علی اصغر چشتی صابری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بٹگرام کے سادات حسینی کا شجرہ نصب
خاندانی شجرہ نصب پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی صابری

پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی صابری کی تاریخ پیدائش 1960 ضلع بٹگرام خیبر پختونخوا ہزارہ ڈویژن میں ہوئی، آپ کا تعلق وہاں کے علمی اور مذہبی خانوادے سے ہے، جو عرصہ دراز سے  اس علاقے کے ایک اہم  علمی و اصلاحی مرکز ’’کوہانی شریف‘‘  کے توسط سے مذہبی فرائض سر انجام دیتا رہا،   کیونکہ کوہانی شریف  بٹگرام میں ڈاکٹر صاحب کے آباء واجداد کا بنیادی مسکن تھا اور بشوانڑی سے  ترویج علم واشاعت کے لیے ان کے آباء واجداد کوہانی شریف منتقل ہوئے تھے۔

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی فارسی اور عربی تعلیم اپنے والد مولوی فیروزالدین چشتی صاحبؒ   بن خواجہ صدیق اللہ چشتی  صاحب ؒ سے حاصل کی اس کے علاوہ مولوی عبد الحق  صاحب ؒ اور مولوی محمد یونس صاحب ؒ سے مختلف علوم وفنون  میں علمی استفادہ کیا یہ سارے حضرات  دار العلوم دیوبند اور سہارنپور کے علمی مراکز سے  سیراب ہو چکے تھے  مؤخر الذکر دونوں  حضرات کے والد مولانا عبد الجلیل ؒ فاضل دیوبند تھے   ۔میٹرک کا امتحان ڈاکٹر صاحب نے گاؤں ہی سے چودہ سال کی عمر میں 1974 م میں   پاس کیا اور پھر کراچی کی طرف حصول علم کے لیے سفر کیا جہاں علامہ بنوریؒ کے شاگرد خاص ہونے کا شرف حاصل کیا  اور دورہ حدیث کی تکمیل کی۔قیام کراچی کے دوران میں آپ کا روحانی تعلق مولانا طفیل احمد فاروقی ؒ کے ساتھ رہا جو شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ کے خلیفہ مجاز تھے ان کے ادارے "  دار التصنیف  تبلیغی کالج " میں ڈاکٹر صاحب نے تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ  تدریسی خدمات بھی سر انجام دی۔

ایف اے، بی اے، ایل  ایل بی ایس ایم لا کالج کراچی 1983م، ایم اے اسلامیات 1985م، فاضل فارسی، فاضل عربی کے امتحانات کراچی میں  پاس کیے۔ ایم فل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی 1991م  اور پی ایچ ڈی جامعہ پنجاب   سے  1993 میں مجال حدیث میں کر چکے جس میں حدیث مرسل پر آپ نے مقالہ تحریر کیا۔اگرچہ آپ کا تخصص مجال حدیث میں ہے لیکن اس کے علاوہ دیگر علوم وفنون میں آپ کو اللہ نے  کامل دسترس سے نوازا۔ جہاں تک زبانوں  پر عبور کا تعلق ہے تو ڈاکٹر صاحب پشتو، اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبان میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔

آباء واجداد[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب کے والد مولوی فیروزالدین چشتی بن خواجہ صدیق اللہ چشتی  بن مولانا زمان شاہ چشتی بن مولانا نوران شاہ  چشتی رحمہم اللہ ہے۔ مولانا نوران شاہ  اہل بٹگرام کے مطالبہ پر  بشوانڑی سے بٹگرام آئے تھے اور خانقاہ کوہانی شریف   میں سکونت اختیار کرکے علمی خدمات سر انجام دیتے رہے اس سے قبل ان کے آباءواجداد جو  چشت کے حسینی سادات تھے  افغانستان سے ہجرت کرکے   بشوانڑی کے علاقے میں آئے تھے  جہاں اس وقت کے عظیم  شیخ اور صوفی خواجہ اخون صدیق ؒ  کے خانقاہ کے ساتھ ان کا انسلاک رہا۔کوہانی سے   بٹگرام کے مرکز میں ہجرت کی وجہ یہ بنی کہ خواجہ صدیق اللہ ؒ کی وفات کے بعد ان کی زوجہ محترمہ جو نہایت عابدہ وزاہدہ خاتون تھی اس کا نکاح فاضل دیوبند مولانا عبد الجلیل  ؒ کے ساتھ ہوا جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب جو اس وقت چھوٹے تھے اپنی والدہ کے ساتھ کوہانی شریف چھوڑ کر بٹگرام کے مرکزی گاؤں میں سکونت پزیر ہوئے۔اس  نسبت سے مولوی عبد الحق اور مولوی یونس رحمہما اللہ ڈاکٹر صاحب کے تایا کہلاتے ہیں   مولوی عبد الحق صاحب وسیع المطالعہ شخصیت تھی اور مصادر حنفیہ پر انھیں دسترس حاصل تھی بٹگرام کے مرکزی جامع مسجد میں خطابت اور امامت کے فرائض اپنی  وفات تک سر انجام دیتے رہے ان کی وفات  2009 میں ہوئی جب کہ مولانا یونس ؒ پر صوفیانہ حال کا غلبہ تھا اور زندگی میں ہی سفر لاہور کے دوران میں غائب ہو گئے جن کا تاحال  حیات وممات کی بابت معلوم نہ ہو سکا۔

ڈاکٹر صاحب کی والدہ کا تعلق سواتی قبائل کے ایک اہم گھرانے سے تھا اور ان کے نانا حاکم خان اپنے دور کے مضبوط سیاسی اثر رسوخ رکھنے والی شخصیت تھی۔ آپ کی والدہ نہایت پابند صوم وصلوۃ ا،   تہجد گزار ور روایتی طور پر مروجہ دینی علوم کے نصاب سے بہرور تھیں۔ قرآن کریم کے ساتھ انھیں خاص شغف تھا  اور صبح  وشام آس پاس کی خواتین ان کے پاس ناظرہ، ترجمہ اور دیگر دینی کتب پڑھنے کے لیے  آیا کرتی تھیں۔

بشوانڑی سے کوہانی شریف آتے ہوئے  ایک بہت بڑی وقیع لائبریری بھی اس خاندان کے ساتھ منتقل ہوئی تھی جس کے بہت سارے نسخے اب بھی موجود ہیں اور ڈاکٹر صاحب کے آباءواجداد کے  کے لکھے مخطوطے بھی ان میں محفوظ ہے جس میں زیادہ تر فقہ سے متعلق مباحث ہے  یہ لائبریری ڈاکٹر صاحب کے داد ا جان خواجہ صدیق اللہ ؒ کی وفات کے بعد   خرد برد کا شکار ہو گئی کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے والد ماجد اس وقت کم سن تھے اور لائبریری سے اس دور کے مختلف علما کتابیں لے گئے۔

ڈاکٹر صاحب کے والد ماجد اور مولوی عبد الحق و مولوی یونس رحمہم اللہ تینوں ایک ساتھ دار العلوم دیوبند کی طرف سفر کر چکے تھے  جبکہ ڈاکٹر صاحب کے والد ماجد کی فراغت   بوجوہ سہارنپور سے ہوئی  ڈاکٹر صاحب کے والد کی وفات 1983 میں ہوئی  ساری زندگی درس وتدریس میں مصروف رہے  اور اس وقت کے روایتی طریقوں کے مطابق علوم دینیہ کے طلبہ ان سے مستفید ہوتے رہے جو ان کے ساتھ مسجد میں ہی رہتے تھے جبکہ ان کا ذریعہ معاش ٹیلرنگ رہا۔شاعری کے میدان میں نعت  گو شاعر تھے۔  مزید برآں  سلوک وتصوف میں  سلسلہ چشتیہ کے مقامات طے کرچکے تھے لیکن طبیعت پر گمنام رہنے کا غلبہ تھا اس لیے علامہ بنوری ؒ کے حد درجہ اصرار کے باوجود کراچی تشریف لے جانے میں متامل رہے علامہ صاحب نے ان کے لیے لاٹھی اور پگڑی بطور ہدیہ بھیجی تھی  تصوف اور تزکیہ کے مجال میں ان کے شیخ عزیز الرحمن کوہانوی ؒ تھے ان کے شیخ غلام دینؒ  تھے ان کے شیخ صاحب جی ؒ اور ان کے شیخ  ان کے والد باباجی ؒ ان کے شیخ   بشوانڑی کے اخون صدیق باباؒ تھے  جہاں سے ڈاکٹر صاحب کے آباء واجداد اخون صدیق بابا ؒ کے حکم پر دعوت و اصلاح کے لیے ہجرت کرکے بٹگرام آئے تھے  یہ سلسلہ آگے چلتا رہا ہے۔

تدریسی خدمات[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب نے انیس سال کی عمر سے درس وتدریس کا سلسلہ کراچی سے  شروع کیا ہے اور اب تک یہ سفر جاری ہے   کراچی سے راولپنڈی منتقل ہونے کے بعد جامعہ سراجیہ میں پڑھاتے رہے اس کے بعد جامعہ فریدیہ کے آغاز میں انتظامی اور تدریسی امور کی ذمہ داری نبھائی جامعہ محمدیہ اسلام آباد  میں اب بھی اتوار کے دن درس حدیث کا سلسلہ جاری ہے۔

حکومتی جامعات کے ساتھ ان کا انسلاک باقاعدہ طور پر 1985 سے ہوا چنانچہ   1985 سے لے کر 1999 تک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی  میں پہلے بطور   خدمات سر انجام دیتے رہے چنانچہ 15۔6۔1985 سے 27۔7۔1985 تک بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ کام کرتے رہے اس کے بعد  1992 تک بطور لیکچرر خدمات سر انجام دیتے رہے اور 1992 سے لے کر11۔8۔ 1999 تک یونیورسٹی ہذا میں اسسٹنٹ پروفیسرکے منصب پر فائز  رہے   ۔

ڈاکٹر صاحب کی جامعاتی تدریس کا دوسرا دور  1999 سے شروع ہوتا ہے۔12۔8۔1999 سے  لے کر 11۔8۔2003 تک علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی  میں ایسوسی ایٹ پروفیسر رہے۔ اور 25۔1۔ 2003 سے تا دسمبر 2019 تک فل پروفیسر (BPS:21)کے طور پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ساتھ منسلک رہے۔ اس کے بعد جنوری 2020 سے جون 2021 تک ہائی ٹیک یونیورسٹی میں فل پروفیسر اور شعبہ اسلامی علوم کے سربراہ رہے۔

انتظامی مناصب[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب جہاں ایک طرف علمی دنیا کی نابغہ روزگار شخصیت ہے وہاں  اللہ نے انتظامی صلاحیتوں سے بھی آپ کو نوازا ہے عموما  ایسا بہت کم  دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک ہی شخصیت میں یہ دونوں خوبیاں پائیں جائیں چنانچہ ڈاکٹر صاحب شروع ہی سے اس قسم کے مناصب پر فائز رہے ہیں۔ ذیل میں ان کی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔

چئیرمین شعبہ حدیث وسیرت[ترمیم]

2001 م سے اب تک

چئیر مین شعبہ عربی[ترمیم]

2003 سے 2006 تک

ڈین فیکلٹی   آف عریبک اینڈ اسلامک اسٹڈیز[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب کئی دفعہ فیکلٹی آف عریبک اینڈ اسلامک سٹڈیز کے ڈین رہے چنانچہ پہلی دفعہ آپ اپریل 2003 تا مئی 2006   تک اس منصب پر فائز رہے اس کے بعد جون 2009 تا مئی 2012 اور 2012 سے     2017   تک بطور ڈین خدمات سر انجام دیتے رہے۔

وائس چانسلر[ترمیم]

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں وقتا فوقتا ڈاکٹر صاحب قائم مقام  وائس چانسلر کے طور کام کرتے  رہے ہیں  ۔ بطور وائس چانسلر ان کی مختلف اوقات میں کام کرنے کی تفصیل درج ذیل ہے۔

W.e.f To
i 02-12-2009  12-12-2009
ii 24-02-2012  02-03-2012
iii 03-12-2012  06-12-2012
iv 17-12-2012  19-12-2012
v 24-12-2012  29-12-2012
vi 21-03-2014  07-10-2014

ممبر بورڈ آف گورنر[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب جہاں  بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ساتھ مختلف حوالوں سے وابستہ رہے ہیں وہاں انھیں یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ 2016 سے اب تک وہ  اس یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنر کے ارکان ہیں۔ یہ  یونیورسٹی کا سب سے اہم  اعلیٰ تنفیذی شعبہ ہے جو یونیورسٹی کے تمام امور کی منظوری دیتا ہے۔

ایواڑڈز/ اعزازات[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب نے  مختلف قسم کے علمی اور انتظامی خدمات کی بنیاد پر ایواڑڈز حاصل کیے ہیں  جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔۔

1: صدارتی ایوارڈ معارف اسلامی کے سیرت نمبر کی خصوصی اشاعت پر

2: صداراتی ایواڑڈز برائے بہترین استاد 2010م

3: یونیسیکو کی بہترین استاد ایواڑڈ 2013 م

4: ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ تحقیقی مجلہ معارف اسلامی  کے بانی ایڈیٹر

5: ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ تحقیقی مجلہ سیرت سٹڈیز  کے بانی ایڈیٹر

6: ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ تحقیقی مجلہ  درایت  کے بانی ایڈیٹر

7: پی ایچ ڈی پروگرام علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کوآرڈنیٹر

تصنیفی خدمات[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب کا تخصص چونکہ حدیث کے مجال میں ہے اس لیے حدیث اور اصول حدیث  پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں ان کی کتابوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔

  1. مطالعہ حدیث، 2016
  2. تاریخ ادب حدیث، 2017
  3. ارکان اسلام، 2002
  4. رزق حلال کی اہمیت، 1995
  5. مطالعہ نصوص حدیث، 2001
  6. مصطلحات حدیث، 2001
  7. سورۃ نساء اور سورۃ مائدہ کی تفسیر، 2002
  8. اسلامی تعلیمات کی تفہیم، زیر طبع
  9. اسلامی تعلیمات سے متعلق 27 کتابچے، مطبوعہ دعوۃ اکیڈمی
  10. تفسیر قرآن سے متعلق 100 سے زیادہ مقالے، مطبوعہ دعوۃ اکیڈمی
  11. موجودہ اسلامی دنیا کے مسائل پر 70 سے زیادہ مقالے مطبوعہ ماہانہ  دعوۃ اکیڈمی میگزین

تحقیقی مقالے[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب کے  بہت سارے مقالے اور ریسرچ آرٹیکل   مختلف مجلات میں عربی اور اردو میں   چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں  جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

1: حدیث مرسل، 1989 فکر ونظر ، 2: تدوین حدیث اور اصول روایت، 1990 فکر ونظر 3: اندلس کے مسلمان فقہا( عربی) 1991،   الدراسات الاسلامیہ، 4: حافظ ابن عبد البر، 1991، فکر ونظر 5: تدوین حدیث اور اصول درایت، 1995، فکر ونظر 6:  احادیث کی روایت بالمعنی، 1996، الایضاح 7:  حدیث ضعیف کی فقہی حیثیت، (عربی)  1998،   الدراسات الاسلامیہ 8: حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش اور رفع آسمانی سے متعلق قرآن کریم اور بائبل کے نصوص کا تقابلی مطالعہ، 2000، المحقق 9:  سیرت نبویﷺ کی تدوین کے ابتدائی اداور کا مطالعہ، 2001، فکرونظر، 10:  شروط راو الحدیث، 2002، معارف اسلامی 11:  حدیث مرسل کی فقہی حیثیت سے متعلق مختلف آراء کا تقابلی مطالعہ، الدعوۃ شمارہ :1 12: تخریج حدیث کے مناہج، 2002، معارف اسلامی 13: عہد نبویؐ کے میدان جنگ ، 2002، معارف اسلامی 14:  امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے وضع کردہ اصول روایت، 2007، معارف اسلامی 15: تدوین حدیث کے اداور میں ذخیرہ حدیث کا مطالعہ، 2010، معارف اسلامی 16: کتاب المعتمد کا تعارف، 2004، فکر ونظر 17: برداشت کا تصور احادیث اور تاریخی حقائق کی روشنی میں، 2009، فکر ونظر 18:  حقوق مصطفٰی ﷺ قرآن وسنت کی روشنی میں، 2009 معارف اسلامی 19:  علوم اسلامیہ کے مجال میں ڈاکٹر غازی کی خدمات  اور ان کی حالات زندگی، 2011، معارف اسلامی 20: سماجی اقدار کو سمجھنے میں مذہب کا کردار، 2012، انٹرنیشنل جرنل آف سوشل سائنس 21: سنن ابن ماجہ اور اس کی خصوصیات، 2013 معارف اسلامی 22: حدیث کے راوی کے لیے بنیادی شرائط، 2014، معارف اسلامی 23: بینکاری کا آغاز وارتقا ء، قدیم مہاجنی کاروبار سے سودی واسلامی بینکاری کا سفر، 2018، ہزارہ اسلامکس 24: فتنہ انکارحدیث   پر لکھی گی، کتاب پرویز اور قران کا تحقیقی مطالیہ، 2017، ہزارہ اسلامکس

اس کے علاوہ مختلف  موضوعات پر مبنی کانفرنسز اور سیمینارز  میں پیش کیے گئے مقالات کی طویل فہرست  ہے جسے طوالت سے بچنے کے لیے یہاں درج کرنے سے احتراز کیا جاتا ہے۔

ایڈیٹر شپ[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب زمانہ طالب علمی سے ہی لکھنے کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں چنانچہ آپ نے ابتدا ء سے ہی ماہنامہ    ’’ ختم نبوت  ‘‘ کراچی کی ادارت ایک عرصے تک سنبھالے رکھی۔ اس کے بعد جب آپ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تشریف لائے تو  ششماہی ’’معارف اسلامی ‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔

سیاسی خدمات[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب طالب علمی کے دور سے جمعیت طلبہ اسلام کے فعال کا رکن رہے اور کراچی میں ڈویژنل صدر کے طور پر بھی کام کیا اس کے علاوہ مبلغ ختم نبوت ہونا آپ کی انفرادی شان ہے ماہنامہ ختم نبوت کے ایڈیٹر علامہ بنوری ؒ کی سرپرستی میں رہے   اور عدالت میں بطور وکیل ختم نبوت سے متعلق کیسز میں دفاع کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ فکری طور پر شروع ہی سے جمعیت علمائے اسلام  (ف) کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا انسلاک ہے۔

شعر و شاعري[ترمیم]

ڈاكٹر صاحب آغاز طالب علمي سے هي شعر و شاعري كا بهترين ذوق ركھتے ہیں کیونکہ ان کا خاندان علمی خاندان تھا اور شعر ان کے رگ وپے میں بسا ہے آپ کے والد نعت گو شاعر تھے جبکہ ڈاکٹر صاحب نے قادیانیت کے خلاف بہت ساری نظمیں لکھیں جو ماہنامہ ختم نبوت کراچی میں چھپتی رہی۔  بنیادی طور پر آپ غزل گو شاعر ہے اور  غزل لکھنے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں  آپ کے  غزلوں کا مجموعہ عنقریب زیورطبع سے آرس۔

حوالہ جات[ترمیم]