صارف:Payamee

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مبارک ہے ہمیں یاں کی فضا یاں کے گلی کوچے سو ہم اِس شہر کو شہرِ مبارک پور کہتے ہیں


مبارکپور- ایک تعارف----------

از: مہتاب پیامی[ترمیم]

کمپیوٹر ڈپارٹ منٹ، جامعہ اشرفیہ، مبارکپور,پpayamee@gmail.com



راجہ مبارک علی شاہ کے نام سے منسوب مبارک پور کبھی قاسم آباد کے نام سے جانا جاتا تھا ۔یہ نام اسے مسلم زمیں دار خاتون قسیمہ بی بی کے نام پر دیا گیا تھا۔ پھر جب کڑا مانک پور الٰہ آباد کے راجہ مبارک علی شاہ معروف بہ راجہ مبارک شاہ یہاں تشریف لائے (تقریباً ۶۰۰؍ برس قبل ) اس کے بعد سے اس مسلم بستی کا نام مبارک پور پڑ گیا۔

مبارک پور ضلع اعظم گڑھ کا ایک مشہور و معروف قصبہ ہے، ریشمی ساڑیوں اور الجامعۃ الاشرفیہ نے مبارک پور کو عالمی سطح پر شہرت دلائی ہے۔ یہ قصبہ شہر اعظم گڑھ سے 16 کلو میٹر مشرق میں واقع ہے۔ 2001ء کی مرد شماری کے مطابق یہاں کی آبادی 51080؍ افراد پر مشتمل تھی جو2011ء میں بڑھ کر تقریباً 75000 ہو چکی ہے۔ علم و ادب، شعر و سخن، اخلاق و کردار، ایثار و قربانی اور اپنی دست کاری کے باعث یہاں کے لوگوں نے ہندوستان بھر میں اپنی ایک شناخت قائم کی ہے۔

جغرافیائی حد بندی کی بات کریں تو یہ قصبہ 26ڈگری شمالی گلوب اور 83ڈگری مشرقی گلوب پر واقع ہے۔ پورا علاقہ میدانی ہے جو دریاے ٹونس کی سیلابی مٹی سے بنا ہے دریاے ٹونس مبارک پور سے 3 کلو میٹر شمال میں بہتا ہے۔ دریاے ٹونس کے دونوں کناروں پر بہت سے گاؤں بھی آباد ہیں جو سیلاب کے زمانوں میں پانی سے بھر جاتے ہیں۔ ٹونس کا سیلابی ریلا مبارک پور کے شمال میں واقع گاؤں سریاں، نوادہ، رسول پور، پاہیں، حسین آباد وغیرہ کو تو غرق کرتا ہی ہے، بڑھتا ہوا مبارک پور میں بھی چلا آتا ہے اور شمال میں واقع محلے بالخصوص محلہ کٹرہ کا نصف حصہ بھی سیلاب کی نذر ہو جاتا ہے۔ 
مبارک پور کے مقامی باشندوں کا رہن سہن بالکل سادہ ہے ، تصنع اور بناوٹ جیسی چیزوں سے مبرا یہاں کے افراد پرانی قدروں پر یقین رکھتے ہیںاور نئی تہذیب کی بو قلمونیوں سے کافی حد تک بچے ہوئے ہیں۔ نوجوان طبقہ جدیدیت کے رنگ میں ظاہر طورپر ڈوبا ہوا نظر آتا ہے، لیکن اس کے دل میں بھی اپنی تہذیب سے محبت کی رمق کسی حد تک آج بھی برقرار ہے۔

تاریخی طور پر یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ یہ قصبہ کب آباد ہوا۔ کچھ ویدوں اور اشوک کے زمانے میں لکھے گئے بدھ مذہب کے لٹریچر میں یہاں کی ساڑیوں کا تذکرہ ملتا ہے جو اس بات پر شاہد ہے کہ یہاں کی آبادی کم و بیش دو ہزار سال قدیم ضرور ہے۔ تاریخی دستاویزات سے یہ شواہد ملے ہیں کہ چودہویں صدی عیسوی میں سلطان محمد بن تغلق کے عہد میں یہاں ۴۰۰۰، بنکروں کے خاندان آباد تھے، جن کا مخصوص پیشہ ریشمی ساڑیوں کی بنائی تھا۔ اس وقت یہ علاقہ قاسم آباد کے نام سے معروف تھاجو یہاں کی ایک مشہور زمیں دار خاتون قسیمہ بی بی کے نام پر تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ قسیمہ بی بی دیگر زمیں داروں سے الگ مزاج کی حامل اور انسانیت کا درد رکھنے والی خاتون تھیں، انھوں نے ہمیشہ قصبے کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ ان کی اس عوامی خیر خواہی کے سبب لوگ بھی ان سے بے پناہ انسیت رکھتے تھے، حتی کہ ان کی وفات کے بعد یہاں کا نام ہی قاسم آباد رکھ دیا گیا۔ قاسم آباد سے پہلے اس گاؤں کا کیا نام تھا حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا، البتہ گجہڑا یا ’’گجی ہارا‘‘کے حوالے سے اس مقام کا ذکر ہندو مذہب کی مختلف مذہبی کتابوں میں ملتا ہے ۔ غالباً مبارک پور کی ابتدا گجہڑا ہی سے ہوئی۔یہاں کپڑوں کی بنائی ہوتی تھی اور وہ کپڑے اعلیٰ معیار کے ہوا کرتے تھے جنھیں متمول طبقے کے افراد ہی خرید اور پہن سکتے تھے۔

پھر جب راجہ مبارک علی شاہ کی آمد ہوئی تو ان کے ساتھ ان کے ساتھ بنکروں کے متعدد خاندان بھی یہاں آئے اور راجہ مبارک شاہ کی ایما پر یہیں آباد ہو گئے۔ راجہ مبارک شاہ راجہ ہی نہیں بلکہ ایک صوفی بزرگ بھی تھے۔ مبارک پور میں واقع جامع مسجد راجہ مبارک شاہ جو آپ ہی کے نام سے منسوب ہے، روایت ہے کہ آپ اس میں نمازِ جمعہ کی امامت فرمایا کرتے تھے۔ 
سترہویں صدی عیسوی میں مشہور سیاح ابن بطوطہ جب ہندوستان کے دار الحکومت دہلی آیا تو اس نے وہاں کے بازاروں میں بکتے ہوئے کچھ کپڑے دیکھے ۔ ایسے شان دار کپڑے اس نے اب تک نہیں دیکھے تھے، چناں چہ اس نے جب دکان داروں سے دریافت کیا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ قاسم آباد (مبارک پور) کے بنے ہوئے کپڑے ہیں اور کافی گراں قیمت ہیں۔ ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں ان کپڑوں کا باقاعدہ تذکرہ بھی کیا ہے۔
ریشمی ساڑیوں کی بنائی یہاں کی مخصوص صنعت ہے، جیسا کہ ہم نے تحریر کیا، یہ صنعت یہاں 2000سال سے پھل پھول رہی تھی، لیکن سرکاری عدم توجہی ، کچے مال کے امپورٹ اور تیار مصنوعات کے ایکسپورٹ پر پابندی کے چلتے اِن دِنوں یہ صنعت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ یہاں کے 95 فی صد لوگ اسی صنعت پر منحصر تھے، لیکن اِن دنوں بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ قصبے کے پچاس فیصد سے زائد نوجوان تلاشِ معاش کے سلسلے میں یہاں سے ہجرت کر چکے ہیں۔ 1990 سے قبل جو لیبر اجرت تھی فی الحال اس کی پچاس فی صد بھی نہیں رہ گئی ہے، بنکروں کی تباہی میں جہاں ایک طرف ریاستی و مرکزی سرکاروں کا اہم کردار ہے وہیں مبارک پور کا سرمایہ دار طبقہ بھی اس سلسلے میں کم ذمہ دار نہیں ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ اس طبقے کی وجہ سے اوپری سطح پر اگر لیبر چارج میں ایک روپے کی کمی واقع ہوتی ہے تو لیبر تک آتے آتے وہ کمی 10 روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ یوں ہی دھاگوں کی قیمت میں اگر ایک فی صد اضافہ ہوتا ہے تو لیبر کو وہ دھاگے قیمت میں 15 سے 20 فیصد اضافے کے ساتھ ملتے ہیں۔ انھیں حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے راقم الحروف نے 10:90 کے عنوان سے ایک نظم کہی تھی جسے عوامی حلقوں میں کافی سراہا گیا، اس نظم کے چند بند یہاں پیش کیے جاتے ہیں:

ریشم کی مٹی میں بو کر اپنا پسینہ اپنا خون

توڑتے ہیں محنت کے پیڑ سے ہم سب روٹی ، چاول دال
محنت کش مزدوروں کی اس بستی میں تعلیم نہیں
لیکن سچائی کی دولت سے معمور ہیں چھوٹے گھر
رنگ برنگی ٹائل والی بیٹھک کی کیا بات کروں
ایسے تو بس دس ہی گھر ہیں لیکن ویسے نوّے گھر
دس گھر والے لے آتے ہیں نوّے گھروں سے اک اک اینٹ
تب جا کر یہ اونچے اونچے چوبارے بن پاتے ہیں
کاٹ کپٹ سے کٹتے ہیں جب اس بستی کے نوّے پیٹ
تب جا کر یہ دھنّا سیٹھ نوالے اپنے کھاتے ہیں
سوچ یہی آتی ہے دل میں جب سے ہوش سنبھالا ہے
میرے خدا کی دنیا میں ہیں آخر کیسے کیسے لوگ
اِن دس لوگوں کو مل جائے رزاقی مہتاب اگر
بھوکے پیاسے مر جائیں گے اس بستی کے نوّے لوگ

90کی دہائی کے بعد کساد بازاری اور صنعتی زوال نے یہاں کے لوگوں کو حصولِ تعلیم کی طرف راغب کیا ہے۔اس سے پہلے ایک عام مزاج یہ تھا کہ تعلیم حاصل کر کے ہمارے بچے کچھ کر نہیں سکتے، آبائی کاروبار میں جٹے رہیں گے تو آگے معاشی طور پر خود مختار ہو سکتے ہیں۔ یہ خام خیالی سرکاری پالیسیوں کے چلتے دیوانے کی بڑ ثابت ہوئی اور وہ لڑکے جنھوں نے تعلیم کی طرف توجہ کی تھی، سماجی اور معاشی طور پر قابلِ ذکر پوزیشن میں آگئے جب کہ جنھوں نے تعلیم کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا تھا ان کا زوال اور انحطاط شروع ہو گیا۔ اس انحطاط کے دور میں لوگوں کو تعلیم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوا اور لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے لگے۔20 برس قبل کے مقابلے میں آج 90 فیصد گھروں کے بچے اسکول جاتے ہیں، آنے والے وقتوں میں حصولِ تعلیم کے شوق میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

مبارک پور کے اہم تعلیمی اداروں میں اہل سنت و جماعت کی عالمی مرکزی درس گاہ الجامعۃ الاشرفیہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔اسے مبارک پور کا سب سے قدیم تعلیمی ادارہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، حافظِ ملت علامہ عبد العزیز محدث مراد آبادی الجامعۃ الاشرفیہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔آپ کی آمد سے قبل یہ محض ایک چھوٹا سا مکتب تھا جسے مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم کے نام سے جانا جاتا تھا۔مصباح العلوم کی قدیم عمارت قلبِ مبارک پور میں واقع تھی جسے کچھ برس قبل منہدم کر کے وہاں نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔
الجامعۃ الاشرفیہ میں حصولِ تعلیم کے لیے ہندوستان کے مختلف صوبوں اور شہروں کے علاوہ بیرون ملک سے بھی طلبہ آتے ہیں، یہاں کے فارغین نے اپنے دعوتی، اصلاحی، دینی ، ادبی اور رفاہی کارناموں سے نہ صرف یہ کہ الجامعۃ الاشرفیہ کا بلکہ قصبہ مبارک پور کا نام بھی ساری دنیا میں روشن کیا ہے۔ ایسے قابل فرزندانِ اشرفیہ کی ایک لمبی فہرست ہے جن کے کارناموں کو رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا۔ تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں پھر بھی علامہ ظفر ادیبی، علامہ ارشد القادری، بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی، شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی، علامہ عبد الرؤف بلیاوی، مولانا محمد شفیع اعظمی، مولانا قمر الزماں اعظمی، علامہ یٰسین اختر مصباحی، ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم مصباحی، ڈاکٹر شرر مصباحی، علامہ محمد احمد مصباحی، مفتی نظام الدین رضوی، مولانا مبارک حسین مصباحی وغیرہ کے اسما قابلِ ذکر ہیں۔
جیسا کہ ہم نے کہا، الجامعۃ الاشرفیہ اہل سنت و جماعت کی مرکزی درسگاہ ہے، اسی طرح مبارک پور میں مختلف مذاہب کی مرکزی درس گاہیں بھی موجود ہیں، جو اپنے اپنے حلقے میں تعلیمی میدان میں کارہاے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں سرِ فہرست احیاء العلوم(دیوبندی مکتبِ فکر) مدرسہ باب العلم (شیعہ مکتب فکر) اور مدرسہ دار التعلیم (غیر مقلد )ہیں۔
عصری تعلیمی اداروں میں قدیم ترین تعلیمی ادارہ مبارک پور انٹر کالج ہے، اس کے علاوہ گاندھی ودیالیہ (انٹر کالج)، انصار گرلس انٹر کالج، ملت گرلس انٹر کالج، اشرفیہ ہائر سیکنڈری اسکول(نسواں)، اشرفیہ انٹر کالج وغیرہ قابلِ ذکر تعلیمی ادارے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے کوئی قابلِ ذکر ادارہ یہاں نہیں ہے، کچھ سالوں قبل نگر پالیکا مبارک پور کے چیئر مین ڈاکٹر شمیم احمد انصاری نے اپنی ذاتی دلچسپی سے ایک ڈگری کالج ’’مبارکپور گرلس ڈگری کالج‘‘کے نام سے قائم ضرور کیا ہے، لیکن تعلیمی میدان میں یہ اب تک کوئی قابل ذکر کام انجام نہیں دے سکا ہے، اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ اس کا مینجمنٹ نا اہل اور غیر تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ پرائمری سطح کی تعلیم کے لیے سب سے قدیم اور معیاری ادارہ مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم ہے جو مبارک کے قلب میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ اقرا پبلک اسکول ریڈینس اسکول، صبا کانوینٹ اسکول وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو تعلیمی صورتِ حال کسی حد تک اطمینان بخش ہے اور مستقبل قریب میں یہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا راستہ ہموار ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں الجامعۃ الاشرفیہ کے اربابِ حل و عقد بھی اپنی کوششوں اور کاوشوں میں مصروف ہیں اور الجامعۃ الاشرفیہ (مجوزہ عربی یونیورسٹی) کے کیمپس میں ایک میڈیکل کالج کے قیام کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ ڈگری سطح کی تعلیم کے لیے کالج کا قیام یہاں کی اولین ضرورت ہے ، اس پر حکومت اور اربابِ اقتدار اور مقامی سرمایہ داروں کو توجہ دینی چاہیے، ورنہ ہماری قوم کا مستقبل تاریک ہی رہے گا۔ ڈگری سطح کی تعلیم کے لیے یہاں کے اکثر طلبہ شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج کی طرف رجوع کرتے ہیں، معدودے چند طلبہ بی ایچ یو، جامعہ ملیہ، یا علی گڑھ پہنچتے ہیں، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ تو محض انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
مبارک پور کا سماجی ڈھانچہ کافی مضبوط ہے، قدیم اقدار، رواداری، اور قومی یک جہتی کے جذبات عام ہیں، مضبوط خاندانی شیرازہ بندی کے سبب سماجی مسائل کم ہیں، انٹر نیٹ اور موبائل کی بہتات نے گزشتہ پانچ سالوں میں اس فضا کو بدلنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ سیاسی نظریات محدود ہیں۔ اور سرگرم سیاست کا ماحول صرف الیکشن اور کچھ خاص موقعوں پر ہی دیکھا جاتا ہے۔ عوامی پیمانے کی بحثوں میں سیاست تو ضرور شامل ہوتی ہے لیکن ایک سنجیدہ موضوع کے طور پر نہیں۔ مبارک پور میں عموماً لوگ تین خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک طبقہ سماج وادی پارٹی اور اس کے نظریات کو پسند کرتا ہے تو دوسرا طبقہ بہوجن سماج پارٹی کا قدر داں ہے۔ فی الحال یہاں سے بہوجن سماج پارٹی کے چندر دیو رام یادو عرف کریلی ریاستی حکومت میں چھوٹی صنعت کے وزیر ہیں، لیکن انھوں نے اپنے اس عہدے کا فائدہ مبارک پور کی بنارسی ساڑی کی صنعت کو ذرا بھی نہیں پہنچایا۔
مبارک پور کی ایک مخصوص عوامی بولی ہے، اس بولی سے قطع نظر عام طور پر اردو لکھنے پڑھنے اور بولنے والے افراد نظر آتے ہیں۔ اردو کی صورت حال یہاں کافی بہتر ہے اور اردو بولنے والے افراد 95 فی صد ہیں۔اردو کے فروغ میں یہاں موجود مدارس و مکاتب کا کافی اہم کردار ہے ، یہاں کے مدارس کا ذریعہ تعلیم اردو ہے جس کے سبب طلبہ کی ایک بڑی تعداد اردو سے واقف ہوتی ہے۔ کانوینٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بچے اگرچہ اردو پڑھتے تو ہیں لیکن مقامِ افسوس یہ ہے کہ وہاں کے اساتذہ لفظ ’’قلم‘‘ کو ’’کلم‘‘ لکھتے ہیں توپھر ان سے اور ان کے طلبہ سے فروغِ اردو کے سلسلے میں تو امید کرنا درکنار بقاے اردو کی امید کرنا بھی فضول ہی لگتا ہے۔
اردو کے فروغ میں قومی کونسل کے مراکز کا بھی اہم کردار ہے۔ اور اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ مستقبل قریب میں یہاں اردو سے مزید دل چسپی پیدا ہوگی اور اس سلسلے میں قومی کونسل کا بھر پور کردار ہوگا۔
مبارک پور سے 35سال سے مستقل شائع ہونے والا ماہ نامہ اشرفیہ الجامعۃ الاشرفیہ کا علمی ترجمان ہے۔ اس کی ابتدا 1977ء سے ہوئی اس پہلے مدیر اعلیٰ  سید شمیم گوہر صاحب تھے، ان کے بعد یہ ذمہ داری مولانا بدر القادری کے سر آئی ۔ آپ کے بعد کچھ دنوں تک ادارت کی ذمہ داری مولانا محمد عبد المبین نعمانی نے بحسن و خوبی نبھائی۔ 1990ء سے اسکے مدیر اعلیٰ  مولانا مبارک حسین مصباحی ہیں جو ایک صاحبِ طرز ادیب بھی ہیں۔آپ کے اداریے دل چسپی اور دل جمعی سے پڑھے جاتے ہیں۔ آپ کی ادارت میں رسالے کے بہت سے خصوصی نمبر شائع ہوئے جن میں سیدین نمبر، جنگ آزادی 1857نمبر، قابلِ ذکر ہیں۔رسالے کے مشمولات اگرچہ زیادہ تر مذہبی ہوتے ہیں، لیکن ان میں مخصوص ادبی رنگ اور جمالیاتی آہنگ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ادب کے لیے اس کا ایک گوشہ مخصوص ہے جسے ’’گوشۂ ادب‘‘  کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ یہاں سے ایک رسالہ ’’سہ ماہی تنویر‘‘ شائع ہوا کرتا تھا، جس کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر سید احمد اشرفی تھے۔ یہ رسالہ ادبی تو نہیں تھا البتہ نیم ادبی کہہ سکتے ہیں، ورنہ اس میں زیادہ تر مضامین ہو میو پیتھی طریقۂ علاج کی ترویج و ترقی کے لیے شائع ہوتے تھے۔
مبارک پور سے شائع ہونے والا مکمل ادبی رسالہ ماہ نامہ’’شہر ادب‘‘ کے نام سے جنوری 2003ء میں شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے راقم الحروف نے کام کیے، معاونین میں جاوید چشتی، فراز ادیبی، شفق ازہری، امیر حمزہ نوادوی، فیصل امین نوادی، رفیق قریشی، وغیرہ شامل تھے، جب کہ سر پرستی ماسٹر مظہر علی چشتی کی تھی۔ یہ رسالہ اکتوبر 2003ء تک انتہائی شان و شوکت کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔10شماروں کے بعد گیارہواں شمارہ تعطل کا شکار ہوا تو پھر آج تک اس کی اشاعت ممکن نہ ہو سکی۔اس رسالے میں مبارک پور کے شعرا و ادبا پر تعارف و تبصرہ، یہاں سماجی اور ادبی ماحول کی منظر کشی، اردو کے عصری شعرا و ادبا کی تخلیقات کی اشاعت ہوتی تھی۔بالخصوص اس کے اداریے بہت دل چسپی سے بڑھے جاتے تھے۔
اردو لکھنے پڑھنے اور بولنے والوں کی کثرت کے سبب یہاں ہر دور میں اردو شعرا و ادبا بھی کافی تعداد میں ہیں۔ ذیل میں ان کے اسماے گرامی اور کارنامے درج کیے جاتے ہیں۔

(۱) زماں مبارک پوری دیوانِ زماں (ڈاکٹر قمر الہدیٰ صاحب کے خصوصی تعاون سے شائع)

(۲) فراز مبارکپوری        حرارتیں (مجموعۂ غزلیات، فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی کے مالی تعاون سے شائع اور اردو اکیڈمی اتر پردیش سے ایوارڈ یافتہ)
(۳)مولانا محمد شفیع اعظمی        الوسیلۃ السنیۃ

(۴) مولانا ظفر ادیبی لفظ کملی کا ادبی و شرعی جائزہ ،حیات بعد الممات(دو حصے)، ربوبیتِ الٰہیہ اور بعثتِ انبیا، آغوشِ آمنہ سے رفیقِ اعلیٰ تک(سیرت)

(۵)قاضی اطہر مبارکپوری        رجال السند والہند، عہد رسالت میں عرب ہند تعلقات، تاریخ قاسم آباد، 

تذکرہ علماے مبارکپور،مئے طہور (نعتیہ مجموعہ)ان کے علاوہ تقریباً دو درجن کتابیں اور سیکڑوں مقالات آپ کی یادگارہیں۔ (۶)صفی الرحمان مبارکپور الرحیق المختوم (۷) مولانا عبد القادر مرحوم ایک نعتیہ مجموعہ، آخرت کی پہلی منزل(کتابچہ)

(۸) مضطر مبارکپوری        سوغات مدینہ جس کی اشاعت ڈاکٹر قمر الہدیٰ صاحب کی ذاتی دل 

(۹)عبید اللہ رحمانی تاریخ المنوال و اہلہ (۱۰)علی حماد مبارکپوری دریا دریا پیاس (رثائی ادب)

(۱۱)علی مختار مبارک پوری        فرات کے پاس(رثائی ادب)
(۱۲)ایوب مبارکپوری        نوحے ، مراثی اور سلام پر مشتمل ایک دیوان، جس کی اشاعت اب تک نہ ہو سکی

چسپی سے ممکن ہو سکی۔ (۱۳)مولانا قمر الزماں مبارکپوری صدر رنگ(تذکرہ شعراے اردو)، تذکرہ شعراے اعظم گڑھ(زیر ترتیب)

(۱۴)ڈاکٹر شرر مصباحی        شرح حدائق بخشش، متعدد ادبی و اسلامی تحقیقی مقالات

(۱۵)مفتی عبد المنان اعظمی فتاویٰ بحر العلوم (چار جلدیں) حاضر و ناظر وغیرہ کتب اور مقالات (۱۵)مولانا محمد خلیل گوہر سامانِ آخرت(نعتیہ مجموعہ، اردو اکیڈمی اتر پردیش کے تعاون سے شائع)

(۱۷)مظہر چشتی            مظہر عروض، مظہر قواعد، مظہر عقیدت(نعت و مناقب)
(۱۸)منصور اعظمی            آہنی دیوار(غزلیہ مجموعہ) اور نعتیہ مجموعہ

(۱۹)مہتاب پیامی بت بت گری اور بت پرستی(تاریخ)، قرآن کے سائنسی پہلو (تحقیقی مقالہ) ان کے علاوہ بھی متعدد حضرات ہیں جن کی کوئی تصنیف تو شائع نہیں ہوئی، لیکن اردو زبان و ادب کے فروغ میں ان کی خدمات لائق تحسین ہیں۔

عبد الحی بقا مبارکپوری کی ولادت یکم جنوری 1937ء کو ہوئی اور وفات 25دسمبر 1961ء کو ۔ آپ نے بہت کم عمر پائی ۔ آپ کے بارے میں کسی قسم کی تحریری جانکاری دستیاب نہیں ہے۔ البتہ آپ کے کچھ اشعار راقم الحروف کو مولانا قمر الزماں مبارکپوری سے دستیاب ہوئے ہیں۔ چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں:

ہم نے مانا کہ وہ پامال کیا کرتے ہیں

زندگی بھی تو نئی بخش دیا کرتے ہیں
زحمتِ تیغ نہ کیجے پئے قاتل ، عشاق
کام تلوار کا ابرو بھی کیا کرتے ہیں
موت کیا ہے حادثاتِ غم سے گھبرانے کا نام
زندگی کیا ہے، انھیں طوفاں سے ٹکرانے کا نام
تازہ ہو جاتی ہے پھر اپنے شکستہ دل کی یاد
لب پہ لاتا ہے کوئی جب ٹوٹے پیمانے کا نام
مبارک پور کے سابقہ بہترین شعرا میں ولیؔ ایوبی  کا بھی شمار ہوتا ہے۔ آپ کی وفات 3مئی 1985ء کو کھمبات میں ہوئی۔ آپ ایک فطری شاعر تھے۔چند اشعار پیش ہیں۔
غم کے مارے خوشی کو کیا روتے
دکھ بھری زندگی کو کیا روتے
دیکھ کر دلکشی زمانے کی
اپنی بے چارگی کو کیا روتے
محسنؔ ادیبی کی ولادت 1935ء میں ہوئی ۔ آپ بشیر احمد ادیب مالیگانوی کے تلمیذ رشید تھے۔ آپ نے تقریباً تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ آپ کی وفات 28اگست 1999ء کو ہوئی۔ آپ کے چند منتخب اشعار پیش ہیں۔
ناروا بھی دورِ حاضر میں روا ہو جائے گا
آدمی کا قتل بھی اک مشغلہ ہو جائے گا
اِس تمدن کے فروغِ کج ادائی کے طفیل
گلشنِ امن و اماں نذرِ بلا ہو جائے گا
دوسرے اہم شعرا فقیر اللہ اسعدؔ کا نام بھی کافی اہمیت کا حامل ہے، ان کے علاوہ جوہرؔ مبارک پوری کی شخصیت بھی کافی اہم ہے۔ جوہرؔ صاحب ادیبؔ مالیگانوی کے تلمیذ تھے، آپ نے مبارک پور میں شعرا کی ایک پوری ٹیم تیار کی، آپ شعری روایتوں کا ورثہ آپ کے بعد منظرؔ مبارک پوری کے حصے میں آیا۔ منظرؔ صاحب بھی ایک صاحبِ طرز اور فی البدیہ شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ افسوس کہ ان شعرا کو کوئی ایسا پلیٹ فارم نہ مل سکا جو انھیں اردو کی ادبی دنیا میں متعارف کراتا۔ورنہ یہ لوگ بھی جوش، مجاز اور جگر کی صف میں نظر آتے۔ایسے ہی باذوق شوقا شعرا میں اقبال مبارکپوری، اقبال کلاں، کا نام بھی لیا جا سکتا ہے
کوثر مبارکپور،شاہد مبارکپوری ، عزیز برقی، عمر مبارکپوری ،گھائل مبارک پوری، بشر مبارکپوری، ایس عبد الباری، غنی ازہر رحمانی، فراز ادیبی، ساگر احیائی، رفیق قریشی، علی جاوید مبارکپوری، ارمان مبارکپوری، انیس مبارکپوری، کلیم پیامی ، ڈاکٹر عبد الحنان مبارکپوری، ڈاکٹر قمر الہدیٰ وغیرہ۔
مبارک پور میں شعرا و ادبا کی ترقی و ترویج کے لیے مختلف انجمنیں کل بھی تھیں اور آج بھی ہیں۔ یہ انجمنیں در اصل شاعری کے مکتب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان انجمنوں میں سب سے قدیم انجمن بزمِ جوؔہر ہے۔ اس بزم کی ابتدا 24فروری 1976ء کو ہوئی اس کے بانی ارشاد احمد صاحب جوہر مبارک پوری تھے۔ درمیان میں یہ تحریک کچھ تعطل کا شکار بھی ہوئی لیکن ہنوز جاری و ساری ہے، درمیان میں بہت سے سارے مرحلے آئے، تاریخیں تبدیل ہوئیں، مقامات بدلے، لیکن مبارک پور کی سب سے قدیم شعری و ادبی تحریک جسے ہم ’’جوہری تحریک‘‘ کہیں تو بے جا نہ ہوگا، آج بھی میدانِ سخن میں سرگرم ہے۔۔ اس کے تحت ماہانہ شعری نشستیں ہوتی ہیں، جن میں قصبے اور گرد و نواح کے شعرا اپنے طبع زاد طرحی کلام پیش کرتے ہیں۔ 
دوسری اہم ادبی انجمن ’’بزمِ احباب‘‘ ہے ۔ اس کی ابتدا 12فروری 1979ء کو ہوئی۔ اس کے بانیوں میں نذیر احمد صاحب فراز مبارک پوری، مضطر مبارک پوری، مولانا محمد خلیل گوہر مبارک پوری  تب ے آج تک یہ انجمن  نعتیہ ادب کی ترویج میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اس کے زیرِ اہتمام ہر سال عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر طرحی نعتیہ مشاعرہ منعقد کیا جاتا ہے۔
یکم مئی 1998کو بزمِ محسن کی شروعات ہوئی۔ اس کے بانی ڈاکٹر محسن ادیبی صاحب تھے۔ ابتدا میں اس کا نام بزمِ ادیب تھا۔ محسن صاحب کی وفات کے بعد اس کا نام بزمِ محسنؔ رکھا گیا۔ اس کے مہتمم فرازؔ ادیبی اور ساگرؔ ادیبی صاحبان ہیں۔ 1998ء سے اس کے زیرِ اہتمام ادبی اور شعری نشستیں باقاعدہ منعقد ہوتی رہی ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔اس کے علاوہ کچھ ایسی تنظیموں کے نام بھی پیش کیے جا سکتے ہیں جنھوں نے مبارک پور میں اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں بزمِ شعر و سخن، بزمِ وحدت، بزمِ شبستانِ ادب، بزمِ فروغِ اردو وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
مبارک پور کی سب سے قدیم ثقافتی انجمن’’انجمن اہل سنت و اشرفی دار المطالعہ‘‘ ہے۔ فی الوقت اس کے جنرل سکریٹری الحاج محمد یونس صاحب ہیں۔ اس انجمن کے زیرِ اہتمام گزشتہ 78برسوں سے مبارک پور میں عید میلاد النبی کے موقع پر جلسہ و جلوس کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔دوسری اہم ثقافتی انجمنوں میں انجمن ملتِ اسلامیہ، انجمن اظہارِ حسینی، انجمن عزیزیہ، انجمن گلزارِ مصطفی، انجمن غلامانِ اشرف، انجمن ہاشمیہ، انجمن اسلامیہ،تنظیم ادب، انجمن اخلاقیہ، انجمن فیضان عزیزی، انجمن مظلومیہ، انجمن فیضانِ اشرفیہ، انجمن فروغِ اسلام، انجمن باغِ رسول ، انجمن باغِ فردوس، انجمن تنویر الاسلام، انجمن فیض عالم، انجمن فیضان مصطفی، انجمن رحمانیہ، انجمن غوثیہ، انجمن مظہر حق، انجمن قادریہ، انجمن اظہار اشرف، انجمن مختار اشرف، انجمن رونقِ اسلام، انجمن گلشنِ رضا، انجمن معصومیہ، انجمن انصارِ حسینی رجسٹرڈ، انجمن انصارِ حسینی قدیم ، انجمن عزادارِ حسینی، انجمن محبانِ حسینی، انجمن عباسیہ وغیرہ۔
علاوہ ازیں یہاں ان شخصیات کا تذکرہ نہ کرنا نا انصافی ہوگی جو مبارک پور کے باشندے تو نہیں تھے، لیکن مبارک پور میں رہ کر مبارک پور کی فلاح و بہبود اور مذہبی و سماجی ارتقا کے لیے اپنی زندگیاں صرف کر دیں۔ ان میں سرِ فہرست جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا نامِ نامی اسمِ گرامی ہے۔ آپ یہاں مدرسہ مصباح العلوم کے صدر مدرس کی حیثیت سے اپنے استاذِ گرامی صدر الشریعہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی تلمیذ رشید اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی امام احمد رضا کے حکم پر تشریف لائے تھے۔ آپ نے اپنی کوششوں سے مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم کو الجامعۃ الاشرفیہ کی شکل میں ترقی دی اور ایک عربی یونیورسٹی کا خواب دیکھا ۔ آپ کا یہ خواب آج ایک زمینی حقیقت بن چکا ہے۔ اور اس کی حسین تعبیر اہل سنت و جماعت کا مرکزی ادارہ الجامعۃ الاشرفیہ ساری دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنا چکا ہے۔ دین و سنیت کی بقا کے لیے وقف یہ ادارہ نہ صرف ایک مذہبی ادارہ ہے بلکہ یہاں کے فارغین نے اردو ادب میں گراں بہا اضافے بھی کیے ہیں۔ تفصیل کا موقع نہیں، البتہ ہم حافظ ملت کی تصانیف کے عناوین پیش کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ سلیس اردو میں لکھی گئی کتابیں ہیں، جنھوں نے عوام کو گم راہی سے بچانے اور راہِ حق کی طرف گام زن کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ کتابیں النباء الغیب، المصباح الجدید اور معارفِ حدیث ہیں۔
حضور حافظ ملت کے علاوہ آپ کے دست راست علامہ عبد الرؤف بلیاوی ثم مبارک پوری بھی اپنی ذات میں ایک انجمن سے کم نہیں تھے، آپ کا لازوال کارنامہ فتاویٰ رضویہ کی تحقیق و تخریج ہے جو آپ نے الجامعۃ الاشرفیہ میں رہ کر انجام دیا۔ اس کے علاوہ مبارک پور کے عوام کے لیے دائمی اوقات صلوٰۃ بھی ترتیب دیا۔
یہ دونوں بزرگ اپنی زندگی کے طویل حصے یہیں گزار کر یہیں کی خاک میں ابدی نیند سو گئے۔ زمانہ انھیں ہمیشہ یاد کرتا رہے گا۔
جیسا کہ ہم نے اوپر تحریر کیا، مبارک پور ایک قدیم صنعتی بستی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کئی ایک تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں۔یہاں کی تاریخی عمارتوں میں جامع مسجد راجہ مبارک شاہ کافی اہم ہے۔ یہ مسجد راجہ مبارک شاہ کے زمانے سے ہنوز آباد ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ راجہ مبارک شاہ اس مسجد میں نمازِ جمعہ کی امامت کیا کرتے تھے۔ دوسری قدیم عمارتوں میں عید گاہ حیدر آباد اور شاہ کا پنجہ حیدر آباد وغیرہ ہیں جو صدیوں پرانی ہیں ۔ لاہوری اینٹوں اور چونے سے بنی ہوئی یہ عمارتیں مغلیہ عہد کی یاد گار ہیں۔ عید گاہ حیدر آباد میں اب بھی عید ین کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ شاہ کا پنجہ نامی عمارت میں حضرت علی کے پنجہ مبارک کا نشان محفوظ ہے۔ یہ کس طرح مبارک پور پہنچا اس کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہے۔البتہ عمارت کے گنبد اور طرزِ تعمیر سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ بھی مغلیہ دور کی یادگاریں ہیں، ان میں وقتاً فوقتاً تعمیراتی مرمت کے کام کیے جاتے رہے ہیں۔
ایک اہم اور قابلِ ذکر تاریخی عمارت قدم رسول ہے جو مبارک پور کے قلب میں واقع ہے۔ یہ عمارت مغل بادشاہ شاہ جہاں کے عہد میں تعمیر کی گئی۔
بتایا جاتا ہے کہ شاہجہاں نے جب دہلی میں جامع مسجد بنوائی تو یہ ارادہ کیا کہ جب تک اس مسجد میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نماز نہیں ادا کر لیتے یہاں نماز نہیں ادا کی جائے گی۔ چناں چہ ایک بار بادشاہ نے خواب دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے مشرقی دروازے سے مسجد کے اندر تشریف لے گئے۔ صحن میں واقع حوض سے وضو کا اور محراب میں نماز ادا فرمائی۔ بادشاہ خواب سے بیدار ہوا تو ننگے پاؤں لال قلعہ سے دوڑتا ہوا جامع مسجد پہنچا۔ وہاں اس نے پتھروں پر نقشِ قدمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا۔ اس نے ان نقوشِ قدم کو بوسہ دیا اور نہایت ادب و احترام سے ان پتھر کی سلوں کو وہاں سے نکلوا کر دوسرے پتھر لگوائے اور نقش والی سلوں کو اپنی علم داری میں واقع شہروں اور قصبات میں بطور تبرک بھیج دیا۔ ان سلوں کی حفاظت کے لیے ، جو عمارتیں اور قبے بنوائے گئے انھیں قدم رسول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ عمارتیں ہندوستان کے مختلف شہروں میں موجود ہیں۔
مغلیہ دور کی ایک اور یادگار عمارت معروف بہ شاہی مسجد موضع گجہڑا میں واقع ہے ۔ مبارک پور کی یہی قدیم ترین آبادی بھی ہے۔ اس کا ابتدائی نام جو ہندو مذہب کی مذہبی کتابوں اور بدھ مذہب کے لٹریچر میں ملتا ہے وہ ہے ’’گجی ہارا‘‘۔ گجی ایک قسم کا کپڑا ہوتا تھا جو ہاتھ سے بنا جاتا تھا۔ دو ہزار سال قبل یہاں اس کپڑے کی بنائی ہوتی تھی شاید اسی وجہ سے اسے گجی ہارا جاتا تھا۔ ’’گجی ہارا‘‘ نامی بستی امتدادِ زمانہ کے باعث ترقی کے دوڑ سے پیچھے ہو چکی ہے۔ ان دنوں اسے گجہڑا کہا جاتا ہے۔ عہدِ شاہجہانی میں یہ ایک ہندو اسٹیٹ تھی یہاں راجہ وی سین حکومت کیا کرتا تھا اس کے محل کا ملبہ آج بھی گجہڑا کی قدیمی مسجد کے سامنے ایک ٹیلے کی شکل میں موجود ہے۔ اس ٹیلے پر 15سال قبل ایک ہندو مندر کی تعمیر کی گئی ہے۔ عہدِ شاہجہانی میں یہ علاقہ کفرستان تھا سب سے پہلے سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولادوں میں سے حضرت سید کمال الدین عرف بندگی شاہ کمال تبلیغِ دین کے لیے گجہڑا تشریف لائے۔ آپ کے صاحب زادے محمد صالح جو حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں تھے، انھوں نے یہاں کی شاہی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔ مسجد چونے اور لاہوری اینٹوں سے بنی ہوئی ہے، اور طرزِ مغلیہ طرزِ تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ مسجد کے تین گنبد ہیں، درمیانی گنبد بڑا ہے۔ مسجد کے بیرونی دروازے کے اوپر سنگِ موسیٰ کا ایک کتبہ لگا ہوا ہے۔ جس پر ابھرے ہوئے حرفوں میں مندرجہ ذیل قطعہ کندہ ہے۔ اس قطع سے اس کا سنِ تعمیر 1099ھ معلوم ہوتا ہے۔

در زمانِ شاہِ عالم گیر دیں پرور کزو رونقِ دینِ محمد ہست افزوں از قیاس شد بِنَا از فیضِ خورشیدِ کرم للمتقی مسجدے کز نور آں انجم نماید اقتباس حاملانِ عرش گفتند از کمالِ کیست ایں گفتم از ابن الکمال است ایں کمالِ حق شناس رفعتِ شانش ببیت اللہ فی ماند بفضل ذروۂ اوجش بہ اوجِ آسماں کردہ مساس سالِ تاریخش چوں پرسیدم ز میر عقل گفت از محمد صالح است این مسجدِ احسن اساس 1099ھ گجہڑا کی یہ شاہی مسجد آج بھی مولانا سید انیس الحق صاحب کے تولیت میں محفوظ ہے۔ آپ حضر ت بندی شاہ کمال کے خاندان سے ہیں۔

قدیم تاریخی عمارتوں میں دھرم شالہ (ٹھاکر دوارہ پورہ خواجہ) بھی ہے جو ایک اہم ہندو مندر ہے۔ مندر کے نیچے خفیہ سرنگوں کا جال پھیلاہوا ہے۔ اس مندر کا سنِ تعمیر نہیں معلوم ہو سکا، اندازاً 300برس قدیم ہے۔
نوابانِ اودھ کے زمانہ میں مبارک پور میں تعزیہ داری کو بہت فروغ ہوا۔ اسی زمانے میں مولانا رمضان علی شاہ پنجاب کے علاقہ سے مبارک پور آئے۔ وہ اثنا عشری مذہب کے عالم و مبلغ تھے۔ یہاں انھوں نے موجودہ مدرسہ باب العلم کے پاس ایک شان دار امام باڑہ شجاع الدولہ کے عہد میں تعمیر کرایا۔

مبارک پور کے محلہ کٹرہ میں بھی ایک قدیم امام باڑہ موجود ہے۔ نواب واجد علی شاہ کی ایما پر اس کے کسی وزیر نے 1204ھ میں اسے تعمیر کرایا تھا۔ امام باڑے میں کل 9گنبد ہیں۔ مرکزی گنبد بڑا ہے۔ عمارت چونے اور اینٹ کی بنی ہوئی ہے۔ روایت کے مطابق اس امام باڑے کے نام 52بیگھہ زمین تھی، لیکن اب دوسرے لوگ اس پر قابض ہو چکے ہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ مبارک پور کا پورا محلہ کٹرہ اسی امام باڑے کی زمین پر آباد ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ 1984ء کے وقف بورڈ کے کاغذات میں 410ایکڑ زمین اس امام باڑے کے نام درج ہے۔ اس پر ایک کتبہ بھی ہے۔



نمدرسہ باب العلم




مدرسہ باب العلم


مدرسہ احیاء العلوم



عید گاہ حیدر آباد



عید گاہ حیدر آباد



جامع مسجد راجہ مبارک شاہ



الجامعۃ الاشرفیہ



مبارک پور کا سب سے بلند مینار



قدم رسول اور روضہ عباس



قدم رسول اور روضۂ عباس



قدم رسول ااور روضۂ عباس



قدم رسول اور روضۂ عباس




روضہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ



شاہ کا پنجہ


شاہ کا پنجہ


شاہ کا پنجہ لوح


شاہ کا پنجہ گیٹ


شاہ کا پبنجہ گنبد


شاہ کا پنجہ گنبد


شجاہ الدولہ کے دور کا امام باڑہ


 شجاہ الدولہ کے دور کا امام باڑہ


 شجاہ الدولہ کے دور کا امام باڑہ


 شجاہ الدولہ کے دور کا امام باڑہ


نواب واجد علی شاہ کے دور کا امام باڑہ


نواب واجد علی شاہ کے دور کا امام باڑہ


نواب واجد علی شاہ کے دور کا امام باڑہ