مفتى عميم الاحسان
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
یہ مضمون اشتہار بازی کے زمرہ میں آتا ہے؛ لہذا دیگر صارفین سے بھی گزارش ہے کہ مضمون کے متعلق معلومات حاصل کرکے اس میں اضافہ فرمائیں، بصورت دیگر اسے حذف کیا جاسکتا ہے۔ |
سید محمد عمیم الا حسان بر کتی (বাংলা: মুফতী সাইয়্যেদ মুহাম্মদ আমীমুল ইহসান বারকাতী ) (English :Mufti Amimul Ehasan) آپ اپنی ذات میں مفتی، محدث، فقیہ اور بیشمار دینی کتابوں کے مصنف کے حیثيت سے مشہورتھے ۔
ولادت
[ترمیم]مفتی صاحب کی ولادت 1911ء 24 جنوری، 1329ھ 22 محرم بروز پیر ہوئی۔ آپ کے والد سید حکیم عبد الالمنان اور والد ہ ما جدہ سید ہ سا جدہ خاتون۔
تعلیم و تربیت
[ترمیم]مفتی صاحب کی ابتدائی تعلیم و تر بیت اپنے والد اور چچا کے پاس ہوئی۔ اپنے چچا سید عبد الدیان کے زیر نگرانی 5 سال کے عمر میں قرآن ختم کیا۔ کم عمر ی سے اپنے چچا کے ساتھ سید ابو محمد برکت علی شاہ کے محفل میں جا یا کر تے تھے۔ آپ نے دس سال کی عمر میں سید برکت علی شاہ کے ہاتھو ں بیعت ہوئے اور اپکے نامِ نامی میں برکتی کا اضافا ہوا۔ آپ اپنے چچا کے زیر نگرانی کلکتہ عالیہ مدرسہ میں داخل ہوئے
دنیاوی ذمہ داری
[ترمیم]1927 میں مفتی صاحب کے والد محترم کا انتقا ل ہوا۔ انتقا ل سے دو ماہ قبل مفتی صا حب کو ا اپنا وارث اور جانشین مقّر ر کیا، جلیا ٹولی کی مسجد جو حضرت مفتی صاحب کے خاندان کے زیر سایہ تھی، اس کی امامت اور خطیب کی زمہ داری بھی بخوبی نبھائی۔ 1934 ء میں کلکتہ کی سب سے بڑ ی مسجد - مسجد ناخدا کی امامت اور خطیب کی ذمہ داری بھی سنبھا لی۔ 1935 ء میں انھیں مسجد ناخدا کی دارالافتا میں مفتی اعظم کی ذمہ داری سے بھی نوازا گیا۔ کلکتہ کی مسجد ناخدا کی بطور مفتی انھوں نے بے شمار مشہو ر ومعروف اور نادر فتوے جار ی کیے۔ 1943 ء میں کلکتہ مدرسہ عالیہ میں بطور صدرُالمُدَّرِس آپ نے عہدہ سنبھالا۔ 1947 ء میں جب کلکتہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ منتقل ہوا تو آپ بھی ڈھاکہ تشریف لے آے۔ 1956 ءمیں اپکو ڈھاکہ مدرسہ عالیہ کے ہیڈ مولانا کا عہدہ ملا۔ آپ 1969 ءمیں ہیڈ مولانا عہدسے ریٹائر ہوئے۔
اپکا علمی فیض
[ترمیم]مفتی صاحب اپنے زیادہ تر اوقات مطالع میں صرف کیا کر تے تھے۔ اپکے پاس تقر یباً ساڑ ہے تین ہزار سے زایدہ نادر اور انمول کتابو ں کا ایک زخیرا ہواکرتا تھا، جس سے نہ صرف مفتی صاحب با فیض ہوا کر تے تھے، بلکہ اس دور کہ اکثر و بیشتر علما حضرات بھی فیض یافتہ ہو اکر تے تھے۔ حضرت مفتی صاحب کئی ایک مشہور و معروف دینی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ انھوں نے اپنی حیات میں لا تعد اد کتابوں کی تصنیف کی۔ خاص طور پہ میں ان کے چھوٹے بھای جنا ب سید غفران برکتی نے تعاون کیا۔ ان کے چند مشہور و معروف کتابیں یوں ہیں۔ اتحف الأشرف بحاشىة الكثاف ,الا حسان السارى بتج صحيح البخا رى ,التنوير فى أصول اتفصير ,التبشير فى شرح التنبور فى أصول اتفسير ,الفقه السنن والا شار،من هج اسعداء،عمدة المجا نى بتخريج احديث مكا تيب الأم الر با نى الأربعن فى الصلوة,الأربعن فى المواقيت،الأربعن فى الصلوة على النبى صلى الله عليه و سلم،جامع جوامع الكلم،فهر ست كنزالعمال،مقدمه سنن ابى داؤد،مقدمه مر سيل ابى داؤد،عمل اليل والنهار،ميزان الأخبار،معير الأثار ,حواشى السعدى,تحقة الأ خير،تعليقات البركتى,تخليص المراسيل،اسماء امدلسين والمخطلطين،كتا ب الو ضين،منةالبرى,فتوى بر كتيه,طريقه حج،القرة ,ى الكرة,هدية امصلين،التنبه للفقيه,لب الا صول،ملا بد للفقيه,التعرفات اللفقهيه,أصول الكر خى,أصول المسا ىل الخلا فية,القواعد الفقهية,آدب المفتى,حقة البر كتيه بشر ح آدب المفتى,أو جز السير فى سيرة خيرالبشر،انفع السير ,سيرت بيب اله,رسلئہ حیات عبد السلام،رسلئہ طرقیت،التشرف لأ داب التصوف،تا ريخ اسلام،توريخ انبياء،تا ريخ علم حديث .تا ريخ علم فقه ,الحوى فى ذکر الطحاوی ,تعریفات الفنون وحالات مصنفین، نفع عمیم، مقدمة النحو ,,نحو فارسی ,مجموعه خطبات،مجموعه وعظ وظیفه سعد بر كتيه,شجرہ شریفہ، ,سراجا منيرا ور ميلاد نامه, اداب اردو، شرح شکوہ جواب شکوہ،,مز یل الغفة ىن سمت القبلة, معلم الميقا يت، نظا م الأو قات، دہوپ گڑی، وصيت نامه
وفات
[ترمیم]حکم خدائ ہے کہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ہر شہ کو موت کا مزہ چکھنا پڑے گا۔ 27 اکتوبر 1974 ع میں 1395 ھ 10 شوال بروز اتوار صبح صادق کے واقت آپ اللہ پاک کے دعوت اجل کو قبول فرماتے ہوئے اس فانی دنیا سے رِحلت فرمائے