کائنات اور عاقل مسبب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

کائنات ایک کلامی مفہوم ہے جس کی تاویل مختلف طریقوں اور نظریات کے تحت کی گئی ہے، کائنات کی ماہیت پر فلسفیوں نے ان بہت سارے نظریات میں سے جس نظریہ پر سب سے کم اختلاف کیا ہے اس کے مطابق کائنات کا “مفہوم” یہ ہے کہ یہ زمانی – مکانی فضاء کے رقبے کا نسبتی حجم ہے جس میں عاقل وغیر عاقل مخلوقات رہتی ہیں، جیسے ستارے، سیارے، کہکشائیں اور جاندار۔

کائنات کی ماہیت پر آراء ہمیشہ مختلف رہی ہیں، یہیں سے مختلف قدیم فلسفے اور عقائد نے کائنات کا ایک خاص تصور تشکیل دیا اور اسی کے بطن سے گویا جدید فلسفوں اور عقائد نے کائنات کے مفہوم کی تاویل پیدائش سے ارتقا اور اختتام تک مختلف انداز میں کی۔

کائنات کی ابتدا کے حوالے سے بھی کثیر تعداد میں نظریات وضع ہوئے، کسی نے دعوی کیا کہ کائنات نے خود کو از خود تخلیق کیا، تو کسی نے کہا کہ خدا یعنی “عاقل مسبب” ہی اس کا خالق ہے، جبکہ تمام مذاہب بھی خدا کو ہی کائنات کا خالق گردانتے ہیں۔

ماضی میں اختلاف اس بات پر تھا کہ کیا کائنات ازلی یعنی ہمیشہ سے ہے یا اسے تخلیق کیا گیا ہے، طبیعیات کے قوانین کے مطابق اگر کائنات ازلی ہوتی تو یہ اب تک توازن کے مرحلے تک پہنچ چکی ہوتی جس کا مطلب ہے کہ کائنات کی نہ صرف ایک ہی کمیت ہوتی جس کی تمام تر صفات اور خصوصیات ایک ہوتیں بلکہ اس کا درجہ حرارت بھی ایک ہی ہوتا کیونکہ حرارت گرم جسم سے سرد جسم تک اس طرح منتقل ہوتی ہے کہ آخر میں دونوں اجسام کے درجہ حرارت میں توازن آجاتا ہے، اسی طرح مادہ بھی زیادہ کثافت والے علاقے سے کم کثافت والے علاقے تک منتقل ہوتا ہے اور آخر کار یہ بھی متوازن ہوجاتا ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کائنات ازلی نہیں ہے کیونکہ یہ ابھی تک کسی قسم کے توازن کے مرحلے تک نہیں پہنچی ہے اور نہ ہی اس کے امکانات ہی نظر آتے ہیں۔

اس سب سے ہٹ کر چار نظریات ایسے ہیں جو کائنات کے وجود کے حوالے سے بحث کرتے ہیں، ان چار نظریات کے ذریعے ہم ان دیگر تمام نظریات کو مسترد کر سکتے ہیں جو کائنات کی ابتدا کے حوالے سے ہمیں کچھ نہیں بتاتے جو یہ ہیں:

1- کائنات نے خود کو از خود تخلیق کیا۔ 2- کسی دوسری کائنات نے کائنات کو تخلیق کیا۔ 3- کائنات عدم سے وجود میں آئی۔ 4- خدا یا عاقل مسبب نے اسے تخلیق کیا۔

پہلا نظریہ: کائنات خود کو از خود تخلیق نہیں کرسکتی کیونکہ یہ موجود ہی نہیں تھی چنانچہ جو چیز ہے ہی نہیں وہ موجود کیسے ہو سکتی ہے؟ ایجاد کا فعل فاعل کے بغیر وقوع پزیر نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے انجام دینے کے لیے کوئی فاعل ہی نہیں ہے۔

دوسرا نظریہ: یہ نظریہ بھی پہلے نظریے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی دوسری کائنات اس کائنات کے وجود کا سبب بنی ہے تو پہلی کائنات کو کس نے بنایا؟ اسی لیے اس نظریہ کو ہم نا معقول قرار دیتے ہوئے اسے خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔

تیسرا نظریہ: عدم سے کسی چیز کے وجود میں آنے کو عقل تسلیم نہیں کرتی، ذرا سوچیے کہ آپ نے ایک کرسی بنانی ہے مگر آپ کے پاس نہ تو لکڑی ہے نہ ہی کیل ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی دھات اور نہ ہی کچھ اور۔۔ اور چونکہ یہ نا ممکن ہے چنانچہ ہم اسے بھی خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔

چوتھا نظریہ: یہی وہ واحد نظریہ ہے جو معقول نظر آتا ہے اور دیگر تمام نظریات کے مقابلے میں زیادہ قابلِ یقین ہے، اتنی بڑی اور عظیم الشان کائنات کو چلانے اور جانداروں کو پیدا کرنے اور انھیں انجام تک پہنچانے کے لیے کوئی تو ضرور ہونا چاہیے اور یہ “کوئی” مذاہب کے مطابق خدا ہی ہے یا دوسرے لفظوں میں “عاقل مسبب”۔