صارف:Huzaifa nadwi

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

بسم الله الرحمن الرحيم

الیکٹرانک گیمز :اہم شرعی ضابطے اور آداب

الیکٹرانک گیمز کا شرعی حکم ان کی کیفیت پر موقوف ہے,اسلامی شریعت کے ماہرین کے یہاں یہ اصول موجود ہے کہ "الحکم على الشيئ فرع عن تصوره "(کسی چیز کی مکمل تصویر سامنے آنے کے بعد ہی اس پر حکم لگے)- چنانچہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ سارے گیمز اپنے اپنے موضوع کے مطابق ہوتے ہیں, لہذا صرف گیم ہونے کی وجہ سے ان پر ایک جیسا حکم نہیں لگایا جا سکتاہے- مثال کے طور پر کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کا استعمال ہے,تو صرف اس کے استعمال پر حکم نہیں لگے گا ,بلکہ اس کے استعمال کی کیفیت پر حکم لگے گا- اسی لیے ہم کو ہر گیم کے بارے میں تحقیق کرنا پڑے گی, اس کے منفی اور مثبت اثرات معلوم کرنا پڑیں گے, تاکہ ہم کوئی صحیح رائے قائم کرسکیں- موجودہ زمانے میں کھیلے جانے والے الیکٹرانک گیمز میں زیادہ تر ضرر مفاسد ایسے ہوتے ہیں جس کے بدترین نفسیاتی اثرات بچوں پر پڑتے ہیں اور یہ بات ہر ایک کو معلوم بھی ہو جاتی ہے- الیکٹرانک گیمز پر حکم لگانے کا اصول یہ ہے کہ ہر گیم میں بس اس کے دائرے میں حکم لگے گا, یعنی اس گیم کے نفع ونقصان کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے گا ,کیوں کہ بہت سارے گیمز تربیتی ہوتے ہیں, جن میں کئی فائدے ہیں, تو وہ جائز ہیں ,اور اگر ان گیمز میں مفاسد زیادہ ہیں, تو وہ ناجائز اور حرام ہیں, کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے" لا ضرر ولا ضرار "(نہ تم خود بلاوجہ نقصان اٹھاؤ اور نہ بلاوجہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ)

  ہم یہ بات جانتے ہیں, کہ کچھ گیمز ایسے ہوتے ہیں جن کو مشینوں کی مدد سے کھیلا جاتا ہے ,لہذا ایسے گیمز کے مقاصد کو دیکھ کر ان کے اصول وضوابط مقرر کیے جائیں گے, چنانچہ فقہاء نے ایک اصول یہ متعین کیا ہے کہ"للوسائل حكم المقاصد" یعنی وسائل وآلات کے مقاصد کے پیش نظر ان پر کوئی شرعی حکم لگے گا-

الیکٹرانک گیمز کے اصول و ضوابط:

اصلا تو گیمز کا شرعی حکم ایک فقہی قاعدہ کے مطابق جواز کا ہے اور وہ قاعدہ یہ "الأصل في الأشياء الإباحة"ترجمہ: تمام اشیاء میں اصل حکم مباح ہونے کا ہے- البتہ کچھ ایسے شرعی ضابطے اور اصول ہیں جن سے گیمز کے سلسلے میں بڑی اہم رہنمائی ملتی ہے, ان میں سے کچھ اہم اصول یہاں ذکر کئے جاتے ہیں-

(١) پہلا اصول یہ ہے کہ وہ گیمز اسلامی شریعت و عقائد میں جن چیزوں کو بیان کیا گیا ہے ان کے صریح مخالف نہ ہوں, جیسے "سیطرہ"(بالادستی/حکمرانی) ہے ,جس کو لوگ زمینی ایلین (Ealian) کہتے ہیں, یعنی وہ گیم ایلین کی حکمرانی و بالادستی پر مبنی نہ ہو , یا وہ ایسے گیمز نہ ہوں جن میں اہل زمین اور آسمانی خداؤں کے مابین جنگ ہوتی ہو,یا وہ یہود و نصاری کے عقائد کی جانب راغب کرنے والے ہوں, یا ایسے دوسرے عقائد کی طرف دعوت دینے والے ہوں جو اسلامی عقائد و شریعت کے متصادم ہوں, ٹکرا رہے ہوں, یعنی یہ تمام وجوہات ان گیمز میں اگر پائی جاتی ہیں ,تو ان پر حرام ہونے کا فتوی لگے گا- کیوں کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے "وَمَنْ يَّتِّبِعْ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ"( جو کوئی شخص اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے دین کی پیروی کرے گا تو اس کا وہ دین ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا،اور وہ شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا )-

(٢) دوسرا اصول یہ ہے کہ وہ گیم شریعت میں قطعیت کے ساتھ حرمت والی چیزوں کی تعظیم کرنے والے نہ ہوں، جیسے کہ جادو ،جادوگر اور مداری کا کھیل ہے، یا چوری و زناکاری ہے، یا اس جیسے اعمال جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے ،اسی سلسلے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے"وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ" ترجمہ :اور وہ لوگ جو گناہ کبیرہ سے اور گندے کاموں سے بچتے ہیں -(تو وہ قابل تعریف ہیں, اللہ کے محبوب ہیں)-

(٣) تیسرا اصول یہ ہے کہ ان گیمز میں ایسی کوئی بات نہ ہو جو مسلمانوں کی ناپسندیدگی اور ان کو تکلیف پہنچانے کا باعث بنے, یا وہ گیمز اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کرنے والے ہوں, مثال کے طور پر ایسا ہو کہ گیم میں پلیئر(Player) کو اس بات پر آمادہ کیا جا رہا ہو کہ وہ کعبہ کو منہدم کرے یا مسجد نبوی یا کسی بھی مسجد پر میزائل داغے یا اسی طرح کی کوئی غیر شرعی شرط پوری کرے, تو اس کی لیول(Level/field) پار ہوگی- چنانچہ اللہ تعالیٰ کا مقدسات کی تعظیم کے سلسلے میں ارشاد ہے" ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَٰتِ ٱللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُۥ عِندَ رَبِّهِ"ترجمہ :اور جو شخص اللہ کی حرمت والی اشیاء کی تعظیم کرے گا, تو اللہ کے نزدیک اس کا یہ عمل بہت بہتر ثابت ہوگا-

(٤) چوتھا اصول یہ ہے کہ وہ گیمز کافروں کی تعظیم و اکرام اور مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل کرنے والے نہ ہوں, اور بچوں کو کافروں کی ٹیم سلیکٹ(Select) کرنے پر ابھارنے والے نہ ہوں, اس لیے کہ وہ ٹیم بہادر اور طاقتور اور مسلمانوں کی ٹیم کے خلاف جیت جاتی ہے اور مسلمانوں کی ٹیم بظاہر کمزور اور بزدل ہوتی ہے, انہی باتوں کے بارے میں قرآن کچھ یوں بیان کرتا ہے "لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ "(اللہ تعالی ایمان والوں کو مخاطب کرکے فرمایا رہا ہے, کہ اے ایمان والو!) ترجمہ: یہود و نصاریٰ کو اپنا یار و مددگار نہ بناؤ, یہ خود ہی ایک دوسرے کے مددگار ہیں, اور تم میں سے جو شخص ان سے دوستی کرے گا, تو وہ انہیں میں سے ہوگا-

(٥) پانچواں اصول یہ ہے کہ وہ گیمز حرام کھیلوں پر مبنی نہ ہوں جیسے کہ قمار اور سود ہے, اس سلسلے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے"إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ " ترجمہ :بے شک شراب جوا اور بتوں کے ڈھیر اور جوئے کے تیر, یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں, لہذا ان سے بچو, تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ-

(٦) چھٹا اصول یہ ہے کہ وہ گیمز بچوں کے دلوں میں سختی و جھنجھلاہٹ اور دوسروں کے خلاف انتہا پسندی پیدا کرنے والے نہ ہوں, کیوں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں"وَلَا تَعْتَدُوٓاْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ"ترجمہ : اور تم ظلم و زیادتی نہ کرو, بے شک اللہ تعالی ظالموں کو پسند نہیں کرتے ہیں-

(٧) ساتواں اصول یہ ہے کہ اس امت کے چند افراد کی ذمہ داری یہ بنتی ہے, کہ وہ بچوں کے لۓ کچھ ایسے تربیتی گیمز بنائیں جو تفریحی ہوں اور مفید بھی ہوں, کیوں کہ یہ کوئی حکمت و دانائی کی بات نہیں ہوتی ہے, کہ ہم اپنے بچوں کو ان مضر گیمز کھیلنے کے لیے بالکل فری (Free) چھوڑ دیں, اور ان کے لئے کوئی مناسب ومباح گیم تیار نہ کریں, اور سچی بات یہ ہے کہ اس امت کے پاس تجربے اور مال و دولت کی کمی نہیں ہے, بلکہ شعور اور ارادے کی کمی ہے-

(۸) آٹھواں اصول یہ ہے,کہ یہ بھی کوئی سمجھداری کی بات نہیں ہے, کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کے گیمز سے دور رکھ کر کریں, یہ نظریہ صحیح نہیں ہے, کیوں کہ اس طرح کے گیمز موجودہ زمانہ کی زبان وآلات اور وسائل میں سے ایک ہے- ہمارے لئے کرنے کا کام یہ ہے, کہ ہم مضر وسائل کے بدلے میں مفید وسائل امت کے سامنے پیش کریں, کیوں کہ سارے گیمز میں ہمیشہ ایک ہی جیسا حکم نہیں لگے گا, بلکہ ان کے مقاصد, موضوعات اور ان کے منفی و مثبت اثرات کے پیش نظر حکم لگے گا, چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نبی بنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاعری کو پایا, جو کہ اس زمانے کا فن تھا, جس میں شراب اور دوسرے محرمات کی مدح سرائی ہوتی تھی ,اس کی نا پسندیدگی و کراہت اور حرمت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعر و شاعری کے وجود پر ناجائز اور حرام ہونے کا فتوی نہیں لگایا, بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی نشرواشاعت کے طور پر اس فن کو استعمال فرمایا, اور اسلام کے دفاع کے لیے شاعری سے کام لیا, لہذا یہ نبوی منہج ہے, جس کی ہم کو آج بہت ضرورت ہے, ماہرین اسلامی شریعت نے اصول کی کتابوں میں یہ بات تحریر فرمائی ہے, کہ مفتی کے آداب میں سے یہ ہے, کہ اگر کسی چیز پر حرمت کا فتوی لگے, تو مفتی اس کا جائز و مباح متبادل پیش کرے-

ان الیکٹرانک گیمز کا مسئلہ یہ ہے, کہ یہ گیمز صرف حلت وحرمت پر منحصر نہیں ہیں یعنی اس میں صرف حرام وحلال کا مسئلہ نہیں ہے, بلکہ یہ گیمز مکمل طور پر انسانی نسل کے مربی ہیں, امت کے نوجوانوں کا مستقبل اس سے جڑا ہوا ہے, یعنی اس نئی نسل کی تربیت اور اس کے مستقبل کا مسئلہ ہے, چنانچہ موجودہ زمانے کے وسائل و اسباب کے ذریعے باہمی تعاون کے ساتھ متفق ہو کر اس نسل کی تربیت کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے, اس بات کو سمجھنے کے لئے سقراط کا مشہور مقولہ ہے جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف بھی منسوب ہے, کہ" تم اپنی نئی نسل کو اپنے پرانے نقوش و طریقوں پر چلنے پر مجبور نہ کرو, کیوں کہ وہ جس زمانے کے ہیں تم اس زمانے کے نہیں ہو" -


یہ مضمون عربی مجلہ المجتمع سے ترجمہ کیا گیا ہے مترجم حذیفہ مدثر ندوی