"فریاد آزر" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
م Dr. Fariyad Azer بجانب ڈاکٹر فریاد آزر منتقل: اردو
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 11:25، 21 مارچ 2011ء

ڈاکٹر فریاد آزر : تخلیق کیVirgin Territory کی سیاحت ، عصر حاضر کے بہت ہی کم فنکاروںکا مقدر بنی ہے، غیر ممسوس منطقے کی سیر کے لئے جس آشفتگی ،دیوانگی ،جرأت ، بے خطری اور عصری آگہی کی ضرورت پڑتی ہے ، اس سے بہت سے تخلیق کار محروم ہیں۔فریاد آزر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تخلیق کو نیا سیاق وسباق، نیا مفہوم اور نیا تناظرعطا کرنے کی جدو جہد میںاس فکری اور اظہاری منطقہ تک رسائی میںکامیاب ہوئے ہیںجو بہت حد تک کنوارا اورقدرے غیرمستعمل ہے۔ ان کی تخلیق میںوہ مرکزی نقطہ اور محوری نکتہ بھی موجود ہے جو عصر ِحا ضر کی بیشتر تخلیق سے غائب ہوگیاہے۔

آزر کا تعلق تخلیق کے اس تلازماتی نظام اور تناظر سے ہے جس سے تخلیق میںتازگی ، تحیر اور تابندگی آتی ہے ۔ انہوںنے’ تخلیقی اجتہاد‘سے کام لیا ہے اور تقلیدِ جامد سے گریز کیا ہے اور ایک نئی تخلیقی سمت کی تلاش نے ان کی شاعری کو اس بھیڑسے بھی بچالیا ہے جس میںاکثر فن پارے اپنے نام و پتہ کی تلاش میںمدتوںبھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ ولی دکنی نے بہت پہلے کہا تھا ‘‘ تاقیا مت کھلا ہے باب سخن..........فریاد آزر کی شاعری میں باب ِسخن کے نئے نئے در کھلے جا تے ہیںاور ہمیں تحیرات سے ہم کنار کرتے ہیں ۔ خوشی ہوتی ہے کہ صنعتی ومشینی عہد میںآزر کے اندر کا احساس اور اضطراب زندہ ہے اور اس کی لہریںان کی شاعری میںبھی نظر آتی ہیں۔فریاد آزر کی شاعری میںجو احساس و اظہار ہے، وہ ’آج‘ سے عبارت ہے جس میں‘گذشتہ‘مکمل طور پر نہ شریک ہے اور نہ ہی مکمل طور پر متروک کہ ان کا حال ماضی سے مستعار نہیںمگر مستنیر ضرور ہے ۔ آزر کا تخلیقی احساس منفرد اور مختلف ہے ۔ زندگی کے تعلق سے ان کا Dynamic Approachہے ۔آج کی زندگی کی صورت حال اور انسانی متعلقات کے حوالے سے ان کا زاویہ نظر جداگانہ ہے ۔ ان کے یہاںاس انسان کی جستجو ملتی ہے جو ‘گلوبل گاؤں‘ میں اپنی شناخت کھو چکاہے اور بے چہرگی جس کی پہچان ہے۔بنیادی انسانی اقدار سے منحرف اور ٹکڑوں میںبٹے ہوئے انسانی وجود کے ذہنی و فکری بحران اور انتشار و اختلال کو انہوںنے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ ان کی شاعری کے ذریعہ انسان کی دا خلی ‘ خارجی صورتحال سے آگہی ہوتی ہے۔ Globalised Society اور ملٹی کلچر ایج میں سماجی، سیاسی اقدار میں تبدیلیاں آئی ہیں اور انسانوںکے ذہنی زاویے بھی بدلے ہیں۔ ایسی بدلتی ہوئی صورتحال میںان کی تخلیق نہ صرف آج کے مسائل پر نگاہ ڈالتی ہے بلکہ آج کے معاشی‘ اقتصادی‘ سماجی‘تہذیبی نظام سے بھی بے خوف مکالمہ کرتی ہے۔

جدید غزل کے منظر نامے پر فریاد آزر کا نام اس اعتبار سے بھی اہمیت کاحامل ہے کہ روایتی حصار سے باہر نکل کر عصری حالات‘ تغیرات اور تموجات کو اپنی شاعری میںجگہ دی ہے ۔اور آج کے عہد کی تفہیم بالکل نئے زاویے سے کی ہے اور اس انسانی ضمیر اور روح کی بازیافت بھی کی ہے جو تینوں زمانوںپر محیط ہے۔

فریاد آزر کی تخلیقی اڑان کے زاویے الگ ہیںانہوںنے احساس و اظہاار کے جو صنم کدے تعمیر کئے ہیں‘ اس میںان کے خونِ جگر کی نمود ہے۔ وہ اپنی ذات میںگم نہیں ہیں بلکہ گردو پیش پہ ان کی گہری نظر ہے:

فضائے آتش ِگجرات سے جوبچ نکلے پرندے پھرنہ گئے لوٹ کر جہنم میں ٭ اچھا ہو ا کہ لوگ بیاں سے مکر گئے بھن جاتے ورنہ وہ بھی کسی ’بیکری‘کے ساتھ ٭ خون مشرق کے بہاتے ہی رہیںگے ناحق اور کرسکتے ہیںکیامغربی آقاؤںکے لوگ ٭ ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیںگے سطحِ’ اوزون‘ کو فضلات سے آزادی دے ٭ ﴿۲﴾ دفن کردیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم رحم ہی میںماردیتا ہے اسے دورِ جدید ٭ رواج گاؤںمیںپردے کا اس قدر نہ تھا مگر مزاج میں بے پردگی بہت کم تھی ٭ یہ اور بات کہ سب جنگلوںمیںرہتے تھے مگر فضاؤں میں آلودگی بہت کم تھی ٭ یہ ان کے تخلیقی ذہن کی ارتعاشی لہریں ہیں۔ سیاست ‘سماج اور دیگر مختلف سطحوں پر ان کے ذہنی تحرک کے ثبوت کے لئے یہ اشعار کافی ہیں۔ ان کی نگاہ کسی خاص نقطہ پر محدود نہیںہے بلکہ ان کی شاعری ایک طرح سے ’جام ِجہاںنما‘ ہے جس میںپوری انسانی کائنات کا عکس نظر آتا ہے ۔ وہ اکثر شعروں میںحیرتوں کی نئی قندیل جلاتے ہیں‘ ان کی شاعری کی مجموعی قرأت سے پتہ چلتا ہے ان کے یہاں تخلیق کی علمی ‘عرفانی ‘وجدانی سطح بہت بلند ہے اور سماجی ‘ سیاسی‘سائنسی شعور بالیدہ ۔ فکریات کی سطح ُپر جہاںانہوںنے بہت سے نئے تجربے کئے ہیںیا پرانے تجربوںکی ’تقلیب ‘کی ہے ‘وہیں لفظیات کی سطح پر بھی وہ ایک نئے آب و رنگ میںنظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں لسانی جبر کا وجود نہیںہے ۔ ہر وہ لفظ جو ان کے احساس کی ترسیل کردے خواہ اس کا تعلق کسی زبان ‘ مذہب‘ملک سے ہو اس کا استعمال سے حذر نہیںکرتے‘ یہی لسانی اور فکری جمہوریت فریاد آزر کا فکری شناس نامہ ہے ۔ ان کی شاعری میںوہ جمہوری آوازیں ہیںجو جلجا میش‘ سقراط‘ سرمد‘ اور منصور کے’ حلق بریدہ‘ سے بلند ہوتی رہی ہیں۔ انہوںنے سیاسی ‘سماجی ‘سفاکیت‘آمریت‘ مطلق العنانیت کے خلاف اپنی شاعری کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے اور عالمی استعماری نظام کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے ۔ فرقہ واریت‘فسطائیت کے خلاف بھی انہوںنے اپنی تخلیقی توانائی کا استعمال کیا ہے:

بھر رہا تھا زہر وہ معصوم ذہنوںمیںمگر ہم پہ نفرت گھولنے کا جرم عائد ہوگیا ٭ ہندو کوئی تو کوئی مسلمان بن گیا انسانیت بھی مذہبی خانہ میںبٹ گئی ٭ بچوںپہ ایسا جادو چلا ہے نصاب کا اکبر کا نام لینے لگے غزنوی کے ساتھ ٭ کہیںبھی قتل ہو کیسی عجیب سازش ہے لہو میں ڈوبی ہوئی مری آستین لگے

ان کی تخلیق کا توانائی نظام انتہائی متحرک اور فعال ہے۔ ان کے یہاںبصیرت اور آگہی کی وہ بلند سطح ہے جو ماضی اور مستقبل پر نگاہ رکھتی ہے۔ ان کا آئینہ ادراک روشن ہے جس میںوہ ماضی کے کے ساتھ مستقبل کی آہٹوں کو بھی محسوس کرتے ہیں۔

فریاد آزر کی شاعری میںعصر حاضر کے مسائل کا اظہار ادراک ہے اور یہی عصری حسیت اور آگہی ان کی شاعری کو نقطہ انفراد یت عطا کرتی ہے۔ اس میں ایک آفاقی شعوربھی ہے‘ ژرف نگاہی اور باطنی روشنی(Inner Light)بھی جو آج کی تخلیق میںکم نظر آتی ہے ۔ معاشرہ کی تمام متضاد اور متخالف لہروںکو انہوںنے اپنی شاعری میںسمولیا ﴿۳﴾

ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انہوںنے اپنی شاعری میںایسے نقوش مرتسم کردئے ہیں جو سماج اورسیاست کی راہوںمیںبھٹکنے والوں کو بھی صحیح سمت کا اشارہ دیںگے اور انہیں منزل مراد تک پہنچادیںگے۔ 

فریاد آزر کا تہذیبی ‘سماجی ‘ سیاسی‘شعور پختہ ہے اور شعور کی مختلف سطحیں ان کے تخلیقی نظام سے مربوط ارو منسلک ہیں۔ اسکا ئی اسکر یپر کلچر کے اس عہد میںچھوٹی چھوٹی زمینی حقیقتوں اور ارضی صداقتوںکو فنکارانہ انداز میںپیش کرنا اور قاری کے احساس و ضمیر کو مرتعش کرنا بہت بڑی بات ہے: ٭ دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید ٭ مجھے اب اور سیاروں پہ لے چل میںگلو بل گانوںسے اکتا گیاہوں ٭ ہاتھ ملتی رہ گئیںسب خوب سیرت لڑکیاں خوبصورت لڑکیوںکے ہاتھ پیلے ہوگئے ٭ اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا ٭ اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے ٭ سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ مری ایجاد ہے ٭

تخلیق کی سطح پر ایقاظ اور بیداری کا جو فریضہ فریاد آزر نے انجام دے رہے ہیں، آج کی بے حسی کے دور میں بہت سے فنکار اپنی ذ مہ داری کے احساس تک سے محروم ہیں۔ انہیں’احساس ِزیاں‘ ہی نہیں تو پھر معاشرتی ‘ سماجی‘ اقدار کے تحفظ کا خیال کہاںسے آئے گا۔ فریاد آزر تخلیق کے منصب سے باخبر ہیں اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ ۔ اس لئے وہ اپنی تخلیق کے ذریعہ ہر سطح پر ابنِ آدم کو کائنات کے مسائل اور اس کی پیچید گیوںسے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کی پوری شاعری مقصدیت سے معمور ہے وہ گل و بلبل کی داستاں‘یا فسانہئ شب ہائے دراز‘پر یقین نہیںرکھتے بلکہ آج کی سفاک جاںگسل حقیقتوں کو اپنی شاعری کا موضوع اور تخلیق کا مرکزی نقطہ قرار دیتے ہیں اور اسی محور پر ان کی شاعری حیات و کائنات کے مختلف مسائل اور موضوعات کا طواف کرتی رہتی ہے’ ۔طوافِ کوچہئ جاناں‘کے بجائے’ غم دوراں‘ سے ہی آج کی شاعری معتبر اور منفرد قرار پاتی ہے۔ س فریاد آزر کی شاعری میںیہی ’’ غم دوراں‘ عذاب جاں‘ آشوب عصر اپنی تمام تر تخلیقی منطق‘معروضیت اور فنی ‘فکری ہنر مندی کے ساتھ موجود ہے ۔