پروفیسر ڈاکٹر نسیم اختر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پروفیسرڈاکٹر نسیم اخترڈائریکٹر سرائیکی ایر یاسٹٹدی سنٹر ملتان ہیں۔ انھیں سرائیکی زبان و ادب میں پہلی خاتون پی ایچ ڈی ڈگر ی لینے کا اعزاز حاصل ہے ۔ آپ کی پیدائش 5جولائی 1974ء کو ڈیرہ غازی خان میں ہوئی آپ کاتعلق بلوچ فیملی سے ہے آپ کے والد کانام سردار نبی بخش خان تھا وہ بلوچی اور سرائیکی دونوں زبانین بولتے تھے آپ کے والد سردار نبی بخش خان اپنے علاقے کے نمبردار اور زمیندار تھے آپ کا بہن بھائیوں میں دوسرا نمبر ہے ۔ ڈاکٹر نسیم اختر نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی محلہ ایم سی پرائمری اسکول نمبر 9 سے حاصل کی ۔ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول نمبر 2 ڈیرہ غازی خان سے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا اور سکالر شب کی بھی حقدار ٹھہریں ۔ گورنمنٹ کالج برائے خواتین ڈیرہ غازی خان سے بی اے کا امتحان پاس کیا اس کے بعد ایم اے انگلش میں داخلہ لیا اور ساتھ ایم اے اردو بھی پاس کرلی۔ اس کے بعد ایم اے سرائیکی پاس کی اس کے بعد سرائیکی ادب میں ایم فل اور پھر آپ نے پی ایچ ڈی کی جو سرائیکی ادب پر عالمی ادبی تحریکوں کے اثرات کا جائزہ آپ کاتحقیقی مقالہ تھا (جدید سرائیکی شاعری پر صنفی لحاظ سے عالمی ادبی تحریکوں کے اثرات بے شمار ہیں لیکن موضوعات کے لحاظ سے جدید سرائیکی شاعری کے موضوعات وسیبی ، زمینی ہیں جو اس کے کلچر سے تعلق رکھتے ہیں ) اور آپ کا سرائیکی زبان و ادب میں پہلی خاتون پی ایچ ڈ ی کرنے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے۔ آپ نے نہ صرف تعلیم میں بہترین کااگردگی کی حامل رہی ہیں بلکہ کھیلوں میں بھی تعلیم کی طرح مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ کالج میں والی بال کی بہترین کھلاڑی رہی ہے کالج کے مقابلوں میں اتھلیٹ بھی رہی ہے 4 سال تک پاکستان انٹر کالج لیول تک میچز کھیلے اور بی اے کے بعد یہ سلسلہ ختم کیا۔ آپ کی سلیکشن پہلے بطور لیکچرار ایجوکیشن کالج ملتان میں ہوئی۔ ڈاکٹر نسیم اختر نے جنوری 2007ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کو جوائن کیا ۔

تصانیت[ترمیم]

ڈاکٹر نسیم اختر نے کئی تصانیف لکھی ہے جن کے نام یہ ہیں۔

  • میں تووہ ہوں ،1998ء
  • سرائیکی ثقافت، 2006ء
  • گوشہ عتیق فکری،2007ء
  • دیوان عارض معہ ، ڈوہڑجات احمد یارفریدی،2008ء
  • اماں سئیں ،2008ء
  • چولستان لوک کہانیاں،2009ء
  • آپا صفیہ کا تیسرا آنسو،2010ء
  • سچل سرمست کا سرائیکی کلام،2011ء
  • سرائیکی افسانے وچ خواتین دے مسائل ،2012ء
  • سرائیکی ضرب الامثال اور سرائیکی وسیب،2014ء
  • ذبح نامہ،2015ء
  • دیوان سید ولایت شاہ بخاری2016ء

ان کے علاوہ درجنوں مقالات بھی شامل ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]