مفتی عبد الہادی خان بھوپالی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مفتی عبد الہادی خان صاحب ریاست بھوپال کی اواخر میں بھوپال کے عظیم المرتبت مفتی، قاضی، بے مثل عالم دین تھے۔


ولادت[ترمیم]

حضرت مفتی صاحب 1309ھ میں مقام چھاؤنی بھوپال میں پیدا ہوئے ۔

والد محترم کی وارتنگی سے بھوپال آمد[ترمیم]

مفتی صاحب کے والد مولوی عبد الاحد وارتنگی میں پیدا ہوئے ، بعد تکمیل اپنے بھائی مولانا عبد الصمد کی دعوت پر بھوپال تشریف لائے ، مدرسہ جہانگیریہ میں مدرس ہوئے ،  جس کو نواب شاہ جہاں بیگم  نے اپنے والد کی یادگار میں حفظ قرآن اور عربی دینی تعلیم کے لیے قائم کیا تھا، اس مدرسہ میں ایک ہزار طلبہ تعلیم پاتے تھے اور دو سو ڈھائی سو ہر سال حافظ ہو کر نکلتے  تھے ، مدت العمر اسی پاکیزہ مشغلہ میں رہ کر 1329ھ میں انتقال فرمایا، ساٹھ سال سے کم عمر پائی ، بقول حضرت مفتی صاحب وہ نہایت بزرگ عالم باعمل ، ذاکر وشاغل سیدھے سچے مسلمان تھے، اپنی اولاد پر بیحد مشفق و مہربان تھے، ان کی قبر مسجد باجوڑیان کے قریب ہے۔

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کرکے شوق علمی کی بنا پر جس عالم کی مہارت فن کی خبر ملتی ، اس کی خدمت میں حاضر ہوتے اور استفادہ کرتے اور جب تک اس علم کی تکمیل نہ کرلیتے دامن نہ چھوڑتے، درسی تعلیم کے دوران ایک کم سن بچہ کو تراویح پڑھاتے دیکھ کر حفظ قرآن کا شوق پیدا ہوا، چپکے چپکے حفظ کرنا شروع کر دیا، پھر ایک سال خالص حفظ میں لگایا، 1327ھ میں پہلی بار محراب مسجد باجوڑیان میں سنائی ، حدیث و فقہ حافظ عبد العزیز صاحب ، منطق و فلسفہ علامہ عبد الحق رامپوری ، شاگر دعلامہ فضل حق خیرآبادی اور پیر محمد قندھاری اور ریاضی مفتی عنایت اللہ خلف مفتی لطف اللہ علی گڑھی سے پڑھی ، سند حدیث علامہ شیخ حسین عرب سے حاصل کی، حافظ عبد العزیز نے ا ن کے شوق علمی کی بناپر طالب علمی کے زمانہ میں ہی اپنی فرزندی میں لگ گیا۔

طب[ترمیم]

شادی کے بعد طب کا شوق پیدا ہوا، اول حکیم نور الحسن صاحب سے طب کا آغاز کیا، پھر حکیم محمد احسن حاجی پوری کی خدمت میں  اورنگ آباد پہنچ کر تکمیل کی ۔

تدریس و علمی خدمات[ترمیم]

جب دکن سے بھوپال واپس ہوئے تو حافظ صاحب کا انتقال ہو چکا تھا، تو سرکارعالیہ نے 1326ء میں مدرسہ سلیمانیہ کا مدرس دوم مقرر کیا، مولانا فتح اللہ مہتمم تھے، اس دور میں ہر فن کی کتابیں ان کے زیر درس رہیں ، 1919ء 1337ھ میں مفتی قاری عبد الہادی خان کے نائب ہوئے اور قاری صاحب سے فتوی نویسی کا کام سیکھا، پھر مہتمم ہوئے ، ان مراحل سے گزرنے کے بعد 1926ء میں مہتمم عبیدیہ مدرسہ و احمدیہ اور رکن مجلس العلماء بنائے گئے۔

تصنیفی خدمات[ترمیم]

حضرت مفتی صاحب علم و حلم کے پیکر وقار و تحمل کے پہاڑ جامع العلوم انسان تھے ، مفتی صاحب ذوق تالیف سے بھی بہرہ ور تھے ، چنانچہ مولانا ذو الفقار صاحب کے مشوہ سے تفسیر مدارک کے تحشیہ کا کام انجام دیا، جس کا پہلا پارہ اصح المطابع لکھنؤ سے 1334ء میں شائع ہوا، پھر اس کو کامل و مکمل کیاجس کے چودہ پارے طبع ہو سکے ، اس علمی خدمت پر ریاست حیدرآباد سے ایک عرصہ تک وظیفہ ملتا رہا۔

مفتی صاحب بہ حیثیت مفتی و قاضی بھوپال[ترمیم]

یکم ستمبر 1931ء میں مفتی بھوپال کے منصب جلیل پر فائز ہوئے ، جس کا سلسلہ انقلاب 1947ء کے بعد تک جاری رہا، قاضی شعیب صاحب کے استعفاءکے بعد قاضی القضاۃ کے عہدہ پر فائز ہوئے ، اس خدمت کو انجام دیتے ہوئے 1388ھ مطابق15 اگست 1961ء میں رحلت فرمائی۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ قضاۃ و مفتیان بھوپال : 350