لسانی ذکر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

زبان سے اللہ کو یاد کرنا،تسبیح بیان کرنا،نعمتوں پر شکرکرنا لسانی ذکر کہلاتاہے۔لسانی ذکر کی دس اقسام بیان کی جاتی ہیں۔[1]

اقسام ذکر[ترمیم]

لسانی ذکر کی دس اقسام ہیں

ا۔تسبیح[ترمیم]

یہ اللہ تعالیٰ کا بلند ترین ذکر ہے ۔ سورة احزاب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یا ایھا الذین امنوا اذکرو اللہ ذکراکثیرا وسجوہ بکرۃ واصیلا اے ایمان والو ! اللہ کا خوب ذکر کرو اور اس کی تسبیح بیان کرو صبح بھی اور شام کے وقت بھی سورة بنی اسرائیل میں ارشاد ہے وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولٰکن لا تفقہون تسبیحھم ہر چیز خدا تعالیٰ تسبیح بیان کرتی ہے مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے ، وہ اللہ ہی جانتا ہے غرض کہ شجر اور کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ رب العزت کی تسبیح بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور اور فہم و فراست عطا کرکے اسے قانون الٰہی کا پابند (مکلف) بنایا ہے لہذا اس پر بطریق اولی لازم ہے کہ نہایت عقیدت و محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرے اپنی زبان سے سبحان اللہ کہے یعنی اے پروردگار تو ہر ساجھی شریک عیب نقص کمزوری اور ضعف سے پاک اور منزہ ہے

٢۔تحمید[ترمیم]

ذکرکی دوسری قسم تحمید ہے یعنی بندہ اپنے رب تعالیٰ کی تعریف بیان کرے اور کہے الحمد اللہ تمام تعریفوں کا مستحق صرف خدا تعالیٰ ہے کیونکہ تمام داخل اور خارجی انعامات کو وجود دینے والا وہی ہے تحمید نماز میں بھی کی جاتی ہے الحمد للہ رب العلمین چنانچہ نماز میں تسبیح کے بعد تحمید انہی الفاظ سے کی جاتی ہے پھر جب ایک رکعت کی قرات مکمل ہوجاتی ہے تو رکوع سے اٹھ کر کہتے ہیں ربنالک الحمد اے پروردگار ! تعریف تیرے ہی لیے ہے بہرحال اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنا بلند ترین اذکار میں سے ہے تکبیر بھی ذکر ہے جس کے ذریعے اللہ کی بڑائی اور عظمت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔

٣۔تکبیر[ترمیم]

تکبیر بھی ذکر ہے جس کے ذریعے اللہ کی بڑائی اور عظمت کا اظہار کیا جاتا ہے جب کوئی اہم کام انجام دیا جائے تو اپنے ضعف کے پیش نظر زبان سے کہتے ہیں اللہ اکبر اللہ بڑا ہے۔ اس کے سوا کسی کے لیے بڑائی نہیں ہے ۔ سورة مدثر میں ارشاد ہے وربک فکبر اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کرو چنانچہ نماز کی ابتدا ہی اس لفظ سے ہوتی ہے اللہ اکبر اور پھر نماز میں ایک حرکت سے دوسری حرکت کی طرف جاتے ہوئے اس لفظ کو دہرایا جاتا ہے اور اس طرح اللہ رب العزت کی بڑائی بیان کی جاتی ہے۔

٤۔تہلیل[ترمیم]

لا الہ الا اللہ بھی ذکر ہے۔ اس کے ذریعے شرک کی نفی اور خدا تعالیٰ کی الوہیت کو ثابت کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس کے سوا کوئی خالق ، مالک اور مربی نہیں ۔ وہ ذات وحدہ لاشریک ہے ۔ تہلیل کے ساتھ توحید کا کلمہ بھی آتا ہے وحدہ لا شریک لہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔ یہ بھی ذکر کی ایک قسم ہے۔

٥۔حوقلہ[ترمیم]

حوقلہ یعنی لاحول ولا قوۃ الا باللہ بھی ذکر کی ایک قسم ہے یہ تفویض اور توحید کا کلمہ ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد [2] کے مطابق عرش الٰہی کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ اس کے ذریعے انسان خدا تعالیٰ کے سامنے اقرار کرتا ہے کہ برائیوں سے باز رہنے اور نیکی کو انجام دینے کا عمل محض اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی مکن ہوتا ہے۔ اس کلمے کا ورد کرنے سے بہت بڑا اجر حاصل ہوتا ہے۔

٦۔حسبلہ[ترمیم]

ذکر کی ایک قسم حسبلہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مفرد کلمہ حسبی اللہ اور جمع کا کلمہ حسبنا اللہ آتا ہے ۔ ہر مشکل وقت میں اس کلمہ کا ورد خیر و برکت کا باعث ہوتا ہے۔ احد کے موقع پر جب صحابہ کو سخت دشواری پیش آئی تو انھوں نے یہی کہا تھا قالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل [3] ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی ہمارا کار ساز ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اگر لوگ آپ کی بات انکار کرتے ہیں فقل حسبی اللہ لا الہ الا ھو (توبہ) تو آپ کہہ دیں کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ وہی معبود برحق اور میرا اسی پر بھروسا ہے۔

٧۔بسملہ[ترمیم]

بسملہ بھی ذکر ہی کی ایک قسم ہے ہم ہر کار خیر کی ابتدا بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرتے ہیں ۔ سورة مزمل میں ارشاد ہے واذکر اسم ربک یعنی اپنے رب کا ذکر کرو ۔ غار حرا میں سب سے پہلی وحی کا نزول بھی اسی طرح ہوا اقرا باسم ربک الذی خلق آپ اس پروردگار کا نام لے کر پڑھیں جس نے پیدا کیا ۔ چنانچہ ہر اچھا کام کرتے وقت بسم اللہ کہنا اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے

٨۔استعانت[ترمیم]

استعانت یعنی اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا بھی ذکر میں شامل ہے۔ ہم ہر نماز میں کہتے ہیں ایاک نعبد وایاک نستعین اے پروردگار ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد کے طالب ہیں ۔ مافوق الاسباب اعانت خدا تعالیٰ ہی کرسکتا ہے۔ اسی لیے فرمایا المستعان مدد کرنے والی ذات اللہ کی ہے لہذا مدد اسی سے طلب کی جا سکتی ہے۔

٩۔تبارک[ترمیم]

اللہ کا ذکر لفظ تبارک کے ساتھ کیا جاتا ہے جیسے فرمایا تبرک الذی بیدہ الملک (ملک) بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے نیز یہ بھی فرمایا فتبرک اللہ احسن الخلقین (المومنون) بڑی برکتوں والی ہے وہ ذات جو بہترین تخلیق کرنیوالی ہے ۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا تبرک الذی نزل الفرقان علی عبدہ اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے جس نے قرآن جسیی عظیم کتاب اپنے بندے پر نازل فرمائی تاکہ اس کے ذریعے وہ تمام انسانوں کو خبردار کر دے برکت کا معنی ایسی زیادتی ہوتا ہے جس میں تقدس کا معنی پایاجائے چنانچہ جب بھی کوئی اچھی چیز دیکھی جائے تو کہنا چاہیے بارک اللہ۔ اللہ تعالیٰ برکت عطا کرے یہ ذکر ہے عرب اسے محاورے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں ۔

١٠۔تعوذ[ترمیم]

ذکر کی دسویں قسم تعوذ یعنی اعوذ باللہ کہنا ہے۔ اس کے لیے قرآن وسنت میں مختلف الفاظ آئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب قرآن پڑھو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر اس طرح کرو اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم چنانچہ آج تعوذ کے بارے میں کچھ عرض ہوگا۔ خدا تعالیٰ کی پنا ہ میں چلا جائے اور یہ پناہ تعوذ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے ۔ جب کوئی شخص اعوذ باللہ کہتا ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے میرے شدید دشمن شیطان سے پناہ میں رکھے تاکہ میں عبادت تلاوت یاد یگر نیکی کا کام انجام دے سکوں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عبدالحمید سواتی تفسیر تعوذ تسمیہ۔ معالم العرفان 
  2. مسلم ص ٣٤٦ ج ٢ 
  3. آل عمران آیت ١٧٣