جان کاشمیری
گوجرانوالہ کے نامور شاعر
اصل نام محمد نصیر بٹ ولدیت عبد الخالق بٹ (قلمی نام جان کاشمیری تاریخ ولادت 3 جون 1953
شعری مجموعے
[ترمیم]- اعراف(1987ء)
- تیس غزلیں(1995ء)
- پروائی (1992ء)
- برجستگی (1990ء)
- جنت میں خود کشی
- ڈوبتے ہاتھ کی فریاد
- دوزخ میں آب کوثر
- چاند رات والی بات
- خلوت کے بعد
- ژرف نگاہی
- زمانے کی چھوڑو، زمانہ کدھر ہے
- حیرت سے آگے
- ذرا سی بات[1]
منفرد اعزاز
[ترمیم]محترم جان کا شمیری اردو ادب کے واحد شاعر ہیں، جنھوں نے اپنی زبان (اردو)کے حروفِ تہجی کے اعتبار سے اپنی تصانیف مرتب کیں۔یہ بات قطعی طور پر نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔یہ بذات خود ایک بہت منفرد اور قابل ستائش عمل ہے۔اردو حروفِ تہجی کے اعتبار سے اب تک ان کی سولہ کتب منصۂ شہود پر آچکی ہیں اور خاص و عام کی علمی و ادبی تشنگی بجھانے کا سبب ٹھہری ہیں۔ان سولہ کتب میں اعراف ، برجستگی ، پروائی، تدوین، ٹیس ، ث ثمر، جنت میں خود کشی، چاند رات والی بات،حیرت سے آگے ، خلوت کے بعد، دوزخ میں آبِ کوثر ، ڈوبتے ہاتھ کی فریاد، ذرا سی بات، روئے غزل ، زمانے کی چھوڑو زمانہ کدھر ہے،ژرف نگاہی شامل ہیں۔میرے علم کے مطابق مزید دس کتب تخلیقی عمل سے گذر چکی ہیں اور اشاعت کے مراحل سے گذر رہی ہیں۔ ان دس مزید کتب کے منظر پر آنے کے بعد محترم جان کاشمیری کی حروفِ تہجی کے لحاظ سے شائع شدہ کتب کی تعداد چھبیس ہو جائے گی۔ حروف تہجی کے لحاظ سے تکمیلِ کتب میں بالشت بھرکا فاصلہ ہی رہ جائے گا۔ ان پر ایم فل کی سطح کے تین مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ سب سے معروف کام سکالر احمد عباس طور کا ہے جنھوں نے یونی ورسٹی آف لاہور سے " جان کاشمیری بطور غزل گو شاعر" کے عنوان سے ایم فل کا مقالہ لکھا۔