میاں صاحب قصہ خوانی
میاں صاحب قصہ خوانی ان کا اصل نام میاں نصیر احمد پشاوری تھا
نام ونسب
[ترمیم]ان کا نام میاں نصیر احمد لقب شیخ العلماء،استاذ الاساتذہ، عالم قرآن و سنت المشہور میاں صاحب قصہ خوانی قطب شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے
ولادت
[ترمیم]ان کی ولادت 1228ھ 1813ء پشاور میں ہوئی
تعلیم
[ترمیم]الحاج میاں نصیر احمد صاحب نے صوبہ سرحد کے علما سے علوم متداولہ کی تکمیل کی۔ اپنے وقت کے علامہ اجل فاضل اکمل مفسر قرآن ، شارح حدیث حضرت مولانا مولوی محمد احسن صاحب پشاوری سے سند فراغت حاصل کر کے مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوئے۔آپ کے تحبر علمی کا شہرہ سن کر دور دراز سے طلبہ آنے لگے ۔ اورآپ کے وجود نے ایک علمی مرکز کی حیثیت حاصل کرلی ۔ آپ کے درس میں کابل ، بلخ اور بخارا تک کے طالبان علم موجود تھے ۔ فارغ التحصیل علما آپ سے اکتساب علوم کرتے۔
تعمیر مسجد
[ترمیم]پشاور شہر میں آپ نے ایک جامع مسجد تعمیر کروائی ، یہ مسجد تبلیغ و تدریس کا مرکز تھی۔ اس مسجد کا نام ہی آپ کے نام سے موسوم ہے۔ یعنی ’’ مسجد میاں صاحب قصہ خوانی ‘‘ اسی طرح یہ مسجد عقائد حقہ اہل سنت و جماعت کی تبلیغ کا مرکز ہے اور حضرت صاحب کے وقت سے لے کر اب تک اس مسجد سے احیا ء دین ہو رہا ہے اور اسی طرح قرآن و حدیث کا درس جاری ہے۔
تبصرہ کتب
[ترمیم]آپ نے بہت کتابوں پر تبصرے لکھے ۔ کافی کتابوں کی تصحیح کی۔ حواشی لکھے اور عقائد باطلہ پر کتابیں لکھیں ۔ منح الباری شرح صحیح البخاری پارۂ اوّل مصنفہ ، حافظ دراز صاحب پشاوری ؒ کی تصحیح کر کے چھپوائی ۔ ’’ اسرار الطریقت ‘‘ مصنفہ قطب العالم سید شاہ محمد غوث پشاوری ثم لاہوری کی تصحیح کی اور شائع کی۔ ’’اسماء الحسنی ‘‘ کی شرح فارسی میں لکھی ۔ علم نحو کی مشہور کتاب ’’ کافیہ ‘‘ کی مکمل ترکیب لکھی ۔ ’’ شاطبی ‘‘ پر حواشی لکھے اور غیر مقلدین کے رد میں عربی میں ایک مستقل کتاب مسمی بہ ’’ احقاق الحق ‘‘ لکھی جس میں تفصیل کے ساتھ اس فرقہ کا رد فرمایا ہے۔آپ کے کتب خانہ میں تقریباً چھ ہزار کتابیں تھیں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔
شاگرد
[ترمیم]حضرت میاں صاحب کے ویسے تو ہزاروں شاگرد تھے ، جناب ملا منصور صاحب معقولی ، جناب حافظ سر بلند صاحب، جناب قاضی صاحب بڈھنی (جن کی فقاہت کا سکہ صوبہ سرحد میں بیٹھا ہوا ہے اور آپ کا فتویٰ جاری ہے) جناب حافظ صاحب بدھائی ، جناب مفتی عظیم اللہ صاحب ، جناب قاضی سراج الدین صاحب ، جناب مفتی صاحبزادہ شکر دین صاحب معقولی ۔ استاذ کل پیر علی شاہ صاحب ڈھکی نعلبندی ۔ شیخ المشائخ الحاج آقا سید سکندر شاہ صاحب قادری چشتی ؒ، جناب خان بہادر کریم بخش صاحب سیٹھی ، وغیرہ وغیرہ ان میں سے ہر صاحب ، علوم متداولہ میں مکمل گذرے ہیں۔ صوبہ سرحد میں دین اسلام کے روشن اور جگمگاتے ستارے تھے۔ کوئی قرآن ، حدیث اور فقہہ میں خصوصیت رکھتا تھا تو کوئی عرفان الہٰی اور سلوک و تصوف کا حامل تھا۔ توکوئی علوم عقلیہ و نقلیہ میں یکتائے وقت تھا۔ اور آج تک ان کے فیض یافتہ اور شاگرد ہمت و استقلال کے ساتھ دین محمدی ﷺ کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ میں تحقیق حق کا جذبہ صادقہ اپنی نرالی شان رکھتا تھا۔ معاصر علما کے اختلاف کو آمنے سامنے بیٹھ کر تحقیق فرماتے۔
فتاویٰ
[ترمیم]ایک بار علما سوات نے بسر کردگیء شیخ الاسلام و المسلمین حضرت اخوند صاحب سوات ؒ فتویٰ دیا کہ بغیر محراب کے جماعت نہیں ہوتی ، یہ مسئلہ پشاور پہنچا آپ دیکھ کر حیران ہو گئے۔ یہاں سے شیخ المشائخ حضرت آقا پیر جان صاحب قادری ؒ، حضرت آقا سید سکندر شاہ صاحب قادری چشتی ؒ ، مولینا مولوی سراج الدین لاہوری کو ساتھ لے کر تحقیق حق کے لیے سوات تشریف لے گئے۔ حضرت شیخ الاسلام والمسلمین باباجی صاحب سواتؒ کے ہاں قیام کیا اور مسلسل تین دن تک ان علما سے گفتگو ہوئی۔تحقیق حق کی گئی اور پہلے فتویٰ پر نظر ثانی کرنے کے بعد دوبارہ شریعت محمدیہ کے مطابق فتویٰ دیا گیا ۔ جناب حضرت اخوند صاحب سوات ؒ نے ان صاحبان کی بڑی قدر و منزلت کرتے ہوئے رخصت کیا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے پیشتر ہمارے علاقہ میں شریعت اسلامیہ کے مسائل کی تحقیق و تفتیش کا کتنا زبردست دینی جذبہ موجود تھا۔ اور اگر کسی دینی مسئلہ میں نزاع پیدا ہوجاتا تو علما اور مشائخ یکجہتی کے ساتھ مسئلہ کو حل فرماتے تاکہ امت محمدیہ ﷺ تشتت و افتراق کا نشانہ نہ بنے۔آپ کا فتویٰ صرف پشاور ہی میں نہیں بلکہ تمام علاقہ میں نافذ و رائج تھا۔ باہر علاقہ کے علما کرام جب تک کسی فیصلہ پر آپ کی مہر تصدیق نہ دیکھتے دستخط ثبت نہ کرتے بلکہ آپ ؒکے پاس بھیج دیتے ۔
نسبت
[ترمیم]الحاج میاں صاحب، سلسلہ قادریہ کے خانوادہ نوشاہیہ میں اپنی خاندنی نسبت رکھتے تھے ۔ نیز طریقہ عالیہ قادریہ زاہدیہ میں حضرت شیخ الاسلام و المسلمین اخون صاحب سوات ؒ سے بیعت تھے۔
شاعر
[ترمیم]علاوہ ازیں کہ آپ کے عالم و فاضل بھی تھے ، بہترین شاعر بھی تھے ۔ بہت سے پندونصائخ نظم فرمائے۔ بزرگان کرام کی تعریف و توصیف میں خمسیں، غزلیں اور نظمیں اردو فارسی میں لکھیں ۔ ایک دفعہ الحاج قبلہ محترم عزت مآب آغا سید سکندر شاہ صاحب قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے آپؒ کو کہا کہ ہمارا شجرۂ طریقت نظم فرماویں ۔ آپ نے بزرگان کرام کے اسماء طلب کیے اور اسی وقت نظم فرمادیے۔ ہر ایک شعر ایک در بے بہا ہے ۔ تمام شجرہ طیبہ گویا ایک موتیوں میں پرویا ہوا ایک خوب صورت ہار ہے۔
غرض کہ آپ کی ذات ستودہ صفات ایک مکمل و اکمل ، عالم اجل ، فاضل اکمل ، عارف کامل اور بے نظیر شاعرتھی ۔
وفات
[ترمیم]آپ کی وفات بعمر اسی برس 18 رجب المرجب 1308ھ 1888ء بروز جمعہ بوقت عصر ہوئی ۔ آپ کی وفات پر شہر بند کر دیا گیا ۔ پشاور شہر اور صوبہ سرحد کے ہزاروں لوگوں نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔ [1]
- ↑ تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 167تا 171،محمد امیر شاہ قادری ،مکتبہ الحسن کوچہ آقہ پیر جان یکہ توت پشاور