وادی سندھ تہذیب کا مذہب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

وادیٔ سندھ کی تہذیب سنہ 3300 سے 1700 قبل مسیح تک قائم رہنے والی انسان کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ وادیٔ سندھ کے میدان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کناروں پر شروع ہوئی۔ ان میں کئی مذاہب کے پیروکار بھی موجود تھے۔[1]

دیویاں[ترمیم]

جہاں تک وادی سندھ کے مذہب کا تعلق ہے تو جب تک وادی سندھ کی تحریریں پڑھی نہیں جاتی مذہب کی تفصیل نہیں جانی جا سکتی ہے۔ اب تک جو اثری مواد ملا ہے اس سے کچھ اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔ سندھ طاس میں بے شمار مٹی کی مورتیاں ملی ہیں، جو زنانہ ہیں اور دیویوں کی معلوم ہوتی ہیں جو قریب قریب برہنہ ہیں۔ صرف رومال کے برابر ایک کپڑا ایک ڈور کے ذریعے کمر پر لپٹا ہوا ہے اور عجیب سا سرجامہ سر پر ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے دونوں طرف پیالے کی قسم کی دو شکلیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ نسوانی شکلیں زیادہ تر شکستہ حالت میں پائی گئی ہیں۔ پھر بھی ان کو دیکھنے کے بعد یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ ان کے مذہب میں دیویوں کا تصور تھا اور اہل سندھ ان کی پوجا کرتے تھے۔ ان کو یقناً دیوی ماں سمجھنا کوئی غلط نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کے شواہد ملے ہیں۔ بعض مہروں میں ایک عورت کی تصویر ہے۔ جس کی کوکھ سے ایک ٹہنی پھوٹ رہی ہے۔ یہ یقینا دھرتی ماں کی ذرخیزی کی علامت ہے۔ اس سے دو باتیں طہ ہیں کہ اس مذہب میں ماں برتری کو تسلیم کیا گیا ہے۔ دوسرے اس سماج کی بنیاد زرعی معیشت پر ہے اور زرعی سماج میں عملاً مرد کی بالادستی کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مورتیاں گھروں میں پوجی جاتی ہوں گی اور گھر کا ایک کونا اس کے لیے ہوگا ۔

ایک مہر پر ایک سینگ والی دیوی پیپل کے درمیان کھڑی ہے دوسری سینگ والی دیوی اس کے جھکی ہوئی ہے۔ ایک بکرا جس کا چہرہ آدمی جیسا کھڑا ہے اور دونوں کی طرف عقیدت سے دیکھ رہا ہے۔ بکرے کے پیچھے ایک قطار نسوانی روحوں یا دیویوں کی ہے جن کی تعداد سات معلوم ہوتی ہے۔ یہ دیویاں مذکورہ بالا دونوں دیویوں کی طرف پشت کیے کھڑی ہیں اور آگے کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ ہر دیوی کے سر پر کوئی پودا یا درخت کی ٹہنی ہے۔ پیچھے کی طرف ان کے بال چوٹیوں میں گندھے ہوئے ہیں اور خوبصوتی سے سنورے ہوئے ہیں اور ان کے سروں پر سینگ نہیں ہیں۔ شاید یہ ہندوؤں کی چیچک کی دیوی سیتا ہے جو اپنی سات بہنوں کے ساتھ یہاں دکھائی گئی ہے۔

مرد دیوتا[ترمیم]

دیوی کے علاوہ چند شکلیں دیوتاؤں کی ملی ہیں۔ جن کے سروں پر بیل یا بکروں کی طرح سینگ ہیں۔ شاید بیل اور بکرے ان کے مذہب میں مقدس سمجھے جاتے تھے۔ بعض مہروں پر مختلف جانوروں بھی دکھائی گئی ہیں۔ مثلاً ایک مہر پر تین چہروں اور سینگوں والا دیوتا آلتی پالٹی مارے بیٹھا ہے۔ ایک اور مہر پر اس کے ارد گرد چار جانور ہاتھی، شیر، گینڈا اور بھینس ہے۔ دو ہرن اس کے تخت کے پاس بیٹھے ہیں۔ دیوتا ننگا ہے اور آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے۔ اس سر پر سینگ ہے یہ سینگ بھینس کے ہیں۔ سینگوں کے درمیان کوئی پووا ہے یا مور کی کلغی ہے۔ اس کا عضو استیادہ ہے۔ یہ یقیناً ذرخیزی کا دیوتا ہے۔ مارشل کا خیال ہے یہ شیو کی ایک پرانی شکل ہے۔ یہ شیو کی ترمکھی مورتی سے ملتی جلتی ہے۔ یہ مہریں نہایت نفیس ہیں اور یقینا حکمراں طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ دیوتا چہرے پر بھیانک تاثرت رکھتا ہے جو حاکم کے ہو سکتے ہیں۔ بعد میں جب ہندوؤں میں شیو دیوتا کا تصور عام ہوا تو وہ اسی دیوتا سے ماخوذ تھا۔ شیو جانوروں کا آقا اور یوگیوں کا راجا ہے۔ اس کے برعکس دیوی ماں کی مورتیاں جو پختہ مٹی کی بنی ہوئی بھدی تخلیقات ہیں یقینا عوام اور نچلے طبقے کی ملکیت تھیں ۔

لنگ یا شیو لنگ پوجا[ترمیم]

ہندو مذہب کی علامت شیو لنگ پوجا کا نشان یہاں ملتا ہے۔ موئن جو دڑو اور ہڑپا میں کچھ مستدیر شکل کے پتھر دستیاب ہوئے ہیں۔ جن کے متعلق یقین کیا جاتا ہے یہ لنگ ہیں۔ ہندوؤں اس کی پوچا شیو سے مخصوص ہے۔ مگر وادی سندھ میں اس کی پوچا کس دیوتا کے متعلق ہے کہا نہیں جا سکتا ہے ۔

انسانی قربانی[ترمیم]

ہڑپہ سے ایک مہر ملی ہے جس میں ایک مرد درانتی لیے کھڑا ہے اور زمین پر ایک عورت پڑی ہوئی کچھ التجا کر رہی ہے۔ اس سے خیال ہوتا ہے کہ اس زمانے میں انسانوں کی قربانی کی جاتی ہوگی۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس دیوی یا دیوتا کو راضی کرنے کے لیے کن موقعوں پر کی جاتی ہوگی ۔


مذہب کا انتظامی تعلق[ترمیم]

اس تہذیب میں تجارت، ذرائع آمد و رفت اور مذہب میں ایک انتظامی تعلق بھی محسوس ہوتا ہے۔ لگتا ہے کافی سارا مال تجارت مذہبی پیشواؤں کی ملکیت ہوتا تھا اور سارا تجارتی سامان پجاریوں کی حفاظت میں چلتا تھا۔ جو جگہ جگہ گھاس پھوس کی جھوپنڑوں میں رہتے ہوں گے۔ کیوں کہ پختہ مندر کہیں نہیں ملے۔ تجارتی قافلے کم از کم ان کی دعا اور بدعا کی اطاعت میں رہتے ہوں گے۔ جو مہریں ملی ہیں ان میں سے بعض مذہبی پیشواؤں کی معلوم ہوتی ہیں۔ ہر مہر تجارت کو مہر بند کرنے کے کام آتی ہوں گی۔ مہر سامان تجارت کو مہر بند کرنے کے کام آتی ہوگی اور متعلقہ فرد، قبیلے، اہلکار، حاکم یا سردار کی ملکیت کو ظاہر کرتی ہوگی۔ ہو سکتا ہے یہ سرکاری افسروں کی مہریں ہیں جو تجارت کی بوریوں یا گٹھڑیوں کو مہر بند کرنے کے لیے ان پر لگاتے ہوں اور منزل مقصود پر پھر افسر ہی ان گٹھڑیوں کو کھولتے ہوں گے ۔

وادی، سندھ بنیادی طور پر زرعی ہے۔ دیوی ماں، مْقدس درخت، شجر حیات، لنگم دیوتا، یونی دیوی یہ سب مقامی تصورات ہیں اور زرخیزی اور مذہب تعلق رکھتے ہیں۔ اس دور میں بنیادی استحصال زرعی معیشت سے تعلق رکھتا تھا۔ لہذا سماج کے غالب مذاہب اسی جانب سے ہونا لازمی تھے اور ان سب مذاہب کی بنیاد دیوی ماں پر تھا۔ اس کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب سے کوئی قد آدم یا دیو قامت مجسمے نہیں ملے۔ نہ کہیں چٹانوں پر کندہ عبارتیں ملیں۔ اگرچہ مذہب کی گرفت اجتماعی تھی، مگر عبادات کی ادائیگی انفردی معاملہ تھا۔ اشنان ایک مذہبی عبادات تھی اور مذہبی باولیاں بن چکی تھیں۔ کہنا مشکل ہے کہ موہنجودڑو کا بڑا اشنان گھر دیوی ماں اشنان گھر تھا یا کسی اور دیوتا کا۔ لیکن شاندار تعمیر اس کے شاہی ملکیت ہونے کا ثبوت کافی ہے۔ جس کی بنا پر اسے دیوتا کا اشنان گھر سمجھنا زیادہ قرین قیاس ہے ۔ لگتا ہے مذہب کی گرفت کافی سخت تھی۔ جس کی وجہ سے یہ تہذیب تیرہ سو یا پندرہ سو سال زندگی میں زرا بھر اندرونی اور بنیادی تبدیلی سے دوچار نہیں ہوئی۔ نہ مادی ثقافت میں تبدیلی ہوئی نہ فکری۔ رسم الخط اس عرصے میں ذرا پھر بھی ارتقائ پزیر ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سماج پر غلبہ تاجر طبقے کا تھا۔ جو منافع اور مذہب دونوں پر اجارہ رکھتا تھا۔[2][3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. وادیٔ سندھ کی تہذیب کا مذہب: مختلف عقائد www.hinduwebsite.com۔ اخذ کردہ بتاریخ 2 جولائی 2017ء
  2. یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور۔ 1989 سنگ میل پیلی کشنز لاہور
  3. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم