میر آغا جان کابلی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

میر آغا (آغو)جان کابلی سید شیخ عبدالقادر جیلانی کے سلسلہ نسب سے تھے۔

نام و پیدائش[ترمیم]

نام سید میر اصغر المعروف میر آغا جان، والد کا نام سید میر اکبر ہے۔ وہ 1284ھ میں پیدا ہوئے

آبائی حالات[ترمیم]

آپ کے جدا علیٰ کا مزار شہر کابل میں گذر شہیدان پر ’’ شاہ شہید‘‘ کے نام سے مرجع عوام و خواص ہے۔ ’’ شاہ شہید ‘‘ بغداد شریف سے کابل تشریف لائے تھے۔ جناب سید میر اکبر شاہ صاحب بلند پایہ عالم اور صاحب اثر و وجاہت تھے۔ تمام افغانستان کے لوگ آپ کے زہد و عبادت و سیادت کی وجہ سے انتہائی احترام کرتے۔ آپ کا سلسلہ مبارکہ آبائی قادریہ تھا۔ آپ کا خصوصی شغل تہجد کی نماز سے لے کر صبح کی نماز تک ذکر جہر کرنا تھا۔

بچپن کے حالات[ترمیم]

میر آغا(آغو) جان کی عمر تین برس تھی کہ آپ کے والد کا انتقال ہو گیا۔ جناب میر آغاجان کی پرورش آپ کے بڑے بھائی سید میر احمد شاہ اور والدہ ماجدہ نے کی۔ آپ کی پرورش و تربیت بطریق احسن کی گئی۔ چونکہ آپ کے ماموں اور بھائی قالین اور قراقلی کی پوست کی تجارت کرتے تھے۔ آپ کی تجارت بہت ہی وسیع پیمانہ پر تھی۔ کابل مرکز تھا۔ پشاور، دہلی، کلکتہ، بمبئی اور کوئٹہ میں شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ اکثر پشاور اور دہلی میں رہتے۔

بیعت[ترمیم]

پشاور میں قالین اور پوست کا ایک مشہور دلال تھا جس کا نام اویس قندھاری تھا۔ یہ دلال آپ کا کام بھی کرتا تھا۔ بزرگان کرام کی باتوں باتوں میں اس نے آپ سے حافظ عبدالغفورنقشبندی پشاور کا تذکرہ کیا۔ آپ اس کے ساتھ ان کے مزار پر حاضر ہوئے۔ آپ ؒ کا حافظ صاحبؒ کے ساتھ ایسا مضبوط تعلق او ر رابطہ قائم ہوا کہ وفات تک بلکہ وفات کے بعد تک بھی نہ ٹوٹا۔ آپ نے پہلے تو اس تعلق کا کافی عرصہ تک کسی سے اظہار نہ کیا۔ خود فرماتے تھے میں دس برس تک روزانہ حضرت حافظ صاحب ؒ کے مزار پر حاضر ہوا۔ مگر میں نے کسی سے اظہار نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’ ایک دن میں حافظ صاحبؒ کے مزار پر مراقب تھا کہ آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بھی ( یعنی عالم ہو، زاہد ہو، فقیر و درویش ہو) اگرچہ اویسی ہی کیوں نہ ہو، اس کو ظاہری بیعت کرنی چاہیے۔ لہٰذا تم لاہور جا کر میر جان صاحب نقشبندی کی بیعت کرو‘‘ آپ لاہور میں حضرت میر جان ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت میرجان صاحب بیعت کرنے سے گریز کرتے تھے۔ اور قطعاً عام طور پر مرید نہیں کرتے تھے۔ مگر جب آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بغیر کسی قسم کی گفتگو کرنے کے حضر ت میر جان صاحب ؒ نے آپ کو فرمایا ’’ اگرچہ میں کسی کو مرید نہیں کرتا۔ مگر آپ کو بابا جی ( حافظ عبد الغفور پشاوری ) نے میرے پاس بھیجا ہے اس لیے مجھے مجال انکار نہیں ‘‘ اور آپ کو بیعت کر لیا۔ معمولات بچپن سے لے کر وفات تک آپ نے تہجد کی نماز قضا نہ کی، ختم خواجگان اور اپنے اوراد باقاعدہ پابندی کے ساتھ روزانہ پورے کرتے۔ صبح کی نماز کے بعد مراقبہ کرتے۔ تہجد کی نماز کے بعد صبح کی نماز تک ذکر جہر میں مصروف رہتے۔ پشاور شہر میں بھی آپ نے پنا سارا وقت عبادتوں، ریاضتوں اور مجاہدوں میں گزارا، فیاضی اور سخاوت کا یہ حال تھا کہ جو کچھ آپ کے پاس ہوتا اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے صرف کر دیتے۔ اگر کوئی حاجت مند یا سائل آتا اور آپ کے پاس کچھ نہ ہوتا تو اوڑھے ہوئے کپڑے اس کو دے دیتے، مگر ضرورت مند کو خالی جانے نہ دیتے۔ آپ کثیر الکرامات تھے۔ مگر اپنا حال کسی پر ظاہر ہونے نہیں دیتے تھے۔ بلکہ نہایت عاجزی کرتے اور عاجزی کرنے کی نصیحت بھی فرماتے۔

وفات[ترمیم]

آپ کی وفات بعمر 85 برس بروز بدھ 27 ربیع الاول 1369ھ میں ہوئی اور چھاؤنی میں حافظ عبدالغفور پشاوری کے پہلو میں اس آفتاب ولایت کو سپرد خاک کیا گیا۔

اولاد[ترمیم]

آپ کے دو فرزند ہیں بڑے کا اسم گرامی سید غلام مجدد المعروف آغا گل اور چھوٹے کا اسم گرامی سید غلام ربانی المعروف گل آغا جان ہیں۔ دونوں نور المشائخ کابلی کے مرید اور تکمیل سلوک کر چکے ہیں۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 239 تا 245،محمد امیر شاہ قادری ،مکتبہ الحسن کوچہ آقہ پیر جان یکہ توت پشاور