی تبلیغ بھی ان کا مقصد تھا۔ مولانا ذکاء اللہ نے اپنی تاریخ ہند میں انقبائل کے اسلام لانے کا ذکر کیا ہے اس کے بعد محمود غزنوی کا دور آیا جس نے ہندستان پر پے در پے حملے کئے میو قوم نے اس کا مقابلہ بھی مہاراجہ تہن پال کی ریاست تہن گڑھ میں کیا،ان کے ساتھ بھی اسلام کی تبلیغ کرنے والوں کی ایک کھیپ تھی،چنانچہ اس کیمپ کئ سرگرم رہنماسید سالار سواہی غازی تھے،جو رشتہ میں محمود غزنوی کے بہنوئی تھے،انہوں نے جہان ہندستان کے دوسرے حصوں میں اسلالم پھیلایا وہاں میو قوم کی بھی اسلام سے متاثر کیا،ان کے صاحبزادے سید سالار مسوعد غازی میو قوم کے دینی رہنما تھے۔اہلیان میوات سید سالار مسعود گازی کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں،میوات میں اس بزرگ کے چیلے یادگار نشان چوکور چبوترے کی شکل میں ہوتے ہیں،جگہ جگہ پائے جاتے ہیں ،لوگ انہیں سید کہتے ہیں اور ان کا بڑا احترام کرتے ہیں اور ان کے غیض و غضب سے ڈرتے ہیں،میو سید سالار کے نام کی قسم بھی کھاتے ہیں۔یہ حضرت بہرائج ،یو،پی میں شہید ہوکر وہیں دفن ہوئے،سید ضمیر الدین جو سید سالار غازی کے بہرائج مرید تھے، پاٹولی میں آکر مقیم ہوئے ان کے ہاتھوں بہت جادو نسل مئیوئوں کا مسلمان ہونا ثابت ہے،تومر پہلے اسلام لاچکے تھے۔محمود غزنوی اور ان کے ساتھیوں کے بعد جو مسلم حکمران ہندستان آئے ان کے ہمراہ بھی اسلام کی تبلیغ کرنے والے آتے رہے اور اسلام کی اشاعت کرتے رہے،مسلم حکمرانوں اور حملہ آور مبلغین کے علاوہ بہت سے دوسرے بزرگان دین صوفیائے کرام مثلاَ۔ حضرت داتا گنج بخشؒ۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی۔حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء،حضرت میراں حسین خنگ سوار۔حضرت شاہ ولی اللہ دہلوہی،حضرت خواجہ مدار،حضرت میاراج شاہ،حضرت چوڑھ سدھ،حضرت شاہ چولکا، حضرت فصیح موسی،حضرت سید احمد بریلوی۔حضرت سید سرجیت گول پھلا غازی،سید اسماعیل شہید اور ان کے ساتھیوں نے میو قوم کو مسلمان بنایا،بس یہی یو اور دوسری چھتری اقوام مثلاََ مسلم راجپوت۔مسلم جاٹ،مسلم گوجر وغیرہ کے مسلمان بننے کی داستان اس موقعہ پر ہم یہ بھی بتادینا چاہتے ہین کہ میو قوم مشرف بہ اسلام ہوئی مگر اسلام لے آنے کے بعد بھی ان کی قومی اور وطنی محبت کا جوش کم نہیں ہوا ۔ اور آنے والے مسلم حملہ آوروں سے مسلمان ہونے کے بعد بھی کوئیہمدردی نہیں ہوئی،میو قوم کو جو اسلام ملا ہے وہ صوفی اور اولیاء لوون سے ان کے اثرات اس کے ذہنوں پر قطعی غیر فرقہ وارانہ ہوئے،خود موئوں میں جو صوفی اور دینی رہنما ہوئے انہوں نے ایک خدا ایک انسان اور ایک مذہب کا نعرہ بلند کیا۔میو صوفی حضرت لال داس اس کی مشہور مثال موجود ہے،یہ ایک بڑے بزرگ تھے ان کے نامپر باقاعدہ لال داسی مذہب ہے جس کے پیرو بھی خال خال پائے جاتے ہیں،الور کے قریب دھولی دوب میں ان کا مزار ہے،اور موسی شیر پور میں ان کا ایک عظیم مکان ہے جس میں مندر اور مسجد بنے ہوئے ہیں،ان بزرگ کے مذۃب کے بارے میں مثال مشہور ہے کہ دونوں دین سے گئے لال داس(اس کا ساد یعنی لال داس کے پیرو نہ مسلمان رہے نہ ہندو۔دونوں دین سے گئے۔میو مسلمان ہین اسلام کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں،لیکن ان میں تہذٰب یا فرقہ وار نیت نام کو نہیں اور انہوں نے کبھی بھی اپنے ملک اور بھائیوں کو غیریت کی نگا سے نہیں دیکھا۔یہاں ہم یہ بتا دینا بھی ضروری خیال کرتے ہیں کہ میو کو کسی نے زبردستی مسلمان نہیں بنایا،میوئوں کو جبرا مسلمان بنائے جانت کا خیال محض پرو پیگنڈہ ہے۔ہمارا خیال یہ کہ ہندستا میں کسی کو بھی جبرا نہیں بنایا گیا جو لو مسلمان ہوئے ہیں سب بہ رضاء و رغبت ہوئے ہیں،میو جیسی سخت جان اور متمرد قوم کو زبردستی مسلمان بنا لینا کوئی آسان کام نہیں تھامیوئوں کے بارےمیں مثل مشہور ہے،"میو مرا جب جانئیو۔تب تیجا بھی ہوجائے: میئو تہذیب۔ میو قوم کی ایک مستقل تہذیب ہے،ان کی مخصوص عادات و اطوارورسومات ہیں جو دوسری چھتری اقوام سے ملتی ہیں اور کہیں کہیں مسلم تہذیب اور نہری تہذیب کے ٹکرائو سے چوں چوں کا مربہ بن گئی ہیں۔مئیو تہذیب میں بڑی حد تک ہندو تہذیب کے اثرات غالب ہیں،بیاہ شادی،رہن سہن اور دوسری کئی چیزوں میں تقریبا وہپی طرئیقے رائج ہیں جو دوسری لہر چھتری اقوام میں ہیں شادیوں میں بہت فضول خرچی کی جاتی ہے،باراتیوں کی تےعداد بعض دفعہ ہزاروں سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹی والے اپنےصمدھی کوڈھریوں سے تول تول کر روپیہ دیتے ہیں۔ بعض زیادہ ناک والے اپنےصمدھی اور دولہا کوروپوں سے تول دیتے ہیں ۔ برات کو کھانے میں چاول دیا جاتا ہے، گوت وپال بچاکررشتے کئے جاتے ہیں ۔ ابھی بہت عرصہ نہیں ہوا میو با قاعدگی کے سات مسلم تہوار بڑے شوق سے مناتے ہیں ۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے سادگی بہت زیادہ ہے جو کھانے پینےپہننے اور عام رہن سہن میں کافی نمایاں ہوتی ہے ۔ لباس بالکل سیدھا ساد ہوتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے مر دپگڑی، کمری او راونچی دھوتی باندھتے تھے۔عورتیں گھگری اور انگیاپہنتی تھیں لیکن اب ان میں کافی تبدیلی آگئی ہے۔ انگریزی بال رکھنے اور پاجامہ یا شلوار پہننے والے کوطنزیہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ميوعور میں مسلمان خواتین کی طرح برقعہ نہیں پہنتیں بلکہ صرف گھونگٹ کرتی ہیں یہ بات بھی بتائے جانے کے قائل سے میوات میں مردوں کی نسبت عورتیں زیادہ کام کرتی ہیں اور گھر کے علا وہ کھیت میں بھی انہیں بڑا کام کرنا پڑتاہے ۔ معاشی طور میو لالچی نہیں ہوتا بلکہ سخت قناعت پسند ہوتا ہے،چنانچہ یہ بات ضرب المثل بن گئی ہے کہ میوبھو کاکماتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔14۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ میوات کے میوءوں نے آبائی پیشہ زراعت کے علا و ہ کو فی اختیار نہیں کیا ۔ حالانکہ آبادی میں اضافہ کی وجہ سے زمینٰںبہت ہوگئی ہیں،میوقوم برا دری بہت بڑی چیز ہے جس کے کچھ قانون اور اصول جن پر ہر میو کوچلنا پڑتا ہے۔ پہلے قتل تک فیصلہ برادری ذریعہ ہوجاتے ہیں بلکہ اب بھی یہ چیز موجود ہے بہت سے ایسے ملات جو حکومت سے بھی حل نہیں ہوتے انہیں
برادری حل کر تی ہے برادری کے بڑے چوہدری اور مکھیہ جو بات کہتے ہیں وہ پتھر پرلکیرہوتی ہے۔
میو برادری میں ہرپال و گوت کا ایک چوہدری ہوتا ہے،پھرپال وگوت کے تھانیولا کے چوہدری ہوتے ہیں پھر گاوں وارچوہدھری ہوتے انھیں سے مل کر یہ نظام بنتاہے ۔ زبان و ادب علا قہ میوات کی ایک باقاعدہ زبان ہے جسے میواتی زبان کہتے ہیںاس زبان کوعام نہیں بو لتے بلکہ میوات میں بسنے والے یا جن علاقوں قریبی تعلقات رہے ،وہی جانتے اور بو لتے ہیں ۔ یہ زبان اندازہ و لہجہ کے اعتبار سے بالکل الگ تھلگ زبان ہے حتی کہ بربھاشااور کھانا اور ہریانی سے بھی علیحدہ ہی ہے ۔ اس کے خصوصیات دوسری زبانوں نہیںپائے جاتے۔ اگر میواتی کوناگری یا فارسی لکھنے کی کوشش کی جا ئے تو صحیح معنوں میں لکھا جانا نا ممکن ہے۔ بعض ماہر ین نے اتنا تو بتایا ہے کہ سندھی زبان میں بڑی حد تک میواتی کولکھا جاسکتاہےسنسکرت،ہندی، فارسی عربی حتی کہ انگریزی زبان کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔15۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ بھی میواتی میں ملتے ہیں،میواتی میں بہت بڑا ادب بی دوہوں،شعروں کی شکل میں پایا جاتا ہے،جسے میو قوم کے نٹ بھانٹ،میراثی گاتے ہیں،ساتھ عوام بھی راگتے ہیں۔ اس زبان کے کئی بڑے شاعروادیب بھی گزرے جن میں شاعر سعداللہ آکیڑوی اوربھیک جی بڈٰید کا نام بہت بلندہے سعد اللہ آکیڑوی نے مہابھارت کا میوا تی میں منظوم ترجمہ کیا ہے،جس کا نمونہ بھی ہم آپ کوپیش کرر ہے ہیں۔ ... بھیم او کیچک کی لڑائی کا منظر
ارے مل بھڑاں۔بھجمل لب دین اندھیاری سو ہاتھی مل مہا بل دو ہنکاری بھیک جی نے کہا بھیکم دوارد دو رہے دوراہی سو ہیت۔۔بن ڈھونڈے پاسے نہیں بھیک پیارا کو دیش۔۔میواتی زبان میں یہی دو شاعر نہیں بلکہ اور بہت سے شاعر گزرے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ میو عورتوں کو بھی شعر کہنے میں مہارت حاصل
ہے۔ اکثرعورتیںباتوں باتوں میں ہی شعر کہہ ڈالتی ہیں ۔ جیسے سس بد نی کہا ہے۔ میری مونگ پھلی سی آنگلی بیلن بلوان باں دریا ٹوڈر مل کاتیسرےمیں کی من ما نی ہونا
میوانی میں رزمیہ ،عشقیہ۔ بزمیہ ۔ دینیہ ہرقسم کا ادب ملتاہے جیسے اپنے اپنے موقع پر میوعورتیں میراثی وغیرہ گاتے ہیں،افسوس اس زبان کا الگ رسم الخط نہیں، ورنہ میواتی زبان و ادب کو ایک خاص مقام حاصل ہوتا ۔ میوات میں لکھنے پڑھنے کی ضروریات کے لئے اردو کا استعمال ہوتا ہے ۔ بول چال میں میرو تی محض مواتی"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔16۔۔۔۔ تاریخی مقام آج کاہندستان شاید اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ میو قوم کیا ہے؟ ۔ اس کی تاریخی روایات کیا ہیں؟ اور ہندوستان کی تاریخ میں
اس نے کیا پارٹ ادا کیا ہے؟۔ آج ہم اس حقیقت کو وداضح کردینا چاہتے ہیں جس کی پوری پوری شہادت ہماری تاریخ سے ملتی ہے کہ میو قوم سے زیادہ وطن اور قوم پرست شاید ہندوستان اور پاکستان میں اور کوئی نہیں۔ اسے آزادی وطن اور ملکی سالمیت کا ہمیشہ احساس رہا ۔ سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی حکومت یا ریاست قائم کر نے پربھی کبھی مصرنہیں ہوئے ملک کی حفاظت اور دوسروں کیلئے اپناخون بہانا ان کا شیوہ رہا ہے۔ چنانچہ یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان حملہ کرنے والے ہندستان کا جس قدر میو قوم نے کہا اس سلسلہ میں آج تک جتنی قربانیاں آج تک دی ہیں کہ ان کی نظیر پاکستان کی دوسری قوم مشکل سے پیش کر سکے گی۔
ہندوستان میں سب سے پہلے مسلم حملہ آور محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا اس کا مقابلہ کرنے والے میو اورجاٹ تھے اس زمانے میں سندھ اوراجستان پر راجہ داہر کی حکومت تھی راجہ داہران پر حکومت کرتا تھا۔ یہ لوگ عرب جہازوں اور قاتلوں کو لوٹنے اور کھاتے تھے بعض تاریخی کتابوں میں یہ بھی آیا سے کر عرب ممالک سے تجارت کرنے والے بھی یہی لوگ تھے۔ محمود غزنوی نے ہندوستان پر پے در پے حملے کرناشروع کیا۔ اس مقابلہ میں راجہ تہن پال جا دونسل میو نے اپنی ریاست تہن گڑھ متھرا کے مقام سے کیا ،جہاں محمود غزنوی کو شکست کھا نی پٹری اورپھر محمد غوری کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔17۔۔۔۔۔۔۔۔ کو بھی شکست خوردگی کے عالم میں لوٹنا پڑا،ظا ہرہے یہ سب اسی وقت ہوا جب ان کاسخت مقابلہ کیا گیا ان کے میو کا مقابلہ قطب الدين ایبک سے ہوا اس مقابلہ میں میوکا فی مارے گئے ۔ تاریخ فتوح البلدان بلازری - تاریخ محمدبن قاسم ،جنرل اکبرخان اس مسلم حملہ آور کا مقابلہ بھی تہن گڑھ کے مقام پر ہی کیا گیا تھا۔ اس جنگ میں قطب الدین نے فتح پائی اور راجہ تہن پال گرفتارہوا،میوئوں کے متحدہ جادونسل گوت بال راہ تہن پال کی اولاد ہے ۔ راجہ تہن پال کے بائیس بیٹے تھے جن میں سے زیادہ مسلمان ہوئے۔ قطب الدین ایبک کے بعدسلطان ناصرالدین اورغیاث الدین بلبن کا زمانہ آیا۔ اس زمانے میں میو قوم اورمیوات بہت زیادہ سرکشی اور شرارتوں کا مرکز بنے ہوئے تھے ۔ کثرت کے ساتھ لوٹ مارکاپیشہ اختیار کرلیا گیا تھا چنانچہ دلی ان دنوں لوٹ مار کی جولان گاہ بنی ہوئی تھی اسلئے مسلم حملہ آور دہلی کے تومر راج کوختم کرنے پر تلے ہوئے تھے اور مئو تومر راج محافظ و نکیال تھے۔ ان کا صرف یہی نعرہ تھا۔ جب تک دل تومرک۔میواتومرج محافظ۔
دن غروب ہونے سے پہلے ہی میو دہلی میں داخل ہوکر لوٹ مارشروع کردیتے تھے میوکبھی مسلسل شرارت، سرکشی اوربغاوت کی وجہ
سے ناصرالدین محمود، غیاث الدین بلبن،شمس الدیں التمش کو میوات اور میوئوں پر متعدد حملے کرنے پڑے جن کا میئوئوں نے بڑی جوان مردی اور ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا اور لاکھوں میو قتل ہوئے . اس زمانے میں کا کورانا بالوت میووں کی کمان کرتا تھا۔ دھوج سے لیکر قطب مہرولی تک ان میو بہادروں کے مورچے لگے رہتے تھے میوقوم اور میوات پر جتنی تباہی غار تگری انشاہان کے زمانے ۔۔۔۔۔۔18۔۔۔۔۔۔۔ میں آئی شاید ہی کبھی آئی ہو،تاریخ فرشتہ اور تارخیں فنیٹن،تاریخ فيروز شاہی ،طبقات ناصری، وغیرہ میں واقعات تفصیل ساتھ موجود ہیں ۔ فیروزشاہ تغکق کا زمانہ آیا تو اس وقت میو جمیعت کافی ہو چکی تھی ۔ اورخود فیروز شاہ ما ردھاڑ کا آدمی نہ تھا اس نے میوئوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کئےاس زمانے میں بھی میوئوں کے کئی گوت پال اسلام لائے۔خاندان سادات نے بھی میو کے ساتھ کوئی جنگ یا لڑائی بھی نہیں کی بلکہ میوات والوں کا علاقہ خود میوات والوں کے لئے چھوڑ دیا ۔ ہاں البتہ سید مبارک شاہ نے حملہ ضرور کیا تھا جو کامیاب نہیں ہوا۔لودھیوں نے بھی میووں کے ساتھ کوئی جنگ نہیں کی بلکہ انہوں نےمیوئوں کے ساتھ بہت وسیع تعلقات قائم کئے میوات میں ہرجگہ مسجد، مقبرے اور دیگر اسلامی عمارات تعمیر کیں۔میوات میں اکثر خوشنما قدیم عمارات لودھی دور کی ہیں اس زمانے میں تقریبا تمام میو اسلام لا چکے تھے لیکن ان کے جذبہ حب الوطنی اور قوم پرستی میں اسلام لے آنے کی وجہ سے کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
ابراہیم لودھی نے جب جب پانی پت کے مقام پربا بر کے متقابلہ میں سکشت کھائی اورجب وہ رحلت کرگیا تو اس کے بھائی محمد شاہ لودھی نے میوراجہ حسن خان میواتی امداد کی درخواست کی اور والی میواٹ رانا سانگا کو بھی ساتھ لگایا اور پھر شاہ لودھی راجہ حسن خاں میواتی اور راناساگانے ملکر قتح پور سکری کے مقام پر بابر کا مقابلہ کیا جس میں ان تینوں کو سکشت ہوئی۔سب سے زیادہ نقصان میوئوں کا ہوا۔ ۔ اس جنگ کے میوات کے بڑے بڑے سردار اور فوج اور خود حسن خاں میواتی والئی الور بھی شہید ہوئے اور ناقابل تلافی نقصان ہوا اس جنگ کے تمام
...........19........ واقعات کورتزک بابری میں تفصیل کے ساتھ بڑھا جا سکتا ہے اس کے واقعات میں تعصب کی جھلک نمایاں طور پر موجود ہے ۔ اس کتاب میں میووں اور ان کے راجہ حسن خان میواتی کونہایت توہین آمیز الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے۔ غیاث الدین بلبن کے مقابلے کے بعد یہ دوسرا مقابلہ تھاجس میں میوبری طرح تباہ و بریادہوئئے اس فتح کے بعد بابر نے میووں کے ساتھ تعلقات وسیع کئے اور اور اپنی حکومت میں عہدے بھی دئے۔ میوات بھر میں مختلف مقا مات پرمسجدیںاور مزارات وغیزہ تعمیر کریں، نیز دوسری اصلاحات بھی کیں،عہد ہمایونی میں بھی اسلامی حکومت سے میووں کے تعلقات اسی طرح قائم رہے ۔ جب شہنشاہ اکبر کا زمانہ آیا توان کے تعلقات میں اور زیادہ وسعت ہو گئی کیونکہ اکبر عقلمنداور زمین آدمی تھا اس نے میوئوں کی فطرت و عادات کوپہنچانا اور اس کے ساتھ پوری دوستی کی۔مختلف میووں کومنصب دار بنایا۔ شایان اسلام سے مسلسل جنگ و جدل کرتے رہنے میں میو قوم اور میوات میں خرابیاںآگئی تھیں انہیں دور کیا، میوقوم کے بارہ پال اور باون گوتوں کی تقسیم کی چوہدراتیوں کو قائم کیا ۔آج جو گوت پال اورچوہدھریں میوات میں موجود ہیں یہ تمام کی تمام عہد اکبر کی ہیں ،میوات میں جوپہلا بندوبست ہوا وہ بھی اکبری عہد میں ہی ہوا، بعض تاریخی کتابوں میں یہ بھی ملتا ہے کہ اکبر نے میوئوں کے ساتھ رشتہ دارنہ تعلقات بھی قائم کیں لیکن ایک طرف تو یہ ہورہا تھا دوسری طرف میوئوں کے بعض گوت وپالوں میں سخت خودسری پیدا ہوگی اور انہوں نے تخت ہمایونی کے محافظ اکبرخلاف علم بغاوت بلند کر دیا،چنانچہ پاہٹ پال سردار راجہ ٹوڈرمل آف بھرت پور نے اعلان کیا ...........20 پانچ پہاڑ کی راجائی اور پورہ میرو دل آدھے اکبر بادشاہ،آدھے ٹوڈر مل۔ اسی طرح پاہٹن کے رائو کو جب شہنشاہ دہلی نے کسی کام کے لئے بلانا چاہا تو اس نے آنے کے بجائے کہلا بھیجا۔ تو دہلی کا بادشاہ۔میں پاٹن کو رائو تیری دلی ملنے نہ چلو۔میری پاٹن ملنے آئو۔ اسی طرح میوئوں میں خود سری تو پھیل ہی گئی اور جب شہنشاہ اکبر بھی سدھار گئے تو اس میں اضافہ ہوگیا۔پاہٹ پال اور بعض دوسرے فرقے مکمل باغی بن گئے۔بے چارے جہانگیر کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،انہی دنوں شہنشاہ جہانگیر کا کچھ مال کاآگرہ سے اونتوں پر لدھا کر دہلی آرہا تھا۔پاہٹ پال کے سردار اور دوسرے لوگوں نے لوٹ لیا۔رائے بھان پاہٹ اور مستہ خاں گودھولیا ان میں پیش پیش تھے،اسی راہ زنی اور لوٹ مار کے نتیجے میں پاہٹ میو اور جہانگیر کی فوج مین سخت جنگ ہوئی۔جو پانچ پہاڑ"کے نام سے مشہور ہے،شاہ جہاں سے بھی میوئوں کی نوک جھونک برابر جاری رہی۔ہاں عالمگیر نے وہی طرز اختیار کیا جو اکبر کا تھا،چنانچہ عالمگیری عید میں میوبہت عہدوں پر فائز تھے حتی کہ میوات کے ھاکم بھی میوات والوں مین ہی سے تھے۔عہد عالمگیری میں لوگوں کا جوش و خرش مین بہت کمی آگئی اگرچہ طوائ الملوکی میں روز افزوں کے اضافہ کی وجہ سے میوئوں میں کافی خود سری تھی لیکن عالمگیر کے برتائوں اور خوشا مد وں نے میوئو کو رام کرلیا۔میوئوں کی فطری عادت ہے کہ کتنا ہی بڑے سے بڑا دشمن عاجزی دکھاکر ان سے امداد طلب کرے تو امداد کرتے ہیں۔(20 اصفحہ) پنسہ دیتے ہیں۔عالمگیر زندگی بھر میوئوں کو خوشامد کرتا رہا،ان خوشامدوں کے ذریعہ ہی اس نے میوات والوں سے پیچھا چھڑایااور کامیاب ہوا،بہادر شاہ کے زمانے میں اگرچہ طوائف الملوکی کافی پھیل چکی تھی لیکن اس سے میوئوں کی باغیانہ جنگ کوئی نہیں ہوئی،محمد شاہ رنگیلا اور بھی کمزور تھا اس کے زمانے میں میں میوات کا حاکم سید اللہ عبد اللہ علی خاں تھا،طوائف الملوکی کے اسی دور میں نروکے راجپوتوں کو میوئوں نے اپنے خون سے ریاست الور قائم قائم کرائی اور سنسنی وال جاٹوں کو اپنا خون دیکر بھرت پور کا مالک بنایا۔ آذادی ہند اور مئیو۔ غیر ملکی حملہ آوروں اور شاہان سے لڑتے جھگڑتے مئیوںکو ہزاروں سال بیت گئے،طوائف المللکی کے زمانے میں انہوں نے کچھ اطمنان کا سانس لیا تھا لیکن یہ سکون او اطمنان بہت تھوڑے دن رہا،ہندستان والوں کی لامرکزیت کمزوری اور ناعاقبت اندیشی نے فرنگی استبداد کے لئےخواہ مخواہ موقع فراہم کردیا،اور میوئوں کے لئے ابتلاء و آزمائش کا ایک اور دور شروع ہوگیا،میوئوں نے فرنگی اقتدار سلطنت کی کی بہت سختی سے مخالفت کی اور جہاں قابو پایا وہاں ان کا قلع قمع کرنے سے گریز نہیں کیا شروع میں تو میوئوں نے فرنگیت کوکوئی اہمیت نہیں دی لیکن ان کا سیلاب جب بڑھنے لگامیو بھی سنبھلے چنانچہ سب سے پہلے 1806 میں مفتی مولانا محمد عوض ٹونکی کی رہنمائی میں میوتیوں نے انگریز فوج کا مقابلہ کیا پھر 1828 میںدلی کے انگریز کمشنر ولیم بربزنر کو قتل کیا جس کی سزا (22) میں قاتل میو نواب شمس الدین والی فیروز پور جھرکہ کو پھانسیہ کی سزا دیگئی۔1857 کی پہلی جنگ آزادی میں میو قوم نے جو کارہائے نمایاں انجام دئے وہ انگنت ہیں،بلب گڑھ کے انگریز ایجنٹ کو مقامی مئیو اور گوجروں نے مل کر قتل کیا،سینہ تائوڑو کے پہاڑوں میں رائو راجہ تلارام اور میوئوں نے بے شمار انگریزوں کا خون کیا۔رائسنہ کے میوئوں نے انگریز بہادر قتل کئے،ریواسن کے مقام پر میوئوں نےمتحدہ انگریزوں کو بیلوں کی طرح جوڑ کانٹے لگوائے اور انہیںقتل کئے ۔نوح،شاہ پور،نگلی اور آس پاس کے دیہات کے میوئوں نے سڑک پر سے گزرتے ہوئے انگریز قتل کئے،جس کی پاداش میںپلہ کے مقام پر شیخ موسیٰؒدرگاہ کے سامنے سولی گاڑی اور نوح ،شاہ پور،نگلی اور اڈبر کے باونمعزز ترین میوئوں کو سولی چڑھا یا۔جس میں خود میرے جد امجد جوہر خاں اور وزیر کاں بھی شامل تھے،جو نوح کے رہنے والے تھے انہی باون آدمیوں میں نوح کے گواد یا چوہدری شجاعت خان تھے،ان تمام آدمیوں کو انگریزوں نے نہ صرف سولی پر چڑھایا بلکہ نوح کی تمام صوبدیداری بحق سرکار ضبط کرلی گئی اور حکومت انگریز نے ان شیدایان حریت کے پسماندگان کو ہمیشہ کے لئے ان کی جدی جائیدادوں سے محروم کردیا،اسی طرح رائسنہ اور ایلواسن کے میوئوں کی بصوادیدی حقوق سے محروم کرکے کاشت محض بنا کر چھوڑ دیا۔مرزا غالب نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ میوات میں آزادی کے پروانوں کو ختم کرنے کے لئے جو رسالہ مہاراجہ الور نے بھیجا تھاسوھارائولی کے میوئوں نے ختم کیا۔اس جرم کی پاداش میں انگریزحکومت نے موقعہ آنےپر ان کی بسویداری حقوق بھی ضبط کرلئے(22)۔ 1857 کی جنگ آزادی میں میوقوم نے بہت کچھ کیا۔جس کے عوض قوم کو کافی مظالم بھی سہنے پڑے اور بہت سے لوگ لوگ آج تک بے گھر و بے در ہیں۔حکومت نے میوات کے سیاسی مصبیت زدگان کی کوئی امداد بھی ابھی تک نہیں کی،حالانکہ میو قوم کے کار ناموں سرکشی،بہادری،شجاعت کے واقعات انگریزی حکومت کے بےشمار ہیں۔اس کے بعد جنگ آزادی کا دوسرا دور شروع ہوا تو اس میں بھی موقع بموقع کانگرس تحریک کا ساتھ دیتے رہے،کانگریس کے بڑے بڑے لیڈر میوات میں آکر پناہ گزین ہوتے تھے،وقت بے وقت روپیہ چندہ بھی دیے اور تحریک میں حصہ لینے والوں کی امداد بھی کی۔ فیروز پور جھرکہ میں ایک بارچند کانگرسی کارکنوں کو پولیس نے گرفتار کرلیاتھا تو آس پاس کے میوئوں نے احتجاج میں پولیس اسٹیشن پر پلہ نبول دیا جس کے نتائج کافی بھیانک نقصان دہ نکلے،تعلیم کی وجہ سے البتہ ورکروں میں کمی رہی ویسے آزادی کے لئے جوش و خروش کم نہیں ہوا،آج تک میو عورتیں فرنگی استعمار کو ملک سوائے جے سنگھ کی تلخ کلامی ہوئی،چوہدری یاسین ویٹو استعمال کرکے اور ہندستان پہنچ ھئے اور الور ریاست کے کئو سے اعلان کیا کہ جمع روک لی جائےتو اس موقع پرہم یہ بتائیں گے باگوڑا نے ایک تاریخی کردار پیش کیا اور جس کے نتیجے میں ہل چل مچ گئی اور چوہدری یسین کی بات کو پانی دیا اور سوائے جے سنگھ کو شکست کھانی پڑی الور ریاست میں اکثریت سینگل یا گھوڑیا نائی واڑہ رہتاہے،جس میں ہم یہ بتائیں گے کہ سب سے زیادہ اہمیت اس سلسلہ میں باگھوڑیا کو دی گئی ہے،اب آپ 1947ء کی طرف آتے ہیں جو بجلیاں میو قوم پر گری یہ بہت ہی نزدیک کی کہانی ہے جب الور ریاست خالی کرائی گئی تو کالے پہاڑ مین جمع ہوئے اور مہاراجہ تیز سنگھ نے پرانا انتقام لیا اور جہازوں کے ذریعہ شیلنگ کی جس مین کالے پہاڑ کیا ایک ٹولی خونوں میں رنگ گئی تھی،جو لوگ وہان سے بچ نکلے تو فیروز پور جھرکہ سے لیکرگوڑگائوں تک پوری میوات جمع ہوگئی جس مین بھرت پور ریاست جس مین اکثریت پہاٹ اور دولوت کی پائی جاتی ہے اور چند لوگ اور آزید کی مل گئے تھےیہ جمع ہوکر قافلے کی شکل مین پاکستان کو روانہ ہوئےتو بھٹنڈے میں آکر ہماری مائوں کی گود خالی ہوئی،کئی بہنوں کے سر سے ڈپٹا چھینا گیا۔ بڈگوجر جاٹ کا میل سنگاریا سے رہاہےیہ تعلقات اتنے ،مضبوط رہے ہیں کہ آپسی خانہ جنگی میں بھی ساتھ نہیں چھوٹا چاہئے،ایک دوسرے کے مقالہ میںاپنے ہم قوم ہی کیوں نہ آگئے ہو۔میو اور جاٹ شادی بیاہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔شادیوں میں لین دین کا طریقہ پہلے سے رائج ہے ہر غمی میں بھی برابر شریک رہتے ہیں،چوہدری سر چھوٹو رامآنجہانی کو بھی میئوئو سے ہمیشہ محبت رہی اور جب تک زندہ رہے برابر میو قوم اور علاقہ میوات کی طرف توجہ دیتے رہے،اور علاقہ مین اصلاح اور سدھار کے کام بھی جاری کئے،میو بھی چوہدری صاحب آنجہانی سے گہری عقیدت رکھتے آئے ہیں۔،ہمیں افسوس ہے کہ مکمل آزادی نےجہاں ہمیں بہت سی نعمتوں سے ہمکنار کیا وہاں انسانیت اور اقوام مین رخنہ اندازیہ بھی کر ڈالی۔میو اور جاٹ دو عظیم پرانی قومیں تھیں جو ہمیشہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں ساتھ رہے اور ہر دوا اقوام کے تعلقات ہمیشہ وسیع رہے ہیں لیکن 1947ء کی آندھی نے ان تعلقات کو بے حد خراب کردیا اور(24 ص مکمل ہوا) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔25۔۔۔۔۔۔ بندومسلم فرقہ پرستی نے برادری کا جنازہ نکال دیا ۔ اس زمانے میں اکثرایسا ہوا کے علاقہ میں قیام امن کے لئے بار بارجاٹ میووں کی پنچایتیں ہوتی تھیں اور صلح صفائی ہوجاتی لیکن فرقہ پر ست فورا ہوا دیکر معامملہ کو خراب بنادیتے تھے۔ وہ بدترین دور آخر کار گزر گیا۔ اب وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ یہ ہردواقوام اپنے تعلقات کو پہلے سے زیاد مضبوط بنائیں اورسر چھوٹورام جی کے مشن کو زندہ کریں۔ ایک ضروری بات اس وقت یہ بھی کہنی ہے کہ ان ہردواقوام کی تعدادکا فی ہے ۔ جٹیات اورميوات بڑے بڑے علاقے ہیںجن کی مستقل تہذیب اور زبان ہے ،دوسری چھتری اقوام ان دونوں قوموں اور علاقوں سے گہرا رابطہ رکھتی ہے ۔ جاٹ او رمیو یوں تومیوئوں کے تعلقات تمام چھتری اقوام سے ہمیشہ استوار ہے ہیں لیکن جاٹ قوم سے میووں کو مناسبت رہی ہے وہ ایک تاریخی چیز ہے۔ پرانی عربی تاریخوںجہاں میووں کے لفظ کو میدکے نام سے دیکھتے ہیں وہاں جا ٹ کا لفظ "زط" کے ساتھ موجود ہے ان ہردو قوموں کا تذکرہ ایک ساتھ آیا ہے یعنی لڑ نے میں مرنے میں، تجارت وغیرہ کر نے میں ایک ساتھ چلتے رہے ہیں، پڑوس ا در قرب بھی جاٹ اور میووں کا سا تھ رہا ہے ،کوئی زیادہ زمانہ نہیں گزرا ماضی قریب میں ریاست بھرت پور جو سنسنی وال جاٹوں کی ریاست تھی وہ خالصا میووں کے خون سے قائم ہوئی ہے۔ رسالدار رام سروپ مصنف جاٹ کشتری فرماتے ہیں" ٹھاکر برن سنگھ والد سورج مل ایک خاموش ہوشیار امن پسنداور ۔۔۔۔26۔۔۔۔۔۔۔ سہولت کا نوہان تھا، اس نے میواتیوں کو ساتھ لے کر راجہ جے پور کے علاقے پر چڑھائی کی جب کہ کچھواہہ راجانے ان کو اٹھارہ لاکھ روپیہ سالانہ آمدن کی زمین دینا منظور کی۔ میوات کے اردگرد زیادہ آبادی جاٹ قوم کی ہے اور ان کی بہت بڑی تعداد ہے جو پنجاب کے کافی حصے کو گھیرے ہوئے ہے یہ لوگ بھی میوئوں کی طرح مختلف گوت وپال رکھتے ہیں اور ان کا سلسلہ آخری میں چھتریوں کے انھیں کل وینس ہانے سے مل جاتا ہے جن سے چھترقوموں اور نسلوں کا ملتا ہے، جاٹ قوم کا برادرانہ تعلقات میووں کے ساتھ کو توار پال رہے ہیں۔ اورمثلاََجوئیہ جاٹ کا تعلق چھر کلوت پال سے رہے ہیں۔راوت کا ڈیراوت سے ہے۔ اس لئے کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ یہ تمام لوگ اس تہذٰب و لسانی وحدت کی سالمیت اور تحفظ کے لئے کوئی مضبوط اور کوئی ٹھوس پروگرام بنائیں۔ ان پروگرام کی تمام ذمہ داری جاٹ اور میوئوںپر ہی ہے۔ 1947ء
سن 1947ء بھی ہندوستان کی تاریخ میں ایساسال گزرا ہے جوابدلابادتک اس ملک کےبسنے والوں کو یاد رہے گا ۔ فسادہ نگری میں میوقوم اور علا قہ میوات کو برُی طرح تباہ کیا۔ جاٹ میووں کو فرقہ پرستوں نے ایک دوسرے کے خلاف اکسایا ۔ بہت بربادی ہوئی قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوا - اکثر ایسا ہوا کہ جاٹ اور میوآپس میںصلح کرتے لیکن فرقہ پرست راتوںرات بھڑکا کرصبح ایک دوسرے پر حملہ کرادیتے چنانچہ اس دور کی ناقابل بیان کو ایسے شرمناک واقعات بھی ملتے بھی انسانیت کی پیشانی پر بدنما داغ ہیں اور ان کا تعلق بعض اہم ملکی شخصیتوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔27۔۔۔۔۔۔۔ سے تھا یہ واقعات ایک بدترین سازش کا نتیجہ تھے جس کا مقصدمیوات کا استعمال تھالیکن اس میں میواورجاٹ کے دیرینہ تعلقات اور ملک کی بعض انسانیت نواز شخصیتیں آڑےآئیں جس سے ضلع گڑگائوں میں میوات کی بر بادی اتنی نہیں ہوئی جتنا یار لوگوں کا ارادہ تھا۔ ہاں الور اوربھرت پور کے مئیو مہاراجگان کی فوجوں نے برُی طرح قتل کئے اور دیہات کوآگ لگا کر ہمیشہ کے لئے نکال دیا،یہ بدقسمتی سے وہی ریاستیں تھیں جن کوخود میوئوں نے قائم کیا تھا اور اپنے ہم خون بھائیوں کو ان کا مالک بنایا تھا۔ والیان ریاست کی فوجوں کے سنگین مظالم کی داستان اتنی دہشت ناک ہے کہ اسے سن کر انسانیت کانپ اٹھتی ہے غالباجولائی اور اگست کے مہینوں میں الور اور بھرت پور کے میولٹ پٹ کرگڑگائونوہ میں آکرپنا ہ گزیں ہوئے ۔عجیب قیامت کا منطرتھا آخر ان لوگوں کو قافلہ بنا بنا کر پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا چنانچہ اس طرح الور بھرت پور اورگرگائوں کے تقریبا کافی تعداد میں میو کسی طرح سے بھی پاکستان جانے کے لئے تیار تھے ۔ اس طرح پاکستان ہجرت کرنے پر مجبورہوئے۔ جب ہجرت کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا اور میو غریب الوطنی پرمجبورکئے جارہےتھے. اب مزید تاریخ کاحصہ کا انتظارکیجئے اور تمام موادتاریخ میوچھتری اور میوا در میوات ، طبقات ناصری اور تاریخ فرشتہ ،اورتاریخ تزک بابری۔اور تاریخ تزک جہانگیری وغیرہ سے اخذ کیا اور انگلش تواریخ سے داستان میوات آپ کے سامنے آجائے گا۔ یہ موادجن جن تاریخی کتب سے حاصل کیا گیا ہے وہ اس کتاب میں درج ہیں۔ نیزمیں نے انڈیا کے گوشے گوشے سے گھوم پھرکر یہ مواد اکھٹا کیا ہے ۔جس میں جن لوگوں سے ملا ہوں، آگرہ کے میو جس میں میوکو نتگلہ خواجہ کی سرائے نائی کی منڈی بغیچی بھوگی پورہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔28۔۔۔۔۔۔شامل ہیں اسی طرح سے تقریبا بارہ تیرہ محلے شامل ہیں، علی گڑھ کے میو سے میں ملاہوں جس میں میوئوں کا سب سے بڑا گائوں کوڑیا پلکھا ہے جس میں زیادہ تر اکثریت چھرک لوت کی ہے۔ اسی طریقہ سےضلع علیگڑھ میں اترول وغیر ہے جس میں میئووں کی میو ٹرانسپورٹ کے نام سے بسیں چل رہی ہیں اس میں اکثریت زیادہ ترپہاٹوں کی ہے ،ان کے سرغنہ فیض محمد ميو ہیں،ٹونک کے مئیوٹونک میں میوکی بہت زیادہ اکثریت ہے اسی طرح بی کا نیٹر میںبھی میوئوں کا بہت بڑا محلہ ہے جو کہ اسٹیشن کے ساتھ ساتھ آباد ہے ان کا سرغنہ ہیڈ ماسٹر ستار مئیو جس کا پتہ ہے۔ ہیڈ ماسٹر عبدالستار میودھوبی تلائی بی کا راجستان. اسی طریقہ سے اٹاوہ کے میو۔۔اٹا وہ میں میووں کی بہت زیادہ اکثریت ہے جس کاخوش قسمتی سے ایک ممبر ہماری تنظیم میںموجودہے
پڑھا لکھا لڑ کا ہے باشعور ہے جس کا نام عبدالصمدہے اور سنئیر وائس پریذیڈنٹ ہے،ضلع تھرپارکر میرپورخاص کا کونسلر ہے۔ اوٹاوہ کی ایک مشہور ومعروف ہستی سے ہم ان کا تعارف کراتے ہیں چلیں۔جس کا نام چودھری سمیع خان ہے،نیشنل بنک میں وائس پریذنڈٹ ہیں اس کے علاوہ مزید تین صا جزاد سے بھی پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سرفہرست نعیم میو ہیں اسی جگہ کے ایک باشعورا ورمشہور ومعروف ہستی ایس بی ضلع تھرپارکر طارق جمیل میو ہیں ۔ اب یہ بتانا میںاس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے یوپی کے میو تعلیم یافتہ ہیں اور اپنی قوم کو فخرسے سر اونچا کر کے اجاگر کرنا چاہتے ہیںکاش گنج کے میو گجرات میں صورت کے میورجس کا سرغنہ محمد اسحاق خان گادر ہے اس کے مزید پاپنچ صاحبزادے پڑھے لکھے طبقےسے..........29........... ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعلق رکھتے ہیں اس کا پتا سورۃ مغل سرائے ہے اور صورت میں اچھی تعداد میں ہیں اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور نیو کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیںضلع بدایوں کے میں وزیرآباد آئو میں میو کی بہت بڑی تعداد ہے ہے جب ان لوگوں کے پاس پہنچا تو ان لوگوں کا وہی رہن سہن وہی پرانا کلچر کا کام ملاان میں چودھری ولی محمد کرلاواں وہ خاص طور پر مشہور ہیں کرلا والا ایک گاؤں کا نام ہے میرٹ میں بھی میں بہت بڑی تعداد میں ہیں ہے یہ اس لیے بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ لوگ میوات سے گئے ہوئے ہیں جب ان میں سے اکثر لوگ اور جب میں ان لوگوں کے پاس پہنچا تو میں بہت متاثر ہوا اور ان سے مل کر میرے جسم میں ایک نئی روح پھونکی کہ میری بہادر قوم ہندوستان اور پاکستان کے کونے کونے میں موجود ہے اور منٹگمری میں بھی بہت بڑی تعداد میوئو کی ہوگئی ہے ہم موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب آپ کو مارا جانور کی طرف لے چلتے ہیں ۔جس میں حکمرانی منگل سنگھ مہاراج کی تھی جس کے مقابلے پر ڈاگ و ریا سے خدا بخش میں وں کے دو صاحبزادے کھڑی اور خان کی زندگی حرام کر دی جس میں منگل سنگھ مہاراج نے اوچھے ہتھکنڈے پھینکے اور ان کے والد خدا کش کو گرفتار کیا جس میں نوبت یہاں تک آئے کہ جیسے کہ کسی شاعر نے کہا ہے پہلے تو چٹھی لکھی پیچھے کاٹو تار۔۔۔
چار سدا بخش کو چھوڑ دے ورنہ تیری کرو ریل پے وار
خدا بخش کو چھوڑ دے ورنہ تیری کروں ریل پے پہ وار
ایک انگریز کو دو جو منگل سنگھ مہاراج
تیجا راجہ گھڑ چڑی جس کی کانو قلعو پہاڑ جب منگل سنگھ مہاراج کی حکومت ختم ہوئی تو اس کا لڑکا سوائے جے سنگھ برسر اقتدار آیا جس کا مقابلہ چوھدری یاسین نے کیا جس کو میواتی بابائے قوم کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کا مقبرہ نوح میو سکول کے ساتھ ہے۔ اس کی زندگی سوائے جے سنگھ سے مقابلے میں گزری آخرکار سوائے جےسنگھ کو شکست دی اور میو قوم کا بول بالا کیا اور سوائے جےسنگھ نےسکشت مانی جیسے کے بیگم سوائے جے سنگھ نے کہا تھا راجہ سے رانی کے ہیں تو دلی کو جائو آگے مل جائے یا سین خاں والےتو پاؤں پڑ جایو یاسین خان نے کہا تھا تو آپ چلا بندوق چلاتے تیری دہوری چلا مشین تیرا الور لڑکوں کو توڑ دو میرا نام ہے یاسین یوں تو لکھنے کی بہت کچھ ہے لیکن ہم اس کتاب چچا کو یہیں ختم کر رہے ہیں کیونکہ دوسری میں ہم آپ کو پوری کہانی دیں گے کہ آپ کا خادم موجودہ پتہ۔۔۔۔ہاوس نمبر 784 بلاک این نارتھ ناظم آباد کراچی
ان میں اتنا ون ایک بزرگ اور قوم کا خادم ہو کہ رشتہ میں میرے تھا تو میریا جو دھری موج خالی کریم دین عرف روڑا نکالیں بیان کھیرا و جلوت میو نے تعاون کیا ہے نبی کا موجودہ پتہ ملے حیدر آباد کو م ین ہے اور کھیل کٹوا سیارہ ہے یتساب آل پاکستان موستل او گرانترین کی شاخ ہے. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔31۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں آبی کولو توان نسل سے تعارف کراتا ہوں اور پاکستان میں آباد ہیں ۔ اور مندر کے اس تصور کو اجاگر کرنے کے لیے نین بر گونگی والے،اورنگی ٹاؤن بونگی ٹاون گلشن بہار کراچی کے میئر جنایودھری حبیب الرحمن لیاقت آباد مینای جان محمد الحاج اطباد محسن جناب اقبال میر اورنگی اون حافظ شیر می اورنگی ٹاؤن حافظ سلمان خان عیدارن میو رستم مان میر میرا رنگی ٹاؤن چودھری قمرالدین کوالده ودھری قدحنیف پیپلز کالونی فرار من میترا بیلیز کا لونی ہیڈماسٹر فار وی مو لیاقت آباد من زارهای محمد حنیف مو شمس الدین یونیا پہاڑ گنج اکبر خان مئیو۔محمود آباد منظور کالونی میں ٹھیکیدار محمود آیا منظور کالونی اب میں آپ کو تنبع تھرپارکر کے لوگوں سے تعار منکراتا ہوں و اندرون سند آیا دمي - ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم میو قوم کے لگواتی میو قوم کے ساتھ چھتریا نہ روایات کے مطابق لگ بھگ وادیوں کی طویل فہرست ہے مختلف اور برادری کے روپ میں وں کی سماجی معاشی کا میں مذہبی خدمات کے لئے بطور لگواتی موجود ہیں ،ان کے مختلف کام اور خدمات ہیں جنہیں پرانے رواج کے مطابق سرانجام دیتے ہیں ان خدمات کے سلسلے میں ان لوگوں کو انعام اکرام اور معاوضے دئیے جاتے ہیں ذیل میں ہم ان کے کچھ کام گنواتے ہیں میراثی ۔ انہیں اکاشہ کی اولاد بتایا جاتا ہے۔میراثی ایک بہت بڑی قوم ہے جسے میراثی کے علاوہ رائے ڈوم۔ ڈھاڑی کبیشنر، میر جی کے ناموں سے پکارتے ہیں،،،،میراثی کا لفظ دراصل مرثیے سے بنا ہےکیونکہ یہ لوگ بھی میوئوں کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے ہیں اس لیے انہیں میراثی کہا جاتا ہے یہ لوگ مومن ہر قوم کے ساتھ پائے جاتے ہیں ان کا کام گانا بجانا ہوتا ہے۔میوات کی میراثی گانے کے علاوہ بات بھی کہتے ہیں اور بڑی بڑی میں ومیو ملجسوںیا تقریبات میں رات بھر بیٹھ کر سناتے ہیں۔ بڑے بڑے میوئوں کی شان میں قصیدہ کہتے ہیں۔جسے میواتی کبد یاجس کہتے ہیں ،جس کے معاوضے میں ان کو بڑے بڑے دان ملتے ہیں اس د ان کو یہ بار بار گاتے ہیں اور دان کی بہت تعریف کرتے ہیں۔چاہلیہ چک مل نے کسی زمانے میں ان کو ہاتھی کا دان دیا تھا بعض میراثیوں کو گھوڑا اور اننٹ کا دان ملتا ہے لارنس جو پنجاب کا مشہور مورخ ہے۔نے کہا ہے کہ ڈوم ہندوؤں کی شودر قوم سے نکلے ہیں ۔۔راج ترنگی کا مشہور مصنف پنڈت کلن داس قوم کی تعریف میں لکھتا ہے ۔جس کی وجہ سے یہ قوم ایک زمانے میں کشمیر کے مہاراجہ گان کے ہاں بڑی عزت پائی گئی تھی ۔عبدالرحمان آزاد قصبہ کریال اس قوم کے لیڈر سمجھے جاتے ہیں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ قوم پیشہ کی بنا پر میراثی کہلائی جاتی ہے۔میوات کی مراثیوں کا پیشہ گانا بجانا ہے ۔یہ لوگ بھادوں مہینے میں سارنگی بجاتے ہوئے گھر گھر جاتے ہیں روپیہ اناج وصول کرتے ہیں۔ ہیں میو قوم کی شادی بیاہ سگائی دوسری تقریبات میں پیغام رسانی کا کام بھی انہی لوگوں کے سپرد ہوتا ہے ۔نیز نائی میراثی شادی کی رسومات کی ادائیگی کا فرض انجام دیتے ہیں ،میراثی میوکو راجہ یا ججمان کہہ کر پکارتے ہیں ان کے شادی بیاہ کے قریب قریب وہی رسم و رواج ہیں جو میوئوں کے ہوتے ہیں ۔شادی دو تب جاکر کرتے ہیں ان کی چودھری بھی میوئوں کی چودھر کے ساتھ ہوتی ہیں / میراثی لوگ میر ملائیں پیر کے بہت مرید ہیں ۔اس لئے میلہ میں میر ملائک پیر کا میلہ لگتا ہے جس میں میراثی شریک ہوتے ہیں ۔ اٹ کا مطلب سر کرے ڈگی بندہ اوے دھیر رائن پےرچھیا کرے میرو میر ملائک پیر میراثی لوگ حیرت چوڑسدھ کے بھی مرید ہیں چنانچہ چوڑ سدھ میں 28 تاریخ کو میراثی میلہ لگتا ہے ۔ میراثیوں کے حسب ذیل گوتو کے نام ہمیں مل پائے ہیں میراثی گوت کھوسلہ ۔تکھان۔کا لیٹ ۔دودھیاں ،سہران ،کھندالہ ،دربل ۔مومیا ،کھنکھنا ،بھیٹ ۔بنوار،ڈیم روت۔دو لوت،وساڑ،سولنگی،ستنیا،کائیاں ،لاہر وت ۔وڑک ۔ڈھولا نا ،نون پال،رہسائولہ۔ میراثی گانا بجانا تو جانتے ہی ہیں ان میں بعض شاعری بھی ہوئے ہیں ۔میواتی زبان میں جسےکبد بھی کہتے ہیں ،اور داد تحسین حاصل کرنے کے علاوہ بھاری دان وصول کرتے ہیں ۔اگر کوئی انہیں دا نہیں د تاے پاتا، ان کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے تو یہ اس کا تقدس جس یعنی ہجور کہتے ہیں ۔میراثیوں کی بھگتیا یعنی بددعا سے لوگ ڈرتے ہیں ۔
نائی
اس قوم کا دوسرا نام خلیفہ یاحجام ہے یہ دو میویوں کے کارنی شادی بیاہ بنارا میں معاون ہوتے ہیں۔ پیغام رسانی کا کام نائی کرتا ہے ۔اسی طرح سے شادی کی بیشتر رسومات کو انجام دیتے ہیں یہ لوگ گوتوں اور پاولوں کے ساتھ تقسیم ہیں ان کے آپس میں گھر تقسیم ہوتے ہیں بچوں کے ختنوں کا کام بھی نہیں کرتا ہے نقیب۔ نقیب فقیروں کی طرح ایک شاخ ہے جس کا کام برادری کے کاموں میں ہاتھ بٹانا ہے کہ لوگ شادی بیاہ دوسری تقریبات کے موقع پر برادری کے فیصلوں یا لین دین کاباآواز بلند اعلان کرتے ہیں برادری کے پیغامات پہنچانے کا کام کرتے ہیں ان کو بھی میں وہ لوگ دان دیتے ہیں کبشیر۔ کبشیر کا دوسرا نام جکا ہے جگہ کا کام شجرہ انصاب یا بنسا والی درج کرنا ہوتا ہے یہ لوگ اس سال بسال اپنے ججماانوں کے ہاں آتے ہیں ان کا کرسی نامہ لکھ کر لے جاتے ہیں ۔ ان کے خاندان میں جس قدر بچے پیدا ہوتے ہیں انہیں لکھ لیتے ہیں ۔اوکے گوگل پلیز اگر خاندان میں شادی یا کوئی اہم تقریب ہو تو اس کا اندراج بھی اپنی پوتی میں درج کرتے ہیں یہ جگہ بالعموم ہندو دھرم سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بڑے بڑے مرکز ٹووڈ ہ بھیم اور رآج گڑھ ہیں نٹ۔ نٹ کا کام کلا اور فن د کھانا ہے یہ لوگ بھی میراثی کی طرح جس کبد کہتے ہیں اور بڑی بڑی بھیٹ یا دان وصول کرتے ہیں ۔یہ عموما خانہ بدوش ہوتے ہیں اور ان کے قریب ہی ایک خاندان گاؤں کی قیام کرتے ہیں ۔ شیخ مجاور۔ شیخی یا مجاور بھی دیہات میں خال خال پائے جاتے ہیں ان لوگوں کا تعلق دراصل میو قوم کے مذہبی کاموں کو انجام دینا ہوتا ہے ۔ یہ لوگ پہلے سالار کا جھنڈا یا نشان اٹھانے کا کام کرتے تھے ہر جگہ دیہات میں سید سالار کے چلے چبوترے بنے ہوتے تھے ان پر چراغ جلانا یا جھاڑو دینے یا چادر چڑھانے کا کام یہی لوگ کرتے تھے بڑے بڑے جہات میں جہاں تعزیہ داری ہوتی ہے تعزیہ بنانے اور ان کا اہتمام کرنے کا کام بھی یہی لوگ کرتے ہیں یہ اون گاؤں میں آباد ہوتے ہیں ان کو زمین کی جاگیر بطور حق خدمت دی ہوئی ہوتی ہے اس کی پیداوار سے یہ اپنا گزارا چلاتے ہیں ۔
حضرت شیخ موسی کی درگاہ پلہ کے بڑے عقیدت مند ہیں مہرولی یا نئی دلی میں چھڑی کا مشہور میلہ لگتا ہے جو خالصتا شیخو کا میلہ ہے،شیخوں کے گوت گڈھ ۔بلگیا یہ کہتھوڑیا۔ڈومییاں ۔اندوریاں وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں ۔چندپلہ(گوپال گڑھ)ان کا مرکزی گاؤں رہا ہے ۔شیخیاں مجاوروں کا نکال تجارہ سے معلوم پڑتا ہے کیونکہ میں وارد میں سید سالار مسعود غازی کا ورود مسعود تجارے کے مقام پر ہوا تھا ۔اور میوات کی مذہبی ننظیم تجارہ میں بنائی گئی تھی ۔وہاں شیخوپورہ سالار کا جھنڈا اٹھانے کا کام سونپا گیا تھا
اور حضرت شاہ مدار کی چھڑی درمیان بہی اٹھانے کا کام سونپا گیا تھا ۔حسب ذیل بہارت میں ان کی آبادیاں ہیں ۔پلہ، نوح، دوہہ، سہنہ کھوٹے تھونک یاس بہرو،کوٹ،ڈائناکا باسرونڈری،کھیتواڑہ،کرنونکا،کرنکا،ریٹھٹ بڑگانوہ،چندو پلا۔کھوہ،پنگواں،ادوا،میدا کا باس،بہادر پور،دھوج فیروز پورنمک،شاہ چوکھا،مالوکا۔اونمری،بیواں،سیامدیکا،نصیر پوری ،ہرسولی ،بیاری ،الائڑہ۔ شہزادہ، مانڈی کیڑہ ،آکیڑہ،کانکرکھڑی،سیسن،ساکرس،ٹونکا۔شکرواہ،موج پور۔
فقیر۔
میوات میں انہیں میاں کہتے ہیں ۔یہ لوگ میں و دیہات میں ہر جگہ آباد ہیں ان کی معیشت کا دارومدار بھی میوہئوں پر نر بھر کرتا ہے۔ان کا کام میں وں کے مذہبی معاملات میں مدد کرنا ہوتا ہے کفن دفن کا اہتمام قبرستا کی حفاظت کی آیات پر کا پانی ،گھڑی اور چوپالوں کا انتظام جمعرات کو درود و فاتحہ لگانا میلے منعقد کرنا درگاہوں پر جھاڑو دینا چراغ جلانا ان کے فرائض میں داخل ہے یہ لوگ عقیدتا قدامت پرست خیالات رکھتے ہیں اور اپنا سلسلہ شاہ مزار کے ساتھ ملاتے ہیں ۔ہفتے خدمت کے طور پر بھونڈ برداری زمین ان کو دی جاتی ہیں تاکہ یہ اپنے بچوں کو پال سکے یہ لوگ گھر گھر جا کر دانہ بھی مانگتے ہیں، میت کے کپڑے چارپائی وغیرہ ان کو دی جاتی ہیں مال گزاری کے کے موقع پر ملبہ سے بھی فنڈ دیا جاتا ہے۔ ازالہ شبہات۔ کیونکہ میوقوم کی کوئی مستند تاریخ آج تک نہیں لکھی جا سکی اور تاریخی روایات محض کبشیروں یا میراثیوں کے پاس ملتی ہیں یا پھر زبان زد عوام و خواص ہیں اس لئے میو قوم یا اس کے تعلقات کے بارے میں شبہات یا غلط فہمی پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے ۔مدت ہوئی اس لیے ہم نے یہ مناسب سمجھا ہے کہ جو غلط فہمیاں یا جہالت یا یہ تعصب کی بنا پر بعض لوگوں نے پھیلا دی ہیں وہ دور کر دی جاویں، امید ہے کہ قارئین اس سے دلچسپی سے پڑھیں گے ۔ میو اور مینا میو قوم کی طرح مینا بھی ایک آرین چھری نسل قوم ہے جس کی آبادی کرولی بھونڈی الور جے پورو غیرہ ریاستوں میں پائی جاتی ہے۔ان ہر دو اقوام کے سلسلے میں مورخین گزیٹرزمیں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں چوہان میوات کے بارے میں بدایونی کے حوالے سے لکھا ہے چوہان راجپوت قبیلے کا نام ہے اور میوات میوئوں کا ملک ہے جو دراصل راجپوت قبیلہ ہے لیکن یہ شاید مینا کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔اور یہ اسلام لے آئے ہیں ۔محمود غزنوی کے عہد میں میوات دہلی کے جنوب میں واقع ہے اور مغل دور حکومت میں یہ صوبہ آگرہ کا حصہ تھا تفسیل امپیریل گزیٹیر آف انڈیا میں ملاحظہ فرمائیں ۔غزل کا ایمپیریل گزیٹر آف انڈیا میں لکھا ہے ۔مینا نام امینہ نیو سے نکلا ہے جس کے معنی اصل میں وہی یعنی وہ جو مسلمان نہیں ہوئے میں نا اپنے آپ کو راجپوت بتاتے ہیں لیکن ہندو راجپوت ان کی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے اکبر کے زمانے تک مینا اور میوقوم آپس میں شادیاں ہوتی تھی ۔ لیکن مسٹر ٹڈا،کنگھم کرک کا خیال ہے۔میو اور مینا ابتدا میں ایک قوم تھیں۔میو ان میں سے مسلمان ہوگئے اور مینا ہندو رہے اکبر کے زمانے تک ایک قوم تھے انکی پالے مشترک ہیں ہیں ٹاڈ کا ایسا خیال بھی ہے کہ میویا مینا قو میں راجپوتوں سے پہلے موجود تھیں۔سر ڈنزل ایبٹ سن مصنف پنجاب کاسٹ نے کہا ہے،میو اور مینا ایک ہی لفظ ہے ان کی گود آپس میں ملتے ہیں اور اکبری عہد میں ان کے ہاں آپس میں شادیاں بھی ہوتی تھیں،ان حوالوں کے علاوہ ہماری کتاب کے باب بابا اقتباسات میں بھی ہم نے مینا قوم کے سلسلے میں مرغی اور سرکاری رپورٹ ہائے کے خیالات درج کیے ہیں آپ انہیں کتاب اقتباسات ملاحظہ فرمائیں مینا کی وجہ تسمیہ اس سلسلے میں کئی اقوال موجود ہیں لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ لفظ ۔مین۔ سے بنا ہے جس کے ایک معنی زمین کھودنے کے ہیں یہ قوم سختی پسندی کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتی اسی مناسبت سے مینا بن گیا ۔اس سلسلے میں یہ خیال بھی بعض مورخین کا پایا جاتا ہے کہ ان کے کسی مورث کا نام مین یا میناہو ۔ میو قوم سے تعلق۔ میو قوم کا بہنوں کے ساتھ نہایت قریبی تعلق رہا ہے یہ ایک بہادر قوم ہے جس کا راجستان کی اقوام میں کوئی دوسری قوم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔نیو کی طرح یہ قوم بھی ہمیشہ لڑنےبھڑنے میں مصروف رہی ہے اور یہ ایک غیور و خود دار قوم ہے مینا واٹی کا ایک مشہور دوہا ہے باون کوٹ چھپن درواجہ مینا مرد نائن کا راجہ یعنی ایک وقت ایسا گزرا ہے کہ مینوں کے پاس 52 قلعے تھے جن میں ان کی راجدھانی تھی جو مختلف حصوں میں قوموں اور گروہوں سے ٹکراتے رہتے تھے۔
مینا اور میوئوں نے بہت سی لڑائیاں مل کر لڑیں ہیں اور وہ مسلمان بادشاہوں سے مشترکہ طور پر برسرپیکار رہے ہیں مینا وں کے بہت سے گوت بھی میویوں کے ساتھ ملتے ہیں
اور عہداکبری میں ایک ایسی شادی بھی ان دونوں میں ہوگئی ہے جو دریا خاں اور شمس بدنی کی شادی کے نام سے مشہور ہے اس لئے بعض مورخین کا خیال ہے کہ مینا اور میو ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔یہ خیال درست نہیں ہے قومیں یہ دونوں الگ الگ ہیں لیکن ان کا مخرج یعنی نکلنے کی جگہ ضرور ایک ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے گوت پال آپس میں ملتے جلتے ہیں۔کرسی ناموں اور بن سعودیوں کی چھان بین سے آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ چھٹریوں کے چھتیس راج کلوں سے جتنی نسلیں نکلی ہیں ان سب کے گو ت و پال آپس میں ملتے ہیں۔لیکن میو اور مینوں کے گو ت و پال آپس میں زیادہ ملتے ہیں ۔چنانچہ اس سلسلے میں ہم ایک گوشوارہ پیش کر رہے ہیں جس سے آپ اس باقی صحت کا اندازہ لگائیں گے
راٹھور
رجپوت
میو
پنوار
۔۔۔۔۔۔۔
چوہان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاہل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوڑ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برہمن بڈ گوجر ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینگل ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گوجر،جاٹ،مینا کٹاریہ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نربان ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈوڈوال ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوت ،۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مینا لاڈاوت ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میوال؛ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب پرتھوی راج چوہان کا کرسی نامہ بھی ملاحظہ فرمائیں جس سے صرف چوہان نسل مینو کے گوتوں کا اندازہ ہو سکے گا ۔تلوار کشواہا اوردو مینائوںکے کرسی نامہ اس کے علاوہ ہیں جنہیں ہم طوالت کے خوف سے نہیں دے سکتے نوٹ ۔۔۔یہ کرسی نامہ بہت مختصر کر کے لکھا گیا ہے تاکہ میں نا قوم کا موڈ سے کس قدر تعلق ہے ۔پرتھوی راج کی نسل سے چوہان نسل کے 36 فرقے ہیں جو میوئوں کے بعد گوت پال سے ملتے جلتے ہیں
شجرہ انسان چوہان مینہ المعروف بہ چیتہ منقولہ از بنسیاولی چیتہ بنسیان و تاریخ اجمیر مصنفہ بنڈت کشن و تاریخ راجگان ہند وغیرہ۔ اس جگہ پر شجرہ نسب کا نقشہ ہے۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم رحمتہ اللہ و برکاتہ
گو شوارہ اور شجرہ نسب ملاحظہ فرمانے کے بعد آپ اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ کس قدر گوت اور پال آپس میں ملتے ہیں۔جس کے ملنے کی وجہ باز مورتوں کے ناموں کی مطابقت بھی ہو سکتی ہے ۔دونوں فرقوں میں قدیم نسلی و نسبی تعلق بہت گہرا ہے ۔جس کی بنا پر ہر دو اقوام ہمیشہ بہت قریب رہی ہیں ۔اور آج بھی اس پر تحیر کیا جا سکتا ہے کسی زمانے میں دوسا آہیر اور کھو مناؤں کی راجدھانیاں تھی ۔لیکن جوں جوں راجستان کی دوسری راجپوت نسلی طاقتور ہوتی گئی ان کی طاقت کم ہوتی چلی گئی ۔تھانہ غازی آباد میں اکبری عہد تک مینوں کی راجدھانیاں گیارہ تھیں۔یہاں سے نکلے ہوئے میوال گوت کے مینے اس کے آس پاس آباد ہیں،کہاوت مشہور ہے۔نر ہٹ نہیپڑا کا یادھارائو ۔مینا ایک مشیور جانباز تھا جس کی بیٹی دھرم پتری سس بدنی میوات کے مشہور راجہ ٹوڈرمل نے پتر دریاخان کوبیہای تھی ۔جس کی کہانی حسب ذیل ہے ۔یہ کہانی اکبر احد کی ہے اور اسے انگریز مصنفین نے بھی بعض گزٹرز وغیرہ میں نقل کیاہے۔ پانچ پہاڑ کی راجا ئی اور پورومیرو دل آدھے اکبربادشاہ آدھو پاہٹ ٹوڈرمل ٹوڈرمل جس کی تعریف میوات کے شاعر نے مندرجہ بالا شعر میں کی ہے ایک رئیس ذمیں دار ایک بھرت پور میں گزرا ہے جس کا جس کا جاہ و جلال میوت اقع اور میناو ٹی پر تھا اس کی دوستی یا دھارائو مینا ہیرا ضلع جے پور سے تھی اس دور کے رواج کے مطابق ۔جو اکبر نے رائج کیا۔ دونوں کو آپس میں رشتہ کرنے کا خیال پیدا ہوا اس لیے بادھآر ائو نے اپنی پوتی سس بدنی کی منگنی ٹوڈرمل کے لڑکے دریا خان سے کردی۔جس کا پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی یہ طے کیا تھا کہ اگر اس کی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اس کے لڑکے کو دے گا ۔چناچہ ٹوڈرمل کی لڑکا ہوا اور بادھار اوکے پوتی ہوئی لڑکی بہت خوبصورت تھی جس کے لیے بڑے بڑے مہاراجگان کے پیغام بھی آئے تھےاور خود میا قوم میں بھی شادی کی اس لیے زیادہ اہمیت ہوگی کہ یہ رواج کے خلاف تھی مینا کوم نے بعد آر او پر دباؤ ڈالا کہ وہ یہ منگنی چھڑا دے مگر یہ بدستور قائم رہیں جس سے ایک طرف میوات میں شور شرابا تو دوسری طرف مینارٹی میں طوفان کھڑا ہو گیا ایک طرف میو جنگ کے لیے تیار ہوگئے اور دوسری طرف ٹوٹل مرنے 12۔ .52 کے میوئوں کو برات کے لیے نوت دیا ۔ تاریخ مقررہ پر گھمسان کے ساتھ نہیھڑے کو بارات چڑھی جس کی نظیر بھی میو قوم کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جس وقت بارات نہیڑے پہنچی میوئوں نے بادھار ائو کو بہت سمجھایا مگر اس نے کسی کی بات نہ مانی اور شادی کی رسم بڑے دھوم دھام سے عمل میں آئی،بادھآر ائو نے جنگ کے خطرے کو ٹالنے کے لیے لڑکی کی رخصتی کو اس وقت تک ملتوی کر دیا اور بارات واپس آ گئی، راستے میں اراولی پربت کی پہاڑیوں میں مینے مسلح ہو کر بیٹھ گئے تھے جس وقت لڑکی رخصت ہو کر آئے گی۔ اسے چھین لیا جائے گا ۔مگر یہ جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی کچھ دنوں بعد دریا خاں، سس بدنی کی رخصتی کے لیے نہیڑے دوبارہ گیا۔ ٹوڈرمل کا خیال تھا کہ اب مینوں کا جوش کم ہوگیا ہوگا اس لئے اس نے دریا خان کے ساتھ لشکر بھی نہیں بھیجا۔ مگر دریا خاں جس وقت اس لڑکی کو لے کر واپس آنے لگا تو مینوں علم ہو گیا اور یہ بہت بڑی تعداد میں آکر منگانے کے درے میں جمع ہوگئے .رتھ جس وقت یہاں آیا اس کو پکڑ لیا ۔اسی ااثنا میں ٹوڈرمل کے آدمی بھی پہنچ چکے تھے ۔فریقین میں میں یہاں خونریز جنگ ہوئی لیکن دریا خاں سس بد نی کو لے جانے میں کامیاب ہوگئے اس رشتہ کے علاوہ میو اور مینو میں کسی اور رشتہ داری کا پتہ نہیں چلتا معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ شادی رواجی طور پر نہیں بادھا رائو اور ٹوڈرمل کے تعلقات کو نبھانے کی وجہ سے ہوئی تھی ۔ اس زمانے میں اکبر بادشاہ نے بین القوم شادیوں کا رواج ڈال دیا تھا خود اس نے مختلف راجپوت عورتوں سے شادیاں کی تھیں ،جن کا ذکر مختلف تاریخی کتابوں میں موجود ہے ۔ایک میوعورت "بسر نیؔ جو بیسرو کی رہنے والی تھی کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے اکبربادشاہ شادی کرنے کے لئے سے منگا لیا تھا مگر دادا باہڑا سے محل میں پیچھے سے ۔گو۔کے ذریعہ چڑھ کر نکال لائے تھے۔چوہا ن نسل مینوں کے علاوہ کئی ایک فرقہ مینوں کے اور بھی ہیں جو میر کاٹھات میرات گوڑا وت کہلاتے ہیں۔ مینوں میں ہندو مسلم دو قسم کی قومیں ملتی ہیں۔یہ ان میں ایک عجیب بات ہے کہ ایک گوت دوسرے گوت کو گھٹیا سمجھتا ہے اس لیے آپس میں رشتہ کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔یہ قوم بہادری اور شجاعت میں میوقوم کے علاوہ کسی اور کو اپنا ہمسر نہیں سمجھتی،جاٹ گوجر۔راجپوت رانگھڑ وغیرہ سے لڑنا توہین سمجھتی ہے ۔چوہان مینو کے متعلق تاریخ اجمیر میں لکھا ہے۔ دراصل اس قوم چوہان میں نہ کا بانی مورث اعلی پرتھوی راج چوہان راجا اجمیر ہے ،جس نے ایک مینہ عورت سے شادی کر لی تھی، جس کے بطن سے جودھا اور لاکھا دوسپوتر پیدا ہوئے، مشہور ہے کہ لاکھا کی اولا سردہی میں پھیلی اور جودھا کی اولاد مگرہ میں آباد ہوگئی۔(صفحہ50 مکمل ہوا) مشہور ہے کہ جودھا بمقام چانک رہتا تھا لیکن کوئی ق؛عہ اس کا نہیں ،انہل جس کو چیتہ بھی کہتے ہیں اور انیب جس کو برڑ بھی کہتے ہیں۔ پرتھوی راج چوہان کے زمانے میں میو اور مینوں کا تعلق بہت گہرا رہ چکا ہے،انہوں نے متحدہ محاذ بنا کر کئی راجائوں کو سکشتیں دی ہیں،ایک مدت تک میو اور مینے خلط ملط رہ کر گنگ و جمن راجپوتانہ،نواح دہلی و آگرہ کے حکمرانوں سے ٹکراتے رہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ دونوں قومویں ہمیشہ لڑتی مرتی رہی ہیں او ر ان دونوں کے پاس بڑی بڑی حکومتیں بھی رہ چکی ہیں جو آہستہ آہستہ ان کے ہاتھوں سے جاتی رہیں۔ماضی میں جب کبھی سیاسی نظریہ کی بدولت میوئوں پر کوئی مصیبت آتی تھی تو مینا میو قوم کا ساتھ دیتے تھے اور جب مینوں پر کوئی آفت نازل ہوتی تھی تو میو برابر مینوں کا ساتھ دیتے تھے تعلقات کی اس گہرائی نے میو اور مینوں کو ایک رشتہ تک (سس بدنی ،دریاخاں) تک پہنچا دیا ، مندرجہ بحث سے واضح ہوچکا ہے کہ میو اور مینا قریب المخرج قوم تو ہوسکتی ہیں لیکن ا ن کو ایک ہی قوم بتانا تاریخ اور بنساولی کی حقیقت کے خلاف ہے،ہم نے بتادیا ہے کہ چھتری اقوام کے بعض گوت و پال آپس میں ضرور ملتے ہیں لیکن ان کا شجرہ نہیں ملتا،اس لئے میو اور مینا کو ایک قوم نہین کہا جاسکتا یہ محض غلط فیمی ہے۔ اگر میو اور مینا کو اہییک قوم کہا جائے تو پھر تمام چھتری اقوام ایک ہی قوم ہیںکیونکہ آکر میں سب سورج بنس اور چندر بنس ہیں۔ جادو ،خان جادو اور خان زادہ خان جادو میو قوم کے ایک جادو نسل گوت کا نام ہے ۔یہ لفظ اصل میں یا دو تھا ۔یادوں سے جادو بنا جادو کے ساتھ شاہان اسلام نے خان کا خطاب لگا کر خان جادو بنا دیا ان للہ اس تحریف سے اس گوت کی اصل و نسب کو بھی مشکوک کرنے کی بدترین کوشش کی ہے۔مثلا بعض لوگ خان جادو میو کو پٹھان بتانے لگے بعض نے کہا کہ ان لوگوں نے نہایت چالاکی سے اپنا کرسی نامہ یاد و نسل سے ملادیا وغیرہ وغیرہ مورخین کی اس تحریف کے پس منظر میں دراصل اردو فارسی تاریخوں کا ایک لفظ۔ خانہ زاد ۔ہے جو ان تاریخوں میں متعدد مقامات پر آیا ہے ۔مورخین نے اسی لفظ سے یہ اندازہ کیا کہ خانزادہ قوم کی وجہ تسمیہ اردو فارسی تاریخوں کا یہی لفظ خانہ زاد ،ہے ۔ یہ لفظ حسب ذیل مقامات پر اس طرح آیا ہے تاریخ فرشتہ میں اس طرح ہے ۔ 1۔اور جب وہ لشکر کوٹلہ میں پہنچا محرم کے ماہ 793 ہجری میں ابوبکرشاہ بالاتفاق بہادر ناہر اور خان زادن فیروز شاہی کے ہمایوں خان کی بے خبری میں اردو یعنی لشکر پر تاخت لایا اور پندرہ آدمیوں کو مجروح کیا 2۔احمد خان نے اپنے خانہ زاد ،راؤ خان کو برسم رسالت فروز شاہ کے پاس بھیج کر پیغام دیا۔ سیرالمتاخرین میں ہے اور اورنگزیب محمد شریف پسراسلام خارا کہ خان راکہ خانہ زادن بادشاہی مقصد مہمات مذکور بود، با دیگر مقصد یان محبوس ساخت۔۔
ان حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ کسی قوم کا نہیں بلکہ بادشاہ کی پروردہ ،نمک خوار یا پلتو لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے
کیونکہ اس زمانے میں بادشاہ ایسے لوگوں کو ان کی اطاعت قبول کرلیتے تھے
کیونکہ اس زمانے میں بادشاہ ایسے لوگوں کو جو ان کی اطاعت قبول کرلیتے تھے بطور غلام کے استعمال کرتے تھے اور ان سے ہر قسم کا کام لیتے تھے اور ان کو خانہ ذاد کہہ کر پکارتے تھے جیسا کہ آپ نے حوالہ نمبر ایک میں ملاحظہ فرمایاہے۔ابوبکر شاہ بالاتفاق ناہر بہادر شاہ خانہ زادن بادشاہ کے لشکر کو مغلوب کیا،اس سے صاف ظاہر ہے کہ ناہر بہادر شاہ اور خانہ زاد ن باد شاہی دو الگ الگ چیزیں ہیں کیونکہ یہاں اور استعمال کیا گیا ہے جبکہ یہ بات تاریخ اور بنساولی سے ثابت ہے کہ ناہرخان بہادر جادو گود میو تھا اور اس گوت کا مورث اعلی بھی تھا۔ خانہ زاد کا لفظ بہت سے شاہان نے بعد میں بھی اپنے مطیع اور فرمانبردار لوگوں کے لیے استعمال کیا ہے ،مثلاایک مقام پر راوتلارام آف ریواڑی کے لیے جنرل بخت خان سپہ سالا رنے اپنے ایک خط میں بادشاہ دہلی کو اس طرح لکھا ہے صاحب عالم بہادر سلامت ! آپ کارقعہ پہنچا، عزت بخشی ،آنکھوں سے لگایا ۔سر پر رکھا ۔پتر رائو تلارام کو کہ آپ کا قدیمی خانہ زاد ہے،بتاکیداکید لکھا جاوے گا کہ آیندہ بہ نسبت کسی مظلوم کے ظلم نہ کرے گا، آپ کو اطلاع عرض ہے ۔زیادہ حد ادب / محمد بخت خان سالار افواج، پندرہ محرم1274ھ۔
تاریخ فرشتہ صفحہ 274 میں ایک جگہ لکھا ہے
اور بہرام خان ترک بچہ جو فیرور شاہی خانہ زادوں میں سے تھا ۔اسی طرح سے بعض اور مقامات پر بھی مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے نمک خواروں کے لیے یہ لفظ خانہ زاد بہت سی کتابوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس لئے لفظ خانہ سے خانہ ذاد۔ نام کو ملانا ایک بدترین تحریف ہے۔ اب ہم آپ کی توجہ خطاب کی طرف لے جائیں گے،شاہان اسلامیہ عام طور پر خطاب دینے کے عادی تھے۔تہن گڑھ (بیانہ) جو جادو نسل کا سب سے بڑا مرکز تھا، اسے مسلمان بادشاہ نے فتح کیا ۔وہاں جادو گوت کے جو لوگ مسلمان ہوئے یا انہوں نے بادشاہ کی اطاعت قبول کی ،ان کے ساتھ خان خطاب لگایا گیا۔چنانچہ انہیں جادو کہا جانے لگا، اور جن جادو نے اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا وہ آج بھی جادو کہلاتے ہیں، جیساکہ برج کے علاقے میں آج بھی ہندو راجاؤں کی چھت آباد ہے تاریخ فرشتہ کی روایات کے مطابق سلطان ناصر الدین محمود نے غیاث الدین بلبن کو خان اعظم الغ خان کا خطاب دیا تھا ،جیسا کہ بیشتر تاریخوں میں اسی خان اعظم الغ خان کا ذکر بار بار آیا ہے، اسی طرح سے سائبر پال والئی کوٹلہ کو بہادر ناہر کا خطاب دیا گیا جو کہ ایک روایت کے مطابق فیروز شاہ تغلق نے شیر کا شکار کرنے میں کسی بہادری پر دیا تھا۔خان جادو لفظ آہستہ آہستہ خان زیادہ بن گیا اور لوگ غلط العام صحیح کے طور پر خان زادہ کہنے لگے ، بعض لوگ خان جادو گوت کے آدمیوں کو پٹھان بتانے لگے یا مسلمان بادشاہوں کی اولاد کہنے لگے، یہ اصل میں اس لیے ہوا کہ خان جادو گوت میوئوں کا بہت ہوشیار اور عقلمند گوت تھا، میوات میں تہن گڑھ کی فتح کے بعدجب خودسرحکومت بننے لگی تو خان جادو نسل کے لوگ حکمران بن گئے تھے چنانچہ(ص54) کوٹلہ،تجارہ،سرہٹہ الور پر خان جادو نسل کی حکمرانی بہت زمانے تک رہی۔قدرتی بات ہے کہ اتنے لمبے عرصہ تک حکمران رہنے کی وجہ سے اس گوت کے لوگون میں احساس برتری پیدا ہوگیا اور وہ اپنے آپ کو میوئوں سے بڑا سمجھنے لگے،حتی کہ اپنے آپ کو میو نسل ہونے سےبھی انکار کرنا شروع کردیا اگر ان کا بس چلتا تو وہ کرسی نامے اور بنساولیوں کو بھی بدل دالتے۔ مکتلف کتب مرقع الور،ارژنگ تجارہ،مسلم یادو،بنسی راجپوت وغیرہ کتابوں مین نہایت غلیظ روایات لکھ دی گئی ہیں اور ان کے بعد جنلوگوں نے مختلف کتابیں یا تحقیقی مضامین لکھے انہوں نے بھی انہیں کتابوں کو سند بنا کر الٹا سیدھا لکھنے کی کوشش کی،سرکاری گزیٹرز بھی اسی قسم کی روایات و حقائق،خان جادو،گوت کے بارے مین لکھتے رہے ہیں،کیونکہ انہیں وہ دمی لکھواتے ہیں جن کا سرکار مین اثر ورسوخ ہے۔۔کتاب"مسلم یادو بنسی راجپوت" میں جادو گوت کی جو تاریخ بیان ی گئی ہے،اس میں۔ میواتی،لفظ کی عجیب و غریب تاویل کی گئی ہے،ایک جگہ لکھاہے۔ درحقیقت تاریخوں کے اندر میواتی لفظ کا مفہوم صرف صرف حکومت کرنے والی جماعت کے لئے مقرر ہے اور میو کالفظ محکوم جماعت کے لئے،اگرچہ میو کا لفظ موجودہ زمانے کی ساخت نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ تاریخوں کے اندر کہیں نہیں ملتا۔۔ مندرجہ بالا خیال اصل میں اسی احساس برتری کی غمازی کرتا ہے جسے ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔مصنف یادو بنسی راجپوت کا منشا یہ ہے کہ تاریخی کتب میں چونکہ خان جادو نسل حسن خاں کے ساتھ میواتیلفظ آیا ہے اس لئے یہ حکمران،کے لئے استعمال کیا گیا ہے،حالانکہ اگر تاریخیں مطالعہ کی جائیں تو حسب ذیل الفاظ باربار ملتے ہیں۔ ۔۔میوات۔۔میواتی۔۔میو۔۔میوان۔میواتیان۔۔یہ غلط فہمی محض اس لئے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مصنف موصوف خان جادو نسل کو میوئوں میں شمار نہیں کرنے دینا چاہتے ورنہ اس کو حکومت یا رعیت سے کیا تعلق مین بعض غیر میواتیان کی حکومتیں بھی رہی ہیں،ان کو کہیں میواتی یا میو نہین کہا گیا۔میواتی تو صرف میوات کے باشندے کا یا میو ٹایئٹل ہے خان جادو نسل کے سلسلہ میں تاریخ راجگان ہند مصنفہ نجم الغنی کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔۔میوات کے پرگنہ تجارہ میں جو الور سے تیس میل شمال میں ہے ایک خانذادہ نام قدیم سے آباد ہے جس کو چندر بنسی شری کرشن کی جادو نسل سے بیان کیا جاتا ہے۔شری کرشن کی بارہویںپشت میں ایک شخص تہن پال تھا،جس نےشہربیانہ کے قریب قلعہ تہن گڑھ بنایا۔592ھ میں شہاب الدین غوری نے یہ علقہ فتح کرکے بہائوالدین طغرل کو دیدیا۔تہن پال کا بیٹا یاندیال مدت تک اِدھر اُدھر مارا پھرا اس نے1173ھ۔بکرمی میں آجان گڑھ آباد کیا،اس کے بعد بیٹا اس کا انتی پال جانشین ہوا۔انتی پال کا بیٹا ادھان پال ہوا اور ادھان پال کا بیٹا انسراج ہوا اور انسراج کے چند بیٹے تھے ان میں سے لکھن پال،پسر انسراج کے دو بیٹےسانبر پال اور شیو پال ہوئے،یہ دونوں فیروز شاہ کے عہد میں جو 750تا790ھ بمطابق 1351ءتا1388ء میں فوت ہوا مسلمان ہوگئے ۔مندرجہ اقتباس حقیقت پر مبنی ہےاس میں جوشجرہ بیان کیا(صفحہ56 مکمل ہوا)گیا ہے۔میو قوم کے ایک بڑے گوت،گوروال۔کا کرسی نامہاسی نسل سے ملتا ہے جسے آپ خان جادو یا گوروال گوت کے ضمن میں حسب ذیل تعریف بیان کی گئی ہے،خانزادہ لا لفظ کی ایک وجہ تسمیہ جس کا متن حسب ذیل ہے۔ ۔۔ لفظ خانزادہ دولفطوں خان اور ذادہ سے مرکب ہے،خان کے معنی سردار اور امیر کے ہیں اور ذادہ کے معنی پیدا شدہ۔پس خانزادہ کے معنی سردار یا رئیس یا امیر زادہ کے ہوئے،چونکہ سانبر پال کو شیر کے شکار کرنے پر پہلے بہادر ناہر کا اور مسلمان ہونے پر خان کا خطاب ملا تھا۔لہذا ان کو اردو ،فارسی کتابوں میں بھی ہر جگہ بہادر ناہر اورپورا نام بہادر ناہر خان لکھا گیا ہے،لیکن کثرت استعمال سے صرف ناہر خاں بھی کہنے لگے ہیں۔ناہر خان سے جو اولاد پیدا ہوئی ان کو خان کی اولاد ہونے کی وجہ سےخانزادہ کہنے لگے۔ ہندستان کے فاتح پٹھان اور ترک تھےجو اس خان اور خنازادے کے لفظ کو اپنا قومی اور معزز لفظ سمجھ کر شاہی خاندان کے افراد کے لئے استعمال کرتے تھے اور وہ جب کسی اپنے امیر یا وزیر یا سردار سے خوش ہوتے تھے تو عموما ان کو بھی اسی معزز لفظ کا خطاب دیتے تھے۔ مستند تاریخی کتابوں میں اس میو حکمران کا نام ۔بہادر ناہر۔یا ناہر دیو۔ملتا ہے،اس نام کے ساتھ خان کہیں نہیں ملتا،اسی طرح سے جن تاریخی کتابوں مین ناہر کے پوتوں قدر،وجلو کا ذخر آیا ہے ان کے ساتھ بھی خان موجود نہین ہے۔تاریخ فرشتہ،طبقات ناصری،طبقات اکبری،وغیرہ کتب میں ۔بہادر ناہر۔اور ان کے کوٹلہ کا ذکر موجود ہے۔لیکن نہ تو بہادر ناہر کے ساتھ خان کا لفظ لگاہوا ہے اور نہ ہی اس خطاب کا ذکر موجود ہے،اس لئے یہ کہنا کہ ۔بہادر ناہر،کے ساتھ خان کا خطاب تھا،اور اس خطاب کی وجہ سے اس کی اولاد خانزادہ کہلائی درست نہیں معلوم ہوتا۔مصنف تاریخ مسلم یادو بنسی معروف مرقع میوات نے اس کی دلیل مین بعض تاریخی کتابوںکے حوالے بھی دئے ہیں جن میں بہادر ناہر کے ساتھ کان لگاہوا دکھایا گیا ہے۔مگریہ تاریخی قدیم فارسی تواریخ کے مقابلہ مین مستند نہیں ہوسکتیں۔سانبر پال جس کو خانجادو کا مورث بتایا جاتا ہے کبشیری روایات کے مطابق یہ شخص لکھن پال کی اولاد ہے،لکھن پال کے ایک بھائی گوتراج تھے جو میوپال کے گروال گوت کے مورث ہیں،بہادر ناہر کا خطاب سانبر پال کو ملا تھا جس کے متعلق زبانی روایات حسب ذیل بیان کی ہیں۔
ایک دفعہ فیروز شاہ بادشاہ ایک سفر پر جاتے ہوئے تجارہ میں مقیم ہوئے جہاں وہ شکار کو نکلے، اتفاق سے سانبر پال بھی وہاں شکار کو آیا تھا۔سانبر پال پادشاہ کو پہاڑوں میں لے گیا ،جہاں شیر نے کوئی گائے پھاڑ ڈالی تھی ،شیر پہاڑ کی کھوہ میںسویا پڑا تھا،بادشاہ نے اس پر تیر کا نشانہ لگانا چاہا،مگر سانبر پال نے کہا کہ تلوار کا شکار کرنے میں زیادہ بہادری ہے،چنانچہ بادشاہ نے سانبر پال کو حکم دیا تم تلوار سے شکا رکرو۔سانبر پال نے شیر کو للکارا اس پر وار کرکے اس کے دو ٹکڑے کردئے۔سانبر پال کی اس بہادری پر بادشاہ نے۔بہادر ناہر،کا خطاب دیا یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کو بادشاہ نے میوات میں جاگیر بھی دی تھی۔
جناب مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے اپنی کتاب۔آیئنہ حقیقت نما۔میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے۔ بہادر ناہر میواتی کا اصل ہندستانی نام سمیرپال یاسانمبرپال تھا جس زمانے میں شہرفیروز کی تعمیر کا کام شروع ہوا ۔ایک دن سلطان فیروز شاہ تعلق جنگل میں شیر کے شکار کو گیا جو لوگ شیرکے اس شکار میں سلطان کے ساتھ تھے ،ان میں سانمبر پال بھی تھا سلطان نے شیر کا نشانہ بنایا اتفاقا کاری زخم نہ لگا، شیر سلطان کی طرف جھپٹا ،اسی حالت میں سانمبر پال نے شیر کے تیر مارا اور وہ سلطان تک پہنچنے سے پہلے ہی زمین پر گر پڑا۔ سلطان نے اس چابک دستی اور قادر اندازی سے خوش ہوکر سانمبر پال کو بہادر ناہر کا خطاب دے کر میوات ایک جاگیر عطا کی ،جو موجودہ ضلع گڑگاؤں کی تحصیل نوح میں تھی ۔بہادرناہر نے اس جاگیر میں پہاڑ کی چوٹی پر ایک قلعہ بنایا جو کوٹلہ بہادر ناہر کے نام سے مشہور ہوا، اس قلعہ کے نشانات اب تک موضع کوٹلہ میں موجود ہیں، کچھ دنوں بعد ہی اسلام قبول کر لیا اور فیروز شاہ تغلق کی وفات کے بعد سلطنت دہلی کے ضعف فائدہ اٹھا کر میوات پر قابض و متصرف ہوگیا۔بہادر ناہر کو بعد میں اس بادشاہ کی طرف سے خان جادو کا معزز لقب ملا جس کو بعد میں خانزادہ بنالیا گیا۔ بہادر ناہر کی اولاد بہت دنوں تک برسر عروج رہی ہے، بڑے بڑے بادشاہوں کو انہوں نے اپنا مطیع و فرمانبردار بنا لیا تھا،خانزادوں کی قوم ایک بڑی قوم ہے جو یوپی،پنجاب اور راجپوتانہ وغیرہ مقامات پر بکثرت ملتی ہے خانزادے کئی نسلوں سے ہیں بعض ان مین سے اپنے کو ملک بھی کہتے ہیں۔ جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ مسلم بادشاہوں کو خطابات دینے کی عادت تھی کیونکہ خود غیاث الدین بلبن کو خاں اعظم الغ کان کا خطاب(50 صفحہ)دیا گیا تھا ،اسی طرح سانبر پال کو بہادر ناہر کے خطاب سے نوازا گیا،انہین شاہان نے مسلمان ہونے والی جادو نسل کو خان کا خطاب دیا کیونکہ جادوئوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوئوں میں بھی موجود ہے جو پورے برج میں پھیلی ہوئی ہے۔ تاریخ مسلم یادو بنسی معروف بہ مرقع میوات کے مصنف نے اپنا کرسی نامہ تو جادو سے ملالیا ہے لیکن وہ اپنے جادوماننے کے لئے تیار نہیں جو تاریخ اور بنساولی کے ساتھ ناانصافی ہے۔ میو خالص چھتری راجپوت ہیں۔ ہم نے میو راجپوت اور چھتری کی اصلیت کے زیر عنوان واضح کیا کہ چھتری راجپوت ہندستان کی پرانی قوم ہے،صرف راجپوت کہلانے والی نسل کے اندر چھتری خون کا خالص ہونا مشتبہ سا ہوگیا ہے۔راجپوت کہلانے والوں مین خود ساختہ راجپوت بے شمار پائے جاتے ہیں حتی کہبعض گھٹیا اقوام نے بھی اپنے آپ کو راجپوت کہہ کر راجپوتوں کی صف میں پہنچا دیا ہے،اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ جس کا ذکر چوہدری محمد علی صاحب نے کتاب"راجپوت گوتیں"میں کیا ہے۔۔دوسری وجہ ان کی اپنی بناوٹ ہے۔۔تیسری وجہ چھتری راجپوت اقوام کی اندرونی تقسیم ہے جس سے بے شمار قومیںو نسلیں وجود مین آگئی ہیں،جیساکہ کتاب :راجپوت گوتیں۔مین مرقوم ہے۔ منو کے دھرم شاستر کی رو سے برہمن ویش(تجارت پیشہ)شودر(کمین)کہلاتی تھیں۔اور راجپوتوں کے زیر حفاظت زندگی بسر کرتی تھیں،برہمنوں اور راجپوتوں کے سوائے دوسروں کو جنیو پہننے کی اجازت نہ تھی۔ چھتری اقوام اور ہر تینوں قومیں درن کہلاتے تھے۔برہمنوں کا کام پڑھنا اور سنانا تھا اور چھتریوں کا کام ملک کی حکومت اور حفاظت اور ہتھیار بند رہناتھا۔ایک ورن کا آدمی دوسرے ورن کا کام کرنے سے قوم سے کارج ہوجاتا تھا،مورخین کی تحقیقات اقوام کا نتیجہ ہے کہ امیری یا غریبی یا دیگر وجوہات نے ان تک کچھ نہ کچھ لوگوں کو ایک ورن سے دوسرے ورن میں ضرور چڑھایا یا گرایاہے مگر راجپوت اقوام میں بہت کم لوگ شامل ہوسکے ہیں ،اس قوم نے ان وجوہات سے جن کا ذکر پہلے باب میں کیا جاچکا ہے کروڑوں آدمیو ںکو اپنے سے خارج کرکے زیادہ تر شودروں میں پہنچا دیا ہے اور ان تک خارج کرنے کا سلسلہ جاری ہے(61)مسلم راجپوتوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوموں اور نسلوں کے خلط ملط ہونے کی ایک وجہ ذات پات کے بندشیں بھی ہیں اور زمانہ قدیم میں اس کی پابندی بہت کی جاتی تھی اہل میوات کی حکایات و روایات کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے نواح میں بھی اس قسم کی بہت سی قومیں بن گئی کہا جاتا ہے کہ مسمی چاند جو راجہ نل لڑکا تھا اور جس نے چند دینی آباد کی، وہ ہندو مذہب رکھتاتھا چاند ہی اولاد میں سے کسی نے ایک گائے کو مار ڈالا اس وجہ سے تمام کشواہوں نے اس کو ذات باہر ڈال دیا اور اب وہ ساری نسل گوروے کہلاتی ہے بعد میں یہ نسل مسلمان ہوگئی،اس قوم نے زراعت پیشہ اختیار کیا اگر یہ کوئی دوسرا پیشہ اکتیار کرلیتی تو یقینا اس کا شمار بھی گھٹیا اقوام میںہونے لگتا۔پس یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ میو قوم کی ہمیشہ یہی عادت رہی ہے کہ اس نے کسی دوسری قوم کے ساتھرشتہ ناطہ کا تعلق قائم نہیں کیا،میو قوم کے لوگ چھتری کہلانے والی قوموں سے بھی رشتہ ناطہ نہیں کرتے اور مسلمان ہونے کے باوجود بھی یہ قوم آج بھی گوت نات کی بندشیں مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے،اس نے اپنی تمام چھتریانہ خصوصیات کو باقی رکھاہے جس کی بناء پر یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ میو اپنے اندر خالص چھتری راجپوت خون رکھتے ہیں۔ 1۔میو قوم دوسری قوام کے ساتھ اکتلاط پسند نہیں کرتی۔ 2۔دوسری اقوام میں رشتہ ناطہ کے خلاف ہے۔ 3۔گوت و پال کی عصبیت بہت زیادہ ہے۔ 4۔میوات یا بیرون میوا مین وہ آبادیاں علیحدہ بسانے کے عادی ہیں۔ 5۔دیہاتی زندگی اور زراعت پیشہ کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ 6۔کسی قوم کے اخلاط سے متاثر نہیں ہوتی،ان کے چوہدھراتوںکا نظام بہت مربوط ہے جو دوسری قوموں سے اسے ممتاز کرتاہے بہمناوت و گوری۔ بہمناوت اور گوری میوئوں کے دوگوت ہیں جن کے بارے میں بعض حضرات نے یہ غلط فہمی پیدا کی ہے کہ ان میں اول الذکر برہمن نسل اور برہمن سے بہمناوت بنا ہے۔اسی طرح گوری غوری سے بناہے ،یہ دونوں توجیہات غلط ہیں۔بہمناوت کے بارے میں ہم نے کبشیروںسے پوری تحقیقات اور چھان بین کی ہے اور اس کا کرسی نامہ بھی ہم نے نقل کیا ہے اور اس کا کرسی نامہ میوئوں سے ملتا ہے ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔کرسی نامہ گوری گود غوری نہیں ہے،گورتوچھتریوں کے مشہورکلوں میں سے ایک کل کا نام ہے کیوں کہ اور بھی کئی گوتوں کے نام راج کلوں کے نام پر پائے جاتے ہیں اس لیے یہ نام بھی راج کل کے نام پر ہی رکھا گیا ہے۔ٹاڈ راجستان میں مسٹر ڈاٹ نے بھی اپنی مرتبہ فہرست میں اس کا نام کو درج کیا ہے،اس نسل کے متعلق مولوی نجم الغنی صاحب نے کتاب راجگان ہند میں لکھتے ہیں،یہ نسل اگرچہ راجپوتانہ میں کبھی برستے ترقی نہیں ہوئی مگر بزرگ سمجھتی ہے ،اس نسل سے قدیم راجے بنگالہ کے فرمانروا تھے، اور ان کے نام سے وہاں دارالحکومت لکھنوتی گور مشہور ہوا ،یہ لوگ بنگالے کے بعد اجمیر کی طرف نا مور ہوئے، پرتھوی راج کے معرکوں میں ان کا بطور مشہور سرداروں کے ذکر ہے ۔شہنشاہ شاہ جہاں نے راجہ بھٹو زرداری اسکور کو جس کی اولاد میں راج گڑھ ضلع اجمیر کے جاگیردار ہیں اس کی بہادرانہ حکومتوں کے سبب رن تھمبورہ عطا کر کے مسلسل دوسرے راجاؤں کے منصب پنج ہزاری دیا تھا گوروں کی پانچ شاخیں ہیں
میں وہ حکومت قائم نہ ہونے کے وجوہ
یہ بڑا سنجیدہ سوال ہے کہ میو جیسی بہادر قوم جو ہمیشہ لڑتی اور قربانی دیتی رہیں وہ اپنی کوئی بھی متحدہ یا غیر متحدہ ریاست باقی نہ رکھ سکیں اور نہ ہی اس قوم میں کوئی راجہ یا نواب موجود ہے، اس سوال کو حل کرنے کے لیے دراصل ہمیں تاریخی گہرائیوں میں جانا ہوگا اور قومی عادات و خصائل کا بھی جائزہ لینا ہوگا جو دراصل کسی قوم کے حکمران بننے یا نہ بننے میں بےحد دخیل ہوتے ہیں۔ میوات کی موجودہ آبادی اس وقت کی ہے، جب مسلمان فاتح ہندوستان میں داخل ہوئے اور انہوں نے راج بنسیوں کے حکومت خراب کیں، اس وقت بہت سی چھتری راجپوت اراولی پربت کی وادیوں میں آباد ہوگئے، یہاں ان کی چھتیں بس گئیں تاکہ اپنی حفاظت کر سکیں اور دشمن کا مقابلہ کرسکیں یہ بھی آپ مانیں گے کہ ہر قوم کا کبھی زبردست عروج ہوتا ہے پھر اس عروج کے بعد اس کا زوال شروع ہو جاتا ہےجیسا کہ آرین چھتری نسلیں بھی کسی زمانے میں ہندوستان کی عظیم الشان جنگجو قوم تھی ساری دنیا میں ان کا بول بالا تھا، بڑے بڑے جودھا اور بہادر راجپوت چھتریوں نے اس قوم میں جنم لیا لیکن اس قوم کے زوال کا سبب آپس کا حسد و رقابت تھیجس نے نہ صف پوری چھتری قوم کو بتاہ کیا بلکہ اس بھارت ورش کو لگ بھگ ایک ہزار سال تک غیر میوئوں کا غلام بنائے رکھا۔
جس زمانے میں ہندوستان میں چھتری اقوام کا دور دورہ تھا میو قوم بھی حکمران تھی ان کے متعدد راج ہنسوں میں کتنے ہی بڑے بڑے راجہ اور دیش مکھ تھے ایک طرف دہلی میں توار نسل کی حکومت تھی تو دوسری طرف بیا نہ تہن گڑھ میں جادو حکمران تھے لیکن جس وقت محمود غزنوی،محمد غوری۔شہاب الدین غوری نے ہندوستان پر پی در پہ حملے کئے تو ان حملوں نے ہندوستان کے چھتری حکومتوں کو تتر بتر کر دیاقوم اور نسل ادھر سے ادھر ہو گئیں۔محمود غزنوی سے شہاب الدین غوری تک کا زمانہ ایسا گزرا ہے جس میں ہندوستان بری طرح سے طوائف الملوکی اور انتشار کا شکار ہوگیا تھا خصوصاً راجپوتانہ میں پھیلنے والے اراولی پربت کی شاخین چھٹیوں کی آماجگاہیں تھیں قدیم فارسی تاریخوں میں علاقہ میوات کو۔ کوہ پایہ میوات۔ کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا ہے اوکے میوات کا یہ پہاڑی سلسلہ دہلی کے جنوب میں مہرولی سے شروع ہو جاتا ہے جہاں توار نسل کی راجدھانی تھی جو گڑھ دھا مینہ کے نام سے مشہور ہے اسی مقام پر پر 658ھ میں بعہد ناصر الدین محمود میوات پر حملہ آور ہوئے اس وقت مہارا نا کا کورانا بالوت میو قوم کا راجہ تھا جس نے غیر ملکی حملہ آوروں کا مقابلہ بڑی بہادری سے کیا یہی وہ مقام ہے جب تو تومربنس کی حفاظت کے لئے بہادر میوغیاث الدین بلبن سے لڑے،ایک لاکھ کی تعداد میں شہید ہوئے ۔شہاب الدین غوری اور اس کے بعد قطب الدین ایبک کے حملوں کا مقابلہ تہن گڑھ میں جادو نسلوں نے کیا اسی طرح راجپوتانہ، مارواڑ ،میواڑ اور میرواڑکے حکمران جن کی بنساولیاں میوئوں کے ساتھ بہت قریب سے ملتی ہیں بیرونی حملہ آوران کا مقابلہ کرتے رہے فرمانروایان کرولی ،ڈونگر پور اور جے پور کے رئیس بھی میوئوں کے ساتھ نہایت قریبی نسل سے تعلق رکھتے ہیں کوٹلہ ایک زمانے میں میوات کی راجدھانی رہی ہے جہاں نا ہر بہادر جادو نسل نیو حکمران تھے اسی طرح الور میں جہاں حسن خان میواتی کی حکومت تھی تجارہ میوں کی ریاست رہ چکی ہے ان کے علاوہ پورے میوات میں بہت سے دیش مکھ اور رئیس اپنے عہد میں حکومت کر چکے ہیں مثلا باہڑ کوٹ میں راؤ مالہا میولی میں رائو سمنپٹ۔سرہٹہ ٹوڈرمل ڈابک میں وغیرہ وغیرہ خان جادو نسل کے بہت سے میوئوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں پورے میوات میں پھیلی ہوئی تھی شاہان اسلامیہ کے مسلسل حملوں اور ان کے مشنری کاموں کا نتیجہ یہ ہوا کہ چھتریوں کی بڑی تعداد مسلمان ہونا شروع ہوگئی میو ئوں کے بعض گوت و پال بھی محمود غزنوی کے عہد میں مسلمان ہوگئے تھے اس زمانے کے حالات اگرچہ تاریکی میں ہیں تاہم بعض انگریزی تاریخ ہو اور کبسے چند کی کتابوں سے کچھ روشنی پڑتی ہےدرمیانی زمانے میں یہ تین صدیوں کا ہوتا ہے ہندوستان کی چھتری راجپوت اقوام عجیب مذہبی کشمکش میں مبتلا تھیں جس کے متعلق گلوز ری آف ٹرائسیس پنجاب صفحہ 83پر لکھا ہے مسعود غازی نے بہت سے میو لوگوں کو مسلمان بنایا تھا رائے پتھوار مہاراج نے ان کو پھر سے ہندو ہونے کو کہا اور وہ ہندو دھرم میں آگےلیکن قطب الدین ایبک کے زمانے میں ان میں سے بعض کو پھر مسلمان بنا لیا گیا کبھی شہری روایات سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ چھتری قبائل خاص طور پر چوہا نسل جو مسلمان ہوئیں تو پھر پرتھوی ر آج چوہاں نے ان کو دوبارہ ہندو دھرم میں داخل کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے سختیاں بھی کیں لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی کیونکہ شاہان اسلامیہ کے پے درپے حملے اس کی ان کوششوں کو ناکام بناتے رہے۔ قطب الدین ایبک نے جس وقت جادو نسلوں کو مفتوح کیا تو اس میں سے بعض مسلمان ہوکر اپنا اصل مقام چھوڑ کر ادھر ادھر پھیل گئیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرلیں جیسا کہ میوئوں کی جادو نسل، خان جادو اسی زمانے میں دوسرے مقامات پر حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جادو کے ساتھ خان کا خطاب بھی اسی عہد میں لگایا گیا یہ مقصدہندو راجاؤں سے ممتاز کرتا تھاحالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ میوئوں کے حکومتیں مختلف ادوار میں رہی ہیں لیکن چونکہ ان کی آبادی اور میوات کاعلاقعہ علاقہ دہلی کے قریب رہا ہیں جہاں ہر مسلمان حکمران آکر تخت و تاراج کا کام شروع کرتا تھا اس یہ قدرتی امر تھا کہ میوات ان کے حملوں سے زیادہ متاثر ہوئی ان کی آبادی حکومت مذہب معاشرت میں بھرپور تبدیلی آتی چلی گئی دوسرے چھتری راجپوت راجہ بھی ان کی مدد کرنے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ تھی کہ میوقوم کے بارہ اور 52 گوت اپنی متحدہ ریاستیں قائم نہ کر سکے اس کے علاوہ مندرجہ ذیل وجوہ اور بھی ہو سکتے ہیں۔ 1۔میو قوم کے لوف تعلیم یافتہ نہ تھے وہ طریقہ حکمرانی سے ناواقف تھے 2۔ان کی بڑی تعداد بیرونی حملہ آوروں سے شکست کھا کر میوات کے مختلف حصوں میں پھیل گئی ۔ 3۔وہ بہت خود پسند اور مغرور تھے اپنے بھائیوں سے حسد رقابت رکھتے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنے دوسرے حکمران بھائیوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے گرمیوں اپنے کو راجہ اور چھتری سمجھتا تھا وہ اپنے کو کسی دوسرے کے ماتحت کرنے میں کسرشان سمجھتا تھا وہ اپنے کو کسی دوسرے کے ماتحت کرنے میں کسر شان سمجھتا تھا اس پھوٹ کے نتیجے میں بیرونی حملہ آوراور زیادہ مضبوط ہوتے چلے گئے اور میوات میں ان کی حکومت قائم ہوگیں 4.مہارانA کاکورانا بالوت میوئوں کو بارہ پال و باون کو توں پر تقسیم کر چکے تھے اس لئے ہر پال و گوت نے اپنے آپ کو زیادہ افضل و برتر سمجھنا شروع کر دیا تھا جس کی وجہ سے ان میں اندر خانہ بہت سے تنازعات اور جھگڑے پیدا ہوتے رہے ۔ 5۔یہ لوگ عموما زمیندار پیشہ اور دیہات میں آباد تھے زمیندار کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی زمین کا مالک ہونے کے بعد کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتا ان میں بڑے بڑے زمیندار بھمیا راجہ کہلاتے تھے وہ اپنے ساتھ گھوڑے اور سوار بھی رکھتے تھے اگرموقعہ بڑا تو وہ لوٹ مار بھی کرتے تھے جیسے کہ تاریخی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ڈر سے دہلی کے دروازے چار بجے شام بند ہوجاتے تھے ٹاڈ نے ایک جگہ لکھا ہے۔شاہان دہلی اپنے او ج و اقبال میں ہندوستانی تاجدارو کو،عموما زمیندار کہتے تھے اور یہ لفظ ہرگز تحقیر آمیز نہ تھا بلکہ ہندی لفظ راجہ کا ترجمہ ہے ہندوستان کے راجہ بھمیاں راجہ کہلاتے تھے،چھتری راجپوتوں میں اس لفظ کی بڑی قدر ہے بڑے تاجداران ہند ملک بھمیا راجہ یا زمیندار کا لفظ اپنے تئیں کہلوانا پسند کرتے تھے ۔ ایک مسلمان مورخ اس طرح لکھتا ہے:میوات کا علاقہ بہت بڑا ہے اس میں پہاڑیاں جھاڑیاں ایسی ہیں جن میں ان میواتی سرداروں اور جاگیرداروں کو چھپ جانے کا خوب موقع مل جاتا ہے چنانچہ جب کبھی ان میو سرداروں پر دہلی کی طرف سے فوج کشی ہوتی تھی تو یہ سردار اور مہاراجہ برابر مقابلہ کرتے تھے ۔تاریخ ہند مولوی ذکاء اللہ جلد اول ۔ دوسرے مقام پر یہی مصنف اس طرح رقم طراز ہے 658ھمیں خان الگ خان اعظم ہسپتال حکم سلطان کو ہ پایہدوسالک و رنتھیبوپر لشکر کش ہوا راجپوت اور میوات واسوالک کے راجاؤں نیک سرکشی پر کمر باندھی اور بڑا لشکر جمع کیا وہ ان سے ایک بڑی لڑائی لڑا اور مغلوب کیا اور ان کا ملک میوات فتح کیا اگرچہ اس لڑائی میں بڑے بڑے امیر مارے گئے لیکن کھیت بلبن کے ہاتھ رہا ۔اڑھائی سو سردار مخالفت گرفتار ہوئے 10000 میواتی اس لڑائی میں مارے گئے تاریخ ہند مولوی ذکاء اللہ ۔ بھمیا ر آجاؤں کا لوہا دہلی کی حکومت بھی مانتی تھی ان کی حکومت اگرچہ ثابت ہوتی تھی تاہم وطن کے مقابلے کے لیے بہت سے راجہ اکٹھےہو جاتے تھے،ان کا طریقہ حکمرانی بھی تھا جو زمانہ قدیم میں چھتری راجپوتوں کا تھا میں عوامی چوہدراہٹوں کی تقسیم کے بعد پال چودھر یا تھانبہ سردار چودھری بھی سردار بن گئے تھے جنہوں نے بیرونی حملہ آوروں سے اپنے عہد میں لڑائیاں لڑی ہیں آئین قیصری میں اس کا ذکر اس طرح آیا ہے ۔اب اس کے برخلاف راجپوتانے کی حالت ہے ،جہاں تک چھتری راجپوتوں کی راجدھانیاں ہیں جن میں قدیم قوانین اور آئین موجود ہیں اور حکومت کرنے کی سرشت ھی کچھ اور طرح کی ہے ۔رئیس ایک مورثی سرگروہ ایک جنگی فرقے کا ہوتا ہے جس کے اراکین صدہا برس سے زمین کے مالک چلے آئے ہیں اور چھوٹے چھوٹے سربرآوردہ امرا جدی ہوتے ہیں،راجہ اپنے خاندان میں اول اور اعلی ہوتا ہے باقی اور اس کے بھائی بند ہوتے ہیں خوف کے وقت خاندان کی شاخیں آپس میں ایک ہو کر وقت کے راجہ سے مل جاتی ہیں ان پر معمولی حالتوں میں راجہ یعنی چودھری کے افطار بہت محدود ہوتا ہے (ائین قیصری صفحہ 101)مسلمان بادشاہ نے بہت سے میو چودھریوں یا بعض گوتوں کو خوشامدلالچ سے اپنی طرف راغب کر لیا تھا اور ان کو مفتوح کرنے کے بعد خطابات یا جاگیریں اور حکومتیں دینا شروع کردی تھیں مگر یہ سب ان کے ماتحت ہوتی تھیں مثلا خان جادو گوت کے سردار سامبر پال کو ناہر بہادر کا خطاب دیا اور اس کو حکومت بھی عطا کی اس کے مسلمان ہونے پر اسے اپنے سات شریک جنگ بھی کیا جیسا کہ تاریخ فرشتہ میں ہے۔بادشاہ غیاث الدین تغلق شان خان جہان اور بہادر نا ہر کولشکر گراں سلطان ناصر الدین محمد کے دفاع کے واسطے تعین کیا۔لودھی عہد حکومت میں بھی میوات میں شاہان لودھی نے بہت سے راجہ اور حاکم میوات میوئوںمیں سے مقرر کیے تھے ۔خان جادو گود کے بہت سے حاکم اسی زمانے میں مقرر کیے گئے تھے میں واقع علاقہ مسلم حکمرانوں کے لئے مرکز بن چکا تھا لیکن عہد بابری میں ایک بار پھر زبردست فوج کشی ہوئی جس میں حسن خان میواتی راناسانگا کے ساتھ مل گئے تھے یہ جنگ فتح پور سیکری کے مقام پر لڑی گئی اکبر کے عہد میں متعدد میں وہ سردار منصب دار اور جاگیر دار بنا دیئے گئے تھے لیکن ایک غالب اکثریت اس کی دشمن بھی تھی جس کا ثبوت پانچ پہاڑ کی راجائی اورپور ومیر ودل آدھے اکبربادشاہ آدھے پاہٹ ٹوڈرمل اورنگ زیب کے عہد میں میوئوں کی طاقت بٹی ہوئی رہی بعض لوگ اس کے منصب دار بن گئے اور بہت سے اس کے مخالف اور باغی تھے اس کے مر جانے کے بعد ملک میں اور بھی زیادہ بغاوت اور سرکشیاں شروع ہوگیں،چاروں طرف طوائف الملوکی پھیل گئی،چنانچہ اکثر راجپوت راجہ اس عہد میں اپنی عملداریاں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر میووں نے اس زمانے میں بھی اس طرف توجہ نہ کی اور وہ گومگو کی کشمکش میں مبتلا رہے بعض حکمرانوں نے انہیں اپنی حکومتیں اور ریاستیں قائم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا مثلاََ وہ ایک زمانے میں سورج مل کے زبردست حامی تھے انہوں نے بھرتپور کے قیام میں مدد کی۔سورج مل کے لڑکے جواہر سنگھ کا ساتھ بھی دیتے رہے سنگل یابا گھوڑیا اور ڈیمروت میوئوں نے مانچڑ ی کے نرو کا راجپوت راؤ پرتاب سنگھ کی حمایت کی اور بھاری قربانی دے کر الور ریاست قائم کروائی ۔
میوقوم بہت قناعت پسند اور سادہ ہوتی چلی گئی وہ ایک طرف شاہان اسلامیہ کی سازشوں کا شکار ہوتی رہی دوسری طرف خود سر راجائوں نے اسے آلہ کار بنا کر استعمال کیا وہ کاشتکار اور ذمہ دار تو رہےلیکن اپنے حکمران یا باقی نہ رکھ سکے یہی مختصر وجوہ ہیں جن کی بنا پر میواپنی ریاستیں قائم کرنے میں ناکام رہے۔ اند کہ باتوگفتم وہ بدل ترسیدم کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است اب ہم اپنے مضمون کو اسی پر ختم کر رہے ہیں اور تیسری قسط کا انتظار کیجئے ہم بہت جلد ان شاءاللہ میوات کی پوری جلد نکال رہے ہیں اور ہمیں امید ہے آپ ہمیں مزید مشورہ دیں گے اور اس سلسلے میں ہماری مدد کریں گےیہ شوق ہمیں کیوں پیدا ہوا ہے کیونکہ ایک میو قوم کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں اور جب اسکول یا کالج جاتے ہیں تو ہر بچے کی کتاب پر اس کے نام کے سامنے کسی پر چانڈیو کسی پر نہ ہی کسی پر پر تال پور کسی پر سید کسی پر پٹھان لکھا ہوتا ہے جب ہم نے یہ دیکھا تو ہمیں یہ محسوس ہوا ہے کہ ہم بھی ایک زندہ دل قوم میں پیدا ہوئے ہیں ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں یہاں ہم لوگوں کو بھی چاہیے کہ ہم اپنے میو تصور کو اجاگر کریں اور اپنے نوجوان بھائیوں کو بتائیں کہ ہم میوہیں اور زندہ دل قوم ہیں
۔۔۔۔جلد اول مکمل ہوئی۔ دوسری جلد دوسرا حصہ۔ میوقوم بہت قناعت پسند اور سادہ ہوتی چلی گئی وہ ایک طرف شاہان اسلامیہ کی سازشوں کا شکار ہوتی رہی دوسری طرف خود سر راجائوں نے اسے آلہ کار بنا کر استعمال کیا وہ کاشتکار اور ذمہ دار تو رہےلیکن اپنے حکمران یا باقی نہ رکھ سکے یہی مختصر وجوہ ہیں جن کی بنا پر میواپنی ریاستیں قائم کرنے میں ناکام رہے۔ اند کہ باتوگفتم وہ بدل ترسیدم کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است اب ہم اپنے مضمون کو اسی پر ختم کر رہے ہیں اور تیسری قسط کا انتظار کیجئے ہم بہت جلد ان شاءاللہ میوات کی پوری جلد نکال رہے ہیں اور ہمیں امید ہے آپ ہمیں مزید مشورہ دیں گے اور اس سلسلے میں ہماری مدد کریں گےیہ شوق ہمیں کیوں پیدا ہوا ہے کیونکہ ایک میو قوم کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں اور جب اسکول یا کالج جاتے ہیں تو ہر بچے کی کتاب پر اس کے نام کے سامنے کسی پر چانڈیو کسی پر نہ ہی کسی پر پر تال پور کسی پر سید کسی پر پٹھان لکھا ہوتا ہے جب ہم نے یہ دیکھا تو ہمیں یہ محسوس ہوا ہے کہ ہم بھی ایک زندہ دل قوم میں پیدا ہوئے ہیں ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں یہاں ہم لوگوں کو بھی چاہیے کہ ہم اپنے میو تصور کو اجاگر کریں اور اپنے نوجوان بھائیوں کو بتائیں کہ ہم میوہیں اور زندہ دل قوم ہیں اپیل میں آل پاکستان میں وصل آرگنائزیشن کا چیف آرگنائزر چوہدری کریم خان میو اتی784 پیپلز کالونی بلاک این نارتھ ناظم آباد کراچی قوم سے اپیل میں معذرت چاہتا ہوں اگر اس کتاب میں کسی قسم کی غلطی محسوس ہوئی ہو تو آپ اپنے مشورے سے نوازیں ہمیں امید ہے کہ آپ ہمیں ضرور مشورہ دیں گے اور معلومات فراہم کریں گے تاہم آئندہ جلد نمبر 3 میں کسی قسم کی کوئی غلطی نہ کرے اور صحیح مرتب کر سکے گی لہذا جس شخص کو جیسی معلومات ہوں وہ ہمیں خط کے ذریعہ آگاہ کریں مجھے امید ہے کہ آپ اپنی معلومات اور قیمتی مشورے سے ضرور مطلع کریں گے ۔آپ کا خادم کریم خان میو ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں صوبیدار قمر دین صاحب کا پتا موضع موسی پور گول پھلا باس باگھوڑیا شیرا کو تعمیری سیاست تقریبا بیس بائیس سال کی ہوگی ہےانیس سو پینسٹھ کی جنگ میں میں اور میرا بھائی سلیمان صوبیدار کھیم کرن کے محاذ پر تھے ہم نے جنگ قوم اور ملک کی وفاداری کے لئے دل کھول کر لڑی اور ہمارے مسلمانوں کے لئے کوئی فوجی موت سے نہیں ڈرتے تھے میرے بڑے بھائی سلیمان خان تین جنگیں لڑ چکا ہے رن کچ اور انیس سو پینسٹھ کے محاذ پر ہمارے پاس رہے ہے آئی ایم اے ٹو بٹالین ڈی ڈی کمپنی کے کمانڈر رہے انیس سو پینسٹھ میں بھی خیمہ کرن کے محاذ پر ٹینک چلاتے رہےانیس سو ستر کی جنگ میں بھی ہم دونوں بھائی ہیں کھیم کرن کے محاذ پر تھے ہم نے اس جنگ میں دیکھا کہ میں وہ قوم کی بہادر خواتین نے جو کردار ادا کیا اس کی پنجابی مثال آپ ہے ہمیں کھانے پینے کی جس قدر بھی ایشیا مورچوں میں ملا کرتی تھی وہ ہماری بہادر قوم کی خواتین سپلائی کرتی تھیںجس سارے گن تو چولہا جلاتے تھی اور رات کو ہمارے لئے مورچوں میں کھانا سپلائی کرتی تھی یہ ایک تاریخی کردار ہے کہ میں وہ قوم جس خطے میں بھی رہتی ہے اس پر کوئی بھی بادشاہی حکومت حملہ کرے تو وہ اس کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہے اپنی زمین کی وفادار ہوتی ہے اور اس کی حفاظت کرنا خوب جانتی ہے اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی کسی شہنشاہ نے جنگ میں شکست کھائی اس نے میو جیسی عظیم قوم کو اپنی مدد کے لیے پکارا اور اس کی مدد کی اس کی زندہ مثال تاریخ فرشتہ اور تاریخ اکبری کو اٹھا کر دیکھیے کہ مغلوں سے مقابلہ کیا اور مغل حکومت میوبیویوں کے سامنے جھکی جیسے کہ تاریخ سے ظاہر ہے حسن خان میواتی اور رانا سانگا جیسی ہستیوں نے جان کی بازی لگا دیں اب آپ کو اور کیا بتاؤں لیکن اتنا بتا دو کہ یہ جو سلسلہ میں وطن سیم کا جاری ہوا ہے اس میں قربانیاں میرے بڑے بھائی چوہدری کریم خاں کی ہیں جس کا نتیجہ آپ کے سامنے آج پاکستان کے گوشے گوشے میں میو برادری چمکتی ہوئی نظر آرہی ہے کیونکہ ان کو شروع سے ہی سیاسی شعور تھا یہ سیاست میں پہلے عطاءاللہ شاہ بخاری کے ساتھ میں چلتے رہے پھر یہ کراچی آنے کے بعد زلفقارعلی بھٹو کی پارٹی میں شامل ہوگئے جب بھٹو کا اور احمد رضا قصوری کے خلاف ہوا تو یہ بھٹو پارٹی چھوڑ چکے تھے بھٹو مارشل لا جب ملک میں آئی تو اس پر ڈی، پی ۔ آر لگایا اور اس کو جیل میں بند کر دیا میں بدقسمتی سے اس دور میں ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا پی اے تھا اور کراچی میں ان ڈیوٹی تھا جب گھر والوں نے اس کو مجبور کیا کہ پیپلز پارٹی سے استعفی دے دیا استعفی دینے کے بعد جیل سے رہا ہوا۔بعد میں اس نے تحریک استقلال اصغرخاں کی پارٹی میں شمولیت اختیار کی کیونکہ اس کے دوست ڈاکٹر رحیم الحق تھے ایسی دوستی کی وجہ سے تحریک استقلال میں گئے لیکن تحریک استقلال سے بہت جلد چھٹکارا لے کر اس نے اپنی ایک تنظیم آل میوپاکستان میں سوشل آرگنائزیشن تشکیل دی اپنی برادری کے لوگوں سے ملا جس میں اس کے سب سے بڑے خیر خواہ اور سپورٹر چوہدری حبیب الرحمن بن ملجم گڑھ والے تھے جو کہ حکومت پاکستان کے اعلی درجے پر فائز تھے۔دوسرے سپوٹر چودھری محمود خان پلان کھڑیا ہیں۔تیسرے مقصود صاحب چوتھی الحاج اظہار الحسن نے کراچی سے پانچویں جان محمد کورنگی سے ضلع تھرپارکر سے عبدالصمد میو جن لوگوں کے تعاون سے یہ تنظیم چلائیں اور 19 دسمبر کو جیسے ہی زیادہ سات کے ریفرنڈم کا اعلان ہوا تو ریفرنڈم کی حمایت میں پوری میو برادری نے ریفرنڈم میں تعاون کیا۔جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ میو ٹاؤن کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اور میو برادری کی جدوجہد بھی جاری ہے اور زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو آپ کے سامنے موجود ہے اس میں جن حضرات کا تعاون حاصل رہا ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ جناب مسعود احمد ولد مقصود خان نیو مل اونر۔۔۔طارق جمیل ایس پی ضلع تھرپارکر۔لفٹینٹ عطامحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبدالوحید ولدچھجوخاں۔محمد یعقوب دہنگل۔محمد حنیف ولد شیر محمد۔میجر حنیف احمد ولد کرنا میر احمد۔صوبیدار قمر الدین ولد خان محمد۔محمد یاسین ولد ہمت خاں۔بندو خاں چوندہیکاوالا۔سلیمان پیپلز کالونی ایل بلاک۔۔۔۔محمد حفیظ ٹھیکیدار۔صوبیدار آس محمد۔۔۔نظام الدین مئو سیکرٹری فتح ٹیکسٹائل مل۔ یوسف خان وغیرہ شخصیات۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
کیپٹن عبدالشکور شیراشہید ستارہ جرات
قدرت کو جب کوئی اہم کام کرانا منظور ہوتا ہے تو اس کی تکمیل کی خاطر اسی حد درجہ اہم شخصیت کا انتخاب کرتی ہے۔۔6 ستمبر 1965 کو جب بھارت نے بزدلی اور عیاری سے کسی اعلان جنگ کے بغیرپاک سرزمین پر حملہ کیا تو اس کو سب سے پہلے ستلج رینجر کے جانبازوں نےاپنے سینوں پر روکا اگرچہ یہ تعداد میں بہت تھوڑےتھے لیکن انہوں نے اس بات کی مطلق پرواہ نہ کی کہ دشمن کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ان کی کمانڈ ڈی ایس پی آر کیپٹن عبدالشکور واہگہ ونگ کر رہے تھے جیسے ہی دشمن نے پاک سر زمین پر حملہ کیا تو انہوں نے ایک بھی لمحہ ضائع کئے بغیر فورا اپنے جوانوں کو مختلف چوکیوں پر مورچے سنبھالنے کا حکم دے دیا اور خود آئین سرحد پر واقع ونگ ہیڈکواٹر پر مورچہ سنبھال کر دشمن کا مقابلہ شروع کر دیا اور اپنے مرکزی ہیڈ کوارٹر لاہور کو تفصیلات سے مطلع کرنا شروع کر دیا حملہ رات کی تاریکی میں صبح تین بجے کیا گیا لاہور سے ان کو اپنی بہادر افواج کے پہنچنے کی اطلاع دے دی گئی یہ حملہ اگرچہ انتہائی شدید تھا لیکن ان جانبازوں مسلمانوں نے دنیا کو یہ دکھلا انڈیا کے مسلمان تعداد سے نہیں گھبراتے عبدالشکور شہید کے ذہن میں یہ خدشہ تھا کہ اگر دشمن کو ابتدا میں ہیں اپنی اہمیت کا کا نہیں بلایا گیا تو لاہور کی جانب تیزی سے بڑھتا چلا جائے گا چناچہ آپ آہنی چٹان بن کر دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئے اور جب تک دم میں دم رہا امرتسر لاہور روڈ پر باڈر سے اس کے ٹینکوں کو داخل نہیں ہونے دیا ۔آپ ساڑھے پانچ بجے تک فون پر لمحہ بنوا بگڑتی ہوئی صورتحال سے لاہور ہیڈ کوارٹر کو متاثر کرتے رہے اس عرصہ میں دشمن دیگر اطراف سے پاکستانی حدود میں داخل ہو کر ان کو گھیرے میں لے چکا تھا پھول کاٹ دیا گیا انہوں نے ہمت نہ ہاری اور دشمن پر مسلسل کاری ضرب لگاتے رہے یہاں تک کہ اسٹین گن کی چھت گولیاں ان کے سینے میں پیوست ہو گئی اور پاکستان کا یہ مرد مجاہد قائم ملک و قوم کی راہ میں جام شہادت نوش کر کے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔جس نے بھارت کی تین ڈویژن پیدل فوج اور ایک بکتر بند برگیڈ کو مسلسل اور مکمل طور پر پانچ گھنٹے تک پاکستانی سرحد سے دور ہی رکھا ۔ عبدالشکور شہید 28فروری فری 1916 کو ریاست الور کے مرکزی مقام الور میں پیدا ہوئے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے انیس سو چھتیس کو فوج میں کمیشن حاصل کیا ۔1938 میں کپتان بنا دیے گئے 1939 سے1945 تک میجر کے عہدے پر جنگ عظیم دوم میں مشرق وسطیٰ کے محاذ پر فوجی خدمات انجام دیتے رہے۔کیا میں پاکستان ایس،پی ۔آر میں جو انڈس رینجر کہلاتی ہے بحیثیت کپتان شامل ہوئے تقریبا دس سال رن کچھ باڈر پر پر کمپنی کمانڈر اور ونگ کمانڈر کی حیثیت سے کام کرتے رہے اپریل 1964 میں ستلج رنجر میں واہگہ ونگ پر تبدیل ہو کر گئے اور وہیں پر جام شہادت نوش کیا آپ میو قوم سے تعلق رکھتے تھے آپ کے والد بزرگوار چودھری عبد الرحیم صاحب ریاست الور کے نامور اساتذہ میں شمار کیے جاتے تھے ۔آپ کے پسماندگان میں ایک بیوہ تین لڑکے دو لڑکیاں ہیں لڑکا عبدالرشید نے میں آفیسر کیڈٹ ہے دوسرا عبداللطیف چیف آف آرمی میں آفیسر کیڈٹ سلیکٹ کر لیا گیا ہےمرحوم کی بیوہ نے ان اپنے نامور شہرت کی ان نشانیوں کو پاکستان کی خدمت کے لیے فوج میں خدمات انجام دینے کی بخوشی اجازت دے دی ہے اور نصیحت کی ہے کہ وہ اپنے بہادر باپ کی شاندار روایات کو برقرار رکھ کر ملک کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں ۔ ،،،،،،،،،،،،،،،، چودھری محمد یاسین خان میو اعظم میوات کی وفات بتاریخ 19 فروری 1970۔بخانہ چودھری گھوٹو خان بمقام موضع بلاسپور نزد تجارہ ریاست الور حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اس جہان فانی سے کوچ فرما گئے انا للہ وانا الیہ راجعون ۔قوم اپنے محسنوں سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگئی مرحوم و مغفور کو آتا ہے میں وہ آیا سکول وہ ضلع گڑگاؤں ضلع ہریانہ بھارت میں دفن کردیا گیا اور بتاریخ 23 مارچ بروز پیر 1970 بوقت 10 بجے صبح سکول مذکور میں یہ میں چہلم منعقد ہوا اللہ تعالی مرحوم و مغفور کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے آپ 1894میں بمقام رہنہ تحصیل نوح ضلع گڑ گاؤں میں پیداپیدا ہوئے۔ میٹرک کے امتحان میں پنجاب بھر میں او لائے اور میوات کے سب سے پہلے قانون دان ہوئے۔1926تک مسلسل پنجاب اسمبلی کا ممبر رہے ۔1952میں بلا مقابلہ منتخب ہو کر 1962تک ممبر رہے ۔