محمد فضل شاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سید محمد فضل شاہ سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ خاص تھے۔

محمد فضل شاہ
ذاتی
پیدائش( 1265ھ بمطابق 1849ء)
وفات(منگل 22 رمضان 1331ھ بمطابق 25 اگست 1913ء)
مذہباسلام
والدین
  • سید جندے شاہ (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقاموریامال شریف چکوال
دورانیسویں ، بیسویں صدی
پیشروشمس العارفین

ولادت[ترمیم]

خواجہ سید محمد فضل شاہ کی ولادت 1265ھ بمطابق 1849ء میں وریامال ضلع چکوال میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام سید جندے شاہ تھا۔ آپ کا تعلق سادات سے تھا۔

تعلیم[ترمیم]

محمد فضل شاہ نے موہڑ کدلتھی میں شیخ غلام محمد چشتی سے علوم دینیہ میں تحصیل حاصل کی۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

محمد فضل شاہ نے خواجہ شمس العارفین سیالوی کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ ریاضت و مجاہدہ اور منازل سلوک طے کرنے کے بعد خرقہ خلافت حاصل کیا۔

شیخ سے ارادت[ترمیم]

فضل شاہ کو اپنے شیخ طریقت سے والہانہ لگاؤ اور محبت تھی۔ سیال شریف حاضر ہوتے تھے تو پیادہ پا جاتے تھے۔ لنگر شریف کے کاموں کو بجالا کر بہت خوش ہوتے تھے۔ خواجہ سیالوی بھی آپ پر انتہائی کرم فرماتے تھے۔

ذریعہ معاش[ترمیم]

خواجہ محمد فضل شاہ نے ذریعہ معاش کے طور پر کاشتکاری اور اس کے علاوہ حلوائی کا پیشہ بھی اختیار فرمایا۔

درس و تدریس[ترمیم]

محمد فضل شاہ نے دریامال نواحی چکوال کی مسجد میں تمام عمر امامت اور درس و تدریس میں گزاری ۔ بچوں کو درس قرآن دیا کرتے تھے۔

حلیہ[ترمیم]

محمد فضل شاہ کے جسمانی اعضاء نہایت نرم و نازک اور ملائم تھے۔ چہرہ اقدس اس قدر نورانی اور تابانی تھا کہ آدمی کی نظر آپ کے چہرہ پر جم کر رہ جاتی تھی ۔ خوش کلام ایسے کہ گویا زبان سے پھول جھڑ رہے ہیں۔

اخلاق و اطوار[ترمیم]

فضل شاہ اعلی اخلاق اور صفات کے مالک تھے۔ قرآن و سنت کے مطابق ساری زندگی بسر کی۔ نرم مزاج اور خوش اخلاق تھے۔ صابر اور شاکر تھے۔

امامت وخطابت[ترمیم]

سید فضل شاہ حفظ قرآن تھے۔ وریامال نواحی چکوال کی مسجد میں امامت اور خطابت کرتے تھے۔ بڑے خوش الحان قاری تھے۔ نماز تراویح میں خود قرآن مجید سنایا کرتے تھے۔

رشد و ہدایت[ترمیم]

حصول خرقہ خلافت کے بعد سید فضل شاہ نے دریامال میں رشد و ہدایت اور تبلیغ و ارشاد کا سلسلہ جاری کیا۔ آپ کے کلام میں بہت تاثیر تھی۔ وریامال اور گرد و نواح کے لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔

وصال[ترمیم]

سید محمد فضل شاہ کا وصال شریف 22 رمضان 1331ھ بمطابق 25 اگست 1913ء کو بروز منگل ہوا۔ آپ کے جنازہ میں بے پناہ مخلوق شامل ہوئی حالانکہ کوئی اطلاع نہیں کی گئی تھی۔ مسجد اور ارد گرد تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ جب نماز جنازہ ہو چکی تو مخلوق آنا فانا غائب گویا کوئی غیبی مخلوق تھی جو جنازہ میں شامل ہوئی۔ آپ کا مزار شریف وریامال کی مسجد کے شمالی گوشہ میں واقع ہے۔ خوبصورت گنبد بنا ہوا ہے۔

اولاد[ترمیم]

محمد فضل شاہ کی اولاد میں چار صاجزادیاں تھیں۔ آپ کی بڑی صاجزادی سیدہ چنن بی بی کے صاجزادے سید نیاز علی شاہ کی تعلیم و تربیت آپ نے کی۔ آپ کو اپنے نواسے سے بہت پیار تھا۔ ان کو قرآن مجید حفظ کروایا۔ سید نیاز علی شاه نانا جان کی تصویر تھے۔ سید نیاز علی شاہ کے وصال شریف کے بعد عرس پاک چنن بی بی کے زیرنگرانی ہوتا رہا۔ آپ بہت پاکباز اور ولیہ کاملہ تھیں۔ سیال شریف سے بیعت تھیں۔ آپ کا عرس مبارک 22 رمضان المبارک کو منعقد ہوتا ہے۔

کرامات[ترمیم]

خواجہ سید محمد فضل شاه دریامالی صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ کی چند کرامات درج ذیل ہیں

  1. آپ کے مخالفین نے آپ کو قتل کرنے کا بارہا منصوبہ بنایا لیکن جب وہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے لگتے تو اللہ تعالی کی رحمت جوش میں آجاتی اور مخالفین کے پاوں زمین میں دھنس جاتے تھے وہ آگے نہیں جا سکتے تھے اور اس طرح صبح ہوجاتی اور وہ اپنے ناپاک ارادے میں ناکام ہو جاتے تھے۔
  2. آپ توشہ پکواتے تھے اور ایک پرات میں توشہ ڈال کر ایک طرف سے تقسیم کرواتے تھے۔ آپ کا حکم ہوتا تھا کہ ایک چمچے سے زیادہ توشہ نہیں کھانا۔ اگر کوئی آدمی لالچ کرتا اور ایک چمچ سے زیادہ کھا لیتا تو اسے قے آجاتی تھی۔
  3. جب آپ کے نواسے سید نیاز علی شاہ کا وصال ہوا اور ان کا جنازہ اٹھایا گیا جونہی جنازہ آپ کے روضہ شریف کے پاس سے گذرا تو جنازہ وہیں رک گیا۔ جنازہ اٹھانے والوں کے قدم آگے نہیں بڑھتے تھے۔ جب یہ منظر سیدہ چنن بی بی نے دیکھا تو آپ نے چارپائی نیچے رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ پہلے ان کے نانا جان جنازہ ادا کریں گے جب اتنا وقت گذر گیا جتنے وقت میں جنازہ پڑھایا جاتا ہے تو سیدہ چنن بی بی صاحبہ نے جنازه اٹھانے کا حکم دیا۔ بعد ازاں جنازہ قبرستان میں لے جاکر نماز جنازہ ادا کر کے دفن کیا گیا۔
  4. خواجہ سید محمد فضل شاہ کے شاگرد فتح محمد جنھوں نے آپ کا روضہ شریف بھی تعمیر کروایا تھا کی بیوی کو جوڑوں کا درد اٹھا وہ کسی بزرگ کے مزار پر سلام کرنے کے لیے گئی تو وہاں اس کو ایک عورت ملی۔ عورت نے پوچھا کیا آپ کے گھر کے پاس اگر کسی بزرگ کا روضہ مبارک ہے؟ وہاں جاکر سلام کرو۔ فتح محمد صاحب کی بیوی نے آپ کے روضہ شریف میں حاضری دی تو جوڑوں کا درد جاتا رہا اور پر اس کے بعد زندگی بھر درد نہ ہوا۔
  5. ایک مرتبہ فتح محمد صاحب کی زوجہ کو آپ خواب میں ملے۔ آپ کلمہ طیبہ کا ورد فرما رہے تھے اور آپ نے دو لعل ان کو دیے اور فرمایا کہ اپنی امانت لے لو۔ بعد ازاں اللہ تعالی نے فتح محمد صاحب کو دو خوبصورت فرزند عطا کیے جن کے نام یہ ہیں محمد مصری اور راجا محمد گل (موجودہ سجادہ نشین)۔
  6. سیدہ چنن بی بی نے کئی بار روضہ شریف سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز سنی۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 627 تا 630