مشکل کشا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مشکل کشا خلیفہ چہارم علی المرتضیٰ کو دیا گیا لقب ہے

مشکل کشا کا مطلب[ترمیم]

مُشکلوں کا حل کرنے والا آقا؛ حضرت علی کا لقب۔[1]
مشکل کا معنی ہے تکلیف اور کشا کا مطلب ہے دور کرنا یعنی تکالیف اور مشکلات کو دور کرنے والا اور ان کو حل کرنے والا[2]
مشکل کشا کو بعض شرک اور بعض جائز کہتے ہیں البتہ کچھ اہل سنت اور جمہور اہل تشیع اسے جائز کہتے اور مانتے ہیں۔

اہل سنت کی اکثریت اس وجہ ان کو مشکل کشا نہیں مانتے کیونکہ حضرت علی کا قول ہے کہ ”میری محبت اور نفرت میں غلو کرنے والے دونوں جہنمی ہیں۔“[3][4]

مشکل کشائی اور قرآن[ترمیم]

مشکل کشا حضرت علی کا لقب مشہور ہو گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبر اور اللہ کے مقبول بندے باذن الٰہی مشکل کشا، حاجت روا اور دافع البلا ہوتے ہیں۔
کیونکہ یہ اللہ کے حکم سے بندو ں کی حاجتیں پوری کرتے ہیں مشکلیں حل کرتے ہیں قرآن کریم اس کا اعلان فرمارہاہے ۔ دور ونزدیک ہر جگہ سے مافوق الاسباب مشکل کشائی اور مدد کرتے ہیں۔

(1) اِذْہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلْقُوۡہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا ۚ میرا یہ کر تہ لے جاؤ اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی۔[5]

(2) فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الْبَشِیۡرُ اَلْقٰىہُ عَلٰی وَجْہِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیۡرًا ۚ پھر جب خوشی سنا نے والا آیا تو وہ قمیص یعقوب کے منہ پر ڈال دی ۔ اسی وقت ان کی آنکھیں لوٹ آئیں ۔[6]

یعقوب علیہ السلام نابینا ہو گئے تھے ان کی اس مصیبت کو یوسف علیہ السلام نے اپنی قمیص کے ذریعہ دور فرمایا اور ان کی مشکل کشائی کی قمیص سے شفا دینا مافوق الاسباب مدد ہے

(3) وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ ۚ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَاۤ اَنۡ رَّاٰبُرْہَانَ رَبِّہٖ ؕ اوربے شک زلیخا نے قصد کر لیا یوسف کا اور یوسف علیہ السلام بھی ارادہ کرلیتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھتے ۔[7] یوسف علیہ السلام کو زلیخا نے سات کو ٹھڑیوں میں بند کر کے اپنی طرف مائل کرنا چاہا تو آپ نے سامنے یعقوب علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اشارے سے منع فرما رہے ہیں جس سے آپ کے دل میں ادھر میلان نہ پیدا ہو ا۔ یہ رب تعالیٰ کی بر ہان تھی جس کا ذکر اس آیت میں ہے تو یعقوب علیہ السلام نے کنعان سے بیٹھے ہوئے مصر کی بندکوٹھڑی میں یوسف علیہ السلام کی یہ مدد کی کہ انھیں بڑی آفت اور ارادہ گناہ سے بچالیا۔ یہ ہے اللہ والوں کی مشکل کشائی اور مافوق الاسباب امداد ۔

(4) وَاُبْرِیُٔ الۡاَکْمَہَ وَالۡاَبْرَصَ وَاُحۡیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِ ۚ عیسی علیہ السلام نے کہا کہ میں اللہ کے حکم سے شفادیتاہوں مادرزاداندھوں اور کوڑھیوں کو اور مردو ں کو زندہ کرتا ہوں ۔[8] اندھا،کوڑھی ہونا بلاہے جسے عیسی علیہ السلام اللہ کے حکم سے دفع کردیتے ہیں لہٰذا اللہ کے پیارے دافع البلا ہوتے ہیں یعنی مافوق الاسباب مشکل کشائی فرماتے ہیں۔

(5) فَقُلْنَا اضْرِبۡ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ ؕ فَانۡفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیۡنًا ؕ ہم نے موسی علیہ السلام سے کہا کہ اپنی لاٹھی سے پتھر کو ماروپس فوراً اس پتھر سے بارہ چشمے جاری ہو گئے ۔[9] بنی اسرئیل تیہ کے میدان میں پیا س کی آفت میں پھنسے تو رب تعالیٰ نے براہ راست انھیں پانی نہ دیا بلکہ موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ ان کے لیے دافع البلا بن جائیں تاکہ انھیں پانی ملے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندے بحکم الٰہی پیاس کی بلا دور کرتے ہیں مافوق الاسباب ۔

(6) قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ ٭ۖ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا جبریل نے مریم سے کہا کہ میں تمھارے رب کا قاصد ہوں آیا ہوں تا کہ تمھیں ستھرا بیٹا دوں ۔[10] حضر ت جبریل علیہ السلام اللہ عزوجل کے حکم سے بیٹا بخشتے ہیں یعنی بندوں کی حاجتیں پوری کرتے ہیں۔

(7) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا اے محبوب اگر یہ مجرم لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر کے آپ کے پاس آجاویں اور خدا سے مغفرت مانگیں اور آپ بھی ان کی سفارش کریں تو اللہ کوتوبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔[11] جو گناہو ں کی بیماری میں پھنس جاوے وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے شفاخانہ میں پہنچے وہاں شفا ملے گی آپ دافع البلاء ہیں اور مافوق الاسباب گناہ بخشوادیتے ہیں۔

دار الافتاء دیوبند[ترمیم]

دار الافتاء دیوبند میں ہے امیرالموٴمنین خلفیة الرابع سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ مشکل سے مشکل مقدمات اور پیچیدہ معاملات میں فیصلہ فرماکر بہت آسانی سے حل فرمادیا کرتے تھے، اسی لیے حضرت رضی اللہ عنہ کو حلال المعضلات کے لقب سے ملقب کیا جاتا تھا، جس کا ترجمہ بزبان فارسی مشکل کشا ہے، اس معنی کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابر امت پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے، شرعاً یا عقلاًاس میں کچھ استبعاد یا مانع نہیں ہے، البتہ بعد میں اسی لفظ [مشکل کشا] کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ عقیدت ومحبت میں غلو کرنے والے لوگوں نے یہ سمجھ لیا یا اپنا عقیدہ بنالیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہرزمانہ میں مشکل کشائی فرماتے ہیں اور یہاں تک غلو میں بڑھے جس طرح مصائب میں اللہ پاک کو پکارا جاتا ہے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارنے لگے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ تشبہ بالشرک بلکہ شرک ہی ہے، پس جہاں جہاں یہ مفسدہ ہو یا اس کا اندیشہ ہو تو وہاں ممنوع ہوناظاہر ہے، [12]

دارالافتاء تحریک منہاج القرآن[ترمیم]

حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی نہیں ہر مسلمان کو مشکل کشا ہونا فرض ہے تاکہ بوقت ضرورت وہ مظلوم، مجبور، مسکین، مسافر، بیوہ، یتیم، فقیر کی حسب توفیق مشکل حل کرسکے کیا بھوکے پیاسے کو کھانا پانی نہ دو گے اور اسے بھوک و پیاس سے یہ کہہ کے مار و گے کہ کھلانے پلانے والا وہی رزاق ہے اسی سے مانگو۔[13]

کتب سابقہ میں ذکر[ترمیم]

کتب سابقہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ذکر شریف میں ہے ان کے دو نائب ہوں گے ایک سِن رسیدہ یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور دوسرے جوان یعنی فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فَأَمَّا الْفَتَى فَخَوَّاضُ غَمَرَاتٍ وَدَفَّاعُ مُعْضِلاتٍ وہ جو جوان ہیں وہ سختیوں میں گھس پڑنے والے اور بڑے دافع البلا بڑے مشکل کشا ہوں گے۔[14]

وضاحت[ترمیم]

انبیا اولیاء اور حضرت علی المرتضی اللہ کے حکم سے دافع البلاء اورمشکل کشاہیں جہاں اذن الٰہی نہ ہو وہا ں بلا دفع نہ ہوگی۔ ہر چیز کا یہی حال ہے کہ خدا کے حکم سے نفع یا نقصان دیتی ہے غرض کہ انبیا واولیا ء مافوق الاسباب مدد کرتے ہیں مشکلیں آسان ، مصیبت دور فرما تے ہیں۔اللہ کی عطا سے

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "آرکائیو کاپی"۔ 13 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2019 
  2. http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%85%D8%B4%DA%A9%D9%84-%DA%A9%D8%B4%D8%A7-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%9F.28395/
  3. فضائل صحابہ از امام احمد بن حنبل، ج 6 ص 565، ح 952
  4. کتاب السنہ از ابن ابی عاصم: 983
  5. یوسف:93
  6. یوسف:96
  7. یوسف:24
  8. ال عمرٰن:49
  9. البقرۃ:60
  10. مریم:19
  11. النساء:64
  12. "آرکائیو کاپی"۔ 22 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2019 
  13. https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1918/
  14. السيرة الحلبية ،ج 1 ص 391 دار الكتب العلمية - بيروت