موراں
طوائف کو پنجابی میں کنجری کہا جاتا ہے۔ اس زمانے کی ایک مشہور مسلم طوائف موراں کو راجہ رنجیت سنگھ بہت پسند کرتا تھا۔ لاہور امرتسر روڈ پر واہگہ سے ایک دو کلومیٹر انڈیا کی طرف ایک مشہور تارئخی عمارت اور تفریح گاہ ہے جس کو کنجری والا پل کہا جاتا ہے۔ مہا راجا رنجیت سنگھ نے اس کنجری کے مرنے بعد اس مقام پر اس کنجری کا مقبرہ بھی بنوایا تھا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے شاہدرہ لاھور میں نور جہاں کا مقبرہ ۔ یہ کنجری کا پل ایک تاریخی جگہ ہے یہ تاریخی مقام مغل بادشاہ شاہ جہاں کا بنوایا ھوا ہے۔ اور نور جہاں کے مقبرہ سے زیادہ خوبصورت ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل اس کو مشرقی پنجاب کی حکومت نے تزئین اور آرائیش کے بعد عوام کے لیے بحال کیا ہے۔ اس کنجری کا تعلق مانوالہ یا اس کے کسی اردگرد کے گاؤں سے تھا۔ اس نے پنجاب میں اپنی کمائی سے راستوں پر اور آبادیوں میں کئی کنوئیں بنوائے تھے اور چند پل بھی بنوائے تھے تاکہ مقامی آبادی اور مسافروں کو آسانی ھو اور اپنی پیاس بھی بجھا سکیں۔ یہ کنجری والا کھوہ اور مقام بھی اس کے نام سے منسوب اس کنجری کی یاد گار ہے پنجاب کی مہارانی موراں سرکار ایک طوائف تھی یوں تو مہاراجا رنجیت سنگھ کی زندگی کی کہانی جنگی مہمات، گھوڑے، شراب اور خوبصورت عورتوں کے ارد گرد بھی گھومتی ہے مگر اس کی مشہور زمانہ گھوڑی لیلئ کے علاوہ ایک عورت بھی ایسی تھی جس کے حصول کے لیے اس کو بڑی قیمت چکانی پڑی تھی۔ یہ قیمت اس کو ایک طرف غیر سکھ عورت سے بیاہ کرنے پر ہرمندر صاحب ( گولڈن ٹمپل دربار صاحب امرتسر ) کے اکال تخت کے زیر عتاب ہونے کی صورت میں تھی تو دوسری طرف ایک کنجری کو مہارانی کا رتبہ دینے پر شرفاء کی ناپسندیدگی کی شکل میں۔ وہ بھی ضد کا پکا تھا جو اس نے ایسا نبھا کیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ پورے پنجاب کا حکمران رنجیت سنگھ کا اپنے نام کا کوئی سکہ نہیں تھا وہ خالصہ سرکار کا رائج الوقت سکہ نانک شاہی ہی چلایا کرتا تھا البتہ اس نے اپنی محبوبہ کے نام کا سکہ جاری کرکے ایک طوائف کو موراں سرکار کے درجے پر فائز کیا تھا۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]- اس صفحہ ”موراں“ کے تبادلہ خیال پر بھی اہم معلومات موجود ہیں۔ پڑھنے کےلیے تبادلۂ خیال:موراں پر کلک کریں۔