مندرجات کا رخ کریں

صارف:NADEEM GILLANI

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

’یورپ میں مسلمان اور یہودی ذبیحہ کے معاملے پر اکٹھے‘


 


بیلجیئم کے کچھ علاقوں میں حلال یا کوشر گوشت کے لیے ذبیحے پر پابندی لگا دی گئی ہے اور یورپ میں مسلمانوں اور یہودیوں میں زیادہ اتفاق نہیں پایا جاتا لیکن حال ہی میں وہ ایسے قوانین کے خلاف اکھٹے ہوئے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ان کے مذہبی آزادی پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ حالیہ تنازع رواں برس کے آغاز میں کو بیلجیئم میں اس قانون کے نفاذ کے بعد سامنے آیا جس نے جانوروں کو روایتی طریقے سے ذبح کرنے پر اثر ڈالا جو کہ کوشر اور حلال گوشت کے لیے ضروری ہے۔ جانورں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت عرصے سے اس قانون کے لیے آواز اٹھا رہے تھے لیکن یہودی اور مسلمان رہنماؤں نے اس قانون کو لبرل ایجنڈے کے بھیس میں یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کوشش قرار دیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے فرانس ’حلال ٹیکس‘ کیوں نافذ کرنا چاہتا ہے؟ کیا آپ لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کھائیں گے؟ ایڈولف ہٹلر نے سنہ 1933 میں بھی نازی جرمنی میں جانوروں کو (سٹن) یعنی بےسدھ کیے بغیر ذبح کرنے پر پابندی عائد کرنے کے بعد اس بحث کا آغاز کیا تھا۔

جانورں کے حقوق بمقابلہ مذہبی آزادی

یورپی قانون کے مطابق جانوروں کو ذبح کرنے سے پہلے بےسدھ کیا جانا چاہیے تاکہ انھیں کوئی دباؤ یا تکلیف محسوس نہ ہو۔ یورپی ممالک جیسے کہ ہالینڈ، جرمنی، سپین اور قبرص نے مذہبی ذبح خانوں پر سخت قوانین لاگو کر رکھے ہیں جانوروں کو ذبح کرنے سے پہلے ساکت کرنے یا بےہوش کرنے کا عمل سٹننگ کہلاتا ہے۔ تاہم ممالک مذہی طور پر ذبح کرنے کی رعایت دے سکتے ہیں جس کے تحت جانوروں کی شہ رگ ایک ہی وار میں کاٹی جاتی ہے۔ جانوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس عمل سے جانوروں کو موت کے وقت غیر ضروری اذیت سے گزرنا پڑتا ہے لیکن مذہبی رہنما زور دیتے ہیں کہ یہ طریقہ کار غیر تکلیف دہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے جانور کی فوری موت واقع ہو جاتی ہے اور جانور کو تکلیف سے بچانے کے لیے صدیوں سے اس طریقۂ کار کو بہتر بنایا گیا ہے۔ دونوں جانب کے دلائل میں توازن رکھنے کی لیے بعض یورپی ممالک جیسے کہ ہالینڈ، جرمنی، سپین اور قبرص نے مذہبی ذبح خانوں پر سخت قوانین لاگو کر رکھے ہیں۔ آسٹریا اور یونان جیسے دیگر ممالک میں جانوروں کا گلا کاٹنے کے فوراً بعد انھیں ساکت کرنا ضروری ہے۔ آسٹریا اور یونان جیسے دیگر ممالک میں جانوروں کا گلا کاٹنے کے فوراً بعد انھیں ساکت کرنا ضروری ہے بیلجیئم کے تین خطوں میں سے دو فلینڈرز اور والونیا بھی ڈنمارک،سویڈن،ناروے اور آئس لینڈ کے ساتھ مل رہے ہیں کہ جہاں جانوروں کو ذبح کرنے سے پہلے سٹن کرنے میں کوئی رعایت نہیں ہے۔ جانوروں کو خوراک کے لیے مذہبی طریقے سے ذبح کرنا ہی صرف یورپ کے مسلمانوں اور یہودیوں کو قریب نہیں لایا مگر کچھ اور معاملات بھی ایسے ہیں جو تنقید کی وجہ بن رہے ہیں۔

ختنہ بمقابلہ بچوں کے حقوق

گذشتہ سال آئس لینڈ میں غیر طبی وجوہات پر ختنے پر پابندی کے حوالے سے ایک قانونی مسودہ آئس لینڈ کی پارلیمنٹ میں تجویز کیا گیا تاہم اس پر شور مچنے کے بعد اس کو ترک کر دیا گیا مگر یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ آئس لینڈ اور جرمنی میں ختنے کے خلاف قانون سازی کی کوششیں کی گئی ہیں یہودی اور مسلمان دونوں ہی ختنے کرتے ہیں۔ سنہ 2012 میں جرمنی کی ایک عدالت نے ختنے کرنے پر مختصر وقت کے لیے پابندی لگاتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ چار سالہ مسلمان لڑکے کے جسم میں مستقل تبدیلی اس کے مذہبی عقائد اختیار کرنے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کسی کی جسمانی ساخت میں مستقبل اور ناقابل تلافی تبدیلی کو والدین کے حقوق یا مذہبی آزادی کا جواز بنا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عدالتی فیصلہ چھ ماہ بعد خارج کر دیا گیا تھا تاہم اس نے مسلمانوں اور یہودی کمیونٹی میں خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ انھوں نے زور دیا تھا کہ اس قانون کا مقصد ان کے مذہب کی تقلید پر پابندی لگانا تھا۔

’سیاسی ایجنڈا‘

یہ حقیقت کہ عموماً اس قسم کے خیالات کو دائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے ان تنازعات کو سیاسی رخ دے دیتی ہے۔ یہودی اور مسلمان رہنما ایسے قوانین کو لبرل ایجنڈے کے بھیس میں یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کوشش قرار دیتے ہیں سیاست دانوں کی جانب سے جانورں کی فلاح اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی حمایت کا مقصد امیگریشن کے خلاف سیاسی مفادات حاصل کرنا بھی ہوتا ہے۔ بیلجیئم میں پابندی قوم پرست وزیر بین وائٹس کی وجہ سے لگی تھی جو جانوروں کی فلاح کے وزیر بھی تھے۔ جب سنہ 2017 میں مقامی پارلیمنٹ سے قانون پاس ہوا تو وائٹس نے ٹویٹ کیا تھا ’ جانوروں کے وزیر ہونے پر فخر ہے، فلیمش ہونے پر فخر ہے۔‘ سنہ 2014 میں ان کو بیلجیئم میں نازیوں کے ایک ہمدرد کی 90ویں سالگرہ میں شرکت کرنے پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اینٹورپ کے ربائے یاکو شمائل نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے یقیناً دوسری جنگ عظیم سے قبل کے حالات یاد آجاتے ہیں جب اسی قسم کے قوانین جرمنی میں رائج کیے گیے تھے۔‘


جاس روٹس نے جو اسلامی اداروں کے وکیل ہیں، اخبار دی ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پابندی کا مقصد جانوروں کو بچانے کی آڑ میں چند مذہبی گروہوں کو نشانہ بنانا تھا۔ یورپی قوانین سے متصادم مذہبی روایات پر پابندیوں کے بڑھتے مطالبے سے یہ بحث تھمتی دکھائی نہیں دیتی تاہم جانوروں کے مفادات کے لیے کام کرنے والی بیلجیئم کی تنظیم گلوبل ایکشن نے ٹوئٹر پر ان الزامات کو رد کیا ہے۔ تنظیم نے لکھا کہ ’والونیا میں قانون کی حمایت سنٹر لیفٹ پارٹی نے بھی کی تھی لہٰذا یہ صرف انتہائی دائیں بازو کا فیصلہ نہیں تھا‘۔ انھوں نے اس خیال کی بھی نفی کی کہ بیلجیئن قانون مذہبی ذبیحے کے طریقۂ کار پر پابندی عائد کرتا ہے۔ مذہبی قربانی کی متعدد ایسی قابل قبول مثالیں ملتی ہیں جہاں جانور کو ذبج کرنے سے قبل اسے بےہوش تو کیا گیا مگر ہلاک نہیں کیا گیا لیکن یہودی اور مسلمان رہنماؤں کے لیے یہ تشریح ہمیشہ قابل قبول نہیں ہوتی۔ سماجی کارکنوں اور سیاستدانوں کی جانب سے یورپی قوانین سے متصادم مذہبی روایات پر پابندیوں کے بڑھتے مطالبے سے یہ بحث تھمتی دکھائی نہیں دیتی