تبادلۂ خیال:اسمائے نبی محمد

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ترتیب چیک کر لی جائے تو اچھا ہے،مختلف جگہوں پر ناموں میں فرق ہے۔--امین اکبر (تبادلۂ خیال) 17:28, 19 ستمبر 2013 (م ع و)

​سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک[ترمیم]

Baitul Kutub (تبادلۂ خیالشراکتیں) 21:41، 23 جولائی 2019ء (م ع و)​​از:مفتی صہیب احمد قاسمی‏، استاذ فقہ جامعہ حسینیہ، جونپور (یوپی


اشیاء الرسول اور ان کے اسماء: رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی کہ آپ اپنی چیزوں کا نام رکھ دیا کرتے تھے زاد المعاد میں علامہ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے ان میں سے بہت سی چیزوں کے نام شمار کرائے ہیں امام اہلِ سنت حضرت مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی رحمة اللہ علیہ نے بھی ”سیرة نبویہ“ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اشیاء مبارکہ کے اسماء بیان کیے ہیں، نیز دوسرے سیرت نگار علماء نے بھی اس ضمن میں کام کیا ہے، انھیں کتب سیرت ومضامین سیرت سے مندرجہ ذیل اشیاء کے اسماء کا ذکر پیش کیا جارہا ہے۔

(۱) عمامہ شریف کا نام سحاب تھا۔

(۲) دوپیالے لکڑی اور پتھر کے تھے ایک کا نام ریان اور دوسرے کا نام مضیّب تھا۔

(۳) آبخورہ تھا جس کا نام صادِر تھا۔

(۴) خیمہ تھا جس کا نام رِکی تھا۔

(۵) آئینہ تھا جس کا نام مُدِلہ تھا۔

(۶) قینچی تھی جس کا نام جامع تھا۔

(۷) جوتی مبارکہ تھی جس کا نام ممشوق تھا۔

(۸) ایک زمانہ میں آپ کے پاس دس گھوڑے تھے ”سکب“ نامی گھوڑے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ اُحد میں سوار تھے ایک گھوڑے کا نام لزاز تھا، جس کو شاہ اسکندریہ مقوقش نے ہدیةً بھیجا تھا، باقی گھوڑوں کے نام یہ ہیں: ظرب، ورد، ضریس، ملاوح، سبحہ، بجر۔

(۹) تین خچر تھے ایک کا نام دُلدل تھا حبشہ کے بادشاہ نے بھیجا تھا آپ نبوت کے بعد اسی پر پہلے پہل سوار ہوئے آپ کے بعد حضرت علی اور حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما اس پر سوار ہوتے تھے ان کے بعد محمد بن حنفیہ کے پاس رہا، دوسرے خچر کا نام فِضّہ تھا جس کو صدیقِ اکبر نے ہدیہ کیا تھا۔ تیسرے کا نام اِیلیہ تھا شاہِ ایلہ نے ہدیہ بھیجا تھا۔

(۱۰) ایک گدھا تھا جس کا نام یعفور تھا۔

(۱۱) سواری کی دو اونٹنیاں تھیں ایک کا نام قصواء اور دوسری کا نام عضباء تھا، ہجرت کے وقت آپ قصواء پر سوا رتھے اورحجة الوداع کا خطبہ بھی اسی پر سوار ہوکے دیا تھا۔

(۱۲) دوبکریاں خاص دودھ کے لیے تھیں ایک کا نام غوثہ اور دوسری کا نام یمن تھا۔

(۱۳) ایک سفید رنگ کا مرغ بھی تھا جس کا نام ”منقول“ تھا۔

(۱۴) کل نو تلواریں تھیں۔ ذوالفقار نام کی تلوار غزوہٴ بدر کے مال غنیمت میں ملی تھی باقی تلواروں کے نام یہ تھے: قلعی، تبار، قسف، مجذم، رسوب، عضب، قضیب۔

(۱۵) چار نیزے تھے ایک کا نام ان میں سے ”شوے“ تھا اور بیضاء نام کا ایک بڑا حربہ تھا (جو نیزے سے چھوٹا ہوتاہے)۔

(۱۶) عرجون نام کی خمدار لاٹھی تھی، چار کمانیں تھیں ایک کا نام ”کتوم“ تھا۔

(۱۷) ترکش کا نام ”کافور“ اور ڈھال کا نام ”زلوق“ تھا۔

(۱۸) ایک خود تھا اس کا نام ”ذوالسبوع“ تھا۔

               آنحضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی ان اشیاء مبارکہ کے اسماء سے معلوم ہوا کہ چیزوں کا نام رکھنا سنت ہے۔ یوں تو متمول افراد شوق سے اپنے کتوں کے نام رکھتے ہیں اور یہ سنت کی پیروی میں نہیں بلکہ یورپ کی تقلید میں، ورنہ دوسری اشیاء کے نام بھی رکھتے بعض گھروں میں بکرا وغیرہ پالنے کا شوق ہوتا ہے اور ان کے نام بھی رکھ دئیے جاتے ہیں عموماً یہ بھی اتباع سنت کے بجائے شوقیہ ہوتے ہیں۔
               آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور ان کے نام: آنحضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف زمانوں میں کل ملاکر ستائیس غلام تھے آپ نے ان سب کو آزاد کردیا تھا بلکہ غلاموں کی آزادی کی تحریک بھی آپ کے مشنِ نبوت کا ایک حصہ تھی آخری وقت میں جب کہ مرض الوفات میں تھے غشی طاری ہوجاتی تھی جب افاقہ ہوتا تو زبانِ مبارک پر صرف دو جملہ ہوتا تھا ”الصلاة الصلاة، العبید العبید“۔
               آپ کے غلاموں کے نام یہ تھے۔ زید بن حارثہ ان کو آپ نے اپنا منھ بولا بیٹا بنالیا تھا اور زید بن محمد کہلاتے تھے پھر جب متبنّیٰ سے متعلق آیت نازل ہوئی، تو اپنے والد حارثہ کی طرف منسوب ہونے لگے۔
               اسامہ بن زید، ثوبان، ابوکبشہ، انیسہ، شقران، رباح، یسار، ابورافع، ابومویہہ، فضالہ، رافع، مدعم، کرکرہ، زید جدہلال، عبید، طہمان، نابورقطبی، واقد، ہشام، ابوضمیر، ابوعسیب، ابوعبید، سقیہ، ابوہند، الحبشہ، ابوامامہ (رضی اللہ عنہم)
               باندیاں: باندیوں کی تعداد دس تھی ان سب کو بھی آپ نے آزاد فرمادیا تھا ان کے نام درج ذیل ہیں:
               سلمہ، ام رافع، رضویٰ، اُسیمہ، ام ضمیر، ماریہ، سیرین، ام ایمن میمونہ، خضرہ، خویلہ رضی اللہ عنہن۔ سیرین کو آپ نے حضرت حسان بن ثابت کو تحفہ میں دے دیا تھا (یا کسی اور صحابی کو عطا فرمادیا تھا)۔
               خدام النبی صلی اللہ علیہ وسلم: یوں تو فداکارانِ رسول میں سے ہر پروانہ شمع رسالت پر قربان ہونے کو ہردم تیار رہتا تھا اورکسی بھی ادنیٰ سی خدمت کی سعادت ملنے کو دنیا ومافیہا سے بڑی نعمت سمجھتا تھا، لیکن آپ دوسروں سے کام لینا پسند نہیں فرماتے تھے آپ کے اخلاق حسنہ میں سے تھا کہ اپنا کام خود کرتے تھے پھر بھی آپ کے ذاتی اور گھریلوں کاموں کو انجام دینے کے لیے کچھ خاص خدام تھے جن کی تعداد گیارہ تھی جن کے اسماء حسب ذیل ہیں:
               حضرت انس بن مالک (دس برس تک خادم خاص تھے) ہند بنت حارثہ، اسماء بنت حارثہ، ربیعہ بن کعب، عبداللہ بن مسعود، عقبہ بن عامر، بلال بن رباح، سعد، ذومخمر (شاہ حبشہ کے بھتیجے) بکسر بن شداخ، ابوذر غفاری رضی اللہ عنہم۔
               شاہانِ ممالک کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفراء: آنحضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب وعجم کے شاہانِ ممالک اور سربراہان حکومت کے پیس دعوتی خطوط بھیجے تھے ان کو ایمان و توحید اختیار کرکے فلاح یاب ہونے کی دعوت دی تھی جن حضرات صحابہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ سفیرِ رسول مقبول  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے شہرت پائیں ان کے نام یہ ہیں:
               (۱)          عمروبن امیہ کو شاہ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا۔
               (۲)         دحیہ کلبی کو قیصر روم ہرقل کے پاس بھیجا۔
               (۳)         عبداللہ بن حذافہ کو کسرائے فارس کے پاس بھیجا
               (۴)         حاطب بن ابوبلتعہ کو شاہ اسکندریہ مقوقس کے پاس بھیجا
               (۵)         عمرو بن العاص کو شاہ عمان کے پاس بھیجا
               (۶)          سلیط بن عمر کو یمامہ کے رئیس ہودہ بن علی کے پاس بھیجا​​
               (۷)         شجاع بن وہب کو شاہ بلقا کے پاس بھیجا
               (۸)         مہاجربن امیہ کو حارث حمیری شاہِ حمیر کے پاس بھیجا
               (۹)          علاء بن حضرمی کو شاہ بحرین منذر بن ساوی کے پاس بھیجا
               (۱۰)        ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو اہل ایمن کی طرف اپنا نمائندہ بناکر روانہ فرمایا۔