مندرجات کا رخ کریں

ملک سونا خان بے وس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ملک سوناخان بے وس سرائیکی کے بڑے مقبول شاعر ہیں مصورِغم سے معروف ہیں

ولادت

[ترمیم]

24 نومبر 1940ء کو ضلع بھکر کے قصبے دُلے والا میں پیدا ہوئے۔ان کی ذات راں ہے

تعلیم

[ترمیم]

واجبی سے تعلیم حاصل کی صرف مڈل تک تعلیم حاصل کی

شاعری

[ترمیم]

1952ء میں المیہ شاعری پڑھ کر شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اپنی مادری زبان سرائیکی میں شعر کہنے شروع کیے۔ لالہ عیسیٰ خیلوی کے والد بزرگوار بابا احمد خان نیازی کے ساتھ 1963 سے خاص تعلق بنا اور بعد میں جب لالہ جی(عطاء اللہ خان نیازی) نے گلوکاری کے میدان میں قدم رکھا تو مصورِغم نے اپنا خوبصورت کلام لالہ جی کو نوازا۔

پہلا دوھڑہ

[ترمیم]

کر ظلم دی بارش پیار اُتے۔۔۔۔۔ 1974 میں طارق عزیز شو جو اس وقت ”نیلام گھر“ کے نام سے مشہور تھا اس میں گایا۔ لالہ جی نے بابا جانی کا پہلا گیت ”روندیاں نیں جگ وچ اکھیاں نیمانڑیاں“ گایا۔ عطاء اللہ خان نیازی اور سونا خان بے وس کی محبت آج تک قائم و دائم ہے۔لالہ جی نے بابا جانی کا اب تک کا آخری کلام خواجہ غلام فریدؒ کی کافی ”دلڑی لٹی تئیں یار سجنڑ“ میں ہر انترے کے ساتھ دوھڑہ گایا ہے۔ ان کے 487 دوھڑے اور 82 گیت اور غزلیں لالہ نے گائے ہیں اور ھر گیت ایک شاھکار گیت بنا جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔

  • اللہ دی امان ھووی
  • بہوں تڑپایا ای ڈھول ناداناں
  • میڈی بے کسی دا تماشا بنڑا کے
  • میکوں اپنڑی لٹی زندگی دا نئیں ارمان
  • میڈا سوھنڑا ڈھولا کجھ تاں ڈساویں ھا
  • کیوں تڑپیندائیں ڈس بئی ایماناں
  • بیدرد سجنڑ کوں ھر ویلے
  • تیکوں اپنڑا عہدِ وفا یاد ھوسی
  • آمیڈے دل دی لٹی دنیا کوں جلدا
  • دلاں دے تاجر او دنیا والو
  • قسمت چنگی جو ناھی
  • ڈیکھو عروج والو
  • لُٹ پُٹ کے سکھ چین ڈکھی دا
  • انداز اوپرے ھن
  • برگِ حنا تے ول ول کے ناں
  • تیڈے کول حسرتاں دی بارات
  • ناکام کہانی الفت دی
  • توں خوش وس تیڈا وطن وسئے
  • مختار غریب دی زندگی دا
  • رات ڈینہاں پچھتاندی پئی آں
  • میڈی ھر خوشی دا قاتل
  • جو گزریاں واہ واہ گذر گئیاں
  • اے نئیں سوچا ساڈی غربت
  • دغا باز سنڑدی ھامی
  • میڈی محبت میڈی وفا کوں
  • تیڈے پیار دی ابتدا منگدا راھنداں
  • اساں رج کے بدنصیب ہاں
  • جیسے لازوال شاھکار شامل ہیں۔

سیرت وکردار

[ترمیم]

ملک سونا خان بے وس ایک درویش سادہ لوح خلوص سے پُر ایک میٹھے انسان ہیں۔ اس درویش انسان نے آج تک اپنا قلم نہیں بدلا۔ ان کے گیتوں غزلوں نظموں اور دوھڑوں جہاں ھجر و فراق کے تپتے دنوں کی روشنی اور حرارت ہے وہاں درد و سوز میں پنہاں ٹھنڈی راتوں کی دلگداز چاندنی بھی ہے۔ وہ اپنے ھر مصرعے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری لاتعداد واقعات، انگنت مشاھدات، بے شمار موسم اور دن اور رات کے بدلنے کا منظر پیش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصور ِغم کا ھر مصرع میٹھا اور رسیلا ہے۔ انھوں نے کسی مٹیار کو نچ نچ پیلاں پانے کو نہیں کہا اور نہ چمٹا وجایا۔ نہ کسی صنف نازک کے لب و رُخسار کو اپنی شاعری میں وضع کیا۔ وہ اپنے کلام کو درد کی سیاہی میں ڈبو کر درد بھرے جذبات کی داستاں لکھتے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو اگر مصورِغم جیسے بلند پایہ شاعر نہ نصیب ہوتے تو کبھی وہ ”درد کا سفیر“ نہ بنتے۔ اگر کونج انسانی زبان میں نالہ کناں ہوتی تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ بالکل مصورِغم کے گیتوں اور دوھڑوں میں اپنا درد بیان کرتی۔ ملک سونا خان بے وس ایک شاعر ہی نہیں ایک ادارے کا نام ہے، ایک انسٹی ٹیوٹ کا نام ہے، ایک اکیڈمی کا نام ہے۔

نمونہ کلام

[ترمیم]
  • خزاں تیڈے گلشن دے نیڑے نہ آوے
  • نسیم ِ سحر تیڈی محتاج راھوے
  • بہاراں تیڈے در تے ڈیون سلامی
  • ایہا ھر قدم تے دعا منگدا راھنداں[1]

حوالہ جات

[ترمیم]